پاکستان نے افغانستان سے طالبان کی رہائی پر بات کرنے کی تصدیق کردی
برادر 2001 میں امریکا کا افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد پکڑا جانے والا سب سے اہم طالبان ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان طالبان کے ایک اہم ممبر،جسے 2010 میں گرفتار کیا گیا تھا، کی رہائی کے حوالے سے بات چیت جاری ہے، پاکستان وزارت خارجہ کے ترجمان نے، جمعہ کواس بات کی تصدیق کردی۔
ملا عبد الغنی برادرکو، جو طالبان کے طاقتور ملٹری چیف ہیں،ا ور جنھیں ملٹیا کا دوسرا کمانڈر بھی کہا جاتا ہے، کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔
افغان حکومت اور سابق اقوام متحدہ کے افغانستان کے لیے خصوصی مندوب نے کہا "ان کی حراست نے باغیوں سے بات کرنے کی کوششوں کو متاثر کیا تھا".
قیدیوں کے معاملے پر دونوں ممالک کے درمیان زیر بحث جاری ہے، وزارت خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے نامہ نگاروں کو بتایا "جب افغان مطالبات پر برادر کے لئے رسائی اور ان کی رہائی کے لئے کہا جائے گا، وہ تب اس پر بات کریں گے"۔
ترجمان نے کسی بھی قیدی کا نام یا مزید تفصیلات دینے سے انکار کیا، لیکن جب ان سے برادر کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے اس بات کی تصدیق کی"برادر اب بھی پاکستان کی حراست میں ہے"۔
برادر 2001 میں امریکا کا افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد پکڑا جانے والا سب سے اہم طالبان ہے۔
اسے ملا عمر کا سب سے قریبی ساتھی بھی کہا جاتا ہے۔
برادر کی گرفتاری کے بعد جلد ہی پینٹا گون نے کہا "طالبان کے دو دیگر حکام کو گرفتار بھی کیا گیا ہے، جو پاکستان میں ہیں"۔
مارچ 2010 میں،یو این کے افغانستان میں ریٹائرڈ مندوب،کائی ایڈے نے کہا"طالبان کے اس اہم کمانڈر کی گرفتاری سے، باغیوں اور یو این کے درمیان کمیونیکیشن کا سیکرٹ چینل بند ہوگیا ہے"۔
افغانستان کے صدر، حامد کرزئی نے کئی بار طالبان کو براہ راست اپنی گورمنٹ، اور پاکستان سے، اس دس سالہ جنگ کو ختم کرنے کیلیے بات چیت کی دعوت دی ہے۔
پاکستان پہلے ہی کہہ چکا ہے "وہ امن کے متعلق افغانستان کی ہر ممکن مدد کرے گا"، لیکن افغانستان اور امریکا میں، اس خلوص سے متعلق بہت شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
ملا عبد الغنی برادرکو، جو طالبان کے طاقتور ملٹری چیف ہیں،ا ور جنھیں ملٹیا کا دوسرا کمانڈر بھی کہا جاتا ہے، کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔
افغان حکومت اور سابق اقوام متحدہ کے افغانستان کے لیے خصوصی مندوب نے کہا "ان کی حراست نے باغیوں سے بات کرنے کی کوششوں کو متاثر کیا تھا".
قیدیوں کے معاملے پر دونوں ممالک کے درمیان زیر بحث جاری ہے، وزارت خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے نامہ نگاروں کو بتایا "جب افغان مطالبات پر برادر کے لئے رسائی اور ان کی رہائی کے لئے کہا جائے گا، وہ تب اس پر بات کریں گے"۔
ترجمان نے کسی بھی قیدی کا نام یا مزید تفصیلات دینے سے انکار کیا، لیکن جب ان سے برادر کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے اس بات کی تصدیق کی"برادر اب بھی پاکستان کی حراست میں ہے"۔
برادر 2001 میں امریکا کا افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد پکڑا جانے والا سب سے اہم طالبان ہے۔
اسے ملا عمر کا سب سے قریبی ساتھی بھی کہا جاتا ہے۔
برادر کی گرفتاری کے بعد جلد ہی پینٹا گون نے کہا "طالبان کے دو دیگر حکام کو گرفتار بھی کیا گیا ہے، جو پاکستان میں ہیں"۔
مارچ 2010 میں،یو این کے افغانستان میں ریٹائرڈ مندوب،کائی ایڈے نے کہا"طالبان کے اس اہم کمانڈر کی گرفتاری سے، باغیوں اور یو این کے درمیان کمیونیکیشن کا سیکرٹ چینل بند ہوگیا ہے"۔
افغانستان کے صدر، حامد کرزئی نے کئی بار طالبان کو براہ راست اپنی گورمنٹ، اور پاکستان سے، اس دس سالہ جنگ کو ختم کرنے کیلیے بات چیت کی دعوت دی ہے۔
پاکستان پہلے ہی کہہ چکا ہے "وہ امن کے متعلق افغانستان کی ہر ممکن مدد کرے گا"، لیکن افغانستان اور امریکا میں، اس خلوص سے متعلق بہت شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔