نیا موڑ
پاکستان کی تاریخ کے سول و ملٹری تعلقات اب ایک نئے موڑ پر آرہے ہیں۔
ایک نیا موڑ ہے، اس موڑ پر آنا نا گزیر بھی تھا اور شاید ضروری بھی۔ بات یہ نہیں کہ غدارکون ہے اورکون نہیں! یہ مفروضے یہ تہمتیں آہستہ آہستہ اپنی معنی کھو رہی ہیں۔ اس سیاق وسباق میں جو دخل تھا وہ بڑھ رہا ہے۔
پاکستان کی تاریخ کے سول و ملٹری تعلقات اب ایک نئے موڑ پر آرہے ہیں۔ دو بار مسلسل جمہوریت اور تیسرا بیلٹ باکس دہلیز پر ہے۔ 1988-1999 تک 58(2)(b) جو کام کرتا تھا ، اب وہی کام پاکستان کے آئین کا کوئی اور آرٹیکل نبھا رہا ہے۔ جو کچھ بھی اب ہورہا ہے وہ سول و ملٹری تعلقات کے حوالے سے ہورہا ہے۔
آج جو بھی سول لیڈر ہیں، بھٹو سے لے کر میاں نواز شریف تک یا کوئی اور یہ سب ملٹری لیڈرشپ کی ہی پیداوار ہیں۔ اس ملک میں جب بھی ماورائے آئین کوئی کام سرانجام دیا گیا یا شب خون مارا گیا، پنجاب خاموش رہا۔ بہت سادہ سی حقیقت ہے اور لکھنے بھی دیجیے جس طرح اس کو مورخ اپنی تاریخ میں لکھے۔
ہوسکتا ہے کہ میری یہ بات مکمل سچ نہ ہو مگر سچ کا ایک زاویہ ضرور رکھتی ہے کہ اس دفعہ بلآخر میدان جنگ پنجاب ہی ہے۔ جیسا بھی ہے لیکن اب اونٹ اپنی ایک کروٹ ضرور بیٹھے گا۔ ایک نیا equibilirum بنے گا۔ یہ صرف ہماری جمہوریت میں نہیں کہ اسے پیچھے دھکیلا گیا ہے بلکہ برازیل سے لے کر ترکی تک، ہنگری ، پولینڈ اور ہندوستان سے امریکا تک جمہوریت کو پیچھے دھکیلا گیا ہے ۔
سوائے امریکا اور ہندوستان کے باقی جمہوریتوں کے آئین میں آمروں نے جاتے جاتے اپنی باقیات چھوڑ دیں ، بشمول ہمارے آئین ۔ ہم آئین کی باقیات سے مکمل آزادی نہیں پا سکتے تاوقت کہ دو تہائی اکثریت حاصل ہوجائے اور آئین میں آمروں کی ترامیم کو نکالا جاسکے۔ میاں صاحب کے پاس ایسا موقعہ آیا تھا بجائے ، موصوف ان ترامیم کو آئین سے نکالتے وہ خود امیر المومنین بننا چاہتے تھے ۔ پھر ایک اور موقعہ اٹھارویں ترمیم کے زمانے میں آیا۔
اس وقت موصوف ضیاء الحق کے ترجمان بن کر ان ترامیم کو نکالنے سے اجتناب کر بیٹھے اور پھر خود ہی ان ترامیم کا شکار ہوئے ۔ صحیح کہتے ہیں کہ '' مجھے کیوں نکالا '' یعنی مجھے کیوں اور باقی جائیں بھاڑ میں۔ ان کی غرض جمہوریت صرف ان ہی کے حوالے سے ہے ۔ آج کل وہ کیپٹن صفدر اور اچکزئی کے سنگم میں ہیں، یعنی دو سوچیں جو آپس میں ملنا نا گزیر ہیں ان کو ایک ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں اور یہ جادوگری صرف میاں نواز شریف ہی کرسکتے ہیں۔
میری مسلسل جدوجہد جمہوریت کے لیے نہ ہی میاں نواز شریف کی محتاج ہے اور نہ کسی اورکی ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس ملک کو اس دہانے تک پہچانے کے لیے ذمے دار جنرل ضیاء الحق ہیں ۔ ایک ایسا نظریہ جس کے پیروکارکوئی اور ہوں، مگر کیپٹن صفدر بھی ہیں ۔ اسامہ بن لادن کو اس بستی میں لانے والے بھی کوئی اور ہوں ، مگر ان کی ایک انگلی میاں نواز شریف نے بھی پکڑی تھی۔
اس ملک کو اس دہانے تک لانے میں ہمارا وہ کردار تھا جو ہم نے افغان جہاد میں ادا کیا تھا۔ ہم امریکا کے مفادات کے تحفظ میں حد سے گزر گئے اور بلاخر احسن اقبال نے اسپتال سے رخصت ہوتے ہی اپنی والدہ کی قبر پر حاضری دیکر یہ عہد دہرایا کے اب ملک کو امن کی شدید ضرورت ہے۔ مجھے سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کہہ رہے تھے۔ کیا وہ اپنی والدہ کے نظریے سے تجدید عہد کر رہے تھے یا انکار ؟
ابھی تک سب کچھ گڈ مڈ ہے۔ مجھے نہ نکالو تو سب ٹھیک ہے اور اگر مجھے نکالا تو میں بلیک میل کروں گا ۔ یہ سول و ملٹری تعلقات ہیں توازن لانے کی جدوجہد مگر یہ جمہوریت کے پاسدار نہیں ۔ جمہوریت تو جیسے یوں لگتا ہے کہ ایک دلدل میں دھنس رہی ہے ۔
میں نے ایک مرتبہ غلام مصطفی جتوئی صاحب کا انٹرویوکیا تھا ، وہ انٹرویو اب بھی ریکارڈ پر ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ جب نگران وزیراعظم تھے اور IJI کے اتحاد کی حیثیت میں الیکشن جیت کر آئے تھے تو تاثر یہ تھا کہ وہ وزیراعظم بنیں گے۔
انھوں نے کہا کہ وہ امریکن ایمبسی میں ایک عشائیے میں گئے تھے ، وہ عشائیہ ان کی آزادی کے دن کے حوالے سے تھا اور جب ڈنر ختم ہوا تو صحافیوں نے ایک حاضر جنرل سے یہ سوال کیا کہ اب کون بنے گا وزیراعظم ؟ اس حاضر جنرل نے جواب دیا کہ'' اس بار وزیراعظم پنجاب سے ہونا چاہیے'' جتوئی صاحب نے کہا کہ اس سوال کا میرے سامنے پوچھنا اور اس کا جواب میرے لیے اشارہ تھا کہ اس وقت فوجی قیادت کیا سوچ رہی تھی ۔
جتوئی صاحب نے اپنے لیے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا اور اس طرح نواز شریف وزیراعظم بنے ۔ اب خود یہ بات ثابت ہوگئی کہ IJI کو ISI کی قیادت نے جتوایا تھا اور جنرل اسلم بیگ نے ایک بینک کی مدد طلب کی تھی ۔ شاید اسٹیبلشمنٹ کو یہ سمجھ میں نہ آیا کہ ایک سندھی وزیر اعظم یا کوئی اور اتنا اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل نہیں کرسکتا، جتنا پنجاب کا وزیر اعظم ۔ دونوں کی بنیادیں ایک ہی سرزمین سے ہیں۔
میاں صاحب میری نظر میں جمہوریت کے رہبر نہیں ۔ نہ وہ کل تھے نہ آج نہ آیندہ ہوں گے ، میرے نزدیک وہ کھرب پتی ہیں اور جب پناما سے اس حد تک آگئے ہیں کہ وہ اپنے بقا کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔ چاہے اس ملک کو بھی نقصان پہنچے اس سے ان کو کوئی غرض نہیں ۔
اس میں بھی دو رائے نہیںکہ جنرل ضیاء الحق نے کسی اور حیثیت سے نہیں بلکہ بحیثیت فوج کے سربراہ اقتدار پر قبضہ کیا اور یہ پلان خود جنرل ضیاء الحق کا نہیں تھا بلکہ CIA کا تھا ۔ خود مشرف امریکی صدر بش کے زمانے میں دنیا کے حوالے سے، حکمت عملی کا ایک مہرہ تھے۔ یہ ہمارے ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ ہماری عسکری قیادت کا تعلق امریکا سے جی حضوری والا نہیں ۔ تو پھرکیا آج کل یہ کام میاں صاحب سر انجام دے رہے ہیں؟
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ملک میں جمہوری قوتیں بہت پیچھے کی طرف دھکیلی گئی ہیں اور اس میں خود جمہوری قوتوں کی ناقص کارکردگی کا کردار اہم ہے اور دوسری طرف عسکری قوتوں کا ملک کے اقتدار میں برابری کے پنجے مضبوط کرنے کی وہی پرانی روش ۔
اس پورے تناظر میں میاں صاحب کی لب کشائی بہت معمولی سا عمل ہے۔ وہ ایک زاویے سے ان کی جرأت توکہا جا سکتا ہے مگر دوسرا زاویہ یہ ہے کہ میں ہوں تو ٹھیک اور اگر نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
آیندہ کی نسلیں اب اور بیدار ہوں گی ۔ ان کو ان جمہوری قوتوں سے بھی آگے جانا ہے اور خود ایک مضبوط جمہوری قوت بننا ہے۔ یہ جمہوری قوت اب بھی ان کے پاس ہے جو اس وقت ان شرفاء کے ہاتھوں میں ہے جس نے اس ملک کو اس حد تک پہنچایا ۔
پاکستان کی تاریخ کے سول و ملٹری تعلقات اب ایک نئے موڑ پر آرہے ہیں۔ دو بار مسلسل جمہوریت اور تیسرا بیلٹ باکس دہلیز پر ہے۔ 1988-1999 تک 58(2)(b) جو کام کرتا تھا ، اب وہی کام پاکستان کے آئین کا کوئی اور آرٹیکل نبھا رہا ہے۔ جو کچھ بھی اب ہورہا ہے وہ سول و ملٹری تعلقات کے حوالے سے ہورہا ہے۔
آج جو بھی سول لیڈر ہیں، بھٹو سے لے کر میاں نواز شریف تک یا کوئی اور یہ سب ملٹری لیڈرشپ کی ہی پیداوار ہیں۔ اس ملک میں جب بھی ماورائے آئین کوئی کام سرانجام دیا گیا یا شب خون مارا گیا، پنجاب خاموش رہا۔ بہت سادہ سی حقیقت ہے اور لکھنے بھی دیجیے جس طرح اس کو مورخ اپنی تاریخ میں لکھے۔
ہوسکتا ہے کہ میری یہ بات مکمل سچ نہ ہو مگر سچ کا ایک زاویہ ضرور رکھتی ہے کہ اس دفعہ بلآخر میدان جنگ پنجاب ہی ہے۔ جیسا بھی ہے لیکن اب اونٹ اپنی ایک کروٹ ضرور بیٹھے گا۔ ایک نیا equibilirum بنے گا۔ یہ صرف ہماری جمہوریت میں نہیں کہ اسے پیچھے دھکیلا گیا ہے بلکہ برازیل سے لے کر ترکی تک، ہنگری ، پولینڈ اور ہندوستان سے امریکا تک جمہوریت کو پیچھے دھکیلا گیا ہے ۔
سوائے امریکا اور ہندوستان کے باقی جمہوریتوں کے آئین میں آمروں نے جاتے جاتے اپنی باقیات چھوڑ دیں ، بشمول ہمارے آئین ۔ ہم آئین کی باقیات سے مکمل آزادی نہیں پا سکتے تاوقت کہ دو تہائی اکثریت حاصل ہوجائے اور آئین میں آمروں کی ترامیم کو نکالا جاسکے۔ میاں صاحب کے پاس ایسا موقعہ آیا تھا بجائے ، موصوف ان ترامیم کو آئین سے نکالتے وہ خود امیر المومنین بننا چاہتے تھے ۔ پھر ایک اور موقعہ اٹھارویں ترمیم کے زمانے میں آیا۔
اس وقت موصوف ضیاء الحق کے ترجمان بن کر ان ترامیم کو نکالنے سے اجتناب کر بیٹھے اور پھر خود ہی ان ترامیم کا شکار ہوئے ۔ صحیح کہتے ہیں کہ '' مجھے کیوں نکالا '' یعنی مجھے کیوں اور باقی جائیں بھاڑ میں۔ ان کی غرض جمہوریت صرف ان ہی کے حوالے سے ہے ۔ آج کل وہ کیپٹن صفدر اور اچکزئی کے سنگم میں ہیں، یعنی دو سوچیں جو آپس میں ملنا نا گزیر ہیں ان کو ایک ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں اور یہ جادوگری صرف میاں نواز شریف ہی کرسکتے ہیں۔
میری مسلسل جدوجہد جمہوریت کے لیے نہ ہی میاں نواز شریف کی محتاج ہے اور نہ کسی اورکی ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس ملک کو اس دہانے تک پہچانے کے لیے ذمے دار جنرل ضیاء الحق ہیں ۔ ایک ایسا نظریہ جس کے پیروکارکوئی اور ہوں، مگر کیپٹن صفدر بھی ہیں ۔ اسامہ بن لادن کو اس بستی میں لانے والے بھی کوئی اور ہوں ، مگر ان کی ایک انگلی میاں نواز شریف نے بھی پکڑی تھی۔
اس ملک کو اس دہانے تک لانے میں ہمارا وہ کردار تھا جو ہم نے افغان جہاد میں ادا کیا تھا۔ ہم امریکا کے مفادات کے تحفظ میں حد سے گزر گئے اور بلاخر احسن اقبال نے اسپتال سے رخصت ہوتے ہی اپنی والدہ کی قبر پر حاضری دیکر یہ عہد دہرایا کے اب ملک کو امن کی شدید ضرورت ہے۔ مجھے سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کہہ رہے تھے۔ کیا وہ اپنی والدہ کے نظریے سے تجدید عہد کر رہے تھے یا انکار ؟
ابھی تک سب کچھ گڈ مڈ ہے۔ مجھے نہ نکالو تو سب ٹھیک ہے اور اگر مجھے نکالا تو میں بلیک میل کروں گا ۔ یہ سول و ملٹری تعلقات ہیں توازن لانے کی جدوجہد مگر یہ جمہوریت کے پاسدار نہیں ۔ جمہوریت تو جیسے یوں لگتا ہے کہ ایک دلدل میں دھنس رہی ہے ۔
میں نے ایک مرتبہ غلام مصطفی جتوئی صاحب کا انٹرویوکیا تھا ، وہ انٹرویو اب بھی ریکارڈ پر ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ جب نگران وزیراعظم تھے اور IJI کے اتحاد کی حیثیت میں الیکشن جیت کر آئے تھے تو تاثر یہ تھا کہ وہ وزیراعظم بنیں گے۔
انھوں نے کہا کہ وہ امریکن ایمبسی میں ایک عشائیے میں گئے تھے ، وہ عشائیہ ان کی آزادی کے دن کے حوالے سے تھا اور جب ڈنر ختم ہوا تو صحافیوں نے ایک حاضر جنرل سے یہ سوال کیا کہ اب کون بنے گا وزیراعظم ؟ اس حاضر جنرل نے جواب دیا کہ'' اس بار وزیراعظم پنجاب سے ہونا چاہیے'' جتوئی صاحب نے کہا کہ اس سوال کا میرے سامنے پوچھنا اور اس کا جواب میرے لیے اشارہ تھا کہ اس وقت فوجی قیادت کیا سوچ رہی تھی ۔
جتوئی صاحب نے اپنے لیے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا اور اس طرح نواز شریف وزیراعظم بنے ۔ اب خود یہ بات ثابت ہوگئی کہ IJI کو ISI کی قیادت نے جتوایا تھا اور جنرل اسلم بیگ نے ایک بینک کی مدد طلب کی تھی ۔ شاید اسٹیبلشمنٹ کو یہ سمجھ میں نہ آیا کہ ایک سندھی وزیر اعظم یا کوئی اور اتنا اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل نہیں کرسکتا، جتنا پنجاب کا وزیر اعظم ۔ دونوں کی بنیادیں ایک ہی سرزمین سے ہیں۔
میاں صاحب میری نظر میں جمہوریت کے رہبر نہیں ۔ نہ وہ کل تھے نہ آج نہ آیندہ ہوں گے ، میرے نزدیک وہ کھرب پتی ہیں اور جب پناما سے اس حد تک آگئے ہیں کہ وہ اپنے بقا کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔ چاہے اس ملک کو بھی نقصان پہنچے اس سے ان کو کوئی غرض نہیں ۔
اس میں بھی دو رائے نہیںکہ جنرل ضیاء الحق نے کسی اور حیثیت سے نہیں بلکہ بحیثیت فوج کے سربراہ اقتدار پر قبضہ کیا اور یہ پلان خود جنرل ضیاء الحق کا نہیں تھا بلکہ CIA کا تھا ۔ خود مشرف امریکی صدر بش کے زمانے میں دنیا کے حوالے سے، حکمت عملی کا ایک مہرہ تھے۔ یہ ہمارے ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ ہماری عسکری قیادت کا تعلق امریکا سے جی حضوری والا نہیں ۔ تو پھرکیا آج کل یہ کام میاں صاحب سر انجام دے رہے ہیں؟
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ملک میں جمہوری قوتیں بہت پیچھے کی طرف دھکیلی گئی ہیں اور اس میں خود جمہوری قوتوں کی ناقص کارکردگی کا کردار اہم ہے اور دوسری طرف عسکری قوتوں کا ملک کے اقتدار میں برابری کے پنجے مضبوط کرنے کی وہی پرانی روش ۔
اس پورے تناظر میں میاں صاحب کی لب کشائی بہت معمولی سا عمل ہے۔ وہ ایک زاویے سے ان کی جرأت توکہا جا سکتا ہے مگر دوسرا زاویہ یہ ہے کہ میں ہوں تو ٹھیک اور اگر نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
آیندہ کی نسلیں اب اور بیدار ہوں گی ۔ ان کو ان جمہوری قوتوں سے بھی آگے جانا ہے اور خود ایک مضبوط جمہوری قوت بننا ہے۔ یہ جمہوری قوت اب بھی ان کے پاس ہے جو اس وقت ان شرفاء کے ہاتھوں میں ہے جس نے اس ملک کو اس حد تک پہنچایا ۔