افغان خواتین کے خیالات اور حالات کو الفاظ دینے کا منصوبہ
ان سے کہانیاں لکھوا کر انٹرنیٹ پر شایع کی جاتی ہیں۔
دنیا کے ایسے معاشروں میں جہاں خواتین کو ایک کم تر مخلوق کا درجہ دیا جاتا ہے اور انہیں اپنے انسانی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے۔
خواتین کا وہاں کی غیر ضروری روایات سے تھوڑا سا انحراف کر کے آگے بڑھنا ہی بہت بڑی فتح ہوتی ہے۔ ایسی ہی صورت حال افغانستان کی ہے جہاں کے پَس ماندہ معاشرے میں خواتین دقیانوسی اور فرسودہ رسومات اور روایات تلے بُری طرح جکڑی ہوئی ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ اسے اسلام سے نتھی کر کے دوام بخشا جاتا ہے، جب کہ ان کا تعلق سراسر علاقائی روایات سے ہوتا ہے۔
افغانستان میں مختلف جکڑ بندیوں میں قید خواتین کے لیے دارالحکومت کابل میں اپنے خیالات کو زبان دینے کے لیے ایک منصوبے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ جہاں وہ اپنے ارد گرد کی کہانیوں کو قلم بند کر سکتی ہیں۔ ایک غیر تعلیم یافتہ اور پس ماندہ معاشرے سے تعلق رکھنے والی ان خواتین کے رشحات قلم کی نوک پلک سنوارنے کے لیے اساتذہ اور ادیبوں کی ایک ٹیم بھی موجود ہے۔
''دی افغان ویمن رائیٹنگ پروجیکٹ'' کی طرف سے شروع کیے جانے والے اس سلسلے میں ان کی تحریریں ویب سائٹ پر بھی شایع کی جا رہی ہیں۔ بیس سالہ زہرہ بھی ان ہی کہانی کاروں میں سے ایک ہیں جنہیں اپنی تحریر کے ویب سائٹ تک رسائی پانے کی بہت خوشی ہے۔ ان کا تعلق ایک اَن پڑھ کسان خاندان سے ہے۔ جس نے اپنے خاندان اور برادری سے مختلف راستہ اپناتے ہوئے اپنے بچوں کی تعلیم پر بھرپور توجہ دی۔ زہرہ ایک یتیم خانے میں انگریزی کا مضمون پڑھاتی ہیں اور افغان لڑکیوں کی زندگی، تجربات اور ان کے مشاہدات کو اپنے قلم کے ذریعے زبان دیتی ہیں۔
افغانستان میں خواتین لکھاریوں کے اس منصوبے کا آغاز ایک امریکی خاتون صحافی ماشا ہیملٹن نے 2009ء میں کیا۔ وہ 1999ء میں پہلی مرتبہ کابل گئیں، جہاں انہوں نے افغان خواتین کی حالت زار دیکھی تو ان کی بہتری اور تعلیم وتربیت کے لیے یہ منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ شعور و بالیدگی کے منازل طے کرنے کے لیے لکھنا پڑھنا بنیادی چیز ہوتا ہے اور اس کام کے لیے بہ لحاظ جنس تفریق برتنا نہایت گھنائونا فعل ہے۔
خواتین کے اس اہم ترین پلیٹ فارم کے ذریعے توقع ہے کہ افغانستان میں خواتین کی شعور و خواندگی کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ خواتین جب اپنے خیالات کے حوالے سے تبادلہ خیال اور اسے دوسروں تک پہنچانے کے لیے الفاظ کی زبان دیں گی، تو اس بند معاشرے میں امید کے نئے چراغ روشن ہونے کی توقع ہے۔ تاہم افغانستان جیسے پس ماندہ ترین معاشرے میں ایک اجنبی زبان انگریزی کو اختیار کرنا خاصا عجیب فعل ہے۔ اگر یہ منصوبہ ان کی مادری زبانوں میں ہوتا تو یقیناً اس کی وسعت میں کہیں زیادہ اضافہ ہو سکتا تھا۔ بالخصوص ایک ایسے معاشرے میں جہاں ابھی تعلیم کے لیے بیج بوئے جانے ہوں، وہاں پہلے مرحلے میں ان کی اپنی زبان میں لکھنا پڑھنا سکھانا اول ترجیح ہونی چاہیے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ تین سالوں کے دوران اس منصوبے کا حصہ بننے والی خواتین کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس منصوبے سے منسلک 14 سے 45 سال تک کی لکھاری خواتین کی تعداد سو تک جا پہنچی ہے۔
افغانستان جیسے معاشرے میں ان سرگرمیوں میں شریک خواتین کو خطرات کا سامنا بھی رہتا ہے۔ اس منصوبے میں ایک ایسی لکھاری خاتون بھی شامل ہیں جو لوگوں سے چھپ کر لکھتی ہیں، جنہیں صرف انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے چار گھنٹے کی پیدل مسافت طے کرنا پڑتی تھی۔اس منصوبے کے پانچویں برس اس مقصد کے لیے کابل میں ایک عمارت کا انتظام بھی کر دیا گیا ہے۔
چوں کہ یہ منصوبہ ایک امریکی خاتون نے شروع کیا ہے اس لیے بہت سے لوگوں کو اس پر اعتراضات ہیں۔ ان تحفظات سے قطعہ نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی معاشرے میں غیر ضروری طور پر اتنی بندشیں لگا دی جائیں گی تو پھر لامحالہ اس ہی طرح کے منصوبے شروع ہوتے ہیں۔ اگر خواتین کو تعلیم اور لکھنے پڑھنے کی آزادی میسر ہو تو کسی کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی غیر ملکی سہولت سے استفادہ کرے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ملک میں بھی خواتین کی خواندگی اور تعلیم کے لیے خصوصی توجہ دی جائے اور ان کی محرومیوں پر بلا جواز عذر تراشیوں کے بہ جائے ان کے حقوق کو دل سے تسلیم کیا جائے۔
خواتین کا وہاں کی غیر ضروری روایات سے تھوڑا سا انحراف کر کے آگے بڑھنا ہی بہت بڑی فتح ہوتی ہے۔ ایسی ہی صورت حال افغانستان کی ہے جہاں کے پَس ماندہ معاشرے میں خواتین دقیانوسی اور فرسودہ رسومات اور روایات تلے بُری طرح جکڑی ہوئی ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ اسے اسلام سے نتھی کر کے دوام بخشا جاتا ہے، جب کہ ان کا تعلق سراسر علاقائی روایات سے ہوتا ہے۔
افغانستان میں مختلف جکڑ بندیوں میں قید خواتین کے لیے دارالحکومت کابل میں اپنے خیالات کو زبان دینے کے لیے ایک منصوبے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ جہاں وہ اپنے ارد گرد کی کہانیوں کو قلم بند کر سکتی ہیں۔ ایک غیر تعلیم یافتہ اور پس ماندہ معاشرے سے تعلق رکھنے والی ان خواتین کے رشحات قلم کی نوک پلک سنوارنے کے لیے اساتذہ اور ادیبوں کی ایک ٹیم بھی موجود ہے۔
''دی افغان ویمن رائیٹنگ پروجیکٹ'' کی طرف سے شروع کیے جانے والے اس سلسلے میں ان کی تحریریں ویب سائٹ پر بھی شایع کی جا رہی ہیں۔ بیس سالہ زہرہ بھی ان ہی کہانی کاروں میں سے ایک ہیں جنہیں اپنی تحریر کے ویب سائٹ تک رسائی پانے کی بہت خوشی ہے۔ ان کا تعلق ایک اَن پڑھ کسان خاندان سے ہے۔ جس نے اپنے خاندان اور برادری سے مختلف راستہ اپناتے ہوئے اپنے بچوں کی تعلیم پر بھرپور توجہ دی۔ زہرہ ایک یتیم خانے میں انگریزی کا مضمون پڑھاتی ہیں اور افغان لڑکیوں کی زندگی، تجربات اور ان کے مشاہدات کو اپنے قلم کے ذریعے زبان دیتی ہیں۔
افغانستان میں خواتین لکھاریوں کے اس منصوبے کا آغاز ایک امریکی خاتون صحافی ماشا ہیملٹن نے 2009ء میں کیا۔ وہ 1999ء میں پہلی مرتبہ کابل گئیں، جہاں انہوں نے افغان خواتین کی حالت زار دیکھی تو ان کی بہتری اور تعلیم وتربیت کے لیے یہ منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ شعور و بالیدگی کے منازل طے کرنے کے لیے لکھنا پڑھنا بنیادی چیز ہوتا ہے اور اس کام کے لیے بہ لحاظ جنس تفریق برتنا نہایت گھنائونا فعل ہے۔
خواتین کے اس اہم ترین پلیٹ فارم کے ذریعے توقع ہے کہ افغانستان میں خواتین کی شعور و خواندگی کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ خواتین جب اپنے خیالات کے حوالے سے تبادلہ خیال اور اسے دوسروں تک پہنچانے کے لیے الفاظ کی زبان دیں گی، تو اس بند معاشرے میں امید کے نئے چراغ روشن ہونے کی توقع ہے۔ تاہم افغانستان جیسے پس ماندہ ترین معاشرے میں ایک اجنبی زبان انگریزی کو اختیار کرنا خاصا عجیب فعل ہے۔ اگر یہ منصوبہ ان کی مادری زبانوں میں ہوتا تو یقیناً اس کی وسعت میں کہیں زیادہ اضافہ ہو سکتا تھا۔ بالخصوص ایک ایسے معاشرے میں جہاں ابھی تعلیم کے لیے بیج بوئے جانے ہوں، وہاں پہلے مرحلے میں ان کی اپنی زبان میں لکھنا پڑھنا سکھانا اول ترجیح ہونی چاہیے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ تین سالوں کے دوران اس منصوبے کا حصہ بننے والی خواتین کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس منصوبے سے منسلک 14 سے 45 سال تک کی لکھاری خواتین کی تعداد سو تک جا پہنچی ہے۔
افغانستان جیسے معاشرے میں ان سرگرمیوں میں شریک خواتین کو خطرات کا سامنا بھی رہتا ہے۔ اس منصوبے میں ایک ایسی لکھاری خاتون بھی شامل ہیں جو لوگوں سے چھپ کر لکھتی ہیں، جنہیں صرف انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے چار گھنٹے کی پیدل مسافت طے کرنا پڑتی تھی۔اس منصوبے کے پانچویں برس اس مقصد کے لیے کابل میں ایک عمارت کا انتظام بھی کر دیا گیا ہے۔
چوں کہ یہ منصوبہ ایک امریکی خاتون نے شروع کیا ہے اس لیے بہت سے لوگوں کو اس پر اعتراضات ہیں۔ ان تحفظات سے قطعہ نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی معاشرے میں غیر ضروری طور پر اتنی بندشیں لگا دی جائیں گی تو پھر لامحالہ اس ہی طرح کے منصوبے شروع ہوتے ہیں۔ اگر خواتین کو تعلیم اور لکھنے پڑھنے کی آزادی میسر ہو تو کسی کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی غیر ملکی سہولت سے استفادہ کرے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ملک میں بھی خواتین کی خواندگی اور تعلیم کے لیے خصوصی توجہ دی جائے اور ان کی محرومیوں پر بلا جواز عذر تراشیوں کے بہ جائے ان کے حقوق کو دل سے تسلیم کیا جائے۔