مادرِ ملت کی گاڑیوں کے ڈھانچوں کی مرمت 3 کروڑ روپے میں
محکمہ ثقافت نے ان گاڑیوں کے نام پرفراڈ کیاہے کیونکہ ان میں کوئی ایسی چیز نہیں جوانہیں مادرملت کی گاڑیاں ثابت کرسکے
اٹھارہویں ترمیم کے بعد جب سے محکمہ آثار قدیمہ کے اختیارات محکمہ ثقافت سیاحت و نوادرات سندھ کو منتقل کیے گئے ہیں، اس وقت سے کرپشن عروج پر ہے۔ کبھی قومی عجائب گھر میں سندھی ولیج کے نام سے کرپشن کی گئی تو کبھی قومی ورثوں کا تحفظ کرنے والے محکمہ ثقافت نے اپنے ہی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے قومی ورثہ قرار دیئے گئے برنس گارڈن میں کلچرل کمپلیکس کی تعمیر کا کام شروع کردیا، تو کبھی تعمیر کی جانے والی عمارتوں کی تعمیر سے قبل ہی ٹھیکیدار کو تمام رقوم (یہاں تک کہ سیکیورٹی ڈپازٹ کی رقم بھی) لوٹا دی اور وہ عمارت سرے سے تعمیر ہی نہیں ہوسکی۔
کرپشن کی یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اسی کرپشن کے سبب موئن جو دڑو کی حالت زار کی درستگی کےلیے 35 کروڑ روپے کی رقم ہڑپ کرلی گئی تو کبھی عالمی ورثہ قرار دیئے گئے مکلی قبرستان کی (جسے یونیسکو ڈینجر زون میں شامل کرچکا ہے) حالت بہتر بنانے کےلیے رکھے گئے 40 کروڑ کی رقم میں خورد برد کا انکشاف سامنے آیا اور ان تمام قومی ورثوں کی تقدیر میں رتی برابر کی تبدیلی نہیں آئی جس پر مکلی کے قبرستان سمیت موئن جو دڑو و دیگر عالمی ورثہ قرار دیئے گئے مقامات کو عالمی ورثوں کی فہرست سے نکالے جانے کا امکان بھی ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ اسی محکمے نے گزشتہ دنوں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے زیر استعمال دو گاڑیوں کو، جو مکمل طور پر گل سڑ چکی تھیں، کسی کمپنی کے بجائے عام ڈینٹروں کی مدد سے تین کروڑ روپے کی لاگت سے ان کا ڈھانچہ تیار کرکے قائداعظم ہاؤس میوزیم میں ایک شیڈ کے اندر عوامی نمائش کےلیے رکھ دیا ہے۔ مگر نہ جا نے کیوں اب بھی عوام کو ان گاڑیوں کی دید سے محروم رکھا جارہا ہے۔
ان کا قصہ کچھ اس طرح ہے کہ سندھ آرکائیو ڈپارٹمنٹ کے احاطے میں محترمہ فاطمہ جناح کے زیر استعمال دو گلی سڑی گاڑیاں (مرسڈیز بینز 1965، رجسٹریشن نمبر DSF-759 اور 1955 سیریز 62 کی کیڈلک کار رجسٹریشن نمبر KAF-935) چند ماہ قبل تک کھڑی تھیں جبکہ سندھ ہائی کورٹ نے جنوری 2015 میں دائر کی گئی ایک درخواست کا فیصلہ سناتے ہوئے محکمہ ثقافت، سیاحت و نوادرات کو حکم دیا تھا کہ وہ فوری طور پر ان گاڑیوں کو ان کی پرانی حالت میں لوٹانے کا کام کرے۔
اس پر محکمے نے ایک اعلی سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا کہ ان گاڑیوں کو ٹھیک اسی طرح ٹھیک کروایا جائے کہ جس طرح 1985 میں بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناحؒ کے زیر استعمال دو گاڑیوں کو نیشنل موٹرز سے درست کروایا گیا تھا۔ تب نیشنل موٹرز نے کوئی معاوضہ لیے بغیر ان دونوں گاڑیوں کے نہ صرف انجنوں کی مرمت کی تھی اور انہیں دوبارہ چلنے کے قابل بنایا تھا، بلکہ ساتھ ہی ساتھ انہیں ان کی اصل حالت میں بھی واپس بحال کیا تھا۔ تجویز یہ تھی کہ اسی طرز پر ان دونوں گاڑیوں کو بھی کسی بڑی موٹر کمپنی سے ٹھیک کروایا جائے۔ اس سلسلے میں محکمے نے ایک پی سی ون کے تحت دو کروڑ 40 لاکھ روپے کی باقاعدہ منظوری بھی دی مگر ان گاڑیوں کو بجائے کسی موٹر کمپنی بھیجنے کے، خفیہ طور پر قومی عجائب گھر کے کوارٹرز کے قریب بنی دو کھولیوں میں منتقل کردیا گیا اور چمڑا چورنگی (کورنگی، کراچی) پر واقع ایک مکینک کی دکان سے دو ڈینٹروں (عاطف حسین اور اختر علی) نے ان خستہ حال گاڑیوں کی مرمت کی۔
واضح رہے کہ یہ گاڑیاں مکمل طور پر گل سڑ چکی تھیں اور ان کے بیشتر پرزہ جات بھی چوری ہوچکے تھے۔ ڈھانچوں کی مرمت کا کام ان دونوں ڈینٹروں نے شروع کیا اور ایک سال سے زائد کی مشقت کے بعد مکمل کرلیا۔ چند روز قبل گاڑیوں کے ان مرمت شدہ ڈھانچوں کو (تین کروڑ روپے کی خطیر لاگت سے مکمل کرتے ہوئے) کرینوں کی مدد سے قائداعظم ہاؤس میوزیم میں اُتار دیا گیا۔ اس میوزیم میں پہلے ہی ایک شیڈ موجود ہے جس کے تین اطراف موٹے موٹے شیشے لگے ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود اب تک عوام کو ان گاڑیوں سے دور رکھا جارہا ہے۔
اسی سلسلے میں چند روز قبل بھی کچھ شائقین نے جب ان گاڑیوں کو دیکھنے کےلیے انتظامیہ سے اصرار کیا تو انہیں روک دیا گیا۔ اس ضمن میں محکمے کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ دراصل تین کروڑ روپے کی لاگت سے محکمے نے صرف ان گاڑیوں کے ڈھانچے کو خوبصورت بنانے کا کام کیا ہے جبکہ اس کے انجن اور دیگر پرزہ جات ناکارہ ہیں، لہذا اس بات کو خفیہ رکھنے کےلیے عوام سے چھپایا جارہا ہے۔
گاڑیوں کے ڈھانچے پر اٹھنے والی مہنگی لاگت کے حوالے سے جب راقم نے مرسیڈیز اور کیڈلک کار کے شو رومز سے رابطہ کیا تو ان کے مالکان کا کہنا تھا کہ تین کروڑ روپے میں ڈھانچے نہیں بلکہ نئی گاڑیاں خریدی جاسکتی تھیں۔ محکمے نے اس طرح صرف قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے۔ ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ عرصہ دراز تک کھلے آسمان تلے ان گاڑیوں کے گلنے سڑنے کے سبب ان کے فریم کے علاوہ اور کوئی چیز کام کی نہیں تھی لہذا ایسی صورت میں فریم پر نئے سرے سے گاڑی کا ڈھانچہ تیار کرکے اسے محترمہ فاطمہ جناح کی گاڑیاں قرار دینا ماسوائے حماقت کے کچھ نہیں۔
اس حوالے سے مزار قائد مینیجمنٹ بورڈ کے سیکریٹری، انجینئر محمد عارف کا کہنا تھا کہ کیونکہ یہ گاڑیاں محکمہ ثقافت نے درست کروائیں لہذا اس پر تبصرہ درست نہیں لیکن اگر اس سلسلے میں بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کے زیر استعمال گاڑی نمبر 327 اور کیڈلک 1947 ماڈل کی بات کی جائے تو یہ گاڑیاں بھی مکمل طور پر تباہ حال تھیں جنہیں 1985 میں نیشنل موٹرز نے اپنے خرچ پر تیار کیا اور نہ صرف ان کے ڈھانچوں کی درستگی و رنگ روغن کا کام کیا بلکہ انہیں مکمل طور پر چلتی حالت میں کرکے دیا جس کی بنیاد پر یہ گاڑیاں آج بھی سڑکوں پر اسی انداز سے چل سکتی ہیں جس طرح ماضی میں چلا کرتی تھیں۔
اس بارے میں محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ محکمے نے ان گاڑیوں کے نام پر فراڈ کے سوا کچھ نہیں کیا کیونکہ ان دونوں گاڑیوں کے اندر اب کوئی ایسی چیز موجود ہی نہیں تھی جس سے یہ ظاہر ہوسکے کہ یہ مادر ملت کی گاڑیاں تھیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ محکمہ ثقافت اسی ما ڈل کی دو نئی گاڑیاں خرید کر شیڈ میں رکھ دیتا اور عوام کو بتایا جاتا کہ مادر ملت کے زیر استعمال ایسی ہی گاڑیاں تھیں۔
ماہرین کا کہنا یہ تھا کہ اس وقت موئن جو دڑو، بھنبھور اور مکلی کے قبرستان سمیت اندرونِ سندھ میں لاتعداد ثقافتی ورثے موجود ہیں جو نہ صرف تباہ حالی کا شکار ہیں بلکہ مکلی کے قبرستان سے متعلق تو یونیسکو یہ دھمکی دے چکا ہے کہ اگر اس کی حالت تبدیل نہ کی گئی تو اسے عالمی ورثے کی فہرست سے نکال دیا جائے گا۔ ان گاڑیوں کے بجائے ان ورثوں پر رقم خرچ کی جاتی تو پاکستان عالمی ٹائٹل سے محروم ہونے سے بچ جاتا۔ مگر باوجود یونیسکو کی دی گئی مہلت ختم ہوجانے کے، اب تک تباہ حال قبرستان کی درستگی کا کام نہیں کیا جاسکا جس کے سبب خدشہ شدید تر ہوگیا ہے کہ اس سال اسے عالمی ٹائٹل سے محروم ہونا پڑے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کرپشن کی یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اسی کرپشن کے سبب موئن جو دڑو کی حالت زار کی درستگی کےلیے 35 کروڑ روپے کی رقم ہڑپ کرلی گئی تو کبھی عالمی ورثہ قرار دیئے گئے مکلی قبرستان کی (جسے یونیسکو ڈینجر زون میں شامل کرچکا ہے) حالت بہتر بنانے کےلیے رکھے گئے 40 کروڑ کی رقم میں خورد برد کا انکشاف سامنے آیا اور ان تمام قومی ورثوں کی تقدیر میں رتی برابر کی تبدیلی نہیں آئی جس پر مکلی کے قبرستان سمیت موئن جو دڑو و دیگر عالمی ورثہ قرار دیئے گئے مقامات کو عالمی ورثوں کی فہرست سے نکالے جانے کا امکان بھی ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ اسی محکمے نے گزشتہ دنوں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے زیر استعمال دو گاڑیوں کو، جو مکمل طور پر گل سڑ چکی تھیں، کسی کمپنی کے بجائے عام ڈینٹروں کی مدد سے تین کروڑ روپے کی لاگت سے ان کا ڈھانچہ تیار کرکے قائداعظم ہاؤس میوزیم میں ایک شیڈ کے اندر عوامی نمائش کےلیے رکھ دیا ہے۔ مگر نہ جا نے کیوں اب بھی عوام کو ان گاڑیوں کی دید سے محروم رکھا جارہا ہے۔
ان کا قصہ کچھ اس طرح ہے کہ سندھ آرکائیو ڈپارٹمنٹ کے احاطے میں محترمہ فاطمہ جناح کے زیر استعمال دو گلی سڑی گاڑیاں (مرسڈیز بینز 1965، رجسٹریشن نمبر DSF-759 اور 1955 سیریز 62 کی کیڈلک کار رجسٹریشن نمبر KAF-935) چند ماہ قبل تک کھڑی تھیں جبکہ سندھ ہائی کورٹ نے جنوری 2015 میں دائر کی گئی ایک درخواست کا فیصلہ سناتے ہوئے محکمہ ثقافت، سیاحت و نوادرات کو حکم دیا تھا کہ وہ فوری طور پر ان گاڑیوں کو ان کی پرانی حالت میں لوٹانے کا کام کرے۔
اس پر محکمے نے ایک اعلی سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا کہ ان گاڑیوں کو ٹھیک اسی طرح ٹھیک کروایا جائے کہ جس طرح 1985 میں بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناحؒ کے زیر استعمال دو گاڑیوں کو نیشنل موٹرز سے درست کروایا گیا تھا۔ تب نیشنل موٹرز نے کوئی معاوضہ لیے بغیر ان دونوں گاڑیوں کے نہ صرف انجنوں کی مرمت کی تھی اور انہیں دوبارہ چلنے کے قابل بنایا تھا، بلکہ ساتھ ہی ساتھ انہیں ان کی اصل حالت میں بھی واپس بحال کیا تھا۔ تجویز یہ تھی کہ اسی طرز پر ان دونوں گاڑیوں کو بھی کسی بڑی موٹر کمپنی سے ٹھیک کروایا جائے۔ اس سلسلے میں محکمے نے ایک پی سی ون کے تحت دو کروڑ 40 لاکھ روپے کی باقاعدہ منظوری بھی دی مگر ان گاڑیوں کو بجائے کسی موٹر کمپنی بھیجنے کے، خفیہ طور پر قومی عجائب گھر کے کوارٹرز کے قریب بنی دو کھولیوں میں منتقل کردیا گیا اور چمڑا چورنگی (کورنگی، کراچی) پر واقع ایک مکینک کی دکان سے دو ڈینٹروں (عاطف حسین اور اختر علی) نے ان خستہ حال گاڑیوں کی مرمت کی۔
واضح رہے کہ یہ گاڑیاں مکمل طور پر گل سڑ چکی تھیں اور ان کے بیشتر پرزہ جات بھی چوری ہوچکے تھے۔ ڈھانچوں کی مرمت کا کام ان دونوں ڈینٹروں نے شروع کیا اور ایک سال سے زائد کی مشقت کے بعد مکمل کرلیا۔ چند روز قبل گاڑیوں کے ان مرمت شدہ ڈھانچوں کو (تین کروڑ روپے کی خطیر لاگت سے مکمل کرتے ہوئے) کرینوں کی مدد سے قائداعظم ہاؤس میوزیم میں اُتار دیا گیا۔ اس میوزیم میں پہلے ہی ایک شیڈ موجود ہے جس کے تین اطراف موٹے موٹے شیشے لگے ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود اب تک عوام کو ان گاڑیوں سے دور رکھا جارہا ہے۔
اسی سلسلے میں چند روز قبل بھی کچھ شائقین نے جب ان گاڑیوں کو دیکھنے کےلیے انتظامیہ سے اصرار کیا تو انہیں روک دیا گیا۔ اس ضمن میں محکمے کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ دراصل تین کروڑ روپے کی لاگت سے محکمے نے صرف ان گاڑیوں کے ڈھانچے کو خوبصورت بنانے کا کام کیا ہے جبکہ اس کے انجن اور دیگر پرزہ جات ناکارہ ہیں، لہذا اس بات کو خفیہ رکھنے کےلیے عوام سے چھپایا جارہا ہے۔
گاڑیوں کے ڈھانچے پر اٹھنے والی مہنگی لاگت کے حوالے سے جب راقم نے مرسیڈیز اور کیڈلک کار کے شو رومز سے رابطہ کیا تو ان کے مالکان کا کہنا تھا کہ تین کروڑ روپے میں ڈھانچے نہیں بلکہ نئی گاڑیاں خریدی جاسکتی تھیں۔ محکمے نے اس طرح صرف قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے۔ ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ عرصہ دراز تک کھلے آسمان تلے ان گاڑیوں کے گلنے سڑنے کے سبب ان کے فریم کے علاوہ اور کوئی چیز کام کی نہیں تھی لہذا ایسی صورت میں فریم پر نئے سرے سے گاڑی کا ڈھانچہ تیار کرکے اسے محترمہ فاطمہ جناح کی گاڑیاں قرار دینا ماسوائے حماقت کے کچھ نہیں۔
اس حوالے سے مزار قائد مینیجمنٹ بورڈ کے سیکریٹری، انجینئر محمد عارف کا کہنا تھا کہ کیونکہ یہ گاڑیاں محکمہ ثقافت نے درست کروائیں لہذا اس پر تبصرہ درست نہیں لیکن اگر اس سلسلے میں بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کے زیر استعمال گاڑی نمبر 327 اور کیڈلک 1947 ماڈل کی بات کی جائے تو یہ گاڑیاں بھی مکمل طور پر تباہ حال تھیں جنہیں 1985 میں نیشنل موٹرز نے اپنے خرچ پر تیار کیا اور نہ صرف ان کے ڈھانچوں کی درستگی و رنگ روغن کا کام کیا بلکہ انہیں مکمل طور پر چلتی حالت میں کرکے دیا جس کی بنیاد پر یہ گاڑیاں آج بھی سڑکوں پر اسی انداز سے چل سکتی ہیں جس طرح ماضی میں چلا کرتی تھیں۔
اس بارے میں محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ محکمے نے ان گاڑیوں کے نام پر فراڈ کے سوا کچھ نہیں کیا کیونکہ ان دونوں گاڑیوں کے اندر اب کوئی ایسی چیز موجود ہی نہیں تھی جس سے یہ ظاہر ہوسکے کہ یہ مادر ملت کی گاڑیاں تھیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ محکمہ ثقافت اسی ما ڈل کی دو نئی گاڑیاں خرید کر شیڈ میں رکھ دیتا اور عوام کو بتایا جاتا کہ مادر ملت کے زیر استعمال ایسی ہی گاڑیاں تھیں۔
ماہرین کا کہنا یہ تھا کہ اس وقت موئن جو دڑو، بھنبھور اور مکلی کے قبرستان سمیت اندرونِ سندھ میں لاتعداد ثقافتی ورثے موجود ہیں جو نہ صرف تباہ حالی کا شکار ہیں بلکہ مکلی کے قبرستان سے متعلق تو یونیسکو یہ دھمکی دے چکا ہے کہ اگر اس کی حالت تبدیل نہ کی گئی تو اسے عالمی ورثے کی فہرست سے نکال دیا جائے گا۔ ان گاڑیوں کے بجائے ان ورثوں پر رقم خرچ کی جاتی تو پاکستان عالمی ٹائٹل سے محروم ہونے سے بچ جاتا۔ مگر باوجود یونیسکو کی دی گئی مہلت ختم ہوجانے کے، اب تک تباہ حال قبرستان کی درستگی کا کام نہیں کیا جاسکا جس کے سبب خدشہ شدید تر ہوگیا ہے کہ اس سال اسے عالمی ٹائٹل سے محروم ہونا پڑے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔