جگ والا میلہ یارو
یہ سیدھے سادے اور درویش قسم کے انسان تھے ان کا کام بہت تھا مگر ان کا نام بہت کم لوگوں کو معلوم تھا۔
1948-49ء کا زمانہ تھا اردو فلم ''میلہ'' اور پنجابی فلم ''لچھی'' آگے پیچھے ریلیز ہوئی تھیں، دونوں فلموں میں دنیا کی بے ثباتی کے موضوع پر ایک ایک گیت جو بڑا سحر انگیز تھا اور دل پر اثر کرتا تھا اور وہ دونوں ہی زبانوں کے گیت گلوکار محمد رفیع نے گائے تھے فلم ''میلہ'' کے گیت کے بول تھے۔
یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے
نوشاد کی موسیقی میں یہ گیت شکیل بدایونی کا لکھا ہوا تھا اور فلم ''لچھی'' کے گیت کا مکھڑا تھا۔
جگ والا میلہ یارو
تھوڑی دیر دا
اور اس گیت کے شاعر تھے ناظم پانی پتی۔ آج میرے کالم کی شخصیت یہی وہ شاعر ہیں جنھوں نے لاہور اور بمبئی کے فلم انڈسٹری میں اپنے لازوال گیتوں سے اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تھا۔ ان کے لکھے ہوئے گیتوں کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی مگر یہ سیدھے سادے اور درویش قسم کے انسان تھے ان کا کام بہت تھا مگر ان کا نام بہت کم لوگوں کو معلوم تھا۔ جب میں لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوا تو ناظم پانی پتی بہت ضعیف تھے اور فلمی دنیا سے بالکل کنارہ کش ہوچکے تھے۔
اس سے پہلے کہ میں ان کی فلمی زندگی اور ان کے خوبصورت گیتوں کی طرف آؤں پہلے ان کی شخصیت اور ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں روشنی ڈالوں گا۔ ناظم پانی پتی کے والد کا نام عبدالکریم خان تھا اور وہ لودھی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو پانی پت میں پیدا ہوئے، وہیں تعلیم حاصل کی اور پھر ملازمت کی غرض سے پنجاب آگئے اور وہاں محکمہ تعلیم میں ملازمت حاصل ہوگئی۔ ان کے دو بیٹے تھے بڑے بیٹھے کا نام ولی خان تھا اور چھوٹے بیٹے کا نام اسمٰعیل خان رکھا گیا۔ عبدالکریم خان فارسی کے ساتھ اردو شعر و ادب سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔
اسمٰعیل خان کی پیدائش لاہور میں ہوئی جب اس نے شعور حاصل کیا تو شعر و ادب سے شغف ہوگیا ابتدا میں بڑے بھائی ولی خان بھی شاعری کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ کی طرف متوجہ ہوئے ولی خان لاہور سے بمبئی چلے گئے اور اسمٰعیل خان نے جب شاعری کا آغاز کیا تو اپنا شاعرانہ نام ناظم پانی پتی رکھ لیا اور پھر اسی نام سے اپنی شاعری کا آغاز کیا اور شروع شروع لاہور میں گرامو فون کمپنی کے لیے گیت، غزلیں اور نعتیں لکھیں پھر 1940ء میں یہ لاہور کے مشہور فلمساز ادارے پنچولی فلم پروڈکشن سے وابستہ ہوگئے۔ اس دوران انھوں نے فلم زمیندار، منگتی، شیریں فرہاد، یملا جٹ، خزانچی اور فلم داسی کے لیے گیت لکھے۔ فلم داسی کے لیے ان کا لکھا ہوا گیت جس کے بول تھے:
''میری آرزو دیکھ کیا چاہتا ہوں'' بڑا مقبول ہوا تھا جس کے موسیقار رشید عطرے تھے اور داسی لاہور میں بنائی گئی رشید عطرے کی بھی پہلی فلم تھی۔ ناظم پانی پتی کے بڑے بھائی ولی صاحب کے نام سے بمبئی میں مشہور ہدایت کار بن چکے تھے اور وہاں ان کا ایک منفرد مقام تھا کئی مشہور فلموں کے مصنف شاعر اور ہدایت کار بھی تھے اور پھر بمبئی کی ایک نامور اداکارہ ممتاز شانتی سے انھوں نے شادی کرلی تھی۔ ناظم پانی پتی بھی 1945ء میں بمبئی چلے گئے اور پھر ''لچھی'' کے لیے لکھے گئے ایک گیت سے بمبئی فلم انڈسٹری میں ان کی دھوم مچی گئی تھی۔
یہ بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔ جن دنوں فلمساز ستیش بھاکری ایک پنجابی فلم ''لچھی'' بنا رہے تھے فلم کے موسیقار ہنس راج بہل تھے۔ ان دنوں ان کا بڑا نام تھا۔ فلم کے گیت پریم مون لکھ رہے تھے۔ کچھ دنوں کے لیے وہ راج بہل بمبئی سے اپنے کسی کام کی غرض سے کسی اور شہر چلے گئے تھے۔ لچھی کے فلمساز سے ناظم پانی پتی کی ملاقات ہوئی انھیں فلمساز نے ایک گیت کی سچویشن بتائی ناظم پانی پتی نے انھیں ایک گیت لکھ کر دیا فلمساز نے وہ گیت موسیقار ہنس راج بہل کے اسسٹنٹ سردول کوترا سنگھ کو دیا اس نے اس کی موسیقی ترتیب دی اور جب فلمساز کو وہ دھن سنائی تو فلمساز کو بڑی پسند آئی پھر اسے فوری طور پر محمد رفیع کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ پھر وہی گیت لازوال گیت بن گیا تھا۔ جس کے بول تھے:
جگ والا میلہ یارو تھوڑی دیر دا
ہنس دے آں رات لنگے پتہ نئیں سویر دا
جگ والا میلہ یارو
محمد رفیع کی پرسوز اور پاٹ دار آواز نے اس گیت کو ایک امر گیت کا درجہ دے دیا تھا اور اس دور میں فلم ''لچھی'' اس ایک گیت کی وجہ سے سپر ہٹ ہوگئی تھی۔ اس فلم کے بعد نہ صرف پنجابی بلکہ اردو زبان کی فلموں میں بھی ناظم پانی پتی کے گیتوں کی بھرمار ہوتی چلی گئی اور آٹھ دس سال تک ناظم پانی پتی کے گیتوں کا بمبئی کی فلم انڈسٹری میں ڈنکا بجتا رہا۔ اس دوران بہت سی فلموں کے لیے گیت لکھے جن میں چند مشہور فلموں کے نام ہیں بیوی، پدمنی، ہیر رانجھا، نوکر، جگ بیتی، لاڈلی، شادی، شیش محل اور مجبور جس میں خاص طور پر ایک گیت بڑا مشہور ہوا تھا۔
مجبور کی کہانی اس دور سے متعلق تھی جب ہندوستان میں انگریز بہادر کا راج تھا اور ہندوستان میں انگریز کے خلاف تحریک بڑے زوروں پر چل رہی تھی، سارے ہندوستان میں انگریز کے خلاف نفرت بے انتہا پھیلی ہوئی تھی پھر یوں ہوا کہ انگریز راج کا ہندوستان میں سورج غروب ہوتا چلا گیا۔ ہندوستان کے باسیوں کی تحریک آزادی کامیابی کی منزل حاصل کرچکی تھی اور انگریز ہندوستان سے اپنا بوریا بستر سمیٹنے پر مجبور ہوگیا تھا۔ فلم مجبور کے لیے جو گیت ناظم پانی پتی نے لکھا تھا اس کے بول تھے:
اب ڈرنے کی کوئی بات نہیں
انگریزی چھورا چلا گیا
ناظم پانی پتی کو ان کے اس گیت پر اعزاز اور ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا اور اس گیت کو سارے برصغیر میں بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی۔ یہاں میں ایک اور خاص بات بتاتا چلوں کہ فلم مجبور میں لتا منگیشکر نے بھی موسیقار ماسٹر غلام حیدر کی موسیقی میں ناظم پانی پتی ہی کا لکھا ہوا ایک گیت گایا تھا جو لتا منگیشکر کا بھی ابتدائی گیت تھا جس کے بول تھے:
دل میرا توڑا مجھے کہیں کا نہ چھوڑا
ترے پیار نے
جب لتا منگیشکر نے اس ابتدائی گیت کی وجہ سے موسیقار غلام حیدر کو اپنا سینئر اور محسن قرار دیا تھا۔ اور موسیقار ماسٹر غلام حیدر ہی نے لتا منگیشکر کے بارے میں یہ پیش گوئی کی تھی کہ آج کی یہ نئی گلوکارہ کل بمبئی فلم انڈسٹری کے سر کا تاج ہوگی اور پھر آگے چل کر یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی تھی۔ پھر جب ہندوستان کا بٹوارہ ہوگیا تھا تو ولی صاحب بمبئی ہی میں رہ گئے اور ناظم پانی پتی لاہور آگئے تھے۔ یہاں انھوں نے لاہور کی کئی فلموں کے لیے کہانی، مکالمے و گیت بھی لکھے جن میں لخت جگر، شاہی فقیر، سہیلی اور فلم انسانیت کے لیے ایک بہت ہی روح پرور نعت بھی لکھی تھی جسے گلوکارہ مالا نے گایا تھا۔ اس نعت کے بول تھے:
''محمد کملی والے ہیں' محمد کملی والے ہیں'' یہ نعت اس دور میں بڑی مقبول ہوئی تھی۔ اور فلم ''لخت جگر'' میں میڈم نور جہاں کی گائی ہوئی ایک لازوال لوری کبھی بھولی نہیں جاسکتی جس کے بول ہیں:
چندا کی نگری سے آجا ری نندیا' تاروں کی نگری سے آ جا
فلم ''شاہی فقیر'' میں گلوکارہ آئرین پروین کی آواز میں ناظم پانی پتی کی لکھی ہوئی ایک غزل کو بھی اس زمانے میں بڑا سراہا گیا تھا۔ جس کا مطلع تھا:
ہوگیا دل مبتلائے دردِ دل
پھر اٹھا پہلو میں ہائے دردِ دل
بمبئی سے آنے کے بعد فلمساز و ہدایت کار شہاب کیرانوی اور ایس۔ایم۔ یوسف نے ناظم پانی پتی کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا تھا کیونکہ یہ سینئر فلمساز ناظم پانی پتی کی صلاحیتوں سے بخوبی واقف تھے پھر جب نئے فلمساز و ہدایت کار اور موسیقاروں کی کھیپ آئی تو سب نے گروپ بندی کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کیا اور اس طرح ناظم پانی پتی جو ایک حساس اور سیدھے سادے انسان تھے وہ نئی نسل کے فلمسازوں اور موسیقاروں کے ساتھ نہیں چل سکے تھے اور پھر وہ دل برداشتہ ہوکر آہستہ آہستہ فلمی دنیا سے کنارہ کش ہوتے چلے گئے مگر ناظم پانی پتی کے دلکش اور امر گیت کبھی بھلائے نہیں جاسکتے بلکہ ان کا ایک ہی گیت ''جگ والا میلہ یارو تھوڑی دیر دا'' ان کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھے گا۔
یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے
نوشاد کی موسیقی میں یہ گیت شکیل بدایونی کا لکھا ہوا تھا اور فلم ''لچھی'' کے گیت کا مکھڑا تھا۔
جگ والا میلہ یارو
تھوڑی دیر دا
اور اس گیت کے شاعر تھے ناظم پانی پتی۔ آج میرے کالم کی شخصیت یہی وہ شاعر ہیں جنھوں نے لاہور اور بمبئی کے فلم انڈسٹری میں اپنے لازوال گیتوں سے اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تھا۔ ان کے لکھے ہوئے گیتوں کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی مگر یہ سیدھے سادے اور درویش قسم کے انسان تھے ان کا کام بہت تھا مگر ان کا نام بہت کم لوگوں کو معلوم تھا۔ جب میں لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوا تو ناظم پانی پتی بہت ضعیف تھے اور فلمی دنیا سے بالکل کنارہ کش ہوچکے تھے۔
اس سے پہلے کہ میں ان کی فلمی زندگی اور ان کے خوبصورت گیتوں کی طرف آؤں پہلے ان کی شخصیت اور ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں روشنی ڈالوں گا۔ ناظم پانی پتی کے والد کا نام عبدالکریم خان تھا اور وہ لودھی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو پانی پت میں پیدا ہوئے، وہیں تعلیم حاصل کی اور پھر ملازمت کی غرض سے پنجاب آگئے اور وہاں محکمہ تعلیم میں ملازمت حاصل ہوگئی۔ ان کے دو بیٹے تھے بڑے بیٹھے کا نام ولی خان تھا اور چھوٹے بیٹے کا نام اسمٰعیل خان رکھا گیا۔ عبدالکریم خان فارسی کے ساتھ اردو شعر و ادب سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔
اسمٰعیل خان کی پیدائش لاہور میں ہوئی جب اس نے شعور حاصل کیا تو شعر و ادب سے شغف ہوگیا ابتدا میں بڑے بھائی ولی خان بھی شاعری کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ کی طرف متوجہ ہوئے ولی خان لاہور سے بمبئی چلے گئے اور اسمٰعیل خان نے جب شاعری کا آغاز کیا تو اپنا شاعرانہ نام ناظم پانی پتی رکھ لیا اور پھر اسی نام سے اپنی شاعری کا آغاز کیا اور شروع شروع لاہور میں گرامو فون کمپنی کے لیے گیت، غزلیں اور نعتیں لکھیں پھر 1940ء میں یہ لاہور کے مشہور فلمساز ادارے پنچولی فلم پروڈکشن سے وابستہ ہوگئے۔ اس دوران انھوں نے فلم زمیندار، منگتی، شیریں فرہاد، یملا جٹ، خزانچی اور فلم داسی کے لیے گیت لکھے۔ فلم داسی کے لیے ان کا لکھا ہوا گیت جس کے بول تھے:
''میری آرزو دیکھ کیا چاہتا ہوں'' بڑا مقبول ہوا تھا جس کے موسیقار رشید عطرے تھے اور داسی لاہور میں بنائی گئی رشید عطرے کی بھی پہلی فلم تھی۔ ناظم پانی پتی کے بڑے بھائی ولی صاحب کے نام سے بمبئی میں مشہور ہدایت کار بن چکے تھے اور وہاں ان کا ایک منفرد مقام تھا کئی مشہور فلموں کے مصنف شاعر اور ہدایت کار بھی تھے اور پھر بمبئی کی ایک نامور اداکارہ ممتاز شانتی سے انھوں نے شادی کرلی تھی۔ ناظم پانی پتی بھی 1945ء میں بمبئی چلے گئے اور پھر ''لچھی'' کے لیے لکھے گئے ایک گیت سے بمبئی فلم انڈسٹری میں ان کی دھوم مچی گئی تھی۔
یہ بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔ جن دنوں فلمساز ستیش بھاکری ایک پنجابی فلم ''لچھی'' بنا رہے تھے فلم کے موسیقار ہنس راج بہل تھے۔ ان دنوں ان کا بڑا نام تھا۔ فلم کے گیت پریم مون لکھ رہے تھے۔ کچھ دنوں کے لیے وہ راج بہل بمبئی سے اپنے کسی کام کی غرض سے کسی اور شہر چلے گئے تھے۔ لچھی کے فلمساز سے ناظم پانی پتی کی ملاقات ہوئی انھیں فلمساز نے ایک گیت کی سچویشن بتائی ناظم پانی پتی نے انھیں ایک گیت لکھ کر دیا فلمساز نے وہ گیت موسیقار ہنس راج بہل کے اسسٹنٹ سردول کوترا سنگھ کو دیا اس نے اس کی موسیقی ترتیب دی اور جب فلمساز کو وہ دھن سنائی تو فلمساز کو بڑی پسند آئی پھر اسے فوری طور پر محمد رفیع کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ پھر وہی گیت لازوال گیت بن گیا تھا۔ جس کے بول تھے:
جگ والا میلہ یارو تھوڑی دیر دا
ہنس دے آں رات لنگے پتہ نئیں سویر دا
جگ والا میلہ یارو
محمد رفیع کی پرسوز اور پاٹ دار آواز نے اس گیت کو ایک امر گیت کا درجہ دے دیا تھا اور اس دور میں فلم ''لچھی'' اس ایک گیت کی وجہ سے سپر ہٹ ہوگئی تھی۔ اس فلم کے بعد نہ صرف پنجابی بلکہ اردو زبان کی فلموں میں بھی ناظم پانی پتی کے گیتوں کی بھرمار ہوتی چلی گئی اور آٹھ دس سال تک ناظم پانی پتی کے گیتوں کا بمبئی کی فلم انڈسٹری میں ڈنکا بجتا رہا۔ اس دوران بہت سی فلموں کے لیے گیت لکھے جن میں چند مشہور فلموں کے نام ہیں بیوی، پدمنی، ہیر رانجھا، نوکر، جگ بیتی، لاڈلی، شادی، شیش محل اور مجبور جس میں خاص طور پر ایک گیت بڑا مشہور ہوا تھا۔
مجبور کی کہانی اس دور سے متعلق تھی جب ہندوستان میں انگریز بہادر کا راج تھا اور ہندوستان میں انگریز کے خلاف تحریک بڑے زوروں پر چل رہی تھی، سارے ہندوستان میں انگریز کے خلاف نفرت بے انتہا پھیلی ہوئی تھی پھر یوں ہوا کہ انگریز راج کا ہندوستان میں سورج غروب ہوتا چلا گیا۔ ہندوستان کے باسیوں کی تحریک آزادی کامیابی کی منزل حاصل کرچکی تھی اور انگریز ہندوستان سے اپنا بوریا بستر سمیٹنے پر مجبور ہوگیا تھا۔ فلم مجبور کے لیے جو گیت ناظم پانی پتی نے لکھا تھا اس کے بول تھے:
اب ڈرنے کی کوئی بات نہیں
انگریزی چھورا چلا گیا
ناظم پانی پتی کو ان کے اس گیت پر اعزاز اور ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا اور اس گیت کو سارے برصغیر میں بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی۔ یہاں میں ایک اور خاص بات بتاتا چلوں کہ فلم مجبور میں لتا منگیشکر نے بھی موسیقار ماسٹر غلام حیدر کی موسیقی میں ناظم پانی پتی ہی کا لکھا ہوا ایک گیت گایا تھا جو لتا منگیشکر کا بھی ابتدائی گیت تھا جس کے بول تھے:
دل میرا توڑا مجھے کہیں کا نہ چھوڑا
ترے پیار نے
جب لتا منگیشکر نے اس ابتدائی گیت کی وجہ سے موسیقار غلام حیدر کو اپنا سینئر اور محسن قرار دیا تھا۔ اور موسیقار ماسٹر غلام حیدر ہی نے لتا منگیشکر کے بارے میں یہ پیش گوئی کی تھی کہ آج کی یہ نئی گلوکارہ کل بمبئی فلم انڈسٹری کے سر کا تاج ہوگی اور پھر آگے چل کر یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی تھی۔ پھر جب ہندوستان کا بٹوارہ ہوگیا تھا تو ولی صاحب بمبئی ہی میں رہ گئے اور ناظم پانی پتی لاہور آگئے تھے۔ یہاں انھوں نے لاہور کی کئی فلموں کے لیے کہانی، مکالمے و گیت بھی لکھے جن میں لخت جگر، شاہی فقیر، سہیلی اور فلم انسانیت کے لیے ایک بہت ہی روح پرور نعت بھی لکھی تھی جسے گلوکارہ مالا نے گایا تھا۔ اس نعت کے بول تھے:
''محمد کملی والے ہیں' محمد کملی والے ہیں'' یہ نعت اس دور میں بڑی مقبول ہوئی تھی۔ اور فلم ''لخت جگر'' میں میڈم نور جہاں کی گائی ہوئی ایک لازوال لوری کبھی بھولی نہیں جاسکتی جس کے بول ہیں:
چندا کی نگری سے آجا ری نندیا' تاروں کی نگری سے آ جا
فلم ''شاہی فقیر'' میں گلوکارہ آئرین پروین کی آواز میں ناظم پانی پتی کی لکھی ہوئی ایک غزل کو بھی اس زمانے میں بڑا سراہا گیا تھا۔ جس کا مطلع تھا:
ہوگیا دل مبتلائے دردِ دل
پھر اٹھا پہلو میں ہائے دردِ دل
بمبئی سے آنے کے بعد فلمساز و ہدایت کار شہاب کیرانوی اور ایس۔ایم۔ یوسف نے ناظم پانی پتی کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا تھا کیونکہ یہ سینئر فلمساز ناظم پانی پتی کی صلاحیتوں سے بخوبی واقف تھے پھر جب نئے فلمساز و ہدایت کار اور موسیقاروں کی کھیپ آئی تو سب نے گروپ بندی کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کیا اور اس طرح ناظم پانی پتی جو ایک حساس اور سیدھے سادے انسان تھے وہ نئی نسل کے فلمسازوں اور موسیقاروں کے ساتھ نہیں چل سکے تھے اور پھر وہ دل برداشتہ ہوکر آہستہ آہستہ فلمی دنیا سے کنارہ کش ہوتے چلے گئے مگر ناظم پانی پتی کے دلکش اور امر گیت کبھی بھلائے نہیں جاسکتے بلکہ ان کا ایک ہی گیت ''جگ والا میلہ یارو تھوڑی دیر دا'' ان کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھے گا۔