براؤن بابو

درمیانے درجے اور کسی حد تک نچلے درجے کے افسران میں یہ صورتِ حال اور بھی خطرناک تھی کہ ان میں سے۔۔۔

Amjadislam@gmail.com

یہ ترکیب کب اور کیسے وضع ہوئی اس کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ جب وطن عزیز کو انگریز کی غلامی سے آزادی نصیب ہوئی تو یہ طبقہ نہ صرف وجود میں آ چکا تھا بلکہ عوام اور سرکار کے باہمی میل جول کے معاملات میں ایک بنیادی حیثیت بھی حاصل کر چکا تھا کہ انگریز نے اپنی حکومتی مشینری کو وفادار اور رواں دواں رکھنے کے لیے اعلیٰ سرکاری ملازمتوں پر مقابلے کے امتحانات کے ذریعے ایسے (تعلیمی حوالے سے) لائق اور ذہین لوگوں کو جمع کر لیا تھا ۔

جو اُن کے مفادات کی نگرانی اور احکامات کی تعمیل میں کسی حد تک بھی جا سکتے تھے ان لوگوں کو عرفِ عام میں بابو لوگ یا براؤن بابو کہا جاتا تھا اس میں شک نہیں کہ اعلیٰ ترین ملازمتوں یعنی انڈین سول سروس کے (I.C.S) افسران کو بہترین تربیت دی جاتی تھی لیکن اس عمل میں لاشعوری یا غیر شعوری انداز میں یہ لوگ اپنے معاشرے اور اس کے افراد کو بھی انگریز یعنی حاکم کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہو جاتے تھے یہ لوگ عام طور پر اپنے آپ کو انگریز کا نائب سمجھتے ہوئے خود کو اپنے ہم وطنوں سے دُور رکھتے تھے ا ن کی گردنوں میں اقتدار اور حکومت کا سرِیا ایک ایسی اَکٹر پیدا کر دیتا تھا کہ انھیں اپنے ہم وطن کیڑے مکوڑوں کی طرح نظر آنے لگتے تھے اور وہ تاج برطانیہ کے خود ساختہ محافظ بن کر انھیں اس نظر سے دیکھنے کے عادی ہو جاتے تھے۔ جیسے کوئی دھن وان کسی سائل کو دیکھتا ہے۔

درمیانے درجے اور کسی حد تک نچلے درجے کے افسران میں یہ صورتِ حال اور بھی خطرناک تھی کہ ان میں سے بیشتر عہدے کے اعتبار سے تو براؤن بابو بن جاتے تھے لیکن ظرف، تعلیم اور تربیت کی کمی کی وجہ سے ان میں وہ سلیقہ اور تہذیب اور بھی کم تھی جس سے ان کے افسران اپنی خرابیوں کے باوجود بہرہ ور تھے پاکستان بننے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ لوگ اب تاجِ برطانیہ کے بجائے اپنے نئے اور نو آذاد ملک کی خدمت کرتے مگر ہوا اس کے برعکس اور یوں یہ بابو لوگ پبلک سرونٹ کے بجائے اپنے اپنے مفادات کے اَسیر ہو کر رہ گئے اور اسی عمومی لوٹ مار میں حاکم طبقوں کے شریک اور معاون بن گئے جو آذادی کے فوراً بعد ہی شروع ہو گئی اور اب گزشتہ 65 برس میں ایک سرطان کی طرح معاشرے کے پورے وجود پر قابض ہو چکی ہے۔

حسین احمد شیرازی کی کتاب ''بابونگر'' اسی صورتِ حال کا ایک منظر نامہ ہے جسے انھوں نے طنز و مزاح کا نام دیا ہے لیکن اگر اسے غور سے دیکھا اور پڑھا جائے تو آپ کو ہر مسکراہٹ اور قہقہے کے پیچھے آنسوؤں کا ایک سمندر اور افسوس کا ایک جہان کروٹیں لیتا نظر آئے گا۔

حسین احمد شیرازی سے میرا تعارف کم و بیش تیس برس پر محیط ہے لیکن میں انھیں ایک ایسے خوش مزاج، ذہین اور برجستہ گو انسان کے طور پر جانتا تھا جن سے گاہے بگاہے کسی نہ کسی حوالے سے ملاقات رہتی تھی لیکن ان کی ذات کے بارے میں میری معلومات کا یہ عالم تھا کہ کئی برس تک مجھے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ کسٹم کے محکمے میں کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ جہاں تک اُن کی تحریروں کا تعلق ہے تو یہ اُردو پنچ اور کچھ اور ادبی رسالوں میں نظر سے تو یقینا گزریں مگر رواروی میں پڑھنے کے باعث ان کا کوئی واضح تصور یا تاثر میرے ذہن پر قائم نہ ہو سکا لیکن اب جو اِن کی متفرق تحریریں ''بابو نگر'' نامی اس ضخیم کتاب کی صورت میں سامنے آئی ہیں تو مجھے اس بات پر افسوس ہو رہا ہے کہ میں ان تحریروں کے حسن، معنویت اسلوب اور مسکراہٹوں میں گھری ہوئی درد مندی سے اب تک کیوں محروم رہا۔

اس کتاب میں کل ملا کر 12 مضامین شامل کیے گئے ہیں لیکن اس کا بنیادی مضمون اس کا آخری یعنی بارہواں مضمون ہی ہے جس کے نام پر اس کتاب کا نام رکھا گیا ہے یعنی بابو نگر، یہ 44 حصوں پر مشتمل ایک طویل منظر نامہ نما مضمون ہے جو تقریباََ تین سو صفحات پر پھیلا ہوا ہے جس میں حسین احمد شیرازی نے بڑے دلچسپ انداز میں سرکاری دفاتر، ملازمت کے مختلف مراحل، واقعات اور ان کرداروں سے ہماری ملاقات کر وائی ہے جن سے عمومی طور پر تو کم و بیش ہر پڑھا لکھا شخص (اور بعض صورتوں میں اَن پڑھ بھی) واقف ہے مگر بہت کم کو اس کی اُن تفصیلات سے آگاہی حاصل ہے جن کا احوال اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے اس کتاب کو پڑھتے وقت ایک خوشگوار حیرت بھی میرے ساتھ ساتھ چلتی رہی کہ شیرازی صاحب کا اسلوب، اشعار کا بر محل استعمال، ذو معنی جملے اور مزاحیہ تبصرے کچھ اس بے ساختگی سے اس میں در آئے ہیں کہ کتاب ہاتھ سے رکھنے کو جی نہیں چاہتا۔

میری ذاتی رائے میں اُن کے اندر ایک ڈرامہ نگار بھی کہیں چھپا بیٹھا ہے سو اگر وہ اس میدان میں بھی سنجیدگی سے قدم رکھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی اُن کو یعنی اُن کے قدموں کو نہ چُومے۔ اُن کے بیشتر جملے بیک وقت حقیقت ِ حال، طنز اور اصلاح کو ساتھ لے کر چلتے ہیں اور یوں وہ چند جملوں میں بڑے بڑے موضوعات بہت خوش اسلوبی سے سمیٹتے چلے جاتے ہیں۔ مشتے از خروارے کے طور پر چند نمونے دیکھیئے۔


''ایک شخص نے کسی محکمے میں ملازمت کی درخواست دی پھر اُس نے سفارش کر وائی تو نئی درخواست اُسی وقت لکھوا کر اُس پر تعیناتی کے احکامات جاری ہو گئے۔ پرانی درخواست پر کار وائی جاری رہی اور کچھ مدت کے بعد اسے ایک خط ملا کہ آپ کی درخواست پر غور و خوض کے بعد آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ اس ملازمت کے لیے مطلوبہ اہمیت کے حامل نہیں ہیں اور خط کے آخر میں اُس شخص کے اپنے دستخط تھے۔ انھی حالات میں بغیر پڑھے فائل نمٹانے کی عادی ایک خاتون نے اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ چلانے کے احکامات پر دستخط کر دیئے تھے''۔

''بیوروکریسی انگریز نے اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے بنائی تھی جب انگریز چلے گئے تو انگریزوں کی منفعت کی جگہ پاکستانی بہبود کو لے لینی چاہیے تھی لیکن قائد اعظم کی وفات، قیادت کے فقدان اور مسندِ اقتدار کے نئے قابضین کی نا تجربہ کاری، ذاتی لالچ اور نا اہلی کے باعث یہ خلا مختلف گروہوں کی مافیاؤں نے پُر کر دیا ہے''

''اس طرح کے ایک نائب تحصیل دار ڈپٹی کمشنر بن گئے۔ کسی نے اُن کی اس شاندار ترقی پر اُنہیں مبارک دی تو جواب ملا کہ سائیں ہم اُوپر نہیں گئے یہ عہدہ ہی آہستہ آہستہ گرتے گرتے ہم تک آ گیا ہے''

''ریٹائرمنٹ ایک نئی دنیا کے سفر کی تیاری کا دوسرا نام ہے اور یہ فلسفہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ عالمی سچائی کا حامل ہے۔ امریکی صدر کیلون کولج اپنی صدارت کے اختتام پر ''پلے ماؤتھ'' منتقل ہو گئے جہاں وہ اکثر اپنے گھر کی بالکونی میں بیٹھتے تھے ایک اخباری نمائندہ اُن سے ملنے آیا تو اس نے تعریف کرتے ہوئے کہا ''جناب عوام کو اب بھی آپ سے بڑی عقیدت سے کتنے لوگ آپ کی صرف ایک جھلک دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ دیکھیئے تو سہی اس وقت گھر کے سامنے کتنی کاریں کھڑی ہیں۔ صدر کولج نے جواب دیا اتنی نہیں جتنی کل تھیں۔ گزشتہ روز اس وقت ایک سو تر یسٹھ تھیں۔

کہاں گئے مرِی مصروف ساعتوں کے رفیق
پکارتی ہیں انھیں اب فراغتیں میری

''بہت سے لوگ کارل مارکس سے متفق ہیں کہ انسانی رشتے ضرورتوں، احتیاجوں اور مفادات سے ہی وابستہ ہیں اور سب سے اچھا تعلق وہ ہے جو باہمی مفاد پر استوار ہو چنانچہ جیسے ہی کوئی انسان مکمل غیر مفید ہو جائے یعنی سانس لینا بند کر دے تو اسے مٹی میں دبا دیا جاتا ہے یا آگ میں جلا کر راکھ کر دیا جاتا ہے''۔

اس طرح کے روشن نثر پارے آپ کو اس کتاب میں جگہ جگہ نظر آئیں گے اور اس بابو نگر میں آپ اپنے پورے معاشرے کو کسی نہ کسی حوالے سے چہرہ کشا پائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ میں امید کرتا ہوں کہ حسین احمد شیرازی اپنی اس خداداد صلاحیت سے بھر پور کام لے کر اُس خاموشی کی تلافی کر سکیں گے۔ جس کی بنیادی وجہ بھی اُن کا بذاتِ خود ''بابو نگر'' کا حصہ ہونا تھا۔ وہ اچھا لکھ سکتے ہیں جس کا ثبوت یہ کتاب ہے سو اَب اُن پر لازم ہے کہ وہ اس عمل کو جاری رکھیں اور ایسی بہت سی مزید تحریریں لکھتے رہیں۔
Load Next Story