ڈپریشن کی وجہ فیس بک بھی ہے
سوشل میڈیا نے جذباتی پریشانی کو پروان چڑھا کر ایک مرض کی شکل اختیار کر لی ہے جسے ”فیس بک ڈپریشن “ کا نام دے سکتے ہیں
سوشل میڈیا پر اکثر ہر دوسرا انسان ہمیں اپنے سے زیادہ بھرپوراور مکمل زندگی گزارتا نظر آتا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں رونما ہونے والے چند خوشی کے لمحات کو ہمارے ساتھ شئیر کرتا ہے جس سے ہمارے اندر یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ شاید سب کی زندگیاں خوشیوں سے بھرپور اور مکمل ہیں۔ وہ انسان ہمیں ہمیشہ اپنی زندگی کا خوبصورت رُخ دکھاتا ہے اور زندگی کے اندھیرے کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اسے دوسروں کے ساتھ شئیر کرے، کیونکہ وہ پہلو اس انسان کو بھی افسردہ اور اداس رکھے ہوتا ہے؛ اور وہ نہیں چاہتا کہ اس کی زندگی کے بہت سے ڈارک شیڈز دوسروں کو بھی نظر آئیں۔
آئے روز مکمل زندگی کی رونمائی کرتی دوستوں کی نیوز فیڈز کو دیکھ کہ عام انسان یہ سمجھتا ہے کہ سب اپنی زندگی بھرپور طریقے سے گزار رہے ہیں, بس ایک وہ ہے کہ بوریت کا شکار اور اکتاہٹ کا مارا ہوا ہے جو دن بھر بس دوسروں کی پوسٹس پر لائکس مارنے کے ہی قابل رہ گیا ہے۔ یہ سوچ اس کی اکتاہٹ میں مزید اضافہ کرتی ہے جو بعد میں ڈپریشن کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ آج کا نوجوان طبقہ سوشل میڈیا پر اچھا خاصا وقت گزارتا نظر آتا ہے اور یہی وقت اسے سکون یا خوشی دینے کے بجائے ان کے اندر جذباتی پریشانی کو مزید پروان چڑھاتا ہے، جس نے اب باقاعدہ ایک مرض کی شکل اختیار کر لی ہے؛ جسے ہم "فیس بک ڈپریشن " کا نام بھی دے سکتے ہیں۔
روز کی روٹین کا آغاز جب دوسروں کی بہترین سیلفیوں، لذیذ کھانوں، خوشگوار شادی شدہ جوڑوں اور شاندار کاروں جیسی تصویریں دیکھ کر ہو تو ان کا موازنہ اپنی حسرتوں اور محرمیوں کے ساتھ کرنا کوئی انہونی بات نہیں۔ حالیہ تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا کا انسان زیادہ تنہا، الگ تھلگ اور اداس ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ سوشل میڈیا کے اس دور میں انسان کا دماغ عجیب آئیڈیل زندگی کی زد میں آتا جا رہا ہے۔
حالیہ ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ سوشل میڈیا پر انسان ایسی پوسٹ شئیر کرنا زیادہ پسند کرتا ہے جس میں وہ عام روٹین سے ہٹ کے کچھ منفرد کر رہا ہو۔ وہ اپنا بہترین امیچ لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہے اور مختلف قسم کی چیزوں اور برانڈز brands کا سہارا لے کر اپنی ایک شناخت لوگوں میں متعارف کرواتا ہے۔ مثلاً اکثر مخصوص کھانے، بہترین ہوٹل، سیر و تفریح کی اعلیٰ جگہیں، دوستوں کے ساتھ انٹرٹینمنٹ، تازہ سیلفیز اور تصویریں سب سے زیادہ شیئر کی جاتی ہیں۔ ایک پرفیکٹ سیلفی پوسٹ کرنے کےلیے کئی سیلفیز لی جاتی ہیں اور پھر سب سے بہترین سیلفی پوسٹ کی جاتی ہے۔ جبکہ عام روٹین میں وہی انسان اپنے گھر پر کس حالت میں رہتا ہے اور اس کو زندگی میں کن پریشانیوں کا سامنا ہے، روزمرہ کے کیا کیا مسائل درپیش ہیں، اس پر مبنی پوسٹ اور تصاویر شاذ و نادر ہی شئیر کی جاتی ہیں۔ اگر کوئی غلطی سے ایسی تصویر پر ٹیگ بھی کر دے تو اپنے بہتر امیج کو برقرار رکھنے کےلیے فوراً ٹیگ ہٹا دیا جاتا ہے۔
روزانہ دوسروں کو مکمل زندگی انجوئے کرتے دیکھ کر انسان کو اپنا آپ برا لگنے لگتا ہے۔ اور وہ ہر وقت خود کو ناکام تصور کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس مکمل اور بھرپور زندگی کے چکر میں وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ تصویر کو صرف ایک رخ سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ ایسا رخ جس میں سب کی زندگیاں مکمل اور خوشیوں سے بھرپور تو نظر آ رہی ہوتی ہیں، لیکن دوسرے رخ کی پریشانیاں، اداسیاں، حسرتیں کہیں دکھائی ہی نہیں جاتیں۔ اس لیے اس کا ذہن یہ سوچنے سے قاصر ہوتا ہے کہ سب کی زندگیاں اس کی زندگی جیسی نارمل ہیں، اور ان میں بھی بہت سی حسرتیں اور محرومیاں ہیں؛ لیکن وہ ایسی منفرد نہیں کہ انہیں شئیر کیا جاسکے۔
تصویر کا ایسا رخ جس میں خود کو مکمل اور بھرپور کر کے دکھایا جاتا ہے، وہی تو اصل میں بہت نامکمل اور ادھورا ہے۔ جو سوائے سوچ کے، دھوکےاور فریب کے اور کچھ بھی نہیں۔ آئیں آج سے سب کو نارمل انسان کے طور پر نارمل سی اپنی جیسی زندگی گزارتے سوچیں!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آئے روز مکمل زندگی کی رونمائی کرتی دوستوں کی نیوز فیڈز کو دیکھ کہ عام انسان یہ سمجھتا ہے کہ سب اپنی زندگی بھرپور طریقے سے گزار رہے ہیں, بس ایک وہ ہے کہ بوریت کا شکار اور اکتاہٹ کا مارا ہوا ہے جو دن بھر بس دوسروں کی پوسٹس پر لائکس مارنے کے ہی قابل رہ گیا ہے۔ یہ سوچ اس کی اکتاہٹ میں مزید اضافہ کرتی ہے جو بعد میں ڈپریشن کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ آج کا نوجوان طبقہ سوشل میڈیا پر اچھا خاصا وقت گزارتا نظر آتا ہے اور یہی وقت اسے سکون یا خوشی دینے کے بجائے ان کے اندر جذباتی پریشانی کو مزید پروان چڑھاتا ہے، جس نے اب باقاعدہ ایک مرض کی شکل اختیار کر لی ہے؛ جسے ہم "فیس بک ڈپریشن " کا نام بھی دے سکتے ہیں۔
روز کی روٹین کا آغاز جب دوسروں کی بہترین سیلفیوں، لذیذ کھانوں، خوشگوار شادی شدہ جوڑوں اور شاندار کاروں جیسی تصویریں دیکھ کر ہو تو ان کا موازنہ اپنی حسرتوں اور محرمیوں کے ساتھ کرنا کوئی انہونی بات نہیں۔ حالیہ تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا کا انسان زیادہ تنہا، الگ تھلگ اور اداس ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ سوشل میڈیا کے اس دور میں انسان کا دماغ عجیب آئیڈیل زندگی کی زد میں آتا جا رہا ہے۔
حالیہ ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ سوشل میڈیا پر انسان ایسی پوسٹ شئیر کرنا زیادہ پسند کرتا ہے جس میں وہ عام روٹین سے ہٹ کے کچھ منفرد کر رہا ہو۔ وہ اپنا بہترین امیچ لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہے اور مختلف قسم کی چیزوں اور برانڈز brands کا سہارا لے کر اپنی ایک شناخت لوگوں میں متعارف کرواتا ہے۔ مثلاً اکثر مخصوص کھانے، بہترین ہوٹل، سیر و تفریح کی اعلیٰ جگہیں، دوستوں کے ساتھ انٹرٹینمنٹ، تازہ سیلفیز اور تصویریں سب سے زیادہ شیئر کی جاتی ہیں۔ ایک پرفیکٹ سیلفی پوسٹ کرنے کےلیے کئی سیلفیز لی جاتی ہیں اور پھر سب سے بہترین سیلفی پوسٹ کی جاتی ہے۔ جبکہ عام روٹین میں وہی انسان اپنے گھر پر کس حالت میں رہتا ہے اور اس کو زندگی میں کن پریشانیوں کا سامنا ہے، روزمرہ کے کیا کیا مسائل درپیش ہیں، اس پر مبنی پوسٹ اور تصاویر شاذ و نادر ہی شئیر کی جاتی ہیں۔ اگر کوئی غلطی سے ایسی تصویر پر ٹیگ بھی کر دے تو اپنے بہتر امیج کو برقرار رکھنے کےلیے فوراً ٹیگ ہٹا دیا جاتا ہے۔
روزانہ دوسروں کو مکمل زندگی انجوئے کرتے دیکھ کر انسان کو اپنا آپ برا لگنے لگتا ہے۔ اور وہ ہر وقت خود کو ناکام تصور کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس مکمل اور بھرپور زندگی کے چکر میں وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ تصویر کو صرف ایک رخ سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ ایسا رخ جس میں سب کی زندگیاں مکمل اور خوشیوں سے بھرپور تو نظر آ رہی ہوتی ہیں، لیکن دوسرے رخ کی پریشانیاں، اداسیاں، حسرتیں کہیں دکھائی ہی نہیں جاتیں۔ اس لیے اس کا ذہن یہ سوچنے سے قاصر ہوتا ہے کہ سب کی زندگیاں اس کی زندگی جیسی نارمل ہیں، اور ان میں بھی بہت سی حسرتیں اور محرومیاں ہیں؛ لیکن وہ ایسی منفرد نہیں کہ انہیں شئیر کیا جاسکے۔
تصویر کا ایسا رخ جس میں خود کو مکمل اور بھرپور کر کے دکھایا جاتا ہے، وہی تو اصل میں بہت نامکمل اور ادھورا ہے۔ جو سوائے سوچ کے، دھوکےاور فریب کے اور کچھ بھی نہیں۔ آئیں آج سے سب کو نارمل انسان کے طور پر نارمل سی اپنی جیسی زندگی گزارتے سوچیں!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔