ڈیم نہ سہی پاور پروجیکٹس ہی شروع کرلیے جائیں
بجلی کی غیر علانیہ لوڈشیڈنگ کے ریکارڈ ٹوٹ گئے اور ملک بھر کے عوام شدید گرمی میں بجلی کی بندش سے بے حال ہوتے رہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق ست پارہ ڈیم پروجیکٹ کے پاور ہائوس نمبر 3 نے بجلی کی پیداوار شروع کردی ہے، اس پاور ہائوس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 2360 کلوواٹ ہے، 1400 کلوواٹ پیداواری صلاحیت کا زیر تعمیر پاور ہائوس نمبر 4 بھی اس ماہ کے آخر تک بجلی کی پیداوار شروع کردے گا۔ پاور ہائوس نمبر3اور 4 کی تکمیل پر ست پارہ ڈیم پاور کمپلیکس اپنی پوری پیداواری صلاحیت (17.36 میگاواٹ) حاصل کرلے گا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاور ہائوس نمبر 1 اور 2 بالترتیب اکتوبر 2007ء اور دسمبر 2008ء سے بجلی پیدا کررہے ہیں۔ اسکردو کے نواح میں واقع ست پارہ ڈیم گلگت بلتستان میں پانی اور پن بجلی کا پہلا میگا پروجیکٹ ہے۔
امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی نے اس منصوبے کی تکمیل میں معاونت کے لیے 26ملین ڈالر کی گرانٹ مہیا کی ہے۔ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 93 ہزار ایکڑ فٹ ہے اور اس سے 15 ہزار ایکڑ اراضی سیراب کی جاسکتی ہے۔ پروجیکٹ سے مقامی لوگوں کو پینے کے لیے روزانہ 3 ملین گیلن سے زائد پانی بھی فراہم کیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب اطلاعات کے مطابق ملک بھر میں بجلی کا مجموعی شارٹ فال 7 ہزار میگاواٹ سے تجاوز کرتے ہوئے 7200 تک جا پہنچا، بجلی کی غیر علانیہ لوڈشیڈنگ کے ریکارڈ ٹوٹ گئے اور ملک بھر کے عوام شدید گرمی میں بجلی کی بندش سے بے حال ہوتے رہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عمرعطا بندیال نے غیر علانیہ لوڈشیڈنگ کے خلاف دائردرخواست پر وفاقی وزارت پانی و بجلی کے جوائنٹ سیکریٹری کو دوبارہ طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ بتایا جائے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوا؟ نگراں حکومت لوڈ مینجمنٹ میں بری طرح ناکام ہوکر فورس لوڈشیڈنگ میں اضافہ کرنے پر مجبور ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں بجلی کی غیر علانیہ لوڈشیڈنگ نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑدیے ہیں۔ وزارت پانی و بجلی کے ذرایع نے بتایاکہ گزشتہ روز ملک کے بیشتر شہری علاقوں میں مختلف اوقات میں فورس لوڈشیڈنگ سمیت مجموعی طور پر 19 سے 20 گھنٹے جب کہ دیہی علاقوں میں 22 سے 23 گھنٹے کی غیر علانیہ لوڈشیڈنگ ریکارڈ کی گئی جس کی وجہ سے صارفین کو سخت پریشانی سے دوچار ہونا پڑا۔
لوڈشیڈنگ سے کاروبار زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا، اسپتالوں میں مریض بھی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے محفوظ نہ رہ سکے۔ شہریوں کو پانی کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا رہا۔ ملتان میں بجلی کی طویل بندش سے پاورلومز انڈسٹری میں کام بند کردیا گیا۔ لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے شہری عاجز آگئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بنیادی حق کا مسئلہ ہے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جمعہ کو سینیٹ کے اجلاس میں بجلی کی صورت حال پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر پانی و بجلی ڈاکٹر مصدق ملک نے تسلیم کیا کہ شہروں میں 12 اور دیہات میں 14 جب کہ بعض علاقوں میں 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے، انھوں نے کہا کہ بجلی کا بحران آج کا نہیں 1992ء سے ہے۔
یہ امر افسوس ناک ہے کہ وزیر پانی و بجلی بحران کا اقرار تو کر رہے ہیں لیکن کوئی موثر حل بتانے سے قاصر ہیں۔ ملک میں مجوزہ بڑے ڈیم جو پانی و بجلی کے مسائل حل کرنے میں موثر ثابت ہوسکتے ہیں، نسلی و لسانی اور مفاداتی نظریات کے باعث متنازعہ بنے ہوئے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ جب تک کسی بڑے ڈیم کی تعمیر پر پیش رفت نہیں ہوتی ست پارہ ڈیم پروجیکٹ کی طرح ملک میں مختلف چھوٹے پاور پروجیکٹس ہی شروع کرلیے جائیں تاکہ پانی و بجلی کے بڑھتے ہوئے بحران کو کم کیا جا سکے۔
امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی نے اس منصوبے کی تکمیل میں معاونت کے لیے 26ملین ڈالر کی گرانٹ مہیا کی ہے۔ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 93 ہزار ایکڑ فٹ ہے اور اس سے 15 ہزار ایکڑ اراضی سیراب کی جاسکتی ہے۔ پروجیکٹ سے مقامی لوگوں کو پینے کے لیے روزانہ 3 ملین گیلن سے زائد پانی بھی فراہم کیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب اطلاعات کے مطابق ملک بھر میں بجلی کا مجموعی شارٹ فال 7 ہزار میگاواٹ سے تجاوز کرتے ہوئے 7200 تک جا پہنچا، بجلی کی غیر علانیہ لوڈشیڈنگ کے ریکارڈ ٹوٹ گئے اور ملک بھر کے عوام شدید گرمی میں بجلی کی بندش سے بے حال ہوتے رہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عمرعطا بندیال نے غیر علانیہ لوڈشیڈنگ کے خلاف دائردرخواست پر وفاقی وزارت پانی و بجلی کے جوائنٹ سیکریٹری کو دوبارہ طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ بتایا جائے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوا؟ نگراں حکومت لوڈ مینجمنٹ میں بری طرح ناکام ہوکر فورس لوڈشیڈنگ میں اضافہ کرنے پر مجبور ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں بجلی کی غیر علانیہ لوڈشیڈنگ نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑدیے ہیں۔ وزارت پانی و بجلی کے ذرایع نے بتایاکہ گزشتہ روز ملک کے بیشتر شہری علاقوں میں مختلف اوقات میں فورس لوڈشیڈنگ سمیت مجموعی طور پر 19 سے 20 گھنٹے جب کہ دیہی علاقوں میں 22 سے 23 گھنٹے کی غیر علانیہ لوڈشیڈنگ ریکارڈ کی گئی جس کی وجہ سے صارفین کو سخت پریشانی سے دوچار ہونا پڑا۔
لوڈشیڈنگ سے کاروبار زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا، اسپتالوں میں مریض بھی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے محفوظ نہ رہ سکے۔ شہریوں کو پانی کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا رہا۔ ملتان میں بجلی کی طویل بندش سے پاورلومز انڈسٹری میں کام بند کردیا گیا۔ لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے شہری عاجز آگئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بنیادی حق کا مسئلہ ہے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جمعہ کو سینیٹ کے اجلاس میں بجلی کی صورت حال پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر پانی و بجلی ڈاکٹر مصدق ملک نے تسلیم کیا کہ شہروں میں 12 اور دیہات میں 14 جب کہ بعض علاقوں میں 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے، انھوں نے کہا کہ بجلی کا بحران آج کا نہیں 1992ء سے ہے۔
یہ امر افسوس ناک ہے کہ وزیر پانی و بجلی بحران کا اقرار تو کر رہے ہیں لیکن کوئی موثر حل بتانے سے قاصر ہیں۔ ملک میں مجوزہ بڑے ڈیم جو پانی و بجلی کے مسائل حل کرنے میں موثر ثابت ہوسکتے ہیں، نسلی و لسانی اور مفاداتی نظریات کے باعث متنازعہ بنے ہوئے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ جب تک کسی بڑے ڈیم کی تعمیر پر پیش رفت نہیں ہوتی ست پارہ ڈیم پروجیکٹ کی طرح ملک میں مختلف چھوٹے پاور پروجیکٹس ہی شروع کرلیے جائیں تاکہ پانی و بجلی کے بڑھتے ہوئے بحران کو کم کیا جا سکے۔