تھیٹر موثر ذریعہ ابلاغ
انسان نے اشاروں، آواز، ادا، رنگ، زبان سے اپنی بات اور پھر تحریر کو سمجھانے کا ہنر دریافت کرلیا
دنیا میں پہلی بار جب ایک انسان نے اپنے جیسے دوسرے انسان تک اپنی بات پہنچانے کے لیے ہاتھ، آنکھ، چہرے، زبان وغیرہ سے جو اشارے کنائے کیے، جو حرکات اور آوازیں استعمال کیں وہی دراصل دنیا کا پہلا تھیٹر تھا۔ انسانی تاریخ کا یہ دور علامتوں اور اشاروں کا عہد (Era of Sign and Symbols) کہلاتا ہے۔
تھیٹر... سوچ، خیال، حرکت اور مکالمے کا نام ہے اور خیال، حرکت اور مکالمہ، انسانی تہذیب و ثقافت کے ارتقا کی نرسری ہے۔ انسان نے اشاروں، آواز، ادا، رنگ، زبان سے اپنی بات اور پھر تحریر کو سمجھانے کا ہنر دریافت کرلیا اور اپنی بات کو موثر طور سے سمجھانے کے لیے اشارے، حرکت، حرف و مکالمہ اور صوت و صدا کا استعمال شروع کیا۔ اسے بھی تو تھیٹر ہی کے ایک انداز کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ کسی بھی شے کو عوام الناس کے سامنے متعارف کرانے والا شخص، افراد یا ادارہ زیادہ موثر انداز اور آواز کے ساتھ اپنی چیز کی تشہیر کرتا ہے۔
گلی محلوں میں پھل، سبزیاں، چھولے، قلفی بیچنے والا شخص بھی اس بات کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے کہ جب تک وہ کسی مخصوص انداز اور آواز کے ترنم کے ساتھ اپنی شے کو متعارف نہیں کرائے گا، اس کی چیز لوگوں کی توجہ حاصل نہیں کرسکے گی۔ گولے گنڈے والا اپنی صراحی دار گھنٹی کی ڈور ہلا کر لوگوں کو اپنی آمد سے آگاہ کرتا ہے، تو وہیں سبزیاں اور دیگر اشیاء فروخت کرنے والے اپنی مخصوص آوازوں اور مکالموں سے اپنی شے کو متعارف کراتے ہیں۔
اسی طریقے سے صنعتکار و تاجر اپنی مصنوعات کو مارکیٹ میں متعارف کرانے کے لیے اشتہارات میں مختلف چہروں کے ساتھ جدید اور نت نئے انداز و آہنگ سے اپنی مصنوعات کو صارف کے سامنے متعارف کراتے ہیں... گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اشتہار بھی تھیٹر ہی کی ایک توسیع (Extension) ہے۔ تھیٹر: فنون لطیفہ کے اس سنگم کا نام ہے جہاں تمام اصناف ادب یکجا ہوجاتی ہیں، نثر، شاعری، مصوری، مجسمہ سازی، موسیقی، صوت و ادا، یہ سب اصناف.... اسکرپٹ، مکالمے، اداکاری، سیٹ ڈیزائن، نوری و صوتی اثرات کے توازن و تناسب سے تھیٹر میں آشکار، عیاں اور زندہ نظر آتے ہیں۔
تھیٹر میں پیغام اسکرپٹ ہوتا ہے، ماحول کی تخلیق کو سیٹ کہا جاتا ہے، موسیقی و نغمگی، صوتی اثرات میں جھلکتی ہے جب کہ مکالموں اور فنکاروں کے درمیان کشمکش شاعری کے آہنگ کی مانند ہوتی ہے۔ تھیٹر ایک ایسا اور واحد میڈیم ہے جہاں کردار اور ناظر ایک اکائی ہوجاتے ہیں کیونکہ اس میں کردار اور ناظر کے درمیان '' پردے'' کا تکلف بھی حائل نہیں رہتا، اور زندہ بولتا، دیکھتا اور حرکت کرتا ہوا کردار زندہ، سوچتے ہوئے اور متوجہ ناظر سے براہِ راست اور ہمہ تن مخاطب ہوتا ہے۔
یہ ایک ایسا ذریعہ ابلاغ ہے جہاں عوامی شراکت عمدہ طریقے سے ظہور پذیر ہوتی ہے۔ مختلف النوع صلاحیتوں کے حامل فنکار تھیٹر کی تشکیل میں شامل ہوتے ہیں اور مختلف الخیال ناظرین کے مجمع کے سامنے تھیٹر پیش کیا جاتا ہے۔ عموماً ٹی وی دیکھنے، ریڈیو سننے کے دوران آپ مختلف کام بھی ساتھ ساتھ انجام دیتے رہتے ہیں اور اس عمل میں مختلف مشاغل اور ضرورتوں کے سبب تعطل یا رکاوٹ بھی آتی رہتی ہے۔
تھیٹر وہ ذریعہ ابلاغ ہے جس سے محظوظ ہونے کے لیے آپ خود کو تیار کرکے تھیٹر ہال تک جاتے ہیں اور ڈرامے کے عرصے کے دوران بلاتعطل تھیٹر سے محظوظ ہوا جاتا ہے۔ ایک طرف تو وہ آسودہ تھیٹر ہے جہاں آپ خود کو تھیٹر ہال لے جانے کے لیے تیار کرتے ہیں، جب کہ دوسری جانب اسٹریٹ تھیٹر، نوٹنکی اور منڈل کی طرز کا سستا اور آسانی سے کیا جانے والا تھیٹر بھی موجود ہے جو کسی بھی جگہ کسی بھی موقع محل پر سجایا جاسکتا ہے۔
تھیٹر میں ابلاغ کے ذریعے جہاں طلسمی گولی کے نظریے Magic Bullet Theory کے مطابق پیغام کا فوری نتیجہ سامنے آجاتا ہے وہاں اگر پیغام کے الفاظ اور پیغام دینے والے کا انداز اور ادا موثر ہو تو ناظر اس کا فوری ردعمل اپنی تالیوں یا پھبتی اور فقروں کے ذریعے منعکس کردیتے ہیں۔
طلسمی گولی کے نظریے کی روشنی میںدیکھا جائے تو تھیٹر ایک بندوق کی مانند ایسا جادوئی میڈیم ہے جس میں مکالمے میں موجود Message گولی کی طرح اپنے ہدف (Target) پر فوری اثر کرتا ہے۔ ایک چینی مثل ہے کہ ''میں نے سنا اور بھلادیا، میں نے غور سے سنا اور یاد رکھا اور میں نے عمل کیا اور سمجھا''۔ ڈرامہ عمل (Act) کا نام ہے جہاں کردار دیکھتا، پڑھتا، سنتا، سمجھتا اور عمل کرتا ہے، جب کہ ناظرین بھی برابر اس عمل سے گزرتے ہیں، آڈینس دیکھتی، سنتی، سمجھتی، یاد رکھتی اور بعض صورتوں میں عمل اور ردعمل بھی کرتی ہے۔
دنیا میں باقاعدہ تھیٹر کا آغازتقریباً 500 سال قبل مسیح میں یونان سے ہوا۔ ایسکائیلس Aeschylus دنیا کا پہلا ڈرامہ نگار مانا جاتا ہے۔ اس کا المیہ ڈرامہ... سائل(The Suppliants) قریباً 470 قبل مسیح میں یونان میں اسٹیج کیا گیا۔
یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں آج بھی 2 ہزار سال قبل کے تھیٹر ہالوں کے کھنڈرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ برصغیر ہند میں ڈرامہ اور رقص کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یورپی اقوام کی برصغیر میںآمد نے بھی تھیٹر پرگہرے اثرات مرتب کیے۔ ڈچ، فرانسیسی، پرتگالی اور انگریزوں کی برصغیر آمد نے ڈرامے پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ مغرب میں ڈرامہ دراصل یونانی دیومالا سے متاثر ڈرامہ ہے۔
یورپی اقوام نے برصغیر کے ڈرامے کو حسن، عشق اور جذبات کی دیومالا سے ہم آہنگ کیا۔ یورپی اقوام نے ڈرامے کو اسٹیج، پردے، میک اپ، ملبوسات اور Props وغیرہ کی نئی اور جدید شکلوں اور ضرورتوں سے آشنا کیا۔ بمبئی میں انگریز نے 1750 میں بمبئی تھیٹر قائم کیا جس میں ابتدا میں انگریزی ڈرامے، بعد ازاں مرہٹی ڈرامے وغیرہ بھی اسٹیج کیے گئے۔ نومبر 1853 میں ڈاکٹر بھائو داجی لاڈ (پارسی) کا اردو ڈرامہ ''راجہ گوپی چند اور جالندھر'' پہلی بار بمبئی تھیٹر میں پیش کیا گیا۔
برصغیر میں مسلمانوں کی آمد نے بھی ہندی ڈرامے پر نہایت گہرے اثرات مرتب کیے۔ مسلمان لسانی اعتبار سے دو نہایت طاقتور، میٹھی اور بے حد مضبوط تہذیبی و ثقافتی ورثہ رکھنے والی زبانیں عربی اور فارسی اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔ ان زبانوں نے برصغیر کے ڈرامے کو کہانیوں کی نئی گھن گرج، علمی ورثے اور لسانی چاشنی سے روشناس کیا۔ پھر برصغیر کی مقامی زبانوں اور اس خطے میں باہر سے آنے والی زبانوں کے امتزاج سے پنپنے اور نشوونما پانے والی زبان ''اردو'' جب اس سرزمین پر اُگی تو اردو نے ڈرامے کو نئی مقبولیت، نیا لسانیاتی آہنگ، مکالماتی حسن، گھن گرج، تمکنت، وقار، دبدبہ، طنطنہ، سنسنی اور ڈرامے سے آمیز کردیا۔
ہندوستانی دیومالا، یورپین تھیٹر، یونانی دیومالا اور سنسکرت، عربی و فارسی کے تہذیبی و ادبی ورثے کی چاشنی سے تغذیہ حاصل کرنے والی اردو زبان نے برصغیر میں ڈرامے کو ایک نئی قوت، مقبولیت اور جہت عطا کی، یہی وجہ ہے کہ انڈین فلم انڈسٹری آج دنیا کی سب سے زیادہ کامیاب فلم انڈسٹری ہے ۔
تھیٹر اصناف ادب کی وہ صنف ہے جو مختلف ہنرمندوں اور فنکاروں کے مجموعی مساعی اور اجتماعی ذہانت کے سبب وجود میں آتا ہے۔ یہ تفریح کے ساتھ ساتھ زبان سکھانے، معلومات اور تعلیم پہنچانے کا بھی ایک موثر ذریعہ ہے۔ تھیٹر انسان میں خوداعتمادی اور رکھ رکھائو پیدا کرتا ہے۔ یہ اپنے کرداروں کے ذریعے آپ کو مختلف طبقوں، حلقوں وغیرہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی سوچ، فکر، انداز بود و باش، ان کی زبان اور تہذیب و ثقافت سے آگاہ کرتا ہے۔ تھیٹر ایک انتہائی موثر اور مقبول ذریعہ ابلاغ ہوسکتا ہے بشرطیکہ اس کو برتنے کے لیے تمام اصناف ادب سے کماحقہ تمسک اور استفادہ کی اہمیت کو ہمہ وقت سامنے رکھا جائے۔
مذکورہ مطالعے اور نکات کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ بات واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے کہ ہمارے ہاں اشتہاری کمپنیوں نے تھیٹر اور ڈرامے کے انداز اور رموز کو سمجھ کر تجارتی مقاصد کے حصول کے لیے اشتہاروں میں ان اصولوں پر عمدگی سے اطلاق کی کوشش کی ہے، جب کہ ٹیلی وژن پر ڈرامے کے علاوہ سرکاری سطح پر تھیٹر کے فروغ کے لیے نہ صرف یہ کہ کوئی سنجیدہ کوشش نہیںکی گئی بلکہ اس طاقتور ذریعہ ابلاغ کو پاکستان میں رہنے والی قوموں کو ایک دوسرے سے قریب لانے اور باہمی ثقافتوں اور رسم و رواج سے آشنائی اور تعلیم کے فروغ کے لیے بھی موثر طریقے سے استعمال نہیں کیا گیا۔
تعلیمی اداروں میں تھیٹر کو عمدہ تفریح کے ساتھ ساتھ مختلف اصناف ادب کے رموز سے آشنائی، خوداعتمادی اور زبان و بیان کے رموز سے آگاہی کے لیے بھی شاندار طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مابین کھینچاتانی اور رسہ کشی کے اس عہد میں تھیٹر کس قدر اور کیونکر ایک موثر ذریعہ ابلاغ ہے، اس سوال کا جواب تھیٹر کرنے کے بعد ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
تھیٹر... سوچ، خیال، حرکت اور مکالمے کا نام ہے اور خیال، حرکت اور مکالمہ، انسانی تہذیب و ثقافت کے ارتقا کی نرسری ہے۔ انسان نے اشاروں، آواز، ادا، رنگ، زبان سے اپنی بات اور پھر تحریر کو سمجھانے کا ہنر دریافت کرلیا اور اپنی بات کو موثر طور سے سمجھانے کے لیے اشارے، حرکت، حرف و مکالمہ اور صوت و صدا کا استعمال شروع کیا۔ اسے بھی تو تھیٹر ہی کے ایک انداز کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ کسی بھی شے کو عوام الناس کے سامنے متعارف کرانے والا شخص، افراد یا ادارہ زیادہ موثر انداز اور آواز کے ساتھ اپنی چیز کی تشہیر کرتا ہے۔
گلی محلوں میں پھل، سبزیاں، چھولے، قلفی بیچنے والا شخص بھی اس بات کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے کہ جب تک وہ کسی مخصوص انداز اور آواز کے ترنم کے ساتھ اپنی شے کو متعارف نہیں کرائے گا، اس کی چیز لوگوں کی توجہ حاصل نہیں کرسکے گی۔ گولے گنڈے والا اپنی صراحی دار گھنٹی کی ڈور ہلا کر لوگوں کو اپنی آمد سے آگاہ کرتا ہے، تو وہیں سبزیاں اور دیگر اشیاء فروخت کرنے والے اپنی مخصوص آوازوں اور مکالموں سے اپنی شے کو متعارف کراتے ہیں۔
اسی طریقے سے صنعتکار و تاجر اپنی مصنوعات کو مارکیٹ میں متعارف کرانے کے لیے اشتہارات میں مختلف چہروں کے ساتھ جدید اور نت نئے انداز و آہنگ سے اپنی مصنوعات کو صارف کے سامنے متعارف کراتے ہیں... گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اشتہار بھی تھیٹر ہی کی ایک توسیع (Extension) ہے۔ تھیٹر: فنون لطیفہ کے اس سنگم کا نام ہے جہاں تمام اصناف ادب یکجا ہوجاتی ہیں، نثر، شاعری، مصوری، مجسمہ سازی، موسیقی، صوت و ادا، یہ سب اصناف.... اسکرپٹ، مکالمے، اداکاری، سیٹ ڈیزائن، نوری و صوتی اثرات کے توازن و تناسب سے تھیٹر میں آشکار، عیاں اور زندہ نظر آتے ہیں۔
تھیٹر میں پیغام اسکرپٹ ہوتا ہے، ماحول کی تخلیق کو سیٹ کہا جاتا ہے، موسیقی و نغمگی، صوتی اثرات میں جھلکتی ہے جب کہ مکالموں اور فنکاروں کے درمیان کشمکش شاعری کے آہنگ کی مانند ہوتی ہے۔ تھیٹر ایک ایسا اور واحد میڈیم ہے جہاں کردار اور ناظر ایک اکائی ہوجاتے ہیں کیونکہ اس میں کردار اور ناظر کے درمیان '' پردے'' کا تکلف بھی حائل نہیں رہتا، اور زندہ بولتا، دیکھتا اور حرکت کرتا ہوا کردار زندہ، سوچتے ہوئے اور متوجہ ناظر سے براہِ راست اور ہمہ تن مخاطب ہوتا ہے۔
یہ ایک ایسا ذریعہ ابلاغ ہے جہاں عوامی شراکت عمدہ طریقے سے ظہور پذیر ہوتی ہے۔ مختلف النوع صلاحیتوں کے حامل فنکار تھیٹر کی تشکیل میں شامل ہوتے ہیں اور مختلف الخیال ناظرین کے مجمع کے سامنے تھیٹر پیش کیا جاتا ہے۔ عموماً ٹی وی دیکھنے، ریڈیو سننے کے دوران آپ مختلف کام بھی ساتھ ساتھ انجام دیتے رہتے ہیں اور اس عمل میں مختلف مشاغل اور ضرورتوں کے سبب تعطل یا رکاوٹ بھی آتی رہتی ہے۔
تھیٹر وہ ذریعہ ابلاغ ہے جس سے محظوظ ہونے کے لیے آپ خود کو تیار کرکے تھیٹر ہال تک جاتے ہیں اور ڈرامے کے عرصے کے دوران بلاتعطل تھیٹر سے محظوظ ہوا جاتا ہے۔ ایک طرف تو وہ آسودہ تھیٹر ہے جہاں آپ خود کو تھیٹر ہال لے جانے کے لیے تیار کرتے ہیں، جب کہ دوسری جانب اسٹریٹ تھیٹر، نوٹنکی اور منڈل کی طرز کا سستا اور آسانی سے کیا جانے والا تھیٹر بھی موجود ہے جو کسی بھی جگہ کسی بھی موقع محل پر سجایا جاسکتا ہے۔
تھیٹر میں ابلاغ کے ذریعے جہاں طلسمی گولی کے نظریے Magic Bullet Theory کے مطابق پیغام کا فوری نتیجہ سامنے آجاتا ہے وہاں اگر پیغام کے الفاظ اور پیغام دینے والے کا انداز اور ادا موثر ہو تو ناظر اس کا فوری ردعمل اپنی تالیوں یا پھبتی اور فقروں کے ذریعے منعکس کردیتے ہیں۔
طلسمی گولی کے نظریے کی روشنی میںدیکھا جائے تو تھیٹر ایک بندوق کی مانند ایسا جادوئی میڈیم ہے جس میں مکالمے میں موجود Message گولی کی طرح اپنے ہدف (Target) پر فوری اثر کرتا ہے۔ ایک چینی مثل ہے کہ ''میں نے سنا اور بھلادیا، میں نے غور سے سنا اور یاد رکھا اور میں نے عمل کیا اور سمجھا''۔ ڈرامہ عمل (Act) کا نام ہے جہاں کردار دیکھتا، پڑھتا، سنتا، سمجھتا اور عمل کرتا ہے، جب کہ ناظرین بھی برابر اس عمل سے گزرتے ہیں، آڈینس دیکھتی، سنتی، سمجھتی، یاد رکھتی اور بعض صورتوں میں عمل اور ردعمل بھی کرتی ہے۔
دنیا میں باقاعدہ تھیٹر کا آغازتقریباً 500 سال قبل مسیح میں یونان سے ہوا۔ ایسکائیلس Aeschylus دنیا کا پہلا ڈرامہ نگار مانا جاتا ہے۔ اس کا المیہ ڈرامہ... سائل(The Suppliants) قریباً 470 قبل مسیح میں یونان میں اسٹیج کیا گیا۔
یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں آج بھی 2 ہزار سال قبل کے تھیٹر ہالوں کے کھنڈرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ برصغیر ہند میں ڈرامہ اور رقص کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یورپی اقوام کی برصغیر میںآمد نے بھی تھیٹر پرگہرے اثرات مرتب کیے۔ ڈچ، فرانسیسی، پرتگالی اور انگریزوں کی برصغیر آمد نے ڈرامے پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ مغرب میں ڈرامہ دراصل یونانی دیومالا سے متاثر ڈرامہ ہے۔
یورپی اقوام نے برصغیر کے ڈرامے کو حسن، عشق اور جذبات کی دیومالا سے ہم آہنگ کیا۔ یورپی اقوام نے ڈرامے کو اسٹیج، پردے، میک اپ، ملبوسات اور Props وغیرہ کی نئی اور جدید شکلوں اور ضرورتوں سے آشنا کیا۔ بمبئی میں انگریز نے 1750 میں بمبئی تھیٹر قائم کیا جس میں ابتدا میں انگریزی ڈرامے، بعد ازاں مرہٹی ڈرامے وغیرہ بھی اسٹیج کیے گئے۔ نومبر 1853 میں ڈاکٹر بھائو داجی لاڈ (پارسی) کا اردو ڈرامہ ''راجہ گوپی چند اور جالندھر'' پہلی بار بمبئی تھیٹر میں پیش کیا گیا۔
برصغیر میں مسلمانوں کی آمد نے بھی ہندی ڈرامے پر نہایت گہرے اثرات مرتب کیے۔ مسلمان لسانی اعتبار سے دو نہایت طاقتور، میٹھی اور بے حد مضبوط تہذیبی و ثقافتی ورثہ رکھنے والی زبانیں عربی اور فارسی اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔ ان زبانوں نے برصغیر کے ڈرامے کو کہانیوں کی نئی گھن گرج، علمی ورثے اور لسانی چاشنی سے روشناس کیا۔ پھر برصغیر کی مقامی زبانوں اور اس خطے میں باہر سے آنے والی زبانوں کے امتزاج سے پنپنے اور نشوونما پانے والی زبان ''اردو'' جب اس سرزمین پر اُگی تو اردو نے ڈرامے کو نئی مقبولیت، نیا لسانیاتی آہنگ، مکالماتی حسن، گھن گرج، تمکنت، وقار، دبدبہ، طنطنہ، سنسنی اور ڈرامے سے آمیز کردیا۔
ہندوستانی دیومالا، یورپین تھیٹر، یونانی دیومالا اور سنسکرت، عربی و فارسی کے تہذیبی و ادبی ورثے کی چاشنی سے تغذیہ حاصل کرنے والی اردو زبان نے برصغیر میں ڈرامے کو ایک نئی قوت، مقبولیت اور جہت عطا کی، یہی وجہ ہے کہ انڈین فلم انڈسٹری آج دنیا کی سب سے زیادہ کامیاب فلم انڈسٹری ہے ۔
تھیٹر اصناف ادب کی وہ صنف ہے جو مختلف ہنرمندوں اور فنکاروں کے مجموعی مساعی اور اجتماعی ذہانت کے سبب وجود میں آتا ہے۔ یہ تفریح کے ساتھ ساتھ زبان سکھانے، معلومات اور تعلیم پہنچانے کا بھی ایک موثر ذریعہ ہے۔ تھیٹر انسان میں خوداعتمادی اور رکھ رکھائو پیدا کرتا ہے۔ یہ اپنے کرداروں کے ذریعے آپ کو مختلف طبقوں، حلقوں وغیرہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی سوچ، فکر، انداز بود و باش، ان کی زبان اور تہذیب و ثقافت سے آگاہ کرتا ہے۔ تھیٹر ایک انتہائی موثر اور مقبول ذریعہ ابلاغ ہوسکتا ہے بشرطیکہ اس کو برتنے کے لیے تمام اصناف ادب سے کماحقہ تمسک اور استفادہ کی اہمیت کو ہمہ وقت سامنے رکھا جائے۔
مذکورہ مطالعے اور نکات کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ بات واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے کہ ہمارے ہاں اشتہاری کمپنیوں نے تھیٹر اور ڈرامے کے انداز اور رموز کو سمجھ کر تجارتی مقاصد کے حصول کے لیے اشتہاروں میں ان اصولوں پر عمدگی سے اطلاق کی کوشش کی ہے، جب کہ ٹیلی وژن پر ڈرامے کے علاوہ سرکاری سطح پر تھیٹر کے فروغ کے لیے نہ صرف یہ کہ کوئی سنجیدہ کوشش نہیںکی گئی بلکہ اس طاقتور ذریعہ ابلاغ کو پاکستان میں رہنے والی قوموں کو ایک دوسرے سے قریب لانے اور باہمی ثقافتوں اور رسم و رواج سے آشنائی اور تعلیم کے فروغ کے لیے بھی موثر طریقے سے استعمال نہیں کیا گیا۔
تعلیمی اداروں میں تھیٹر کو عمدہ تفریح کے ساتھ ساتھ مختلف اصناف ادب کے رموز سے آشنائی، خوداعتمادی اور زبان و بیان کے رموز سے آگاہی کے لیے بھی شاندار طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مابین کھینچاتانی اور رسہ کشی کے اس عہد میں تھیٹر کس قدر اور کیونکر ایک موثر ذریعہ ابلاغ ہے، اس سوال کا جواب تھیٹر کرنے کے بعد ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔