بلوچستان دادا سے پوتے تک 1
بلوچستان آج سے نہیں روز اول سے ستم سہہ رہا ہے۔
کراچی کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں نگراں وفاقی وزیر اطلاعات عارف نظامی نے اخبارات کے مدیروں، سینئر صحافیوں، کالم نگاروں، ٹیلی وژن چینلوں سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ایک ظہرانے کا اہتمام کیا تھا۔ طاہر نجمی، محمود شام، قاضی اسد عابد، ڈاکٹر جبار خٹک، اطہر وقار عظیم، مختار عاقل، عامر محمود اور دوسرے کئی اہم نام وہاں موجود تھے۔ ''ہم'' ٹیلی وژن کی سلطانہ صدیقی، بلوچستان سے شائع ہونے والے روزنامہ ''انتخاب'' کی نرگس بلوچ، نصرت مرزا، شمیم اختر اور کئی دوسرے ان کی سن رہے تھے اور اپنی کہہ رہے تھے۔
وہ ہمیں یقین دلا رہے تھے کہ حکومت اور الیکشن کمیشن کے مشترکہ تعاون سے سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ تقریر اور سوال جواب کا سلسلہ ختم اور لذتِ کام و دہن کا سلسلہ شروع ہوا تو نرگس بلوچ اور میں بلوچستان کی صورت حال پر کڑھتے رہے۔ اس وقت ہمیں نہیں معلوم تھا کہ اب سے دو ڈھائی گھنٹے بعد زمین ہلکی سی جھرجھری لے گی، ہمارے قدموں کے نیچے فرش لمحے بھر کے لیے لہرائے گا، سارا شہر سراسیمہ ہو کر سڑکوں پر ہو گا اور بلوچستان میں ماشکیل، مغربی اور مشرقی جاوگ اور گشت کِلی کے علاوہ چاغی میں سیکڑوں مکان زمین بوس ہو جائیں گے، درجنوں ابدی نیند سو جائیں گے، سیکڑوں زخمی ہوں گے، متعدد لاشیں اور زخمی ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہوں گے اور وسیع پیمانے پر فوری امدادی کارروائیاں شروع نہ ہونے کا عذر یہ پیش کیا جائے گا کہ ان علاقوں میں سڑکیں موجود نہیں ہیں۔
اسی چاغی کے باشندوں کے متعدد مصائب کی قیمت پر ہم خود کو ساتویں ایٹمی طاقت کہتے اور اس پر اتراتے ہیں۔ جہاں کے لوگ بنیادی سہولتوں سے محروم ہوں اور زلزلے کا ایک جھٹکا انھیں بے گھر، بے در کر دیتا ہو اور کچھ تو زندگی سے بھی محروم ہو جاتے ہوں تو انھیں شکوے کیوں نہ ہوں ۔
ہم ابھی اس آفتِ ارضی و سماوی پر غمزدہ ہو رہے تھے کہ غلام احمد بلور کے جلسے پر خودکش حملے کی خبر آ گئی جس میں بلور صاحب زخمی ہوئے تھے اور فوری اطلاع کے مطابق 15 لوگ جان سے گزر گئے تھے ۔ اس سے کہیں اہم خبر بلوچستان کے شہر خضدار کی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر اور نواب آف جھالاوان سردار ثناء اﷲ زہری کے انتخابی جلوس کو نشانہ بنایا گیا۔ نتیجے کے طور پر ثناء اﷲ زہری زخمی ہوئے، ان کے جواں سال بیٹے، بھائی اور بھتیجے سمیت کئی لوگ جان سے گئے اور متعدد زخمی ہو گئے۔
بلوچستان آج سے نہیں روز اول سے ستم سہہ رہا ہے۔ دوسرے اہم خاندانوں کی طرح زہری قبیلے کے نوجوانوں اور بوڑھوں کو سفاکی سے موت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شاید کم لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ ثناء اﷲ زہری اس دادا کے پوتے ہیں جس کا شمار 50 کی دہائی میں بلوچستان کے اہم ترین سرداروں میں ہوتا تھا۔ سلیگ ہیرسین، احمد یار بلوچ، احمد سلیم اور عقیل عباس جعفری نے جستہ جستہ اس قبیلے کی داستان رقم کی ہے۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ قلات کے سردار رسول بخش زرک زئی جب انتقال کر گئے تو ان کا بیٹا دودا خان نو عمر تھا۔
ریجنٹ کے طور پر سردار نوروز خان زرک زئی نے اقتدار سنبھالا۔ اس کے بعد کی کہانی مختلف وقائع نویسوں کے مطابق کچھ یوں ہے کہ قیام پاکستان کے وقت وہ قلات اسٹیٹ اسمبلی کے دارالامراء کے رکن تھے اور انھوں نے پاکستان میں قلات کی شمولیت یا الحاق کی مخالفت میں تقریر بھی کی تھی، کچھ عرصہ بعد دودا خان زرکزئی بالغ ہو گئے اور انھوں نے قبیلے کی سرداری سنبھال لی۔
سردار نوروز خان زرک زئی نے اس وقت بہت شہرت پائی جب 1958ء میں مارشل لا نافذ ہوا اور فوجی حکومت نے جھالاوان پر باقاعدہ چڑھائی کر دی جس کے بعد خان آف قلات بغاوت کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ خان آف قلات نے اپنی سوانح ''مختصر تاریخ قوم بلوچ و خوانین بلوچ'' میں اس واقعے کے بارے میں لکھا ہے کہ ''نواب نوروز خان مرحوم نے اپنے جنگجو قبائل کے ساتھ زہری کے مشہور تاریخی مقام پر گھاٹ کو اپنا مستقر بنا لیا۔ نواب نوروز خان میں بلا کی خود اعتمادی اور استقلال تھا۔
ان کی عمر اگرچہ نوے سال سے زیادہ تھی مگر عزم و ہمت میں وہ چٹان کی طرح مضبوط و مستحکم تھے۔ زہری چھوڑنے سے پیشتر انھوں نے فوجی حکام کو ایک یادداشت ارسال کی کہ جب تک خان اعظم کو باعزت واپس قلات نہیں لایا جاتا اس وقت تک میں اور میرے قبائل ہر قسم کی جانی اور مالی قربانی دیتے رہیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ نواب کے مکان کو توپوں سے اڑا دیا گیا اور اس کا سامان اور تمام اثاثہ برباد کر دیا گیا۔ نواب نوروز خان ، ایوبی آمریت کے خلاف بلوچ مجاہدین کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں کو غاروں میں پوشیدہ رکھ کر دشمن کا انتظار کرنے یا قوم پرست بلوچوں میں گھل مل جانے کے لیے بھیجتے رہے تا کہ موقع ملتے ہی وہ گوریلا قسم کی کارروائیاں کر سکیں۔
ایک اندازے کے مطابق پہلے پہل ان کے ساتھ صرف چھ سو افراد تھے۔ مارشل لاء حکام کے لیے بلوچوں کی یہ مسلح کارروائیاں سخت تشویش کا باعث بن رہی تھیں۔ اس لیے انھوں نے قرآن حکیم کا واسطہ دے کر چند قبائلی سرداروں کو نواب موصوف کے پاس مع قرآن عظیم الشان بھیجا کہ آپ کے تمام مطالبات پورے کیے جائیں گے، آپ اس وقت ہمارے پاس بحیثیت ایک مہمان کے آ جائیں۔ چنانچہ قرآن حکیم کا یہ شیدائی مسلمان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ فوجی افسروں سے ملنے چلا آیا۔ ان فوجیوں نے نواب نوروز خان اور اس کے رفقا کو دھوکے سے راتوں رات فوجی پہرہ میں کوئٹہ کے رسوائے زمانہ قلی کیمپ میں دھکیل دیا۔''
خان آف قلات نے آگے چل کر قلی کیمپ کے اذیت کدے کا احوال یوں لکھا ہے کہ ''نازی کیمپوں (کانسنٹریشن کیمپس) کی طرز پر کوئٹہ چھائونی میں رسوائے روزگار قلی کیمپ قائم کیا گیا، اس میں قیدیوں کو رات دن بیدار رکھتے، رات بھر لٹکائے رکھتے۔ بال اکھیڑنے، برف پر لٹانے، بجلی کے شاک دینے، چارپائی کے نیچے ہاتھ داب کر اذیت دینے، زدو کوب کر کے بے ہوش کرنے، اکڑوں کرنے، داڑھی نوچنے، آنکھوں میں مرچیں چھڑکنے، پانی کے نلکے منہ میں ٹھونس کر تیز پانی چھوڑنے اور غلاظت منہ میں ڈالنے ایسی لرزہ خیز انسانیت سوز اذیتیں دی جاتی رہیں اور انھیں مجبور کیا جاتا رہا کہ وہ بیان دیں کہ ''خان پاکستان کے خلاف بغاوت کی تیاری کر رہا تھا۔ خان پاکستان کا غدار ہے اسے فلاں ملک سے امداد مل رہی تھی، فلاں فلاں اس کے ساتھی تھے وغیرہ وغیرہ۔''
غیور اور باہمت بلوچوں نے اذیتیں سہیں، موت کے منہ میں جاتے رہے، شرم ناک سزائیں جھیلتے رہے مگر ظالموں کے کہنے پر وہ جھوٹے افسانے نہ تراش سکے۔ اس کیمپ کی اذیتوں کی تاب نہ لا کر میرے کئی بھائی اﷲ کو پیارے ہو گئے۔ پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت کے الزام میں نواب نوروز خان زرک زئی کے بیٹے اور چھ دیگر افراد کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا اور یہ تمام کے تمام بلوچستان زندہ باد کا نعرہ بلند کرتے ہوئے پھانسی پر جھول گئے۔ احمد یار بلوچ کہتے ہیں کہ جب پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت کے الزام میں انھیں پھانسی دی جا رہی تھی تو ان میں سے ہر ایک نے اپنے گلے میں قرآن حمائل کر رکھا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں پھانسی دی جائے گی تو پھر قرآن ہمارے ساتھ ہو گا کیونکہ حکومت نے قرآن پر عہد کر کے اسے توڑا ہے۔ نوے سالہ نوروز خان کو عمر قید کی سزا ملی تاہم وہ اپنی سزا مکمل ہونے سے پہلے ہی قید خانے میں چل بسے۔ مبینہ طور پر ان پر تشدد کیا گیا تھا۔
مختلف حوالوں سے سامنے آنے والے اس خونیں پس منظر سے آگہی کے بعد بے اختیار یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ پاکستان بننے کے فوراً بعد سے غیور بلوچوں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک روا رکھا گیا، اس کا کبھی خاتمہ ہو گا بھی یا نہیں؟ بلوچ ایک خود دار قوم ہیں۔ مختلف ادوار میں ان کی عزت نفس کو کچلنے کے، انھیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کے جو طریقے اختیار کیے گئے۔ اس کے بعد یہ ان کی عنایت ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں۔
یہ ان کی سیر چشمی ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں تو ہمیں یہ یاد نہیں دلاتے کہ ان کے علاقے سے نکلنے والی گیس ہمارے چولہوں کو اور سردی میں ہمارے گھروں کو گرم رکھتی ہے۔ ان پر ایک بار نہیں کئی بار لشکر کشی کی گئی۔ وہ کام جو ہندوستان نے کشمیر میں نہیں کیا وہ حکومتوں نے بلوچوں کے ساتھ کیا۔ ان کے علاقوں پر گولہ باری کی گئی۔ میزائل مارے گئے، ان کے سربرآوردہ لوگوں کو دھوکے سے بلا کر گرفتار کیا گیا۔ پھانسیاں دی گئیں۔ ہماری حکومتوں نے سردار غوث بخش بزنجو ایسے صلح کل اور مدبر رہنما کی قدر نہیں کی۔
ہمارے حکمرانوں کو صرف وہ اچھے لگتے ہیں جو ان کی خوشامد کریں اور ان کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کہیں۔ انھیں سچ بولنے والے، اپنے جمہوری حقوق مانگنے والے اور مظلوم قومیتوں کے لیے آواز اٹھانے والے اچھے نہیں لگتے۔ باچا خان، جی ایم سید اور عطاء اﷲ مینگل ''غدار'' ہیں لیکن پاکستان کو دولخت کرنے والے قومی پرچم میں لپیٹ کر اعزاز سے دفن کیے جاتے ہیں۔ وہ جن کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے، انھیں ہم ''فلک جاہ، عالم پناہ'' کا درجہ دیتے ہیں۔
(جاری ہے)
وہ ہمیں یقین دلا رہے تھے کہ حکومت اور الیکشن کمیشن کے مشترکہ تعاون سے سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ تقریر اور سوال جواب کا سلسلہ ختم اور لذتِ کام و دہن کا سلسلہ شروع ہوا تو نرگس بلوچ اور میں بلوچستان کی صورت حال پر کڑھتے رہے۔ اس وقت ہمیں نہیں معلوم تھا کہ اب سے دو ڈھائی گھنٹے بعد زمین ہلکی سی جھرجھری لے گی، ہمارے قدموں کے نیچے فرش لمحے بھر کے لیے لہرائے گا، سارا شہر سراسیمہ ہو کر سڑکوں پر ہو گا اور بلوچستان میں ماشکیل، مغربی اور مشرقی جاوگ اور گشت کِلی کے علاوہ چاغی میں سیکڑوں مکان زمین بوس ہو جائیں گے، درجنوں ابدی نیند سو جائیں گے، سیکڑوں زخمی ہوں گے، متعدد لاشیں اور زخمی ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہوں گے اور وسیع پیمانے پر فوری امدادی کارروائیاں شروع نہ ہونے کا عذر یہ پیش کیا جائے گا کہ ان علاقوں میں سڑکیں موجود نہیں ہیں۔
اسی چاغی کے باشندوں کے متعدد مصائب کی قیمت پر ہم خود کو ساتویں ایٹمی طاقت کہتے اور اس پر اتراتے ہیں۔ جہاں کے لوگ بنیادی سہولتوں سے محروم ہوں اور زلزلے کا ایک جھٹکا انھیں بے گھر، بے در کر دیتا ہو اور کچھ تو زندگی سے بھی محروم ہو جاتے ہوں تو انھیں شکوے کیوں نہ ہوں ۔
ہم ابھی اس آفتِ ارضی و سماوی پر غمزدہ ہو رہے تھے کہ غلام احمد بلور کے جلسے پر خودکش حملے کی خبر آ گئی جس میں بلور صاحب زخمی ہوئے تھے اور فوری اطلاع کے مطابق 15 لوگ جان سے گزر گئے تھے ۔ اس سے کہیں اہم خبر بلوچستان کے شہر خضدار کی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر اور نواب آف جھالاوان سردار ثناء اﷲ زہری کے انتخابی جلوس کو نشانہ بنایا گیا۔ نتیجے کے طور پر ثناء اﷲ زہری زخمی ہوئے، ان کے جواں سال بیٹے، بھائی اور بھتیجے سمیت کئی لوگ جان سے گئے اور متعدد زخمی ہو گئے۔
بلوچستان آج سے نہیں روز اول سے ستم سہہ رہا ہے۔ دوسرے اہم خاندانوں کی طرح زہری قبیلے کے نوجوانوں اور بوڑھوں کو سفاکی سے موت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شاید کم لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ ثناء اﷲ زہری اس دادا کے پوتے ہیں جس کا شمار 50 کی دہائی میں بلوچستان کے اہم ترین سرداروں میں ہوتا تھا۔ سلیگ ہیرسین، احمد یار بلوچ، احمد سلیم اور عقیل عباس جعفری نے جستہ جستہ اس قبیلے کی داستان رقم کی ہے۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ قلات کے سردار رسول بخش زرک زئی جب انتقال کر گئے تو ان کا بیٹا دودا خان نو عمر تھا۔
ریجنٹ کے طور پر سردار نوروز خان زرک زئی نے اقتدار سنبھالا۔ اس کے بعد کی کہانی مختلف وقائع نویسوں کے مطابق کچھ یوں ہے کہ قیام پاکستان کے وقت وہ قلات اسٹیٹ اسمبلی کے دارالامراء کے رکن تھے اور انھوں نے پاکستان میں قلات کی شمولیت یا الحاق کی مخالفت میں تقریر بھی کی تھی، کچھ عرصہ بعد دودا خان زرکزئی بالغ ہو گئے اور انھوں نے قبیلے کی سرداری سنبھال لی۔
سردار نوروز خان زرک زئی نے اس وقت بہت شہرت پائی جب 1958ء میں مارشل لا نافذ ہوا اور فوجی حکومت نے جھالاوان پر باقاعدہ چڑھائی کر دی جس کے بعد خان آف قلات بغاوت کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ خان آف قلات نے اپنی سوانح ''مختصر تاریخ قوم بلوچ و خوانین بلوچ'' میں اس واقعے کے بارے میں لکھا ہے کہ ''نواب نوروز خان مرحوم نے اپنے جنگجو قبائل کے ساتھ زہری کے مشہور تاریخی مقام پر گھاٹ کو اپنا مستقر بنا لیا۔ نواب نوروز خان میں بلا کی خود اعتمادی اور استقلال تھا۔
ان کی عمر اگرچہ نوے سال سے زیادہ تھی مگر عزم و ہمت میں وہ چٹان کی طرح مضبوط و مستحکم تھے۔ زہری چھوڑنے سے پیشتر انھوں نے فوجی حکام کو ایک یادداشت ارسال کی کہ جب تک خان اعظم کو باعزت واپس قلات نہیں لایا جاتا اس وقت تک میں اور میرے قبائل ہر قسم کی جانی اور مالی قربانی دیتے رہیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ نواب کے مکان کو توپوں سے اڑا دیا گیا اور اس کا سامان اور تمام اثاثہ برباد کر دیا گیا۔ نواب نوروز خان ، ایوبی آمریت کے خلاف بلوچ مجاہدین کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں کو غاروں میں پوشیدہ رکھ کر دشمن کا انتظار کرنے یا قوم پرست بلوچوں میں گھل مل جانے کے لیے بھیجتے رہے تا کہ موقع ملتے ہی وہ گوریلا قسم کی کارروائیاں کر سکیں۔
ایک اندازے کے مطابق پہلے پہل ان کے ساتھ صرف چھ سو افراد تھے۔ مارشل لاء حکام کے لیے بلوچوں کی یہ مسلح کارروائیاں سخت تشویش کا باعث بن رہی تھیں۔ اس لیے انھوں نے قرآن حکیم کا واسطہ دے کر چند قبائلی سرداروں کو نواب موصوف کے پاس مع قرآن عظیم الشان بھیجا کہ آپ کے تمام مطالبات پورے کیے جائیں گے، آپ اس وقت ہمارے پاس بحیثیت ایک مہمان کے آ جائیں۔ چنانچہ قرآن حکیم کا یہ شیدائی مسلمان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ فوجی افسروں سے ملنے چلا آیا۔ ان فوجیوں نے نواب نوروز خان اور اس کے رفقا کو دھوکے سے راتوں رات فوجی پہرہ میں کوئٹہ کے رسوائے زمانہ قلی کیمپ میں دھکیل دیا۔''
خان آف قلات نے آگے چل کر قلی کیمپ کے اذیت کدے کا احوال یوں لکھا ہے کہ ''نازی کیمپوں (کانسنٹریشن کیمپس) کی طرز پر کوئٹہ چھائونی میں رسوائے روزگار قلی کیمپ قائم کیا گیا، اس میں قیدیوں کو رات دن بیدار رکھتے، رات بھر لٹکائے رکھتے۔ بال اکھیڑنے، برف پر لٹانے، بجلی کے شاک دینے، چارپائی کے نیچے ہاتھ داب کر اذیت دینے، زدو کوب کر کے بے ہوش کرنے، اکڑوں کرنے، داڑھی نوچنے، آنکھوں میں مرچیں چھڑکنے، پانی کے نلکے منہ میں ٹھونس کر تیز پانی چھوڑنے اور غلاظت منہ میں ڈالنے ایسی لرزہ خیز انسانیت سوز اذیتیں دی جاتی رہیں اور انھیں مجبور کیا جاتا رہا کہ وہ بیان دیں کہ ''خان پاکستان کے خلاف بغاوت کی تیاری کر رہا تھا۔ خان پاکستان کا غدار ہے اسے فلاں ملک سے امداد مل رہی تھی، فلاں فلاں اس کے ساتھی تھے وغیرہ وغیرہ۔''
غیور اور باہمت بلوچوں نے اذیتیں سہیں، موت کے منہ میں جاتے رہے، شرم ناک سزائیں جھیلتے رہے مگر ظالموں کے کہنے پر وہ جھوٹے افسانے نہ تراش سکے۔ اس کیمپ کی اذیتوں کی تاب نہ لا کر میرے کئی بھائی اﷲ کو پیارے ہو گئے۔ پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت کے الزام میں نواب نوروز خان زرک زئی کے بیٹے اور چھ دیگر افراد کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا اور یہ تمام کے تمام بلوچستان زندہ باد کا نعرہ بلند کرتے ہوئے پھانسی پر جھول گئے۔ احمد یار بلوچ کہتے ہیں کہ جب پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت کے الزام میں انھیں پھانسی دی جا رہی تھی تو ان میں سے ہر ایک نے اپنے گلے میں قرآن حمائل کر رکھا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں پھانسی دی جائے گی تو پھر قرآن ہمارے ساتھ ہو گا کیونکہ حکومت نے قرآن پر عہد کر کے اسے توڑا ہے۔ نوے سالہ نوروز خان کو عمر قید کی سزا ملی تاہم وہ اپنی سزا مکمل ہونے سے پہلے ہی قید خانے میں چل بسے۔ مبینہ طور پر ان پر تشدد کیا گیا تھا۔
مختلف حوالوں سے سامنے آنے والے اس خونیں پس منظر سے آگہی کے بعد بے اختیار یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ پاکستان بننے کے فوراً بعد سے غیور بلوچوں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک روا رکھا گیا، اس کا کبھی خاتمہ ہو گا بھی یا نہیں؟ بلوچ ایک خود دار قوم ہیں۔ مختلف ادوار میں ان کی عزت نفس کو کچلنے کے، انھیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کے جو طریقے اختیار کیے گئے۔ اس کے بعد یہ ان کی عنایت ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں۔
یہ ان کی سیر چشمی ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں تو ہمیں یہ یاد نہیں دلاتے کہ ان کے علاقے سے نکلنے والی گیس ہمارے چولہوں کو اور سردی میں ہمارے گھروں کو گرم رکھتی ہے۔ ان پر ایک بار نہیں کئی بار لشکر کشی کی گئی۔ وہ کام جو ہندوستان نے کشمیر میں نہیں کیا وہ حکومتوں نے بلوچوں کے ساتھ کیا۔ ان کے علاقوں پر گولہ باری کی گئی۔ میزائل مارے گئے، ان کے سربرآوردہ لوگوں کو دھوکے سے بلا کر گرفتار کیا گیا۔ پھانسیاں دی گئیں۔ ہماری حکومتوں نے سردار غوث بخش بزنجو ایسے صلح کل اور مدبر رہنما کی قدر نہیں کی۔
ہمارے حکمرانوں کو صرف وہ اچھے لگتے ہیں جو ان کی خوشامد کریں اور ان کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کہیں۔ انھیں سچ بولنے والے، اپنے جمہوری حقوق مانگنے والے اور مظلوم قومیتوں کے لیے آواز اٹھانے والے اچھے نہیں لگتے۔ باچا خان، جی ایم سید اور عطاء اﷲ مینگل ''غدار'' ہیں لیکن پاکستان کو دولخت کرنے والے قومی پرچم میں لپیٹ کر اعزاز سے دفن کیے جاتے ہیں۔ وہ جن کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے، انھیں ہم ''فلک جاہ، عالم پناہ'' کا درجہ دیتے ہیں۔
(جاری ہے)