کراچی میں اے بی اور او نگیٹو خون کی خون کی شدید قلت
رمضان میں خون دینے کا رجحان بھی نہیں، مریضوں کے اہلخانہ پریشان ہیں، طاہر شمسی
NORTHAMPTON:
کراچی کے نجی بلڈ بینکوں میں اے، بی اور او نگیٹو خون کے گروپس کی شدید قلت پیدا ہو گئی جب کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں قائم اسپتالوں میں زیر علاج مریضوں اور بچوں کی زندگیوں کو بچانے کیلیے اہلخانہ مارے مارے پھر رہے ہیں۔
رمضان میں رضاکارانہ خون کے عطیات دیے جانے کے رجحان میں مزید کمی واقع ہو جاتی ہے، اس لیے رمضان میں خون کی شدید قلت ہوتی ہے۔ پاکستان میں صرف 2 فیصد رضاکارانہ خون کے عطیات دیے جاتے ہیں جبکہ 60 فیصد خون مریضوںکے اہلخانہ بدلے (ایکسچینج) میں خون لیتے ہیں، 30 فیصد خون تجارتی بنیادوں پر اب بھی فروخت کیا جاتا ہے۔
ملک میں تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا ایک لاکھ بچوںکی زندگی بچانے کیلیے سالانہ 12لاکھ ، خون کے کینسر کے مریضوں کیلیے سالانہ4 لاکھ خون کی بوتلوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے جبکہ ملک میں سالانہ مجموعی طور پر 30لاکھ خون کی بوتلوں کی ضرورت پڑی ہے۔ سالانہ 22لاکھ خون کی بوتلیں جمع کی جاتی ہیں، ہر سال 8لاکھ خون کی بوتلوں کی قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ سالانہ ڈیڑھ لاکھ مریض وقت پر خون نہ ملنے کی وجہ سے جاں بحق ہوجاتے ہیں لیکن صوبے میں ایسا کوئی ادارہ نہیں جوخون کی پیدا ہونے والی قلت کو پورا کرسکے۔
سندھ میں جرمن حکومت کے اشتراک سے قائم کیا جانے والا سینٹرلائزڈ بلڈ بینک منصوبہ 6 سال سے فعال نہیں کیا جا سکا۔ معروف امراض خون ڈاکٹر طاہر شمسی نے ایکسپریس سے خصوصی بات چیت میں بتایا کہ ملک بھر میں ہر سال رمضان المبارک میں رضاکارانہ خون کے عطیات میں غیر معمولی طورپرکمی واقع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے تھیلے سیمیا، خون کے کینسر میں مبتلا بچوں کوماہ صیام میں انتقال خون کے دوران خون کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تھیلے سیمیاکے مرض میں مبتلا بچوں کی زندگیاں بچانے کیلیے کم ازکم ایک ماہ میں ایک بار انتقال خون کے عمل سے گزرنا ہوتا ہے۔
اس وقت کراچی کے تمام نجی بلڈبینکوں میں A,B اور O نگیٹو گروپس کے خون کی شدید قلت پیداہوگئی ہے، کراچی کے مختلف نجی اسپتالوں سے ان تینوں خون کے گروپس کی ڈیمانڈ میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوگیا ہے۔ بچے اسپتالوں میں موت زندگی کی کشمکش میں مبتلا ان کے اہلخانہ پریشانی کا شکار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایمرجنسی کی صورت میں خون کی عدم دستیابی کی وجہ سے تھیلیسیمیا اور خون کے کینسر کے مریضوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں، رمضان المبارک میں کسی بھی ایمرجنسی ہوجانے کی صورت میں خون دستیاب نہیں ہوتا ، اس وقت کراچی میں تینوں گروپس کے خون کی شدیدکمی پیداہوگئی ہے۔
دریں اثنا دیگر بلڈ بینکوں کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ محفوظ خون کی فراہمی کی ذمے دار سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی ہے ، یہ خود مختار ادارہ ہے جس کا کام کراچی سمیت صوبے میں محفوظ اورکسی بھی خون کے گروپس کی دستیابی کو یقینی بنانا ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی نے اس اہم مسئلے پر چپ سادہ رکھی ہے۔
واضح رہے کہ 1600 ملین یورو کی لاگت سے سینٹرلائزڈ بلڈ بینک کا منصوبہ جرمن حکومت کے اشتراک سے منظور کیا گیا ہے تاہم 6 سال سے یہ منصوبہ مکمل نہیں کیا جا سکا۔ اس منصوبے کے تحت کراچی میں 4 بلڈ بینک قائم کرنا تھے لیکن بدقسمتی سے عملدرآمدروک دیاگیا۔
کراچی کے نجی بلڈ بینکوں میں اے، بی اور او نگیٹو خون کے گروپس کی شدید قلت پیدا ہو گئی جب کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں قائم اسپتالوں میں زیر علاج مریضوں اور بچوں کی زندگیوں کو بچانے کیلیے اہلخانہ مارے مارے پھر رہے ہیں۔
رمضان میں رضاکارانہ خون کے عطیات دیے جانے کے رجحان میں مزید کمی واقع ہو جاتی ہے، اس لیے رمضان میں خون کی شدید قلت ہوتی ہے۔ پاکستان میں صرف 2 فیصد رضاکارانہ خون کے عطیات دیے جاتے ہیں جبکہ 60 فیصد خون مریضوںکے اہلخانہ بدلے (ایکسچینج) میں خون لیتے ہیں، 30 فیصد خون تجارتی بنیادوں پر اب بھی فروخت کیا جاتا ہے۔
ملک میں تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا ایک لاکھ بچوںکی زندگی بچانے کیلیے سالانہ 12لاکھ ، خون کے کینسر کے مریضوں کیلیے سالانہ4 لاکھ خون کی بوتلوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے جبکہ ملک میں سالانہ مجموعی طور پر 30لاکھ خون کی بوتلوں کی ضرورت پڑی ہے۔ سالانہ 22لاکھ خون کی بوتلیں جمع کی جاتی ہیں، ہر سال 8لاکھ خون کی بوتلوں کی قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ سالانہ ڈیڑھ لاکھ مریض وقت پر خون نہ ملنے کی وجہ سے جاں بحق ہوجاتے ہیں لیکن صوبے میں ایسا کوئی ادارہ نہیں جوخون کی پیدا ہونے والی قلت کو پورا کرسکے۔
سندھ میں جرمن حکومت کے اشتراک سے قائم کیا جانے والا سینٹرلائزڈ بلڈ بینک منصوبہ 6 سال سے فعال نہیں کیا جا سکا۔ معروف امراض خون ڈاکٹر طاہر شمسی نے ایکسپریس سے خصوصی بات چیت میں بتایا کہ ملک بھر میں ہر سال رمضان المبارک میں رضاکارانہ خون کے عطیات میں غیر معمولی طورپرکمی واقع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے تھیلے سیمیا، خون کے کینسر میں مبتلا بچوں کوماہ صیام میں انتقال خون کے دوران خون کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تھیلے سیمیاکے مرض میں مبتلا بچوں کی زندگیاں بچانے کیلیے کم ازکم ایک ماہ میں ایک بار انتقال خون کے عمل سے گزرنا ہوتا ہے۔
اس وقت کراچی کے تمام نجی بلڈبینکوں میں A,B اور O نگیٹو گروپس کے خون کی شدید قلت پیداہوگئی ہے، کراچی کے مختلف نجی اسپتالوں سے ان تینوں خون کے گروپس کی ڈیمانڈ میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوگیا ہے۔ بچے اسپتالوں میں موت زندگی کی کشمکش میں مبتلا ان کے اہلخانہ پریشانی کا شکار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایمرجنسی کی صورت میں خون کی عدم دستیابی کی وجہ سے تھیلیسیمیا اور خون کے کینسر کے مریضوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں، رمضان المبارک میں کسی بھی ایمرجنسی ہوجانے کی صورت میں خون دستیاب نہیں ہوتا ، اس وقت کراچی میں تینوں گروپس کے خون کی شدیدکمی پیداہوگئی ہے۔
دریں اثنا دیگر بلڈ بینکوں کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ محفوظ خون کی فراہمی کی ذمے دار سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی ہے ، یہ خود مختار ادارہ ہے جس کا کام کراچی سمیت صوبے میں محفوظ اورکسی بھی خون کے گروپس کی دستیابی کو یقینی بنانا ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی نے اس اہم مسئلے پر چپ سادہ رکھی ہے۔
واضح رہے کہ 1600 ملین یورو کی لاگت سے سینٹرلائزڈ بلڈ بینک کا منصوبہ جرمن حکومت کے اشتراک سے منظور کیا گیا ہے تاہم 6 سال سے یہ منصوبہ مکمل نہیں کیا جا سکا۔ اس منصوبے کے تحت کراچی میں 4 بلڈ بینک قائم کرنا تھے لیکن بدقسمتی سے عملدرآمدروک دیاگیا۔