لارڈز کا میدان ایک بار پھر پاکستان ٹیم کا منتظر
ناتجربہ کار کرکٹرز گزشتہ سیریز کی کارکردگی دہراپائیں گے؟
میرا ایک سابق ٹیسٹ کرکٹر دوست بتا رہا تھا کہ پاکستانی ٹیم کی قسمت اچھی تھی کہ وہ آئرلینڈ کے خلاف تقریباً ہارا ہوا میچ جیت گئی، میزبان سائیڈ کی جگہ کوئی بھی اور ٹیم ہوتی تو گرین کیپس کی شکست یقینی تھی، اب تم خود ہی بتاؤ کہ فالوآن کی وجہ سے مسلسل 13گھنٹے بولنگ کے بعد جب پاکستان کی بیٹنگ آئی بھی تو میچ کی چوتھی اننگز میں صرف 14 کے سکور پر ہی 3 کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے۔
160 کے تعاقب میں پہلی وکٹیں جس رفتار سے گریں، بعید نہیں تھا کہ میچ کی صورتحال پاکستان کو شکست خوردہ ذہنیت کی طرف لے جاتی۔فالو آن کروانے کے بعد ایسی صورتحال میں آ جانا خاصا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جب سرفراز نے آئرلینڈ پہ پریشر ڈالنے کے لیے فالو آن کروانے کا فیصلہ کیا تھا، تب کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ صرف 47 اوورز میں ہی ڈھیر ہوجانے والی ٹیم دوسری اننگز میں شیر ہوجائے گی، وہی پریشر پلٹ کر سرفراز الیون پر آجائے گا۔
جب پہلی اننگز میں ہی واضح دکھائی دے رہا تھا کہ محمد عامر مکمل فٹ نہیں ہیں، تو کیسے یہ سوچ لیا گیا کہ بلا توقف دوبارہ بولنگ شروع کر دی جائے؟اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، پہلی اننگز کے انہدام کے بعد آئرلینڈ کا اعتماد تو نہیں ڈوبا، البتہ محمد عامر کی انجری میں شدت ضرور آ گئی۔ کیسے یہ ممکن ہو گیا کہ اپنی زندگی کا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے 11 کھلاڑی ایک دم اتنے پراعتماد ہو گئے کہ فالو آن کی خفت اٹھانے کے بعد میچ جیتنے کی پوزیشن میں آ گئے؟
کہا جاتا ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ صبر اور تحمل کا کام ہے، اندھا دھند جارحیت کا نہیں۔ جب کسی میں بھی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی آ جائے تو پھر یہی ہوتا ہے جو ڈبلن میں پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہوا۔پاکستان کے لیے یہ میچ انگلینڈ کی سیریز سے پہلے گویا وارم اپ تھا، اعتماد کی بحالی کا موقع تھا۔ بالآخر پاکستان یہ میچ جیت بھی گیا لیکن یہ جیت ایسی نہیں تھی کہ جس پر فخر کیا جا سکے۔
پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز سے پہلے لیسٹرشائر کاؤنٹی کے خلاف پریکٹس میچ کا آغاز کر دیا ہے، ٹیم منیجمنٹ نے اس میچ میں نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔پاکستان کے تجربہ کار بیٹسمین اظہر علی جو آئرلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ میں زیادہ عمدہ کا کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے تھے، وہ بھی یہ میچ کھیل رہے ہیں۔
نوجوان بیٹسمین عثمان صلاح الدین اور سعد علی بھی حتمی سکواڈ کا حصہ ہیں تاہم آئرلینڈ کے خلاف دوسری اننگز میں طوفانی بیٹنگ کرنے والے امام الحق کو اس میچ میں آرام دیا گیا ہے۔نوجوان بیٹسمین سمیع اسلم کو ون ڈاؤن پوزیشن پر پر کھلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سمیع اسلم نے دو برس پہلے انگلینڈ میں ہونے والی سیریز میں بطور اوپنر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن اس کے بعد وہ ٹیم اپنی جگہ برقرار نہ رکھ سکے تھے، گزشتہ روز بھی ناکام رہے،فخرزمان اور اظہر علی نے فارم کا ثبوت دے دیا۔
ادھر انگلینڈ نے بھی پاکستان کے خلاف24 مئی سے شیڈول سیریز کا پہلا ٹیسٹ اپنے نام کرنے کی تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں،لارڈز ٹیسٹ کے لیے 12رکنی سکواڈ کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے جس میں معین علی کی جگہ ڈومینک بیس کو پہلی مرتبہ انگلش سکواڈ میں شامل کیا گیا ہے۔20سالہ ڈومینک بیس 16فرسٹ کلاس میچز کا تجربہ رکھتے ہیں اور انہوں نے کاؤنٹی چیمپئن شپ میں ایسکس کے خلاف ایم سی سی کی نمائندگی کرتے ہوئے 8 وکٹیں لینے کے ساتھ سنچری بنا کر اپنی ٹیم کی کاؤنٹی چیمپئن کے خلاف فتح میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
انگلینڈ کے کپتان جو روٹ نے بیٹنگ لائن کو استحکام فراہم کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں نمبر 4 کے بجائے دوبارہ سے 3نمبر پر بیٹنگ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔روٹ نے یہ فیصلہ بیٹنگ لائن میں مستقل مزاجی کی کمی اور مسلسل ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے کیا ہے جہاں انگلینڈ کو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلے گئے 7 میں سے 5 میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
روٹ اس سے قبل نمبر 3 پر 31اننگز کھیل چکے ہیں جہاں انہوں نے 2016 میں پاکستان کے خلاف اسی نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے اپنے کیریئر کی بہترین 254 رنز کی اننگز کھیلی تھی، جب گزشتہ سیزن کے آغاز میں روٹ کو قیادت سونپی گئی تو انہوں نے اپنا نمبر تبدیل کرتے ہوئے نمبر 4 پر بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور نمبر3 پر گیری بیلنس، ٹام ویسٹلے اور جیمز ونس کو آزمایا گیا لیکن یہ تینوں ناکامیوں سے دوچار ہوئے اور انگلش بیٹنگ لائن کو بھی اس تمام عرصے میں مستقل مزاجی کی کمی کا سامنا رہا۔
انگلش کپتان روٹ کا کہنا ہے کہ یہ میرے لیے مزید ذمہ داریاں اٹھانے کا وقت ہے، میں ایک سال سے ٹیم کی قیادت کر رہا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ یہ قدم اٹھانے کے لیے میں نے مناسب تجربہ حاصل کر لیا ہے، ایک کپتان کی حیثیت سے مجھے ذمہ داری اٹھانا ہو گی اور اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ جب میں بیٹنگ کے لیے میدان میں اتروں تو میری پوری توجہ اسی پر ہو اور میری کوشش ہو گی کہ اس سیزن میں اس پوزیشن پر زیادہ سے زیادہ رنز کر سکوں۔
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان اب تک ہونے والی ٹیسٹ سیریز کا جائزہ لیا جائے تو دونوں ٹیموں کے درمیان اب تک 81 میچز کھیلے جا چکے ہیں، پاکستان نے 20 ٹیسٹ جیتے، 24ہارے جبکہ 37 مقابلے برابری کی سطح پر ختم ہوئے۔ پاکستان نے اپنی ملکی سرزمین پر 1961ء سے 2005ء تک 24 میچز کھیلے، 4میں فتح حاصل کی ، 2میں ناکامی کا سامنا رہا جبکہ 8 میچز برابری ڈرا رہے۔
پاکستان نے انگلینڈ میں انگلینڈ کے خلاف 1954ء سے2016ء تک 51 میچزمیں حصہ لیا، 11میں کامیابی سمیٹی، 22 میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ 18میچز برابر رہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان نیوٹرل مقام پر پاکستانی ٹیم کا پلڑا خاصا بھاری رہا ہے، 2012ء سے 2015ء تک کے درمیان دونوں ٹیموں کے درمیان 6 میچز کھیلے گئے، مصباح الحق کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے5میں کامیابی اپنے نام کی جبکہ ایک میچ ڈرا رہا ۔
دونوں ٹیموں کے درمیان24 مئی سے شروع ہونے والی ٹیسٹ سیریز کا موازنہ کیا جائے تو 2016ء کی طرح پاکستانی ٹیم کو اب نہ تو مصباح الحق کی خدمات حاصل ہیں اور نہ ہی یونس خان اورلیگ سپنر یاسر شاہ ٹیم میں موجود ہیں، مشکوک بولنگ ایکشن کے باعث سعید اجمل پر پابندی لگنے کے بعد سے یاسر شاہ پاکستان ٹیم کا مستقل حصہ رہے،موجودہ دورے کے دوران بس ایک سپنر شاداب خان پر ہی زیادہ انحصار کیا جا رہا ہے۔ پیسر محمد عامر بھی فٹنس مسائل کا شکار ہیں اور ان کی لارڈز ٹیسٹ میں شرکت پر بھی تاحال سوالیہ نشان ہے۔
اگر انگلینڈ کی ٹیسٹ مقابلوں میں حالیہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو میزبان سائیڈ نے بھی اپنے شائقین کو خاصا مایوس کیا ہے، انگلینڈ نے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف مجموعی طور پر7 ٹیسٹ میچز کھیلے، 5ہارے جبکہ 2مقابلے برابری کی سطح پر ختم ہوئے۔ آسٹریلیا نے انگلینڈ کو5 ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں 4-0 سے شکست دی تھی جبکہ نیوزی لینڈ نے 1-0 سے زیر کیا تھا۔ اس سے قبل انگلینڈ کو لیڈز کے میدان میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
ان نتائج سے بظاہر محسوس ہو رہا ہے کہ دونوں ٹیمیں ہم پلہ ہیں، کوئی بھی ٹیم غیر معمولی کارکردگی دکھا کر نتائج اپنے حق میں کر سکتی ہے، 2016میں لارڈز کے میدان پر فتح کے جھنڈے گاڑھ کر پاکستان نے دورہ انگلینڈ کا شاندار آغاز کیاتھا،کپتان مصباح الحق کی سنچری اور یاسر شاہ کی 10وکٹوں کی بدولت حاصل ہونے والی 75رنز سے جیت کے بعد قومی کرکٹرز کے پش اپس اور پاک فوج کو سیلیوٹ شائقین آج بھی یاد کرتے ہیں۔
اسی سیریز کو 2-2سے برابر کرتے ہوئے پاکستان نے اپنی تاریخ میں پہلی بار ٹیسٹ کرکٹ میں عالمی نمبر ون ہونے کا اعزاز پایا تھا، گزشتہ دورے کی خوشگوار یادوں کے ساتھ پاکستان ٹیم کو اپنا عزم جوان اور حواس قابو میں رکھتے ہوئے انگلش ٹیم کا ڈٹ کرمقابلہ کرنا ہوگا۔
160 کے تعاقب میں پہلی وکٹیں جس رفتار سے گریں، بعید نہیں تھا کہ میچ کی صورتحال پاکستان کو شکست خوردہ ذہنیت کی طرف لے جاتی۔فالو آن کروانے کے بعد ایسی صورتحال میں آ جانا خاصا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جب سرفراز نے آئرلینڈ پہ پریشر ڈالنے کے لیے فالو آن کروانے کا فیصلہ کیا تھا، تب کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ صرف 47 اوورز میں ہی ڈھیر ہوجانے والی ٹیم دوسری اننگز میں شیر ہوجائے گی، وہی پریشر پلٹ کر سرفراز الیون پر آجائے گا۔
جب پہلی اننگز میں ہی واضح دکھائی دے رہا تھا کہ محمد عامر مکمل فٹ نہیں ہیں، تو کیسے یہ سوچ لیا گیا کہ بلا توقف دوبارہ بولنگ شروع کر دی جائے؟اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، پہلی اننگز کے انہدام کے بعد آئرلینڈ کا اعتماد تو نہیں ڈوبا، البتہ محمد عامر کی انجری میں شدت ضرور آ گئی۔ کیسے یہ ممکن ہو گیا کہ اپنی زندگی کا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے 11 کھلاڑی ایک دم اتنے پراعتماد ہو گئے کہ فالو آن کی خفت اٹھانے کے بعد میچ جیتنے کی پوزیشن میں آ گئے؟
کہا جاتا ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ صبر اور تحمل کا کام ہے، اندھا دھند جارحیت کا نہیں۔ جب کسی میں بھی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی آ جائے تو پھر یہی ہوتا ہے جو ڈبلن میں پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہوا۔پاکستان کے لیے یہ میچ انگلینڈ کی سیریز سے پہلے گویا وارم اپ تھا، اعتماد کی بحالی کا موقع تھا۔ بالآخر پاکستان یہ میچ جیت بھی گیا لیکن یہ جیت ایسی نہیں تھی کہ جس پر فخر کیا جا سکے۔
پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز سے پہلے لیسٹرشائر کاؤنٹی کے خلاف پریکٹس میچ کا آغاز کر دیا ہے، ٹیم منیجمنٹ نے اس میچ میں نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔پاکستان کے تجربہ کار بیٹسمین اظہر علی جو آئرلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ میں زیادہ عمدہ کا کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے تھے، وہ بھی یہ میچ کھیل رہے ہیں۔
نوجوان بیٹسمین عثمان صلاح الدین اور سعد علی بھی حتمی سکواڈ کا حصہ ہیں تاہم آئرلینڈ کے خلاف دوسری اننگز میں طوفانی بیٹنگ کرنے والے امام الحق کو اس میچ میں آرام دیا گیا ہے۔نوجوان بیٹسمین سمیع اسلم کو ون ڈاؤن پوزیشن پر پر کھلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سمیع اسلم نے دو برس پہلے انگلینڈ میں ہونے والی سیریز میں بطور اوپنر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن اس کے بعد وہ ٹیم اپنی جگہ برقرار نہ رکھ سکے تھے، گزشتہ روز بھی ناکام رہے،فخرزمان اور اظہر علی نے فارم کا ثبوت دے دیا۔
ادھر انگلینڈ نے بھی پاکستان کے خلاف24 مئی سے شیڈول سیریز کا پہلا ٹیسٹ اپنے نام کرنے کی تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں،لارڈز ٹیسٹ کے لیے 12رکنی سکواڈ کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے جس میں معین علی کی جگہ ڈومینک بیس کو پہلی مرتبہ انگلش سکواڈ میں شامل کیا گیا ہے۔20سالہ ڈومینک بیس 16فرسٹ کلاس میچز کا تجربہ رکھتے ہیں اور انہوں نے کاؤنٹی چیمپئن شپ میں ایسکس کے خلاف ایم سی سی کی نمائندگی کرتے ہوئے 8 وکٹیں لینے کے ساتھ سنچری بنا کر اپنی ٹیم کی کاؤنٹی چیمپئن کے خلاف فتح میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
انگلینڈ کے کپتان جو روٹ نے بیٹنگ لائن کو استحکام فراہم کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں نمبر 4 کے بجائے دوبارہ سے 3نمبر پر بیٹنگ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔روٹ نے یہ فیصلہ بیٹنگ لائن میں مستقل مزاجی کی کمی اور مسلسل ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے کیا ہے جہاں انگلینڈ کو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلے گئے 7 میں سے 5 میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
روٹ اس سے قبل نمبر 3 پر 31اننگز کھیل چکے ہیں جہاں انہوں نے 2016 میں پاکستان کے خلاف اسی نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے اپنے کیریئر کی بہترین 254 رنز کی اننگز کھیلی تھی، جب گزشتہ سیزن کے آغاز میں روٹ کو قیادت سونپی گئی تو انہوں نے اپنا نمبر تبدیل کرتے ہوئے نمبر 4 پر بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور نمبر3 پر گیری بیلنس، ٹام ویسٹلے اور جیمز ونس کو آزمایا گیا لیکن یہ تینوں ناکامیوں سے دوچار ہوئے اور انگلش بیٹنگ لائن کو بھی اس تمام عرصے میں مستقل مزاجی کی کمی کا سامنا رہا۔
انگلش کپتان روٹ کا کہنا ہے کہ یہ میرے لیے مزید ذمہ داریاں اٹھانے کا وقت ہے، میں ایک سال سے ٹیم کی قیادت کر رہا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ یہ قدم اٹھانے کے لیے میں نے مناسب تجربہ حاصل کر لیا ہے، ایک کپتان کی حیثیت سے مجھے ذمہ داری اٹھانا ہو گی اور اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ جب میں بیٹنگ کے لیے میدان میں اتروں تو میری پوری توجہ اسی پر ہو اور میری کوشش ہو گی کہ اس سیزن میں اس پوزیشن پر زیادہ سے زیادہ رنز کر سکوں۔
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان اب تک ہونے والی ٹیسٹ سیریز کا جائزہ لیا جائے تو دونوں ٹیموں کے درمیان اب تک 81 میچز کھیلے جا چکے ہیں، پاکستان نے 20 ٹیسٹ جیتے، 24ہارے جبکہ 37 مقابلے برابری کی سطح پر ختم ہوئے۔ پاکستان نے اپنی ملکی سرزمین پر 1961ء سے 2005ء تک 24 میچز کھیلے، 4میں فتح حاصل کی ، 2میں ناکامی کا سامنا رہا جبکہ 8 میچز برابری ڈرا رہے۔
پاکستان نے انگلینڈ میں انگلینڈ کے خلاف 1954ء سے2016ء تک 51 میچزمیں حصہ لیا، 11میں کامیابی سمیٹی، 22 میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ 18میچز برابر رہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان نیوٹرل مقام پر پاکستانی ٹیم کا پلڑا خاصا بھاری رہا ہے، 2012ء سے 2015ء تک کے درمیان دونوں ٹیموں کے درمیان 6 میچز کھیلے گئے، مصباح الحق کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے5میں کامیابی اپنے نام کی جبکہ ایک میچ ڈرا رہا ۔
دونوں ٹیموں کے درمیان24 مئی سے شروع ہونے والی ٹیسٹ سیریز کا موازنہ کیا جائے تو 2016ء کی طرح پاکستانی ٹیم کو اب نہ تو مصباح الحق کی خدمات حاصل ہیں اور نہ ہی یونس خان اورلیگ سپنر یاسر شاہ ٹیم میں موجود ہیں، مشکوک بولنگ ایکشن کے باعث سعید اجمل پر پابندی لگنے کے بعد سے یاسر شاہ پاکستان ٹیم کا مستقل حصہ رہے،موجودہ دورے کے دوران بس ایک سپنر شاداب خان پر ہی زیادہ انحصار کیا جا رہا ہے۔ پیسر محمد عامر بھی فٹنس مسائل کا شکار ہیں اور ان کی لارڈز ٹیسٹ میں شرکت پر بھی تاحال سوالیہ نشان ہے۔
اگر انگلینڈ کی ٹیسٹ مقابلوں میں حالیہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو میزبان سائیڈ نے بھی اپنے شائقین کو خاصا مایوس کیا ہے، انگلینڈ نے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف مجموعی طور پر7 ٹیسٹ میچز کھیلے، 5ہارے جبکہ 2مقابلے برابری کی سطح پر ختم ہوئے۔ آسٹریلیا نے انگلینڈ کو5 ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں 4-0 سے شکست دی تھی جبکہ نیوزی لینڈ نے 1-0 سے زیر کیا تھا۔ اس سے قبل انگلینڈ کو لیڈز کے میدان میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
ان نتائج سے بظاہر محسوس ہو رہا ہے کہ دونوں ٹیمیں ہم پلہ ہیں، کوئی بھی ٹیم غیر معمولی کارکردگی دکھا کر نتائج اپنے حق میں کر سکتی ہے، 2016میں لارڈز کے میدان پر فتح کے جھنڈے گاڑھ کر پاکستان نے دورہ انگلینڈ کا شاندار آغاز کیاتھا،کپتان مصباح الحق کی سنچری اور یاسر شاہ کی 10وکٹوں کی بدولت حاصل ہونے والی 75رنز سے جیت کے بعد قومی کرکٹرز کے پش اپس اور پاک فوج کو سیلیوٹ شائقین آج بھی یاد کرتے ہیں۔
اسی سیریز کو 2-2سے برابر کرتے ہوئے پاکستان نے اپنی تاریخ میں پہلی بار ٹیسٹ کرکٹ میں عالمی نمبر ون ہونے کا اعزاز پایا تھا، گزشتہ دورے کی خوشگوار یادوں کے ساتھ پاکستان ٹیم کو اپنا عزم جوان اور حواس قابو میں رکھتے ہوئے انگلش ٹیم کا ڈٹ کرمقابلہ کرنا ہوگا۔