یادِ ماضی

تاریخ کے اوراق گردانی پر معلوم ہوتا ہے ہمارے اپنوں نے انگریزوں کو سارے حالات کی اطلاع دی۔

سارے دوست آج کافی عرصے بعد ایک ساتھ بیٹھے تھے، اپنے اپنے شعبے کی بات چل رہی تھی لیکن آخر میں بات آکر اپنے ملک کے حالات پر رک جاتی۔ ہم سب کو اس امر کا احساس ہے، ایسا ملک جس میں سب کچھ موجود ہے، صنعت و حرفت، زراعت، بڑے چھوٹے کارخانے، تعلیم، اسکول، کالج، یونیورسٹی، دریا، سمندر، سڑکیں، ریلوے لائن، ہوائی اڈے، شفاخانے، فلاحی ادارے، کون سی ایسی شے یا ادارہ جو اس ملک میں نہیں۔

میرے اور دوست کہنے لگے خان صاحب، بات یہ نہیں کہ ہمارے ملک میں کیا ہے کیا نہیں، بات کرنے کی ہے، کرنے والا چاہے وہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ یہاں ہم سب تاریخ برصغیر سے واقف ہیں، جانتے ہیں کہ برصغیر میں دور مغلیہ میں کس قدر ترقی ہوئی، اس کے علاوہ میں ایک بات کہوںگا کہ ایک فرد جس کا اصلی نام فرید خان تھا جس کو شیر شاہ کا لقب ملا، اس کا قبیلہ ''سور'' غوری سلاطین کی ایک شاخ تھی، بہلول لودھی کے عہد میں اس کا دادا ابراہیم سور اور والد حسن خان سور برصغیر میں آئے۔

اس کی ولادت 1472یا 1486 کے درمیان ہوئی، دراصل تاریخ میں اس کی ولادت پر کچھ اختلاف ہے، سکندر لودھی کے عہد میں جب جمال خان جونپور کا گورنر مقرر ہوا تو وہ حسن خان کو ساتھ لے گیا اور اسے پانچ سو سواروں کی کفالت کے لیے سہرام حاجی پور اور خواص پور ٹانڈا بطور جاگیر عطا کیے۔

جب ہمایوں کی جلاوطنی اور تخت کی بازیابی کے درمیانی عرصہ میں برصغیر میں افغان حکومت دوبارہ قائم ہوئی، افغان اقتدار کا یہ احیا شیر شاہ سوری کی شہرۂ آفاق شخصیت کا مرہون منت تھا، اس نے فطری صلاحیتوں، سعی پیہم، موقع شناسی اور خود اعتمادی سے نہ صرف مغلوں کو برصغیر سے نکال دیا بلکہ اعلیٰ نظام حکومت قائم کرکے آنے والے حکمرانوں کی رہبری کی اور برصغیر کی سیاست، ثقافت اور معاشرہ میں وہ نقوش دوام چھوڑے جوکہ وقت کی چیرہ دستی، مغلوں کی مخالفت اور یورپیوں کے تعصب سے بھی مٹ نہ سکے۔

شیر شاہ سوری، حسن خان سوری کا بڑا لڑکا تھا، اس نے اپنے دور میں صوبہ دار و بادشاہ وقت کے ہاں ملازمتیں کیں اور ایک دن یہ خود برصغیر کا بادشاہ بن گیا۔ اس کی تمام اپنی کوشش تھیں، اس نے صرف پانچ سال میں وہ کچھ کردیا جو آج ہم ستر سال میں نہ کر پائے، اس نے تمام نظام قائم کیے جس میں مرکزی نظام، دیوان عرض، دیوان رسالت، سرکاری نظام، مالی نظام، فوجی نظام، عدالتی نظام، ذرائع آمد و رفت، اس نے رعایا کی سہولت کے لیے بہت سی سڑکیں بنوائیں۔

یہ سڑکیں فوجی نقطہ نگاہ سے بڑی اہم تھیں، سب سے بڑی سڑک جو افغانستان سے پشاور، پشاور سے اتہاس (جہلم) اور یہاں سے ہوکر سنارگاؤں (بنگال) تک چلی گئی۔ بتاتے ہیں اس کی لمبائی تقریباً 1500کوس تھی، جس کو آج کل جرنیلی سڑک انگریز نے جس کا نام گرانٹ روڈ رکھا، اس کے علاوہ بڑی سڑکوں میں آگرہ سے برہان پور، آگرہ سے جودھ پور وچتوڑ اور لاہور سے ملتان تک سڑکیں قابل ذکر ہیں، بلکہ ان سڑکوں کے پاس دو رویہ سایہ دار درخت لگوائے گئے۔

ہر دو کوس کی مسافت پر ایک سرائے تعمیر کی گئی، ان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے الگ الگ قیام و طعام کا بندوبست تھا، ہر سرائے کے بڑے دروازے پر لب سڑک ٹھنڈے پانی کے مٹکے بھرے رہتے تھے، تاکہ مسافر اپنی پیاس بجھاسکیں، اس کے علاوہ مختلف عمارات، سکہ اور تجارت، خیراتی ادارے، مذہبی پالیسی۔ شیر شاہ سوری کا پانچ سالہ عہد حکومت برصغیر کے نظم و نسق کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس کا مالی نظام اور دیگر تنظیمی ادارے اس ملک کے نظم و نسق کی بنیاد بن چکے ہیں۔ اسکول، مدرسہ اور شفاخانے، ان پر بھی اس نے اپنی خاص توجہ دی۔ اکبر اعظم نے شیر شاہ سوری کے نظام حکومت پر فائدہ اٹھایا، جہاں تک کہ شیر شاہ سوری کے تربیت یافتہ افسر مثلاً راجہ ٹوڈرمل وغیرہ ہی عہد اکبر کے انتظامی ڈھانچے کے معمار بنے۔


مذہبی رواداری، عوامی بہبود اور معاشرتی اصلاح کی جو روایات شیر شاہ نے قائم کیں، اکبر نے انھیں پیش نظر رکھا اسی لیے شیر شاہ کو بجا طور پر اکبر کا پیش رو کہا جاتا ہے۔ یہ اکبر کی خوش قسمتی تھی کہ اسے شیر شاہ سوری کا نظام ورثے میں ملا اور ان ہی بنیادوں پر اس نے اپنی عظمت کا قصر پرشکوہ تعمیر کیا۔

تاریخ کے اوراق گردانی پر معلوم ہوتا ہے ہمارے اپنوں نے انگریزوں کو سارے حالات کی اطلاع دی اور اندرون خانہ بہت سے ایسے لوگوں نے برٹش سرکار کی مدد کی جن کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ 1857 جنگ آزادی نے انگریز کو بتادیا کہ اس کو برصغیر چھوڑنا پڑے گا، یہ اسی طور پر تیار ہوا کہ جتنا مال و زر تھا، خوب لوٹ کھسوٹ کی ساری دولت اپنے ملک لے گیا۔

اس نظام حکومت کی اصل خصوصیت یہ تھی کہ یہ حکومت برطانیہ کا کارخانہ نہیں تھا، بلکہ تاجروں کی ایک کمپنی کی ساری کار گزاری تھی جو بعد میں حکومت برطانیہ کے زیر اثر پورا برصغیر آیا، ایک تجارتی کمپنی جو برطانیہ کے تاجروں نے قائم کی تھی، ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ ہوگیا، اس طرح برصغیر براہ راست تاج برطانیہ کے تحت آگیا۔

اگر آپ موجودہ حالات دیکھیں تو تاریخ میں دور مغلیہ کا آخری دور سامنے آجاتا ہے، بالکل اسی طرح ہوا جو اب ہورہا ہے۔ نہ جانے کیوں ہم نے اپنی تاریخ سے یا اپنے مسلم رہنماؤں سے کیوں نہیں کچھ حاصل کیا۔ اب جس قسم کے حالات سے دوچار ہیں، اپنی مطلب پرستی، خودغرضی یہ ہمارے بڑے کارنامے ہیں، انھیں اس ملک و ملت کا کوئی احساس نہیں، غریب پر سب ہی دکھ کا اظہار کرتے ہیں، لیکن اقتدار حاصل کرنے کے بعد کوئی نہیں جو اپنے وعدے پر پورا اترے، اسے صرف اپنی یاد اپنے عزیز و اقارب کی فکر ہوتی ہے، اس کو دوسروں کی فکر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں۔

جب ووٹ کا وقت آئے گا تو اسی طرح ہمدردی دکھاتا ان علاقوں میں آجائے گا جہاں وہ پہلے ووٹ لینے کے لیے آیا تھا۔ اس کے بعد اب جب ووٹ کی ضرورت پڑی تو ہمدردی کرنے آجائے گا، ہم ہمیشہ ایسے چاپلوسوں اور غداروں سے زخم کھاتے رہے اور کھا رہے ہیں۔

ہمارے ملک میں ایسے لوگ کامیاب ہوکر حکومت کرنے جاتے ہیں، ایسا برسہا برس سے ہورہا ہے شاید آئندہ بھی ہوگا۔ جس طرح میں نے دور مغلیہ کے آخری دور کا ذکر کیا ہے، اس وقت ہم بالکل اسی دور کا شکار ہیں۔ ہم بھلادیتے ہیں ہمارے ساتھ کیا ہوا اور کس طرح اصل حقائق سے دور رکھا گیا۔ گزشتہ ایک صدی سے پاک و ہند کی اسلامی تاریخ کو دانستہ طور پر جس انداز میں مسخ کیا گیا ہے وہ علمی بددیانتی کی بدترین مثال ہے۔

ہمارے تاریخ دان کے علم میں ہوگا سر ہنری ایلیٹ نے 1857 کی جنگ آزادی سے پہلے ہی مسلم تاریخ کے اصل ماخذوں کو فارسی اور عربی سے انگریزی میں منتقل کرنا شروع کردیا تھا اور اس ضمن میں اس نے شاہی کتب خانہ اور نواب ضیا الدین خاں کے کتب خانہ سے خوب استفادہ کیا۔ یہ کام ایلیٹ کے بعد ڈاؤسن نے جاری رکھا، یہاں تک کہ 1877 تک اس کی تکمیل ہوتی رہی۔

شومئی قسمت سے بعد میں جو تحقیقی کام ہوا اور جو درسی کتب تحریر کی گئیں وہ تمام ایلیٹ اور ڈاؤسن کی مرتبہ کتاب پر مبنی تھیں، لہٰذا ان کتب نے جو تاثر چھوڑا اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ درسگاہوں میں طلبا کو کتابیں پڑھائی جاتی تھیں، ان کا مقصد یہ تھا کہ ہمیں اپنے عظیم ماضی کی محبوبیت سے توجہ ہٹ جائے۔ اتفاق کی بات یہ بھی خاص ہے کہ ہمارے مخصوص طبقے نے ان انگریزی کتب کو اہمیت دی جو صریحاً ہمارے خلاف ہیں۔

مسلمان جو دنیا کی عظیم قوم ہے اس کو توڑنے کی ہمیشہ سے دشمنوں کی کوشش رہیں، ان کی کاوش میں ہمارے نام نہاد لیڈر ہی شامل ہوگئے، اس لیے کہ ان کے اغراض و مقاصد، لالچ و طمع، مسلم دشمنی سے لوگ پوری کررہے تھے، بلکہ ابھی بھی کررہے ہیں، ان کے آباؤ اجداد جس طرح برصغیر میں انگریزی نظام حکومت کو فروغ میں کوشاں رہے ہیں، وہ بھی اسی طرح کوشاں ہیں۔
Load Next Story