غریب طبقے پر بالواسطہ ٹیکس
ٹیکس کی مجموعی وصولی میں بالواسطہ ٹیکسوں کا تناسب،ایف بی آر کی جانب سے وصول کیے جانے والے ٹیکس کا لگ بھگ55 فیصد ہے۔
اگر قومی اسمبلی نے فنانس بل کو منظور بھی کرلیا تو بجٹ2018-19ء کے دو اہم پہلو متنازع رہیں گے۔
ان دو پہلوؤں کی تفصیل اس طرح ہے۔ پاکستانیوں کے غیرملکی زرمبادلہ کے کھاتوں کو، خواہ وہ ملک کے اندر ہیں یا باہر، زیادہ سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے کے بعد سفیدکرنے کی اسکیم اور متوسط طبقے کو بڑے پیمانے پر دی جانیوالی رعایت، جس کے ذریعے سالانہ آمدنی پر استثنا کی سطح 400,000 روپے سے بڑھا کر 1.2 ملین روپے کر دی گئی ہے۔
ایف بی آر نے از سر نو غورکے بعد400,000روپے سے زیادہ آمدنی پر کم سے کم فلیٹ ٹیکس عائد کیا۔ یہ فیصلہ اُن ٹیکس دہندگان کو ٹیکس گوشوارے جمع کرانیوالوں کی فہرست میں رکھنے کے لیے کیا گیا جو 400,000 روپے سے زیادہ آمدنی کی درجہ بندی میں آتے ہیں۔
ماضی میں ٹیکس دہندگان کو اپنا دھن سفید کرنے کی ترغیب دینے کے لیے متعدد کوششیں کی گئیں۔سب سے بڑی کوشش ڈاکٹر محبوب الحق کی طرف سے '' وائٹنر بونڈ'' متعارف کراتے ہوئے کی گئی تھی،جو بہت کم کامیاب ہو پائی۔ مجھے اسٹیٹ بینک بلڈنگ میں کراچی کے کاروباری حضرات کے ساتھ ڈاکٹر محبوب الحق کی ایک ملاقات یاد آ رہی ہے جو انھیں یہ بتانے کے لیے ہوئی تھی کہ اپنا سارا کالا دھن سامنے لانے کے لیے یہ آخری موقع ہے۔
ایک بے باک اور کھری بات کرنیوالے بزنس مین نے انھیں صاف صاف بتایا کہ صنعت کاروں سے یہ توقع نہ رکھی جائے کہ وہ ان کی اسکیم کے جواب میں اپنا تمام کالا دھن ظاہر کردیں گے۔ اس کاروباری شخصیت نے وضاحت کی کہ جب سرکاری حکام سے ان کا واسطہ پڑتا ہے تو انھیں ٹیکس کے محکمے سے لے کر سول ڈیفنس انسپکٹر تک، ہر کسی کو رشوت اور فائل آگے بڑھانے کے لیے رقم دینی پڑتی ہے، جوکھاتوں میں ظاہر نہیں کی جا سکتی۔متوسط طبقات کو دی جانے والی ٹیکس کی رعایت ایک اچھا اقدام ہے حالانکہ اس سے قومی خزانے پر 90 سے 100 بلین روپے کا بوجھ پڑے گا۔
یہاں مجھے90ء کی دہائی کا ایک اور واقعہ یاد آ گیا، جب وی اے جعفری پی پی پی حکومت میں وزیر اعظم کے مشیر خزانہ تھے۔انھوں نے معیشت پر لکھنے والے چنیدہ لوگوں کو بجٹ سے قبل بریفنگ دی اور ہمیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ بجٹ میں جو ٹیکس تجویزکرنا چاہتے ہیں انھیں قبول کیا جائے۔
انھوں نے کینیڈا اور اسکینڈے نیویا کے ممالک کی مثال دی جہاں ٹیکس کی شرح پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔اس پر میں نے کہا کہ آپ پاکستان کے لوگوں سے یہ قبول کرنے کی امید نہیں کر سکتے،کیونکہ پاکستان میں روزانہ وہ لوگ ،جن کے وسائل ہیں اپنے بچوں کی تعلیم، اپنی ریٹائر منٹ، صحت کے اخراجات اور بیروزگاری کی مدت کی انشورنس لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جعفری صاحب نے میری بات سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ''پاکستان میں انشورنس کرانے والوں کی تعداد صرف ایک فیصد ہے۔''
میں نے وضاحت کی کہ میں اصل انشورنس پالیسیوں کی بات نہیں کر رہا بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر لوگوں کے پاس وسائل ہیں تو وہ مذکورہ بالا اخراجات کے لیے پیسہ بچاتے ہیں کیونکہ سرکاری اسکول بہتر تعلیم فراہم نہیں کرتے اور سرکاری اسپتالوں میں اچھا علاج نہیں ہوتا۔کسی بھی معاملے میں سرکاری سہولتیں تمام شہریوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں ۔بڑھاپے میں حکومت کوئی پنشن اور کسی قسم کا بیروزگاری الاؤنس نہیں دیتی۔
اگر لوگ دیانت داری سے ٹیکس دیتے ہیں تو حکومت کو بھی یہ بات یقینی بنانی چاہیے کہ اسے ٹیکس سے جو پیسہ ملتا ہے وہ احتیاط اور سمجھداری کے ساتھ لوگوں کی سماجی بھلائی پر خرچ کرے۔ سوشل ڈیموکریسی میں رہنے والوں کو زیادہ ٹیکس برے نہیں لگتے کیونکہ ریاست کی طرف سے ان کی مذکورہ بالا ضروریات پوری کی جاتی ہیں اور یوٹیلٹی بلز بھی کم رکھے جاتے ہیں، اگر ان کے پاس رہنے کو گھر نہیں ہوتا تو انھیں کونسل ہاؤسز فراہم کیے جاتے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان میں، غریبوں کی بستیاں ہوں یا امیر لوگوں کے علاقے، لوگوں کو پانی جیسی بنیادی ضرورت بھی خریدنا پڑتی ہے۔ بجلی کی سپلائی میں تواترکے ساتھ تعطل پیدا ہوتا ہے، اس لیے متبادل ذرایع کا انتظام کرنا ہوگا۔امن وامان کی حالت خراب ہے، لہٰذا نجی محافظ رکھنا پڑتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے البتہ اس ضمن میں پنجاب میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے۔
دوسری طرف ٹیکس دہندگان، سرکاری افسروں اور نام نہاد وی آئی پیزکو دی جانے والی مہنگی گاڑیاں دیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایوان وزیراعظم اور ایوانِ صدرکے شاہانہ اخراجات کو نصف سے بھی کم کیا جا سکتا ہے تاکہ ٹیکس دہندگان کو بتایا جاسکے کہ خود حکومت بھی اپنا ہاتھ کھینچ رہی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے کفایت شعاری کے بعض اقدامات کیے تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ فوجی جرنیلوں سمیت سرکاری افسروں کو مہنگی گاڑیوں کی بجائے صرف سوزوکی800 استعمال کرنی چاہیے۔ سول اور ملٹری بیوروکریسی اور وزیروں نے اس کوشش کا برا منایا تھا۔
کراچی میں جب دہشتگردوں کی طرف سے مہران ائر بیس پر حملہ کیا گیا،تو اس کے بعد لوگوں نے بحریہ کے سربراہ کو چمچماتی ہوئی سیون سیریزBMW میں وہاں آتے ہوئے دیکھا۔دوسری طرف میں نے بھارت کی بحریہ اور فضائیہ کے سربراہوں کی سرکاری کاروں کو بھی دیکھا ہے جو سوزوکی لیانا کے برابر ہیں۔سینئر پولیس افسر لینڈ کروزرز جیسی مہنگی SUV's میں اپنے دفتر جاتے ہیں۔عدلیہ کو حکومت کی شاہ خرچیوں کا آڈٹ کرتے ہوئے، اسے پہلے اپنے اخراجات اور مراعات کو کم کرنا چاہیے۔
غلط طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ پاکستان میں صرف1.2 ملین لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ دراصل یہ ان لوگوں کی تعداد ہے جو براہ راست انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس ٹیکس میں سے بھی 68 فیصد پیشگی انکم ٹیکس نظام کے ذریعے وصول کیا جاتا ہے۔ اس کیٹگری میں آنیوالے ٹیکس دہندگان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملازمین یا وینڈرز سے ایڈوانس انکم ٹیکس وصول کر کے جمع کرائیں۔
اس سے ایسے بزنسز کی کاروباری لاگت بڑھتی ہے جو ٹیکس ادا کرتے ہیں کیوں کہ انھیں ایف بی آر کی ٹیکس وصولی کی مہم کا ساتھ دینے کے لیے، اپنی کاروباری وسعت کے لحاظ سے الگ عملہ ملازم رکھنا پڑتا ہے۔اس کے علاوہ تقریباً ہر شخص اپنے استعمال کی اشیا اور خدمات پر جنرل سیلز ٹیکس ادا کر رہا ہے،جو قومی خزانے کے لیے محاصل کا دوسرا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
بنیادی طور پر یہ user tax ہے، جسے وہ لوگ بھی ادا کرتے ہیں جن کی آّمدنی انتہائی کم ہے۔ موبائل سروسز کی مثال لیجیے جسے اب کم آمدنی والے گروپ بھی استعمال کرتے ہیں، اگر وہ ماہانہ 500 روپے کا کریڈٹ ڈالتے ہیں تو انھیں اس رقم میں سے 25 فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جو سالانہ1500 روپے بنتا ہے۔یہ کم سے کم ہے۔پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس35-37 فیصد ہے۔یہ بھی user tax ہے جو ہر کوئی اپنی کھپت کیمطابق ادا کرتا ہے۔غریب آدمی اسے پبلک ٹرانسپورٹ کے زیادہ کرایوں کی شکل میں اور امیر آدمی اپنی مہنگیSUVs کے لیے ایندھن خریدتے وقت ادا کرتا ہے۔
سچ بات یہ ہے کہ ٹیکس کی مجموعی وصولی میں بالواسطہ ٹیکسوں کا تناسب،ایف بی آر کی جانب سے وصول کیے جانے والے ٹیکس ریونیو کا لگ بھگ55 فیصد ہے۔اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟یہ کہ اگر ٹیکس بالواسطہ اور قطعی ہوں تو لوگ انھیں بخوشی ادا کرتے ہیں، اس طرح وہ ایف بی آر کے ساتھ براہ راست رابطے میں نہیں آتے کیوں کہ انھیں ٹیکس حکام کی جانب سے ہراساں کیے جانے کا خوف ہوتا ہے۔
ان دو پہلوؤں کی تفصیل اس طرح ہے۔ پاکستانیوں کے غیرملکی زرمبادلہ کے کھاتوں کو، خواہ وہ ملک کے اندر ہیں یا باہر، زیادہ سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے کے بعد سفیدکرنے کی اسکیم اور متوسط طبقے کو بڑے پیمانے پر دی جانیوالی رعایت، جس کے ذریعے سالانہ آمدنی پر استثنا کی سطح 400,000 روپے سے بڑھا کر 1.2 ملین روپے کر دی گئی ہے۔
ایف بی آر نے از سر نو غورکے بعد400,000روپے سے زیادہ آمدنی پر کم سے کم فلیٹ ٹیکس عائد کیا۔ یہ فیصلہ اُن ٹیکس دہندگان کو ٹیکس گوشوارے جمع کرانیوالوں کی فہرست میں رکھنے کے لیے کیا گیا جو 400,000 روپے سے زیادہ آمدنی کی درجہ بندی میں آتے ہیں۔
ماضی میں ٹیکس دہندگان کو اپنا دھن سفید کرنے کی ترغیب دینے کے لیے متعدد کوششیں کی گئیں۔سب سے بڑی کوشش ڈاکٹر محبوب الحق کی طرف سے '' وائٹنر بونڈ'' متعارف کراتے ہوئے کی گئی تھی،جو بہت کم کامیاب ہو پائی۔ مجھے اسٹیٹ بینک بلڈنگ میں کراچی کے کاروباری حضرات کے ساتھ ڈاکٹر محبوب الحق کی ایک ملاقات یاد آ رہی ہے جو انھیں یہ بتانے کے لیے ہوئی تھی کہ اپنا سارا کالا دھن سامنے لانے کے لیے یہ آخری موقع ہے۔
ایک بے باک اور کھری بات کرنیوالے بزنس مین نے انھیں صاف صاف بتایا کہ صنعت کاروں سے یہ توقع نہ رکھی جائے کہ وہ ان کی اسکیم کے جواب میں اپنا تمام کالا دھن ظاہر کردیں گے۔ اس کاروباری شخصیت نے وضاحت کی کہ جب سرکاری حکام سے ان کا واسطہ پڑتا ہے تو انھیں ٹیکس کے محکمے سے لے کر سول ڈیفنس انسپکٹر تک، ہر کسی کو رشوت اور فائل آگے بڑھانے کے لیے رقم دینی پڑتی ہے، جوکھاتوں میں ظاہر نہیں کی جا سکتی۔متوسط طبقات کو دی جانے والی ٹیکس کی رعایت ایک اچھا اقدام ہے حالانکہ اس سے قومی خزانے پر 90 سے 100 بلین روپے کا بوجھ پڑے گا۔
یہاں مجھے90ء کی دہائی کا ایک اور واقعہ یاد آ گیا، جب وی اے جعفری پی پی پی حکومت میں وزیر اعظم کے مشیر خزانہ تھے۔انھوں نے معیشت پر لکھنے والے چنیدہ لوگوں کو بجٹ سے قبل بریفنگ دی اور ہمیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ بجٹ میں جو ٹیکس تجویزکرنا چاہتے ہیں انھیں قبول کیا جائے۔
انھوں نے کینیڈا اور اسکینڈے نیویا کے ممالک کی مثال دی جہاں ٹیکس کی شرح پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔اس پر میں نے کہا کہ آپ پاکستان کے لوگوں سے یہ قبول کرنے کی امید نہیں کر سکتے،کیونکہ پاکستان میں روزانہ وہ لوگ ،جن کے وسائل ہیں اپنے بچوں کی تعلیم، اپنی ریٹائر منٹ، صحت کے اخراجات اور بیروزگاری کی مدت کی انشورنس لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جعفری صاحب نے میری بات سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ''پاکستان میں انشورنس کرانے والوں کی تعداد صرف ایک فیصد ہے۔''
میں نے وضاحت کی کہ میں اصل انشورنس پالیسیوں کی بات نہیں کر رہا بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر لوگوں کے پاس وسائل ہیں تو وہ مذکورہ بالا اخراجات کے لیے پیسہ بچاتے ہیں کیونکہ سرکاری اسکول بہتر تعلیم فراہم نہیں کرتے اور سرکاری اسپتالوں میں اچھا علاج نہیں ہوتا۔کسی بھی معاملے میں سرکاری سہولتیں تمام شہریوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں ۔بڑھاپے میں حکومت کوئی پنشن اور کسی قسم کا بیروزگاری الاؤنس نہیں دیتی۔
اگر لوگ دیانت داری سے ٹیکس دیتے ہیں تو حکومت کو بھی یہ بات یقینی بنانی چاہیے کہ اسے ٹیکس سے جو پیسہ ملتا ہے وہ احتیاط اور سمجھداری کے ساتھ لوگوں کی سماجی بھلائی پر خرچ کرے۔ سوشل ڈیموکریسی میں رہنے والوں کو زیادہ ٹیکس برے نہیں لگتے کیونکہ ریاست کی طرف سے ان کی مذکورہ بالا ضروریات پوری کی جاتی ہیں اور یوٹیلٹی بلز بھی کم رکھے جاتے ہیں، اگر ان کے پاس رہنے کو گھر نہیں ہوتا تو انھیں کونسل ہاؤسز فراہم کیے جاتے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان میں، غریبوں کی بستیاں ہوں یا امیر لوگوں کے علاقے، لوگوں کو پانی جیسی بنیادی ضرورت بھی خریدنا پڑتی ہے۔ بجلی کی سپلائی میں تواترکے ساتھ تعطل پیدا ہوتا ہے، اس لیے متبادل ذرایع کا انتظام کرنا ہوگا۔امن وامان کی حالت خراب ہے، لہٰذا نجی محافظ رکھنا پڑتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے البتہ اس ضمن میں پنجاب میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے۔
دوسری طرف ٹیکس دہندگان، سرکاری افسروں اور نام نہاد وی آئی پیزکو دی جانے والی مہنگی گاڑیاں دیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایوان وزیراعظم اور ایوانِ صدرکے شاہانہ اخراجات کو نصف سے بھی کم کیا جا سکتا ہے تاکہ ٹیکس دہندگان کو بتایا جاسکے کہ خود حکومت بھی اپنا ہاتھ کھینچ رہی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے کفایت شعاری کے بعض اقدامات کیے تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ فوجی جرنیلوں سمیت سرکاری افسروں کو مہنگی گاڑیوں کی بجائے صرف سوزوکی800 استعمال کرنی چاہیے۔ سول اور ملٹری بیوروکریسی اور وزیروں نے اس کوشش کا برا منایا تھا۔
کراچی میں جب دہشتگردوں کی طرف سے مہران ائر بیس پر حملہ کیا گیا،تو اس کے بعد لوگوں نے بحریہ کے سربراہ کو چمچماتی ہوئی سیون سیریزBMW میں وہاں آتے ہوئے دیکھا۔دوسری طرف میں نے بھارت کی بحریہ اور فضائیہ کے سربراہوں کی سرکاری کاروں کو بھی دیکھا ہے جو سوزوکی لیانا کے برابر ہیں۔سینئر پولیس افسر لینڈ کروزرز جیسی مہنگی SUV's میں اپنے دفتر جاتے ہیں۔عدلیہ کو حکومت کی شاہ خرچیوں کا آڈٹ کرتے ہوئے، اسے پہلے اپنے اخراجات اور مراعات کو کم کرنا چاہیے۔
غلط طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ پاکستان میں صرف1.2 ملین لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ دراصل یہ ان لوگوں کی تعداد ہے جو براہ راست انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس ٹیکس میں سے بھی 68 فیصد پیشگی انکم ٹیکس نظام کے ذریعے وصول کیا جاتا ہے۔ اس کیٹگری میں آنیوالے ٹیکس دہندگان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملازمین یا وینڈرز سے ایڈوانس انکم ٹیکس وصول کر کے جمع کرائیں۔
اس سے ایسے بزنسز کی کاروباری لاگت بڑھتی ہے جو ٹیکس ادا کرتے ہیں کیوں کہ انھیں ایف بی آر کی ٹیکس وصولی کی مہم کا ساتھ دینے کے لیے، اپنی کاروباری وسعت کے لحاظ سے الگ عملہ ملازم رکھنا پڑتا ہے۔اس کے علاوہ تقریباً ہر شخص اپنے استعمال کی اشیا اور خدمات پر جنرل سیلز ٹیکس ادا کر رہا ہے،جو قومی خزانے کے لیے محاصل کا دوسرا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
بنیادی طور پر یہ user tax ہے، جسے وہ لوگ بھی ادا کرتے ہیں جن کی آّمدنی انتہائی کم ہے۔ موبائل سروسز کی مثال لیجیے جسے اب کم آمدنی والے گروپ بھی استعمال کرتے ہیں، اگر وہ ماہانہ 500 روپے کا کریڈٹ ڈالتے ہیں تو انھیں اس رقم میں سے 25 فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جو سالانہ1500 روپے بنتا ہے۔یہ کم سے کم ہے۔پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس35-37 فیصد ہے۔یہ بھی user tax ہے جو ہر کوئی اپنی کھپت کیمطابق ادا کرتا ہے۔غریب آدمی اسے پبلک ٹرانسپورٹ کے زیادہ کرایوں کی شکل میں اور امیر آدمی اپنی مہنگیSUVs کے لیے ایندھن خریدتے وقت ادا کرتا ہے۔
سچ بات یہ ہے کہ ٹیکس کی مجموعی وصولی میں بالواسطہ ٹیکسوں کا تناسب،ایف بی آر کی جانب سے وصول کیے جانے والے ٹیکس ریونیو کا لگ بھگ55 فیصد ہے۔اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟یہ کہ اگر ٹیکس بالواسطہ اور قطعی ہوں تو لوگ انھیں بخوشی ادا کرتے ہیں، اس طرح وہ ایف بی آر کے ساتھ براہ راست رابطے میں نہیں آتے کیوں کہ انھیں ٹیکس حکام کی جانب سے ہراساں کیے جانے کا خوف ہوتا ہے۔