کون بنے گا وزیراعظم

لیکن، چوہدری پرویزالٰہی نے مصنوعی طور پر وزیر ِاعظم بننے سے معذرت کرلی۔

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

عام انتخابات تو ابھی ہونا ہیں ، لیکن یہ بحث شروع ہوچکی ہے کہ کون ہو گا آیندہ وزیرِ اعظم۔حقیقتاً ،تو یہ 11 مئی کو معلوم ہو گا کہ وزیر اِعظم بننے کی دوڑ میں کون آگے ہے اور کون پیچھے ؛ تاہم تین شخصیات ہیں ، جو وزارت ِعُظمیٰ کی اُمیدوار ہیں ؛سابق وزیر ِ اعظم نوازشریف ، سابق نائب وزیر ِاعظم چوہدری پرویزالٰہی اور عمران خان ۔ آصف علی زرداری کی حکمت ِعملی یہ ہے کہ وزارت ِعظمیٰ پربے شک 'اتحادی وزیرِاعظم' مُتمکن ہوں، لیکن سندھ کا وزیر ِ اعلیٰ پیپلزپارٹی کا ہو گا، اس پر سمجھوتا نہیں ۔سینیٹ کے بعد سندھ حکومت ، آیندہ سیٹ اپ میں آصف علی زرداری کا بنیادی ہدف ہے ۔پنجاب اور اسلام آباد ، اُن کی ترجیحات میں سردست سر فہرست نہیں۔ بظاہر ،آیندہ سیٹ اپ میں پیپلزپارٹی اپنی سیاست ، سینیٹ اور سندھ حکومت کے بل پر کرے گی ۔قومی اسمبلی سمیت، پنجاب ، خیبرپختون خوا اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں میں' اتحادی سیاست' کا دور دورہ ہوگا۔اس تناظر میں ، آئیے، اب وزارت ِ عُظمیٰ کے اُمیدواروں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

وزارت ِ عُظمیٰ کے پہلے اُمیدوار ، نوازشریف 1985ء سے انتخابی سیاست میں ہیں ۔ پہلی بار 1990ء میں وزیرِ ِاعظم منتخب کیے گئے ۔ یہ پہلی وزارت عُظمیٰ صرف ڈھائی سال چلی تھی ۔ 1993ء میں، صدر غلام اسحاق خان نے اُن کی حکومت برطرف کردی۔ 1997ء میں نوازشریف دوسری بار وزیرِاعظم منتخب کیے گئے ۔ نوازشریف کی یہ دوسری وزارت ِعُظمی بھی نہیں چلی۔ 2007ء میںاین آر او کے تحت، بے نظیرکو وطن واپسی کی اجازت ملی تو نوازشریف کو بھی مل گئی ۔27 دسمبر2007 ء کو بے نظیر بھٹو کے قتل پر ایک سیاسی خلا پیدا ہوگیا ۔

حقیقتاً ، یہ اس خلا کو پُر کرنے کی حکمت ِعملی تھی کہ نوازشریف نے بائیکاٹ کے فیصلہ پر نظر ثانی کی اور بھرپور طور پر عام انتخابات میں حصہ لیا۔نوازشریف کو پُورا یقین تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف بے نظیر بھٹو کا ووٹ بینک اُن کی طرف کھنچا آئے گا ،اور ایک بار اکثریت مل گئی تو وزارت عُظمی کے لیے اُن کی قانونی نااہلی کا حل بھی نکل آئے گا ۔ ن لیگ کی سروے کمپنیوں کی رپورٹ یہ تھی کہ ن لیگ ،پیپلزپارٹی اور ق لیگ کے مقابلہ میں زیادہ ووٹ لے گی ۔لیکن، اس اثنا میں آصف علی زرداری اس طرح بروئے کار آئے کہ ن لیگ کی انتخابی حکمت ِ عملی دھری کی دھری رہ گئی ۔آصف علی زرداری نے پیپلزپارٹی کی بکھری ہوئی قوت کو پھر سے مجتمع کر لیا ۔ سروے رپورٹیں غلط نکلیں۔ ن لیگ کو پیپلزپارٹی اور ق لیگ سے کم ووٹ ملے۔ نوازشریف، وزیرِاعظم نہ بن سکے ، لیکن اس کے برعکس آصف علی زرداری صدر بننے میں کامیاب ہوگئے ۔

وزارت عظمیٰ کے دوسرے اُمیدوار،چوہدری پرویزالٰہی بھی 1985ء سے انتخابی سیاست میں ہیں۔ چوہدری پرویزالٰہی پہلی بار1987ء میں اس وقت وزیراعلیٰ کے امیدوار بن کر سامنے آئے ، جب پنجاب اسمبلی میں ارکان اسمبلی کا ایک مضبوط گروپ ، نوازشریف کے خلاف اُن کا حامی تھا۔1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو چاہتی تھیں کہ نوازشریف کے بجائے چوہدری پرویزالٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوں ، لیکن چوہدری برادران نے یہ موقع ضایع کر دیا ۔ بہرحال2002 ء میں چودھر ی پرویزالٰہی وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے اور اپنی 5 سالہ آئینی مدت پوری کی ۔2004 ء میںجب میر ظفراللہ جمالی سے استعفا لینے کا حتمی فیصلہ ہو گیا ، تو جنرل پرویزمشرف کی خواہش تھی کہ شوکت عزیز کے بجائے چوہدری پرویزالٰہی خود وزیراعظم بنیں۔

لیکن، چوہدری پرویزالٰہی نے مصنوعی طور پر وزیر ِاعظم بننے سے معذرت کرلی۔ 2008ء میں یہ بات یقینی سمجھی جا رہی تھی کہ بے نظیر بھٹو اور چوہدری پرویزالٰہی میں سے ہی کوئی ایک اگلا وزیراعظم ہو گا۔ لیکن عام انتخابات سے عین پہلے بے نظیر بھٹو کے قتل کے باعث سے حالات نے اس طرح پلٹا کھایا کہ سارا نقشہ ہی بدل گیا ۔ تاہم، صرف ساڑھے 3سال بعد پیپلزپارٹی، ق لیگ اتحاد ' کے بعد چوہدری پرویزالٰہی نائب وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوگئے ۔ اطلاعات یہ ہیں کہ نوازشریف کے خلاف ، چوہدری پرویزالٰہی آیندہ وزارت عظمیٰ کے لیے ق لیگ اور پیپلزپارٹی کے' مشترکہ اُمیدوار' ہوں گے ۔ ایم کیو ایم اور جے یو آئی بھی اس مہم میں شامل ہوں گی ۔


وزارت عظمیٰ کے تیسرے اُمیدوار ، عمران خان عرصہ 16سال سے انتخابی سیاست میں ہیں، لیکن نوازشریف اور چوہدری پرویزالٰہی کے برعکس ، اُن کی انتخابی کامیابیاں مختصر ہیں۔ دو مرتبہ عام انتخابات میں حصہ لیا ، لیکن صرف ایک بار کامیابی ملی ۔2008 ء میںعمران خان کے لیے بڑا اچھا موقع تھا کہ اپنی پارٹی سیٹوں میں مزید اضافہ کرلیں ، لیکن وہ عدلیہ بحالی کی سیاست میں پڑ گئے ، اور عام انتخابات کا بائیکاٹ کردیا ۔ بہر حال اب پھر عمران خان کو موقع میسر آیا ہے ۔ پنجاب کے بڑے شہروں میں، جہاں کبھی صرف نوازشریف کا طوطی بولتا تھا، اب عمران خان بھی برابرکی چوٹ ہیں ۔ یہ تبدیلی، عمران خان کے لیے غیرمعمولی انتخابی امکانات پیدا کرسکتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عمران خان نے حالیہ دنوں میں دو بڑے مضرت رساں فیصلے کیے ہیں ۔

ایک تو یہ کہ ، پارٹی انتخابات میں ضرورت سے زیادہ وقت لگا دیا۔ دوسرا یہ کہ ''تحریکی مفکرین'' کی باتوں میں آکر ٹکٹوں کی تقسیم میں مار کھا گئے ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ضرورت سے زیادہ میڈیا کے زیر ِ اثر ہیں۔ عمران خان کی تنہا پرواز کی حکمت ِ عملی بھی غیر دانشمندانہ ہے ۔پنجاب ِ سندھ اور خیبر پختون خوا میں جماعت ِ اسلامی سے ان کا انتخابی اتحاد ان کے لیے بڑا موثر ہو سکتا تھا ، لیکن عمران خان تذبذب کا شکار ہو گئے۔ جمعیت علمائے اسلام اور ایم کیو ایم سے بھی وہ بہت زیادہ فاصلے پر نظر آ رہے ہیں ۔گویا ، وزیر اعظم بننے کے لیے عمران خان کا ہوم ورک نظر نہیں آرہا ۔ حکمت ِعملی کا یہ فقدان، عمران خان کے لیے عام انتخابات کے بعد میں بڑی پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے ۔

حرف ِ آخر یہ کہ آیندہ وزیراعظم ،میاں نوازشریف ہوں یا چوہدری پرویزالٰہی ، عمران خان ہوں ، یا کوئی اور ، اس میں کلیدی کردار بہرحال آصف علی زرداری کا ہوگا۔ آصف علی زرداری کو پُورا یقین ہے کہ'پیپلزپارٹی ، ق لیگ اتحاد' 100 کا ہندسہ عبور کر لے گا ، اور ایم کیوایم ، اے این پی اور جے یو آئی اور آزاد ارکان کو شامل کر کے باقی کمی بآسانی پوری کرلے گا ۔ 'پیپلزپارٹی اور ق لیگ اتحاد' کے برعکس ، ن لیگ کا دارومدار صرف پنجاب پر ہے ، کیونکہ سندھ ، بلوچستان ، اور خیبر پختون خوا میں اس کے انتخابی امکانات بہت کم ہیں ۔ اطلاعات یہ ہیں کہ بلوچستان کے 'قوم پرست راہنما 'بھی اندرون خانہ آصف علی زرداری سے رابطے میں ہیں۔

تما م تر کھینچ تان کے باوجود ن لیگ کا تخمینہ فی الحال 70 ، 80 سے اوپر نہیں جا رہا ،اور حکومت سازی کے لیے 131کا ہدف پورا کرنا ، سر دست اس کے لیے ناممکن ہوگا۔ پھر ، ن لیگ کی راہ میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بھی رکاوٹ بن گئی ہیں۔ اندازہ یہ ہے کہ ن لیگ کے خلاف 15،20 سیٹوں پر اس کے اثرات ضرور ظاہر ہوں گے ۔ ن لیگ کی طرح ، لیکن تحریک ِ انصاف بھی صرف پنجاب پر انحصار کیے ہوئے ہے ، اور دل چسپ امر یہ ہے کہ اندرونی طور پر وہ بھی اپنے آپ کو 40 ، 50 سے زیادہ سیٹیں نہیں دے پا رہی ۔ یہ وہ اندازے ہیں ، جو پارٹیاں اپنے طور پر لگا رہی ہیں، لیکن ان اندازوں سے ایک بات تو عیاں ہے کہ کوئی پارٹی بھی نہیں سمجھ رہی کہ وہ اکثریت لے سکتی ہے ۔

یہ بات یقینی نظر آرہی ہے آیندہ حکومتیں بھی مخلوط حکومتیں ہوں گی۔ اس تناظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ پیپلزپارٹی کی اہمیت مسلمہ ہوگی ۔پیپلزپارٹی کو پچھلے پانچ برس میں عدالتوںکے اندر بھلے ہزیمتوں کا سامنا رہا ، لیکن ان ہزیمتوں کے باعث پیپلزپارٹی پر مظلومیت کا ٹیگ لگ گیا ہے ۔ پیپلزپارٹی کے مخالفین کی خواہشات اپنی جگہ ، لیکن نظر آرہا ہے کہ11 مئی کو پیپلزپارٹی کے بیگ میں کم ازکم اتنی سیٹیں ہوں گے اور ''کون بنے گا آیندہ وزیراعظم ''، یہ فیصلہ پیپلزپارٹی کی مرضی کے بغیر نہیں ہوگا ۔
Load Next Story