نیا ادبی دبستان بنانے کے شوق میں
خیر معماروں کا ذکر بعد میںمحقق نے بہت تحقیق کر کے کراچی شہر کی اپنی ایک شعری روایت برآمد کی ہے۔
ہم تو سمجھے تھے کہ جب مولانا محمد حسین آزاد نے دلی برباد لکھنؤ ویران کی سناونی سنا دی تو اس کے ساتھ ہی شاعری کے ذیل میں دلی اسکول اور لکھنؤ اسکول کے بھی بستر لپٹ گئے۔ اس کے ساتھ ہی شہر کے حوالے سے ادب یا شاعری کے حوالے سے دبستانوں کا سلسلہ بھی موقوف ہو گیا۔ مگر یہ تو اتنے زمانے کے بعد پھر شہر ہی کے حوالے سے ایک دبستان شاعری کا دفتر کھل گیا۔ اور کونسے شہر کے حوالے سے کراچی شہر کے حوالے سے۔ انھیں دنوں ادھر سے ہمیں ایک کتاب موصول ہوئی ہے۔
کتاب کا عنوان ذرا لمبا ہو گیا جو یوں ہے ' کراچی کے دبستان شاعری میں اردو غزل کا ارتقا' اس کے مصنف ہیں ڈاکٹر جاوید منظر۔ اصل میں یہ ان کا تحقیقی مقالہ ہے جو ڈاکٹر اسلم فرخی کی نگرانی میں لکھا گیا۔ کتاب کا دیباچہ لکھا ہے ڈاکٹر جمیل جالبی نے۔ شاید اسی زمانے میں جب وہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے اس تحقیقی مقالہ کا ڈول پڑا تھا۔ ان دو مستند شخصیتوں کا جب حوالہ آ گیا تو پھر ہم نے سنجیدگی سے اس کتاب کی ورق گردانی شروع کی۔
فاضل محقق نے لگتا ہے کہ کراچی شہر کے بارے میں بہت تحقیق و ترقیق کی ہے۔ کراچی شہر کی پچھلی تاریخ پھر قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہندوستان کے مختلف علاقوں سے اجڑ کر آنے والوں کا ایک لمبا سلسلہ۔ ان اجڑے ہوؤں کے مسائل و مصائب کا تذکرہ ۔ ان کے آباد ہونے کی کہانی۔ ان قافلوں کے جلو میں کتنے شاعر بھی تو آئے تھے۔ ان کا اپنی جگہ ایک قافلہ تھا۔ مختلف علاقوں سے آنے والے رنگ رنگ کے شاعر اور بھانت بھانت کی بولی بولنے والے پنچھی۔ ہم حیران ہو رہے تھے کہ یہ سب پنچھی اس نئے شہر میں آ کر کیسے رچ بس کر ایک سانچہ میں ڈھل گئے اور کراچی ایک الگ دبستان شاعری بن گیا۔
شاید اسی قباحت کو پیش نظر رکھ کر جمیل جالبی نے یہ اشارہ کیا تھا کہ''جو شعرا قیام پاکستان کے وقت کم از کم اکیس برس کے تھے انھیں معماران دبستان کراچی کے عنوان سے تیسرے باب میں اور دوسری ہجرت کے عنوان سے چوتھے باب میں شامل کیا گیا ہے''۔
اچھا ہوا یہ وضاحت کر دی۔ ورنہ شاہ حاتم سے لے کر مجروح سلطان پوری تک کلاسیکی دور سے لے کر آج تک کے اردو شاعروں کے نام قطار اندر قطار یہاں نظر آ رہے ہیں ان سب کو دبستان کراچی کے معماروں ہی میں شمار ہونا تھا۔
خیر معماروں کا ذکر بعد میںمحقق نے بہت تحقیق کر کے کراچی شہر کی اپنی ایک شعری روایت برآمد کی ہے۔ کمال ہے انھوں نے تو کھدائی کر کے یہاں سے کتنے اردو شاعر برآمد کر لیے ہیں۔ مطلب یہ کہ اردو شاعری کے لیے یہاں پہلے سے زمین ہموار تھی۔
ان سارے بکھیڑوں کے بعد آمدم برسر مطلب۔ وہ باب شروع ہوتی ہے جس کا عنوان ہے 'دبستان کراچی کے معمار' مگر معماروں میں پہلا ہی نام پڑھ کر ہم چونک پڑے۔ اس دبستان کے پہلے معمار کے طور پر نام نظر آیا آرزو لکھنوی کا۔ اے لو یہ تو بسم اللہ ہی غلط ہو گئی۔ جمیل جالبی نے ان معماروں کے متعلق بتایا تھا کہ وہ بیس اکیس کے پیٹے میں ہوں گے۔ آرزو لکھنوی کے بارے میں ہم کیسے یقین کریں کہ وہ اس وقت بیس اکیس کے پیٹے میں تھے۔ ابھی ہم اتنا سوچ پائے تھے کہ ایک اور نام نظر آیا۔ حفیظ ہوشیار پوری کا نام۔ اور اس کے بعد ذوالفقار بخاری کا نام۔ ارے یہ تو سب معمار Overage ہو چکے ہیں۔
آرزو لکھنوی کو عمر کے باب میں رعایت دے بھی دی جائے تو ایک اور سوال اٹھ کھڑا ہو گا۔ وہ تو دبستان لکھنؤ کے چشم و چراغ تھے۔ کتنا وقت انھوں نے کلکتہ میں گزارا تھا۔ مگر وہاں رہ کر بھی وہ آرزو لکھنوی ہی رہے۔ کلکتوی ہونے کا کاروبار انھوں نے وحشت کلکتوی کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ دبستان لکھنؤ کے اجڑنے کے بعد وہ کراچی پہنچے۔ ساری عمر ایک دبستان میں بسر کرنے کے بعد ان میں اب اتنا حوصلہ کہاں رہا تھا کہ نئے دیار میں آ کر کوئی نیا دبستان تعمیر کرتے۔ بلکہ وہ تو یہ شکایت کرتے نظر آ رہے ہیں؎
مجھے رہنے کو جو ملا ہے گھر' یہ مصیبتوں کی ہے رہ گزر
تمہیں خاکساروں کی کیا خبر' کبھی نیچے اترے بام سے
رہا حفیظ ہوشیار پوری کا معاملہ تو لاہور والے پہلے اس شاعر سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیں۔ پھر آپ بے شک دبستان کراچی کے معماروں کے رجسٹر میں ان کا نام درج کریں۔ ہاں لاہور سے یہاں پہنچنے والا ایک شاعر ایسا ضرور تھا جو شاید ابھی جمیل جالبی کی مقرر کردہ اعتبار سے کوئی ایسا زیادہ overage نہیں ہوا تھا اور وہ کراچی میں خوب رچ بس بھی گیا تھا مگر اسے تو ڈاکٹر جاوید منظر نے کسی بھی حساب سے گانٹھا ہی نہیں ہے۔ یہ تھے ابن انشا۔
مگر ابن انشا کے مداحوں کو اس کی شکایت نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنا ایک عزیز دوست اور ہونہار شاعر یاد آ رہا ہے جسے اس تذکرے میں کس کمال سے فراموش کر دیا گیا ہے۔ وہ ہے سلیم احمد' بیس اکیس ہی کے پیٹے میں ہو گا جب یہاں اس نے قدم رکھا تھا۔ یہیں آ کر اس کا شعری جوہر چمکا اور اس طرح چمکا کہ پاکستان میں نئی غزل کے ممتاز ناموں میں اس کا نام بھی آتا ہے۔ اور پھر اس نے نقاد کی حیثیت سے بھی اسی شہر میں پر پرزے نکالے۔
اور ہاں زہرا نگاہ جن کی غزل نے اس شہر میں آنکھ کھولی اور اس طرح آنکھ کھولی کہ فوراً ہی ان کے نام کی دھوم پڑ گئی۔ مگر عجب بات ہے کہ معماران کراچی میں کیسے کیسے نام نظر آ رہے ہیں۔ معروف بھی غیر معروف جیسے صبا متھراوی اور راغب مراد آبادی۔ مگر سلیم احمد اور زہرا نگاہ کا یہاں کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا۔ پھر وہ کون شاعر ہیں جنہوں نے جاوید منظر صاحب کے حساب سے کراچی کی غزل کو انفرادیت بخشی ہے اور اس کے ارتقا میں کوئی کردار عطا کیا ہے۔
پھر ہم نے جب ذرا غور سے معماران کراچی پر نظر ڈالی تو پھر کچھ کچھ سمجھ میں آیا کہ محقق کی نظر انتخاب نے کس زاویئے سے شاعروں پر نظر دوڑائی ہے اور کس حساب سے دبستان کراچی کی تعمیر کے لیے معماروں کا انتخاب کیا ہے۔ سیماب اکبر آبادی کا نام دیکھ کر سمجھ میں آ گیا کہ عمر پر نہ جائیے شاعر عمر کی کسی بھی منزل میں ہو اس کی غزل کو روایتی غزل کا رتبہ حاصل ہونا چاہیے۔ سو اس تذکرے میں ان شاعروں پر تخصیص کے ساتھ توجہ صرف کی گئی ہے جو اردو غزل کے روایتی رنگ کی آبرو ہیں۔ ہجرت کر کے یہاں آنے والوں میں قاعدے سے ایسے شاعروں کی تعداد بہت ہونی چاہیے تھی اور ایسے شاعروں کی جنہوں نے ہندوستان میں رہتے ہوئے مشاعروں میں اور مشاعروں سے باہر استادان غزل کی مجلسوں میں داد لی تھی اور نام پایا تھا۔
اس اعتبار سے تو اس تحقیقی مقالہ کی اپنی بہت اہمیت ہے۔ اصل میں ہمیں گمراہ کیا جمیل جالبی کے دیباچہ نے۔ ان کے بیان سے ہم نے یہ توقع باندھی تھی کہ یہاں ان شاعروں پر زیادہ توجہ صرف کی جائے گی جو نوعمری میں اس دیار میں آئے اور جن کی شاعری نے کراچی کی آب و ہوا میں اپنا رنگ نکالا اور اپنی غزل میں یہاں کے نئے معاشرتی' تہذیبی' سیاسی' سیاق و سباق میں نئے معانی پیدا کیے۔ اور اس حساب سے یہاں کسی ایسے شعری دبستان کی تشکیل ہوتی نظر آنی چاہیے تھی جسے تخصیص کے ساتھ کراچی سے وابستہ کیا جا سکتا۔ تو اگر اس پہلو کو نظر انداز کر دیا جائے اور ایک نئے دبستان کے شوق میں کراچی کے حوالے پر اصرار نہ کیا جائے تو یہ تذکرہ اپنے معنی رکھتا ہے۔ ورنہ پھر ایک سوال یہ بھی کھڑا ہو گا کہ یہ کیسا ادبی دبستان ہے کہ صرف غزل تک محدود ہے۔ نئی پرانی نظم بھی اور افسانہ ناول بھی غائب۔
کتاب کا عنوان ذرا لمبا ہو گیا جو یوں ہے ' کراچی کے دبستان شاعری میں اردو غزل کا ارتقا' اس کے مصنف ہیں ڈاکٹر جاوید منظر۔ اصل میں یہ ان کا تحقیقی مقالہ ہے جو ڈاکٹر اسلم فرخی کی نگرانی میں لکھا گیا۔ کتاب کا دیباچہ لکھا ہے ڈاکٹر جمیل جالبی نے۔ شاید اسی زمانے میں جب وہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے اس تحقیقی مقالہ کا ڈول پڑا تھا۔ ان دو مستند شخصیتوں کا جب حوالہ آ گیا تو پھر ہم نے سنجیدگی سے اس کتاب کی ورق گردانی شروع کی۔
فاضل محقق نے لگتا ہے کہ کراچی شہر کے بارے میں بہت تحقیق و ترقیق کی ہے۔ کراچی شہر کی پچھلی تاریخ پھر قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہندوستان کے مختلف علاقوں سے اجڑ کر آنے والوں کا ایک لمبا سلسلہ۔ ان اجڑے ہوؤں کے مسائل و مصائب کا تذکرہ ۔ ان کے آباد ہونے کی کہانی۔ ان قافلوں کے جلو میں کتنے شاعر بھی تو آئے تھے۔ ان کا اپنی جگہ ایک قافلہ تھا۔ مختلف علاقوں سے آنے والے رنگ رنگ کے شاعر اور بھانت بھانت کی بولی بولنے والے پنچھی۔ ہم حیران ہو رہے تھے کہ یہ سب پنچھی اس نئے شہر میں آ کر کیسے رچ بس کر ایک سانچہ میں ڈھل گئے اور کراچی ایک الگ دبستان شاعری بن گیا۔
شاید اسی قباحت کو پیش نظر رکھ کر جمیل جالبی نے یہ اشارہ کیا تھا کہ''جو شعرا قیام پاکستان کے وقت کم از کم اکیس برس کے تھے انھیں معماران دبستان کراچی کے عنوان سے تیسرے باب میں اور دوسری ہجرت کے عنوان سے چوتھے باب میں شامل کیا گیا ہے''۔
اچھا ہوا یہ وضاحت کر دی۔ ورنہ شاہ حاتم سے لے کر مجروح سلطان پوری تک کلاسیکی دور سے لے کر آج تک کے اردو شاعروں کے نام قطار اندر قطار یہاں نظر آ رہے ہیں ان سب کو دبستان کراچی کے معماروں ہی میں شمار ہونا تھا۔
خیر معماروں کا ذکر بعد میںمحقق نے بہت تحقیق کر کے کراچی شہر کی اپنی ایک شعری روایت برآمد کی ہے۔ کمال ہے انھوں نے تو کھدائی کر کے یہاں سے کتنے اردو شاعر برآمد کر لیے ہیں۔ مطلب یہ کہ اردو شاعری کے لیے یہاں پہلے سے زمین ہموار تھی۔
ان سارے بکھیڑوں کے بعد آمدم برسر مطلب۔ وہ باب شروع ہوتی ہے جس کا عنوان ہے 'دبستان کراچی کے معمار' مگر معماروں میں پہلا ہی نام پڑھ کر ہم چونک پڑے۔ اس دبستان کے پہلے معمار کے طور پر نام نظر آیا آرزو لکھنوی کا۔ اے لو یہ تو بسم اللہ ہی غلط ہو گئی۔ جمیل جالبی نے ان معماروں کے متعلق بتایا تھا کہ وہ بیس اکیس کے پیٹے میں ہوں گے۔ آرزو لکھنوی کے بارے میں ہم کیسے یقین کریں کہ وہ اس وقت بیس اکیس کے پیٹے میں تھے۔ ابھی ہم اتنا سوچ پائے تھے کہ ایک اور نام نظر آیا۔ حفیظ ہوشیار پوری کا نام۔ اور اس کے بعد ذوالفقار بخاری کا نام۔ ارے یہ تو سب معمار Overage ہو چکے ہیں۔
آرزو لکھنوی کو عمر کے باب میں رعایت دے بھی دی جائے تو ایک اور سوال اٹھ کھڑا ہو گا۔ وہ تو دبستان لکھنؤ کے چشم و چراغ تھے۔ کتنا وقت انھوں نے کلکتہ میں گزارا تھا۔ مگر وہاں رہ کر بھی وہ آرزو لکھنوی ہی رہے۔ کلکتوی ہونے کا کاروبار انھوں نے وحشت کلکتوی کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ دبستان لکھنؤ کے اجڑنے کے بعد وہ کراچی پہنچے۔ ساری عمر ایک دبستان میں بسر کرنے کے بعد ان میں اب اتنا حوصلہ کہاں رہا تھا کہ نئے دیار میں آ کر کوئی نیا دبستان تعمیر کرتے۔ بلکہ وہ تو یہ شکایت کرتے نظر آ رہے ہیں؎
مجھے رہنے کو جو ملا ہے گھر' یہ مصیبتوں کی ہے رہ گزر
تمہیں خاکساروں کی کیا خبر' کبھی نیچے اترے بام سے
رہا حفیظ ہوشیار پوری کا معاملہ تو لاہور والے پہلے اس شاعر سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیں۔ پھر آپ بے شک دبستان کراچی کے معماروں کے رجسٹر میں ان کا نام درج کریں۔ ہاں لاہور سے یہاں پہنچنے والا ایک شاعر ایسا ضرور تھا جو شاید ابھی جمیل جالبی کی مقرر کردہ اعتبار سے کوئی ایسا زیادہ overage نہیں ہوا تھا اور وہ کراچی میں خوب رچ بس بھی گیا تھا مگر اسے تو ڈاکٹر جاوید منظر نے کسی بھی حساب سے گانٹھا ہی نہیں ہے۔ یہ تھے ابن انشا۔
مگر ابن انشا کے مداحوں کو اس کی شکایت نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنا ایک عزیز دوست اور ہونہار شاعر یاد آ رہا ہے جسے اس تذکرے میں کس کمال سے فراموش کر دیا گیا ہے۔ وہ ہے سلیم احمد' بیس اکیس ہی کے پیٹے میں ہو گا جب یہاں اس نے قدم رکھا تھا۔ یہیں آ کر اس کا شعری جوہر چمکا اور اس طرح چمکا کہ پاکستان میں نئی غزل کے ممتاز ناموں میں اس کا نام بھی آتا ہے۔ اور پھر اس نے نقاد کی حیثیت سے بھی اسی شہر میں پر پرزے نکالے۔
اور ہاں زہرا نگاہ جن کی غزل نے اس شہر میں آنکھ کھولی اور اس طرح آنکھ کھولی کہ فوراً ہی ان کے نام کی دھوم پڑ گئی۔ مگر عجب بات ہے کہ معماران کراچی میں کیسے کیسے نام نظر آ رہے ہیں۔ معروف بھی غیر معروف جیسے صبا متھراوی اور راغب مراد آبادی۔ مگر سلیم احمد اور زہرا نگاہ کا یہاں کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا۔ پھر وہ کون شاعر ہیں جنہوں نے جاوید منظر صاحب کے حساب سے کراچی کی غزل کو انفرادیت بخشی ہے اور اس کے ارتقا میں کوئی کردار عطا کیا ہے۔
پھر ہم نے جب ذرا غور سے معماران کراچی پر نظر ڈالی تو پھر کچھ کچھ سمجھ میں آیا کہ محقق کی نظر انتخاب نے کس زاویئے سے شاعروں پر نظر دوڑائی ہے اور کس حساب سے دبستان کراچی کی تعمیر کے لیے معماروں کا انتخاب کیا ہے۔ سیماب اکبر آبادی کا نام دیکھ کر سمجھ میں آ گیا کہ عمر پر نہ جائیے شاعر عمر کی کسی بھی منزل میں ہو اس کی غزل کو روایتی غزل کا رتبہ حاصل ہونا چاہیے۔ سو اس تذکرے میں ان شاعروں پر تخصیص کے ساتھ توجہ صرف کی گئی ہے جو اردو غزل کے روایتی رنگ کی آبرو ہیں۔ ہجرت کر کے یہاں آنے والوں میں قاعدے سے ایسے شاعروں کی تعداد بہت ہونی چاہیے تھی اور ایسے شاعروں کی جنہوں نے ہندوستان میں رہتے ہوئے مشاعروں میں اور مشاعروں سے باہر استادان غزل کی مجلسوں میں داد لی تھی اور نام پایا تھا۔
اس اعتبار سے تو اس تحقیقی مقالہ کی اپنی بہت اہمیت ہے۔ اصل میں ہمیں گمراہ کیا جمیل جالبی کے دیباچہ نے۔ ان کے بیان سے ہم نے یہ توقع باندھی تھی کہ یہاں ان شاعروں پر زیادہ توجہ صرف کی جائے گی جو نوعمری میں اس دیار میں آئے اور جن کی شاعری نے کراچی کی آب و ہوا میں اپنا رنگ نکالا اور اپنی غزل میں یہاں کے نئے معاشرتی' تہذیبی' سیاسی' سیاق و سباق میں نئے معانی پیدا کیے۔ اور اس حساب سے یہاں کسی ایسے شعری دبستان کی تشکیل ہوتی نظر آنی چاہیے تھی جسے تخصیص کے ساتھ کراچی سے وابستہ کیا جا سکتا۔ تو اگر اس پہلو کو نظر انداز کر دیا جائے اور ایک نئے دبستان کے شوق میں کراچی کے حوالے پر اصرار نہ کیا جائے تو یہ تذکرہ اپنے معنی رکھتا ہے۔ ورنہ پھر ایک سوال یہ بھی کھڑا ہو گا کہ یہ کیسا ادبی دبستان ہے کہ صرف غزل تک محدود ہے۔ نئی پرانی نظم بھی اور افسانہ ناول بھی غائب۔