مشق تنفس نور

اگر زکام کی وجہ سے ناک بند ہو یا ناک میں کوئی دوسری تکلیف ہو تو مشق تنفس نور مجبوراً منہ کے ذریعے کی جاسکتی ہے

'لے سانس بھی آہستہ' میں رئیس امروہوی مرحوم رقم طراز ہیں۔ چاند سورج کی تسخیر مشکل سہی، مگر نفس کی تسخیر یعنی ذہنی عمل کو اپنے ارادے کے تحت لے آنا، اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ عام اندازہ یہ ہے کہ ساٹھ سیکنڈ میں واضح خیالات کی کم سے کم ایک سو بیس لہریں ذہن کی سطح سے گزرتی ہیں۔ ذہن کے تسخیر کے معنی یہ ہیں کہ ایک سو بیس یا ڈیڑھ سو خیالات کے انبار میں سے کسی ایک خیال (مثلاً روشنی کا تصور) کو چن کر ذہن کی تمام تر توجہ اس پر مرکوز کردینا، یہ کام بہت مشکل سہی لیکن ناممکن نہیں۔ ذہن کسی جسمانی عضو کو نہیں کہتے، ہمارے جسم میں ذہن نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ ذہن سوچنے کے مسلسل اور متواتر عمل کا نام ہے۔

یہ عمل دماغ میں برابر ظہور پذیر ہوتا رہتا ہے۔ سوچنے کے اس قدرتی عمل پر قابو پانا بظاہر انسان کی قدرت و طاقت سے باہر معلوم ہوتا ہے لیکن بہت سے انسانوں نے مشق و مزاولت اور توجہ و ریاضت کی بدولت ''تنظیم خیال'' اور ارتکاز توجہ (پوری توجہ کسی ایک نقطے یا نکتے کی طرف لگا دینا) میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ارادے کی قوت کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں سانس کی مشقیں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ تو آپ کو پہلے سے معلوم ہے مگر یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جونہی ذہن کو ارادے کے تحت لانے کی کوشش کی جاتی ہے، ذہن فوراً جوابی حملہ کر دیتا ہے اور مشق کے خلاف لاشعوری مزاحمت شروع ہوجاتی ہے۔ مثلاً تنفس نور کی مشق ہے، اس مشق میں سانس کھینچنے، سینے میں روکنے اور سانس کو ناک کے سوراخوں سے خارج کرنے کے دوران روشنی کے شعلے کا تصور کیا جاتا ہے۔ تنفس نور کی تکنیک یہ ہے کہ:

''موسم کے لحاظ سے ہوادار کمرے یا کھلی فضا میں شمال کی طرف رخ کرکے آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیے۔ کمر، گردن اور پشت و سر کو ایک سیدھ میں کرلیں۔ گردن میں اکڑاؤ اور سینے میں تناؤ نہ ہو، یعنی نہ گردن اکڑی ہوئی ہو نہ سینہ باہر کو نکلا ہوا ہو، اس عالم میں بیٹھے ہوئے آپ اپنے کو پرسکون محسوس کریں۔ آلتی پالتی مار کر بیٹھنے کا طریقہ سب کو معلوم ہے یعنی داہنی پنڈلی اور پاؤں کو بائیں ران کے نیچے رکھ لیں اور بائیں پنڈلی اور پاؤں کو داہنے طرف کی ران کے نیچے رکھ لیں، جیسے زمین یا فرش پر جم کر بیٹھا کرتے ہیں، قدرتی مضبوط نشست یہی ہے اور بہتر یہ ہے کہ تمام شعبوں میں اسی قدرتی مضبوط نشست کو اختیار کیا جائے۔

بعض حضرات عادت کی بنا پر دوزانو نشست (جس طرح نماز میں) کو ترجیح دیتے ہیں، یہ بھی ٹھیک ہے۔ قدرتی نشست میں پرسکون انداز سے بیٹھ کر آنکھیں بند کرلیں اور دونوں ہونٹ بند کرکے آہستہ آہستہ ناک کے سوراخوں سے سانس اندر کھینچنا شروع کردیں۔ سانس اندر کھینچتے ہوئے یہ تصور ہو کہ تیز روشنی کا نورانی شعلہ جگمگاتا، چمکتا، دمکتا، نور برساتا، رنگ بکھیرتا، ہوا کے ساتھ ناک کے راستے جسم کے اندر داخل ہو رہا ہے۔

سانس کو رفتہ رفتہ ناف سے سینے اور حلق تک بھر لیجیے، پھر سانس کو اندر یعنی سینے میں روک لیں۔ (آنکھیں بدستور بند ہوں تاکہ روشنی کا تصور صاف نگاہ باطن کے سامنے قائم رہے) سانس اندر روک کر یہ تصور کیجیے کہ سانس کے ساتھ جو روشنی جسم کے اندر کھینچی ہے، وہ سمٹ سمٹا کر بائیں طرف قلب (دل) کے اندر چمک رہی ہے۔ جب تک سانس کو روشنی کے اس تصور کے ساتھ سینے میں روک سکیں، روکے رہیں، جب دم گھٹنے لگے، جی گھبرانے لگے، سانس کا سینے میں روکنا بوجھ لگے تو جتنی نرمی، آہستگی اور نزاکت کے ساتھ سانس اندر کھینچا تھا، اتنی ہی ملائمت، آہستہ روی اور ٹھہراؤ کے ساتھ ناک کے نتھنوں سے رک رک کر سانس خارج کردیں۔ خارج کرتے ہوئے تصور یہ ہو کہ سانس کے ساتھ روشنی کا شعلہ باہر نکل رہا ہے۔'' یہ ہے تنفس نور کا ایک دور یا ایک چکر۔


ایک چکر کرنے کے بعد کسی قدر دم لے لیں تاکہ پھیپھڑے ذرا سکون پاجائیں، کچھ دیر بعد اسی قاعدے کے ساتھ دوسرا چکر کریں۔ پھر دم لے کر تیسرا چکر، وہی شعلہ نور کے تصور کے ساتھ۔ مشق تنفس نور کی ابتدا تین چار چکروں سے کرنی چاہیے، دو ہفتے بعد پانچ چکر، پھر کچھ دن بعد سات چکر، پھر نو پھر گیارہ چکر۔ لیکن سانس کے چکروں میں اضافہ اس شخص کی اجازت کے بغیر نہیں کرنا چاہیے جس کی نگرانی میں آپ نے مشق شروع کی ہے۔

سانس کے چکروں کی تعداد میں اضافہ کرنے سے بہتر یہ ہے کہ سانس کھینچنے، سینے میں روکنے اور خارج کرنے کی مدت میں رفتہ رفتہ اضافہ کیا جائے یعنی اگر آپ نے سانس کی مشق کی ابتدا پانچ سیکنڈ میں سانس کھینچنے، دس سیکنڈ تک سانس روکنے اور پانچ سیکنڈ میں سانس خارج کرنے کی مدت سے کی ہے تو چند ہفتے بعد سانس کھینچنے، سانس روکنے اور نکالنے کی مدت دس سیکنڈ، بیس سیکنڈ اور دس سیکنڈ کردیں۔ سیکنڈوں کا اندازہ دل میں گنتی گن کر لگایا جاسکتا ہے۔ بہرحال مشق سے آدمی رفتہ رفتہ سانس کی مدت پر قابو پاسکتا ہے، باکمال لوگ رفتہ رفتہ سانس کی مشق پر اتنا قابو پالیتے ہیں کہ ایک ایک گھنٹے تک سانس کو سینے میں روکنے، پندرہ منٹ سانس کو اندر کھینچنے اور تیس منٹ تک سانس کو آہستہ آہستہ خارج کرنے پر قادر ہوجاتے ہیں۔ حبس دم (سانس کو سینے میں قید کردینا) کا عمل تو ہفتوں تک جاری رہتا ہے، لیکن یہ کمال عمر بھر کی ریاضت کے بعد حاصل ہوسکتا ہے۔

سورج نکلنے سے پہلے یا بعد، نہار منہ تنفس نور کے تین، پانچ یا سات چکر کریں۔ نصاب تعمیر و تنظیم شخصیت میں صبح کی مشق تنفس کو ''صبوحی'' ختم ہوگئی اب آپ دن بھر کے لیے بے فکر و آزاد ہیں جب آپ سونے کے لیے تیار ہوجائیں۔ (رات کے کھانے کے تقریباً دو ڈھائی گھنٹے بعد) تو پھر صبح کی طرح شمال رویہ آلتی پالتی مار کر بیٹھتے ہوئے مشق تنفس نور کے پانچ یا سات (یا جتنے چکر آپ کے لیے تجویز کیے گئے ہیں) چکر مکمل کریں۔ یہ ہدایت پہلے ہی دی جاچکی ہے کہ ہر چکر کے بعد کس قدر دم لینا ضروری ہے۔ یہ بات ہمیشہ ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ سانس کھینچنے اور خارج کرنے کا عمل جتنی نرمی اور آہستگی کے ساتھ ہوگا۔ قوت ارادی اور خود اعتمادی میں اتنا ہی اضافہ ہوگا، نیز یہ بھی کہ آپ جتنی دیر تک سانس کو سینے میں روکیں گے (کوشش کیجیے کہ سانس روکنے کی مدت میں برابر اضافہ ہوتا رہے) تندرستی اور ذہنی صحت اتنی ہی ترقی کرے گی۔

اگر زکام کی وجہ سے ناک بند ہو یا ناک میں کوئی دوسری تکلیف ہو تو مشق تنفس نور مجبوراً منہ کے ذریعے کی جاسکتی ہے، اگر منہ یعنی ہونٹوں کے ذریعے سانس اندر کھینچنا ہو تو ہونٹوں کی وہ شکل بنائی جائے جو بوسہ لینے یا سیٹی بجاتے وقت خود بخود بن جاتی ہے، لیکن بہرحال حقیقت یہی ہے کہ سانس کی قدرتی گزرگاہ ناک ہے، منہ نہیں۔ مشق تنفس نور کا مکمل طریقہ کار یہاں دے دیا گیا ہے لیکن بسا اوقات مشق کرنے والوں کو نور کا تصور قائم کرنے میں مشکلات درپیش آتی ہیں، جگہ کے اختصار کی باعث مشق تنفس نور سے متعلق مزید ہدایات اگلے کالم میں پیش کریں گے۔

(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں

www.facebook.com/shayan.tamseel)
Load Next Story