مارکسی نسائی نظریات آخری حصہ
پہلی خواہش فنکار کی اپنے ہنر کے حوالے سے یہ ضرور ہوتی ہے کہ اس کے فن کو دیکھ کر لوگ چونک اٹھیں.
RAWALPINDI:
اگرچہ آج کے صنعتی معاشروں میں فن اور فنکار آزاد منڈی کا حصہ بن چکے ہیں اس کے باوجود آج بھی فن پارہ جس مقصد کے تحت بھی وجود میں لایا جاتا ہے
پہلی خواہش فنکار کی اپنے ہنر کے حوالے سے یہ ضرور ہوتی ہے کہ اس کے فن کو دیکھ کر لوگ چونک اٹھیں اور بے ساختہ سراہنے لگیں، فنکار کے ذہن یا تخیل کی داد دینے لگیں۔
اسی طرح 'تراشنا' کا استعارہ فنکار کے فن کی غیر حقیقی، حقیقت کی معنویت بیان کررہا ہے، جس کو نظم نگار خاتون بظاہر سراہ تو رہی ہیں مگر 'خوب' کا لفظ اس کے لہجے کی کاٹ اور طنز کو واضح کر رہا ہے۔ شاعرہ کے اس موقف کو کھل کر بیان کررہا ہے کہ فنکار نے جو کچھ 'تراشا' ہے اس کا شاعرہ کی ذات سے کوئی تعلق نہیں۔ تراشنا کے لفظ کو اگر لسانی حوالے سے پرکھا جائے تو یہ ہمیشہ جھوٹ کے پہلو میں ایستادہ نظر آتا ہے۔ اس بند میں شاعرہ نے تشبیہات اور استعاروں کے ساتھ انتہائی خوبصورت امیجری بنائی ہے۔
جو نظم کی شعریت کسی بھی سطح پر کم نہیں ہونے دیتی، اس بند میں معنویت اور شعریت ایک دوسرے کی سنگت میں بڑی خوبصورتی سے نسائیت کی مسخ شدہ مگر خوبصورت تصویر کے نقش قاری کی بصارتوں کے آنگن میں آویزاں کررہی ہیں جو ساختیاتی حوالے سے 'فنکار' کے اپنے ہی دل کو تو چھوتی ہے مگر معنوی سطح پرعورت کے حوالے سے اس کے خود ساختہ معیار حسن کو بیان کرتی ہیں جس سے ایک عورت کا بحیثیت انسان کوئی تعلق نہیں ،کیونکہ اس فن پارے کے فنکار نے عورت کو تراشتے ہوئے تمام قیمتی، مگر بے جان دھاتوں کا استعمال کیا ہے۔ جیسا کہ نظم کے پہلے بند کے یہ مصرعے:
''آنکھ نیلم کی... بدن چاندی کا... یاقوت کے لب... یہ ترے ذوقِ طلب کے بھی ہیں... معیارعجب پائوں میں میرے... یہ پازیب... سجا دی تُونے... نقرئی تار میں آوازمنڈھا دی تُونے... یہ جواہر سے جڑی... قیمتی مورت میری... اپنے سامان تعیش میں ... لگا دی تُونے''
نظم کے اس بند میں استعمال ہونے والی تمام علامتیںایسی دھاتوں پر مشتمل ہیں جن کی جمالیاتی قدر بھی مرد ہی کی بنائی ہوئی ہے اور وہ 'قدر' بھی جس کو سرمایہ دار منڈی کی طلب و ضرورت کے تحت طے کرتا ہے اور وقت کے ساتھ بدلتا ہے، مرد ہی کا اختیار ہے۔ اسی طرح ایک عورت کا وجود ان دھاتوں سے 'تراشنا' اس بات کی دلیل ہے کہ عورت بھی اس ایک بے جان پتھر کے مماثل ہے جس کی 'قدر' اسی طرح وقت کے ساتھ مرد بدلتا رہا ہے اور آج سرمایہ دار مرد منڈی کی طلب کے مطابق اس کو تراشتا ہے تاکہ اس کی 'قدر' میں اضافہ ہوسکے۔
اس نظم میں شاعرہ بظاہر 'فنکار' سے مخاطب ہے مگر درحقیقت نسائیت کی آواز کی نمائندگی یہاں 'میں' کے لفظ سے کررہی ہیں جو مجموعی نسائی شعور کی علامت ہے۔ اس نظم کی شاعرہ، جو صنعتی معاشرے کی رہائشی ہونے کی وجہ سے سرمایہ داری نظام کا تجربی شعور رکھتی ہیں، نسائیت کو آزاد منڈی میں ایک 'جنس' (commodity) کے طور پر شناخت کررہی ہیں، جس کو اس بات کا بھرپور شعور ہے کہ یہ فن پارہ اس کی معنوی حقیقت کو نہیں بلکہ اس 'معنی' کو استحکام دے رہا ہے۔
جسے ایک سرمایہ دار مرد نے اپنی ضرورت اور خواہش کے مطابق ڈھالا ہے، اسی لیے وہ بڑے طنز سے اس فن پارے کو سراہتی ہیں اور اس فن پارے کی ایک ایک خوبی بڑی وضاحت سے اس طرح شعری قالب میں ڈھال رہی ہے کہ اس کے پس پردہ مرد کے مقاصد اور اس کی 'خدا' کے مماثل ہونے کی خواہش کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ کس طرح عورت کو مرد نے اپنی طاقت سے ایک انسان کے بجائے اشیائے صرف (جنس) میں تبدیل کردیا ہے، جس کی اپنی کوئی 'قدر' نہیں جب تک کے اس کا وجود بے جان، مگر منڈی میں 'قدر' رکھنے والے پتھروں سے نہ 'تراشا' جائے۔
وہ مرد کے دہرے معیار کو نمایاں کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ کیسے ایک عورت کو مستقل اپنے مفادات کے لیے مرد نے پہلے صدیوں تک کسی نہ کسی رشتے کے نام پر گھروں میں محصور رکھا اور جب وقت کے بدلتے تقاضوں اور سرمایہ داری نظام کی بقا کے لیے عورت کی ضرورت منڈی میں محسوس کی تو اس کو 'آزادی' کا پرچم تھما کر منڈی میں'جنس' کے طور پر متعارف کرادیا ہے۔ وہ ایسے مرد کے ''ذوق طلب کے... معیارِ عجب'' پر حیران ہوکر اس سے طنزاً سوال کرتی ہے کہ کس طرح خود ''پائوں میں میرے... یہ پازیب ... سجادی تُونے... نقرئی تار میں... آواز منڈھا دی تُونے''۔
پازیب کی علامت بازار حسن کی طرف واضح اشارہ ہے، جب کہ ان مصرعوں میں نقرئی تار اور آواز کے پرو دیے جانے کی ترکیب ایک گانا گانے والی عورت کا تصور اُبھارتی ہے، معیار عجب پر حیرانی بھی اسی لیے ہے کہ مرد اپنے مفادات کے لیے صدیوں تک گھر کی چاردیواری میں رہنے والی عورت کو جنسی خدمات کے عوض اچھی عورت کا رتبہ دیتا رہا، تو دوسری طرف بازارِ حسن کا اہتمام بھی کرتا رہا، دنیا کے مختلف معاشروں میں بازارِ حسن کی موجودگی مردوں کے اچھی عورت کی تعریف کے حوالے سے سوالیہ نشان ہیں اسی سوال کو اس نظم میں مجموعی نسائی آواز حیرانی سے پوچھ رہی ہے کہ کیوں اب ''یہ جواہر سے جڑی ... قیمتی مورت میری... اپنے سامانِ تعیش میں لگا دی تُونے''۔
وہ عورت جسے صدیوں تک گھر کی چار دیواری میں پاکیزہ عورت کا خطاب دے کر رکھا گیا اب اس کو کسی 'جنس' کی طرح دوسری اشیائے صرف کے ساتھ رکھ دیا گیا ہے یوں جیسے وہ بھی بے جان 'جنس' سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ قیمتی پتھروں سے سجانا اس بات کی علامت ہے کہ اصل قدر منڈی میں سرمائے کی ہے اور اسی کے تحت عورت کی قدربھی اشیائے صرف کی طرح منڈی کی بدلتی قدروں کے تحت متعین کی جارہی ہے۔ آج مردوں ہی کی عطا کردہ 'آزادی' کے نتیجے میں دنیا کے بڑے بڑے اخبارات اور میگزین کے سرِورق پر ایک عورت 'آزاد' عورت کی علامت کے طور پر نظر آتی ہے۔
جو ایک حقیقی آزاد اور خود مختار عورت نہیں۔ جب کہ ان مصرعوں میں 'نقرئی تار' ایسا استعارہ ہے جو ایک طرف تو گانا گانے والی عورت کا تصور پیدا کررہا ہے تو دوسری طرف یہ واضح کررہا ہے کہ نسائی آواز کو مرد اپنی مقرر کردہ حدود سے باہر نہیں آنے دینا چاہتا اور ایک مخصوص ساخت میں ہی رکھنا چاہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ صدیوں تک نسائی آواز اپنا حقیقی 'معنی' مستحکم نہیں کرسکی، بلکہ اس کو مرد نے اپنی پسند کا معنی اپنی ضرورت کے تحت عطا کیا۔شاعرہ نے بڑی مہارت سے عورت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے اس کے اندر موجود جذبات و احساسات اور اپنے اندر زندگی کو جنم دینے کی اہلیت کا دعویٰ کیا ہے۔
جو بدلتے وقت کے ساتھ منڈی کی 'قدر' کی طرح اس کی قدر کو کم نہیں ہونے دے گی ،کیونکہ انسان یا زندگی کا جنم عورت کے وجود سے وابستہ ہے ،مگر وہ کون سے 'رنگ تازہ' ہیں جو شاعرہ نے کسی تصویر میں بھرے ہیں ان کو واضح نہیں کرسکیں۔ وہ رنگ کیا تھے جن کو ' فنکار' اپنی تصویر میں بھر نہیں سکا، یہاں ضروری تھا کہ شاعرہ نظم کو تھوڑا اور آگے بڑھاتے ہوئے 'رنگ جو تازہ ہیں' ان کے لیے اپنے زاویہ نگاہ کے مطابق جاندار استعارے تشبیہات یا علامات کا استعمال کرتے ہوئے 'فنکار' کی بنائی ہوئی 'غیر حقیقی' عورت کے مقابل حقیقی عورت کو نمایاں کرتیں۔
یہاں لسانی طاقت کا نسائیت کے رنگ میں عمل آراء ہونا ضروری تھا، مگر نسیم سید صرف دعوے تک محدود رہی ہیں اور فنکار کی ادھوری تصویر کی خامیاں تو نمایاں کیں اور نسائی وجود کی وہ خوبیاں بھی جو اسے ایک فرد کی حیثیت سے الگ شناخت عطا کرتی ہیں، مگر عورت کی حقیقی تصویر کو مکمل کرنے کے لیے جو رنگ درکار تھے ان کو نمایاں نہیں کرسکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت کی حقیقی شناخت عورت ہی مستحکم کرسکتی ہے ، مگر اس کے لیے ابھی نسائیت کو مزید سفر کرنا پڑے گا۔
مختصر یہ کہ نسیم سید کی یہ نظم بلاشبہ صدیوں پر پھیلے ہوئے نسائی سفر کی داستان بیان کررہی ہے جس کو ایک طرف تو انھوں نے اس نظم میں نسائی جذبات و نظریات کی روشنی میں نہ صرف 'شناخت' کیا ہے، بلکہ اس کو مغربی نسائی آوازوں سے جدا کرکے مشرقی رنگ بھی دیا ہے، جو 'آنکھ میں درد کے سمندر' کی طرح موجزن ہے تو بطن میں ''جوہر ہیں نمو کے'' اور دل پر لکھے ورق کی صورت مشرقی نسائی 'معنی' کو شناخت بخش رہا ہے۔
اگرچہ آج کے صنعتی معاشروں میں فن اور فنکار آزاد منڈی کا حصہ بن چکے ہیں اس کے باوجود آج بھی فن پارہ جس مقصد کے تحت بھی وجود میں لایا جاتا ہے
پہلی خواہش فنکار کی اپنے ہنر کے حوالے سے یہ ضرور ہوتی ہے کہ اس کے فن کو دیکھ کر لوگ چونک اٹھیں اور بے ساختہ سراہنے لگیں، فنکار کے ذہن یا تخیل کی داد دینے لگیں۔
اسی طرح 'تراشنا' کا استعارہ فنکار کے فن کی غیر حقیقی، حقیقت کی معنویت بیان کررہا ہے، جس کو نظم نگار خاتون بظاہر سراہ تو رہی ہیں مگر 'خوب' کا لفظ اس کے لہجے کی کاٹ اور طنز کو واضح کر رہا ہے۔ شاعرہ کے اس موقف کو کھل کر بیان کررہا ہے کہ فنکار نے جو کچھ 'تراشا' ہے اس کا شاعرہ کی ذات سے کوئی تعلق نہیں۔ تراشنا کے لفظ کو اگر لسانی حوالے سے پرکھا جائے تو یہ ہمیشہ جھوٹ کے پہلو میں ایستادہ نظر آتا ہے۔ اس بند میں شاعرہ نے تشبیہات اور استعاروں کے ساتھ انتہائی خوبصورت امیجری بنائی ہے۔
جو نظم کی شعریت کسی بھی سطح پر کم نہیں ہونے دیتی، اس بند میں معنویت اور شعریت ایک دوسرے کی سنگت میں بڑی خوبصورتی سے نسائیت کی مسخ شدہ مگر خوبصورت تصویر کے نقش قاری کی بصارتوں کے آنگن میں آویزاں کررہی ہیں جو ساختیاتی حوالے سے 'فنکار' کے اپنے ہی دل کو تو چھوتی ہے مگر معنوی سطح پرعورت کے حوالے سے اس کے خود ساختہ معیار حسن کو بیان کرتی ہیں جس سے ایک عورت کا بحیثیت انسان کوئی تعلق نہیں ،کیونکہ اس فن پارے کے فنکار نے عورت کو تراشتے ہوئے تمام قیمتی، مگر بے جان دھاتوں کا استعمال کیا ہے۔ جیسا کہ نظم کے پہلے بند کے یہ مصرعے:
''آنکھ نیلم کی... بدن چاندی کا... یاقوت کے لب... یہ ترے ذوقِ طلب کے بھی ہیں... معیارعجب پائوں میں میرے... یہ پازیب... سجا دی تُونے... نقرئی تار میں آوازمنڈھا دی تُونے... یہ جواہر سے جڑی... قیمتی مورت میری... اپنے سامان تعیش میں ... لگا دی تُونے''
نظم کے اس بند میں استعمال ہونے والی تمام علامتیںایسی دھاتوں پر مشتمل ہیں جن کی جمالیاتی قدر بھی مرد ہی کی بنائی ہوئی ہے اور وہ 'قدر' بھی جس کو سرمایہ دار منڈی کی طلب و ضرورت کے تحت طے کرتا ہے اور وقت کے ساتھ بدلتا ہے، مرد ہی کا اختیار ہے۔ اسی طرح ایک عورت کا وجود ان دھاتوں سے 'تراشنا' اس بات کی دلیل ہے کہ عورت بھی اس ایک بے جان پتھر کے مماثل ہے جس کی 'قدر' اسی طرح وقت کے ساتھ مرد بدلتا رہا ہے اور آج سرمایہ دار مرد منڈی کی طلب کے مطابق اس کو تراشتا ہے تاکہ اس کی 'قدر' میں اضافہ ہوسکے۔
اس نظم میں شاعرہ بظاہر 'فنکار' سے مخاطب ہے مگر درحقیقت نسائیت کی آواز کی نمائندگی یہاں 'میں' کے لفظ سے کررہی ہیں جو مجموعی نسائی شعور کی علامت ہے۔ اس نظم کی شاعرہ، جو صنعتی معاشرے کی رہائشی ہونے کی وجہ سے سرمایہ داری نظام کا تجربی شعور رکھتی ہیں، نسائیت کو آزاد منڈی میں ایک 'جنس' (commodity) کے طور پر شناخت کررہی ہیں، جس کو اس بات کا بھرپور شعور ہے کہ یہ فن پارہ اس کی معنوی حقیقت کو نہیں بلکہ اس 'معنی' کو استحکام دے رہا ہے۔
جسے ایک سرمایہ دار مرد نے اپنی ضرورت اور خواہش کے مطابق ڈھالا ہے، اسی لیے وہ بڑے طنز سے اس فن پارے کو سراہتی ہیں اور اس فن پارے کی ایک ایک خوبی بڑی وضاحت سے اس طرح شعری قالب میں ڈھال رہی ہے کہ اس کے پس پردہ مرد کے مقاصد اور اس کی 'خدا' کے مماثل ہونے کی خواہش کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ کس طرح عورت کو مرد نے اپنی طاقت سے ایک انسان کے بجائے اشیائے صرف (جنس) میں تبدیل کردیا ہے، جس کی اپنی کوئی 'قدر' نہیں جب تک کے اس کا وجود بے جان، مگر منڈی میں 'قدر' رکھنے والے پتھروں سے نہ 'تراشا' جائے۔
وہ مرد کے دہرے معیار کو نمایاں کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ کیسے ایک عورت کو مستقل اپنے مفادات کے لیے مرد نے پہلے صدیوں تک کسی نہ کسی رشتے کے نام پر گھروں میں محصور رکھا اور جب وقت کے بدلتے تقاضوں اور سرمایہ داری نظام کی بقا کے لیے عورت کی ضرورت منڈی میں محسوس کی تو اس کو 'آزادی' کا پرچم تھما کر منڈی میں'جنس' کے طور پر متعارف کرادیا ہے۔ وہ ایسے مرد کے ''ذوق طلب کے... معیارِ عجب'' پر حیران ہوکر اس سے طنزاً سوال کرتی ہے کہ کس طرح خود ''پائوں میں میرے... یہ پازیب ... سجادی تُونے... نقرئی تار میں... آواز منڈھا دی تُونے''۔
پازیب کی علامت بازار حسن کی طرف واضح اشارہ ہے، جب کہ ان مصرعوں میں نقرئی تار اور آواز کے پرو دیے جانے کی ترکیب ایک گانا گانے والی عورت کا تصور اُبھارتی ہے، معیار عجب پر حیرانی بھی اسی لیے ہے کہ مرد اپنے مفادات کے لیے صدیوں تک گھر کی چاردیواری میں رہنے والی عورت کو جنسی خدمات کے عوض اچھی عورت کا رتبہ دیتا رہا، تو دوسری طرف بازارِ حسن کا اہتمام بھی کرتا رہا، دنیا کے مختلف معاشروں میں بازارِ حسن کی موجودگی مردوں کے اچھی عورت کی تعریف کے حوالے سے سوالیہ نشان ہیں اسی سوال کو اس نظم میں مجموعی نسائی آواز حیرانی سے پوچھ رہی ہے کہ کیوں اب ''یہ جواہر سے جڑی ... قیمتی مورت میری... اپنے سامانِ تعیش میں لگا دی تُونے''۔
وہ عورت جسے صدیوں تک گھر کی چار دیواری میں پاکیزہ عورت کا خطاب دے کر رکھا گیا اب اس کو کسی 'جنس' کی طرح دوسری اشیائے صرف کے ساتھ رکھ دیا گیا ہے یوں جیسے وہ بھی بے جان 'جنس' سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ قیمتی پتھروں سے سجانا اس بات کی علامت ہے کہ اصل قدر منڈی میں سرمائے کی ہے اور اسی کے تحت عورت کی قدربھی اشیائے صرف کی طرح منڈی کی بدلتی قدروں کے تحت متعین کی جارہی ہے۔ آج مردوں ہی کی عطا کردہ 'آزادی' کے نتیجے میں دنیا کے بڑے بڑے اخبارات اور میگزین کے سرِورق پر ایک عورت 'آزاد' عورت کی علامت کے طور پر نظر آتی ہے۔
جو ایک حقیقی آزاد اور خود مختار عورت نہیں۔ جب کہ ان مصرعوں میں 'نقرئی تار' ایسا استعارہ ہے جو ایک طرف تو گانا گانے والی عورت کا تصور پیدا کررہا ہے تو دوسری طرف یہ واضح کررہا ہے کہ نسائی آواز کو مرد اپنی مقرر کردہ حدود سے باہر نہیں آنے دینا چاہتا اور ایک مخصوص ساخت میں ہی رکھنا چاہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ صدیوں تک نسائی آواز اپنا حقیقی 'معنی' مستحکم نہیں کرسکی، بلکہ اس کو مرد نے اپنی پسند کا معنی اپنی ضرورت کے تحت عطا کیا۔شاعرہ نے بڑی مہارت سے عورت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے اس کے اندر موجود جذبات و احساسات اور اپنے اندر زندگی کو جنم دینے کی اہلیت کا دعویٰ کیا ہے۔
جو بدلتے وقت کے ساتھ منڈی کی 'قدر' کی طرح اس کی قدر کو کم نہیں ہونے دے گی ،کیونکہ انسان یا زندگی کا جنم عورت کے وجود سے وابستہ ہے ،مگر وہ کون سے 'رنگ تازہ' ہیں جو شاعرہ نے کسی تصویر میں بھرے ہیں ان کو واضح نہیں کرسکیں۔ وہ رنگ کیا تھے جن کو ' فنکار' اپنی تصویر میں بھر نہیں سکا، یہاں ضروری تھا کہ شاعرہ نظم کو تھوڑا اور آگے بڑھاتے ہوئے 'رنگ جو تازہ ہیں' ان کے لیے اپنے زاویہ نگاہ کے مطابق جاندار استعارے تشبیہات یا علامات کا استعمال کرتے ہوئے 'فنکار' کی بنائی ہوئی 'غیر حقیقی' عورت کے مقابل حقیقی عورت کو نمایاں کرتیں۔
یہاں لسانی طاقت کا نسائیت کے رنگ میں عمل آراء ہونا ضروری تھا، مگر نسیم سید صرف دعوے تک محدود رہی ہیں اور فنکار کی ادھوری تصویر کی خامیاں تو نمایاں کیں اور نسائی وجود کی وہ خوبیاں بھی جو اسے ایک فرد کی حیثیت سے الگ شناخت عطا کرتی ہیں، مگر عورت کی حقیقی تصویر کو مکمل کرنے کے لیے جو رنگ درکار تھے ان کو نمایاں نہیں کرسکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت کی حقیقی شناخت عورت ہی مستحکم کرسکتی ہے ، مگر اس کے لیے ابھی نسائیت کو مزید سفر کرنا پڑے گا۔
مختصر یہ کہ نسیم سید کی یہ نظم بلاشبہ صدیوں پر پھیلے ہوئے نسائی سفر کی داستان بیان کررہی ہے جس کو ایک طرف تو انھوں نے اس نظم میں نسائی جذبات و نظریات کی روشنی میں نہ صرف 'شناخت' کیا ہے، بلکہ اس کو مغربی نسائی آوازوں سے جدا کرکے مشرقی رنگ بھی دیا ہے، جو 'آنکھ میں درد کے سمندر' کی طرح موجزن ہے تو بطن میں ''جوہر ہیں نمو کے'' اور دل پر لکھے ورق کی صورت مشرقی نسائی 'معنی' کو شناخت بخش رہا ہے۔