پاکستان نمبر ون
امریکا کی کامیابی کی کچھ چیدہ چیدہ وجوہات ہیں جس میں سے ایک ہے سسٹم کی پابندی کرنا۔
اپنے ٹیلنٹ اور طاقت کا صحیح اندازہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور بیشتر وقت انسان، قومیں، ملک، شہر اپنی طاقت کو کمتر تصور کرتے ہیں، یہ ایک جگہ نہیں بیشتر معاملات میں ہوتا ہے، پارک میں جاگنگ کرتے آپ یہ سوچ کر رک جاتے ہیں کہ میں تھک رہا ہوں جب کہ اصل میں آپ کے جسم میں ابھی مزید ایک میل بھاگنے کی طاقت ہوتی ہے، کلاس میں دوسرے طلبا کی ٹاپ پوزیشن آنے کی وجہ سے ان سے زیادہ تیز دماغ ہونے کے باوجود کوئی یہ فیصلہ کیے بیٹھا ہوتا ہے کہ میں جتنی بھی محنت کروں اول کبھی نہیں آؤں گا۔
ایک چھوٹی کمپنی اپنے پاس بہتر ایمپلائز ہونے کے باوجود یہ سمجھ کر بڑی کمپنی سے مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کرتی کہ ان کے پاس زیادہ تعداد میں کام کرنے والے ہیں۔ کرکٹ کے میدان میں ٹیم اپنی ایک دو وکٹیں جلدی گر جانے سے دوسری ٹیم کو زیادہ فارم میں سمجھ کر میچ کے شروع میں ہی اپنی صلاحیتوں پر بھروسا کرنے کے بجائے ذہنی طور پر ان سے ہار مان لیتی ہے۔ صبح اٹھ کر آئینہ دیکھ کر اپنے اندر کی خامیاں نکالنے سے رات کو لیٹ کر سوچنا کہ میں نے کوئی خاص کام نہیں کیا تک، ہم خود کو مختلف انداز سے کمتر سمجھتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں آج کل الیکشن کیمپین زور و شور سے چل رہی ہے، ایک نام جو ہر نوجوان کی زبان پر ہے وہ ہے عمران خان۔ عمران کی حمایت میں فیس بک، یوٹیوب پر کئی مشہور لوگوں کے بیانات اپ لوڈ کیے جا رہے ہیں جس میں وسیم اکرم کا بیان بھی اکثر دکھائی دیتا ہے۔ اس ویڈیو میں وسیم اکرم کے مطابق 1992ء کے ورلڈکپ میں پہلے دو میچ ہار جانے کے باوجود عمران خان ٹیم سے ایک بات کہتے تھے ''ہم یہ میچ ضرور جیتیں گے''۔ کمزور ہوکر بھی یہ یقین رکھنا کہ ہم جیتیں گے اور اپنے یقین پر پورا بھروسہ رکھنا بہت مشکل کام ہوتا ہے اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہی ''عمران خان'' بنتے ہیں اور ورلڈکپ جیت کر اپنے ملک لاتے ہیں۔
اس وقت دنیا کی کل آبادی کا 23% حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ دنیا کے 195 ملکوں میں سے 49 ممالک مسلم ہیں جو ہم کو دنیا کی ایک بڑی طاقت بناتے ہیں لیکن کئی لوگوں کے حساب سے ہم میں ایکا نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہم کمزور ہیں۔
دنیا میں 6% لوگ امریکن ہیں جو دنیا کی 80% اکانومی چلا رہے ہیں یعنی دنیا میں 80 فیصد خرچ کیے جانے والے پیسے دنیا کی صرف چھ فیصد آبادی خرچ کر رہی ہے، امریکا کی کامیابی کی کچھ چیدہ چیدہ وجوہات ہیں جس میں سے ایک ہے سسٹم کی پابندی کرنا، یہ لوگ اسکول سے بچوں کو سسٹم فالو کرنا سکھاتے ہیں جو وہ زندگی بھر کرتے ہیں۔ باس نہیں ہے تو جاب سے جلدی چھٹی کر لینا یا کوئی دیکھ نہیں رہا تو رات کو سگنل توڑ دینے والے سسٹم کے خلاف چیزیں بیشتر امریکنز کی سوچ میں نہیں ہوتیں۔
دوسری چیز جو امریکنز نے کی ہے وہ ہے دنیا کو اپنے اشاروں پر چلانا۔ کام دے کر، دوستی کر کے، دھمکا کر، باقی دنیا سے پوری طرح کاٹ کر، امریکا کا دنیا کے ہر ملک پر کوئی نہ کوئی اثر ضرور ہے اور کسی بھی ملک سے تعلقات کیسے رکھنے کا فیصلہ امریکا خود کرتا ہے، کئی لوگوں کے حساب سے امریکا پاکستان کے ساتھ صحیح نہیں کر رہا۔ پاکستان ہی کیا دنیا کے بیشتر مسلمان ملکوں کے ساتھ صحیح نہیں کر رہا جب کہ امریکن تعداد میں کم اور مسلمانوں کی دنیا میں تعداد بہت زیادہ ہے۔
بہت لوگوں کی سوچ کے مطابق اگر سارے مسلمان ملک متحد ہو جائیں تو کوئی بھی ملک ہمارے اوپر اپنا زور نہیں چلا سکتا نہ صرف یہ بلکہ مسلمان ملکوں کو ترقی یافتہ ممالک کی ریس میں سب سے آگے بھی لا سکتے ہیں لیکن مسئلہ صرف یہی ہے کہ ہم ایک کیسے ہوں جب ہمارے آپسی اختلافات اتنے زیادہ ہیں۔ عرب ممالک میں پاکستانی، بنگالی اور دوسرے مسلمان ممالک کے لوگوں کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے۔ مسلمان بھائی تو دور عرب ممالک میں یہ صاف نظر آتا ہے کہ وہ انھیں اپنے سے بہت کمتر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش، پاکستان اور انڈیا کے مسلمانوں میں بھی اختلافات ہیں وہ ایک دوسرے کو ہندوستانی، پاکستانی اور بنگلہ دیشی کی حیثیت سے پہچانتے ہیں مسلمان کی نہیں۔ انھی سب باتوں کے بعد مسلمان ایک ہو کر بڑی طاقت کیسے بن سکتے ہیں؟ ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی دن ایکا ہو گا تو ہم بھی طاقتور ہو جائیں گے سوچنے والی ہماری قوم اپنی خود کی طاقت کو بھول گئی۔
کچھ دن پہلے مشہور امریکی میگزین Forbes کے مطابق کراچی شہر دنیا کا سب سے تیزی سے Grow کرنے والے شہر ہے۔ 2000ء سے 2010ء تک یہاں کی آبادی میں 80 فیصد اضافہ ہوا ہے جو دنیا کے کسی بھی شہر سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ جو دوسری بات غور کرنے کی ہے کہ پاکستان انڈونیشیا کے بعد مسلمان آبادی والا سب سے بڑا ملک ہے جہاں اس وقت دنیا کے گیارہ فیصد مسلمان رہتے ہیں، اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے پچھلے دس سال میں وہ کئی چیزوں میں ترقی کر رہا ہے۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج، تجارت، تعلیم، کراچی، لاہور سمیت کئی شہروں میں ترقی۔
یہ سب کئی دوسرے ملکوں کو نظر بھی آ رہا ہے لیکن ہمیں نہیں، کوئی دوسرا مسلمان ملک ہمارے ساتھ ہو نہ ہو، ہم اکیلے ہی کافی ہیں دنیا کے سامنے پھر سے مسلمانوں کا سکہ منوانے کے لیے لیکن ہم سو روپے کا ایک ڈالر خریدتے دیکھ کر خود کو کمزور سمجھ کر کچھ کر دکھانے سے پہلے ہی ہار مان جاتے ہیں، جو قومیں اپنی طاقت سمجھ لیتی ہیں وہ چھ فیصد ہو کر بھی دنیا پر راج کرتی ہیں اور جو نہیں سمجھتے وہ ٹی وی پر عوام کی رائے دکھائے جانے پر اپنے لیڈرز کو صرف کوستے نظر آتے ہیں۔
سسٹم سے ہار نہیں مانیں، اپنی قوم کی طاقت سمجھیں۔ نظام کو بہتر کریں، نئے سسٹم تشکیل دیں تو آج کراچی Forbes کی میگا سٹی لسٹ پر اول ہے تو انشاء اﷲ کل پاکستان بزنس، اکانومی، اسپورٹس، لاء اینڈ آرڈر جیسی چیزوں میں بھی نمبر ون ہو گا۔
ایک چھوٹی کمپنی اپنے پاس بہتر ایمپلائز ہونے کے باوجود یہ سمجھ کر بڑی کمپنی سے مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کرتی کہ ان کے پاس زیادہ تعداد میں کام کرنے والے ہیں۔ کرکٹ کے میدان میں ٹیم اپنی ایک دو وکٹیں جلدی گر جانے سے دوسری ٹیم کو زیادہ فارم میں سمجھ کر میچ کے شروع میں ہی اپنی صلاحیتوں پر بھروسا کرنے کے بجائے ذہنی طور پر ان سے ہار مان لیتی ہے۔ صبح اٹھ کر آئینہ دیکھ کر اپنے اندر کی خامیاں نکالنے سے رات کو لیٹ کر سوچنا کہ میں نے کوئی خاص کام نہیں کیا تک، ہم خود کو مختلف انداز سے کمتر سمجھتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں آج کل الیکشن کیمپین زور و شور سے چل رہی ہے، ایک نام جو ہر نوجوان کی زبان پر ہے وہ ہے عمران خان۔ عمران کی حمایت میں فیس بک، یوٹیوب پر کئی مشہور لوگوں کے بیانات اپ لوڈ کیے جا رہے ہیں جس میں وسیم اکرم کا بیان بھی اکثر دکھائی دیتا ہے۔ اس ویڈیو میں وسیم اکرم کے مطابق 1992ء کے ورلڈکپ میں پہلے دو میچ ہار جانے کے باوجود عمران خان ٹیم سے ایک بات کہتے تھے ''ہم یہ میچ ضرور جیتیں گے''۔ کمزور ہوکر بھی یہ یقین رکھنا کہ ہم جیتیں گے اور اپنے یقین پر پورا بھروسہ رکھنا بہت مشکل کام ہوتا ہے اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہی ''عمران خان'' بنتے ہیں اور ورلڈکپ جیت کر اپنے ملک لاتے ہیں۔
اس وقت دنیا کی کل آبادی کا 23% حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ دنیا کے 195 ملکوں میں سے 49 ممالک مسلم ہیں جو ہم کو دنیا کی ایک بڑی طاقت بناتے ہیں لیکن کئی لوگوں کے حساب سے ہم میں ایکا نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہم کمزور ہیں۔
دنیا میں 6% لوگ امریکن ہیں جو دنیا کی 80% اکانومی چلا رہے ہیں یعنی دنیا میں 80 فیصد خرچ کیے جانے والے پیسے دنیا کی صرف چھ فیصد آبادی خرچ کر رہی ہے، امریکا کی کامیابی کی کچھ چیدہ چیدہ وجوہات ہیں جس میں سے ایک ہے سسٹم کی پابندی کرنا، یہ لوگ اسکول سے بچوں کو سسٹم فالو کرنا سکھاتے ہیں جو وہ زندگی بھر کرتے ہیں۔ باس نہیں ہے تو جاب سے جلدی چھٹی کر لینا یا کوئی دیکھ نہیں رہا تو رات کو سگنل توڑ دینے والے سسٹم کے خلاف چیزیں بیشتر امریکنز کی سوچ میں نہیں ہوتیں۔
دوسری چیز جو امریکنز نے کی ہے وہ ہے دنیا کو اپنے اشاروں پر چلانا۔ کام دے کر، دوستی کر کے، دھمکا کر، باقی دنیا سے پوری طرح کاٹ کر، امریکا کا دنیا کے ہر ملک پر کوئی نہ کوئی اثر ضرور ہے اور کسی بھی ملک سے تعلقات کیسے رکھنے کا فیصلہ امریکا خود کرتا ہے، کئی لوگوں کے حساب سے امریکا پاکستان کے ساتھ صحیح نہیں کر رہا۔ پاکستان ہی کیا دنیا کے بیشتر مسلمان ملکوں کے ساتھ صحیح نہیں کر رہا جب کہ امریکن تعداد میں کم اور مسلمانوں کی دنیا میں تعداد بہت زیادہ ہے۔
بہت لوگوں کی سوچ کے مطابق اگر سارے مسلمان ملک متحد ہو جائیں تو کوئی بھی ملک ہمارے اوپر اپنا زور نہیں چلا سکتا نہ صرف یہ بلکہ مسلمان ملکوں کو ترقی یافتہ ممالک کی ریس میں سب سے آگے بھی لا سکتے ہیں لیکن مسئلہ صرف یہی ہے کہ ہم ایک کیسے ہوں جب ہمارے آپسی اختلافات اتنے زیادہ ہیں۔ عرب ممالک میں پاکستانی، بنگالی اور دوسرے مسلمان ممالک کے لوگوں کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے۔ مسلمان بھائی تو دور عرب ممالک میں یہ صاف نظر آتا ہے کہ وہ انھیں اپنے سے بہت کمتر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش، پاکستان اور انڈیا کے مسلمانوں میں بھی اختلافات ہیں وہ ایک دوسرے کو ہندوستانی، پاکستانی اور بنگلہ دیشی کی حیثیت سے پہچانتے ہیں مسلمان کی نہیں۔ انھی سب باتوں کے بعد مسلمان ایک ہو کر بڑی طاقت کیسے بن سکتے ہیں؟ ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی دن ایکا ہو گا تو ہم بھی طاقتور ہو جائیں گے سوچنے والی ہماری قوم اپنی خود کی طاقت کو بھول گئی۔
کچھ دن پہلے مشہور امریکی میگزین Forbes کے مطابق کراچی شہر دنیا کا سب سے تیزی سے Grow کرنے والے شہر ہے۔ 2000ء سے 2010ء تک یہاں کی آبادی میں 80 فیصد اضافہ ہوا ہے جو دنیا کے کسی بھی شہر سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ جو دوسری بات غور کرنے کی ہے کہ پاکستان انڈونیشیا کے بعد مسلمان آبادی والا سب سے بڑا ملک ہے جہاں اس وقت دنیا کے گیارہ فیصد مسلمان رہتے ہیں، اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے پچھلے دس سال میں وہ کئی چیزوں میں ترقی کر رہا ہے۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج، تجارت، تعلیم، کراچی، لاہور سمیت کئی شہروں میں ترقی۔
یہ سب کئی دوسرے ملکوں کو نظر بھی آ رہا ہے لیکن ہمیں نہیں، کوئی دوسرا مسلمان ملک ہمارے ساتھ ہو نہ ہو، ہم اکیلے ہی کافی ہیں دنیا کے سامنے پھر سے مسلمانوں کا سکہ منوانے کے لیے لیکن ہم سو روپے کا ایک ڈالر خریدتے دیکھ کر خود کو کمزور سمجھ کر کچھ کر دکھانے سے پہلے ہی ہار مان جاتے ہیں، جو قومیں اپنی طاقت سمجھ لیتی ہیں وہ چھ فیصد ہو کر بھی دنیا پر راج کرتی ہیں اور جو نہیں سمجھتے وہ ٹی وی پر عوام کی رائے دکھائے جانے پر اپنے لیڈرز کو صرف کوستے نظر آتے ہیں۔
سسٹم سے ہار نہیں مانیں، اپنی قوم کی طاقت سمجھیں۔ نظام کو بہتر کریں، نئے سسٹم تشکیل دیں تو آج کراچی Forbes کی میگا سٹی لسٹ پر اول ہے تو انشاء اﷲ کل پاکستان بزنس، اکانومی، اسپورٹس، لاء اینڈ آرڈر جیسی چیزوں میں بھی نمبر ون ہو گا۔