سب کچھ بدل سکتا ہے مگر…
دل میں یہ یقین ہونے کے باوجود کہ سب کچھ بدل سکتا ہے مگر ہم نہیں بدل سکتے۔
پیارے معظم، تم نے کچھ تصاویر بھیجی ہیں، اسی قسم کے حشر کی توقع ہونے کے باوجود مجھے وہ تصاویر دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ کیوں میں نے ایک لمحے کے لیے بھی ایسا سوچا کہ شاید اب کی بار ایسا نہ ہو! جب ہم من حیث القوم ہیں ہی ایسے تو کیوں بار بار بدل جانے کا گمان ہوتا ہے، دل میں یہ یقین ہونے کے باوجود کہ سب کچھ بدل سکتا ہے مگر ہم نہیں بدل سکتے۔
کسی بچے کو بھی نیا کھلونا دیا جائے تو وہ چار دن اس کی عزت قدر کرتا ہے، سلیقے سے سنبھال کر رکھتا اور احتیاط سے کھیلتا ہے مگر ہم بڑے... ہم بڑے ہوکر بھول جاتے ہیں کہ احتیاط اور سلیقہ کون سی بلائیں ہیں۔ تم نے مجھے جو تصاویر بھیجی ہیں وہ اسلام آباد کے ائیر پورٹ کی تصاویر ہیں جو کہ حال ہی میں پایہء تکمیل کو پہنچا اور تین مئی سے باقاعدہ فنکشنل ہوا ہے، صرف تین ہفتے پہلے اور ان تین ہفتوں میں ہم نے اس کا وہ حال کر دیا ہے جو کہ ہمارے ملک کے ہر گلی کوچے کا ہے۔
جڑواں شہروں سے لگ بھگ بیس کلومیٹر کی دوری پر واقع یہ نیا بین الاقوامی ائیر پورٹ، ابھی تک جانا نہیں ہوا مگر اس کی تصاویر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اب دنیا میں ہمارا چہرہ ایک نئے انداز سے دیکھا جائے گا، مگر اب ان تصاویر کے تناظر میں اس کے اندرونی مناظر دیکھ کر اپنا یہ اندازہ باطل ہوتا نظر آتا ہے۔ یہ پاکستان کا پہلا گرین فیلڈ ائیر پورٹ ہے۔ چند مہینوں سے اس بات پر بحث ہو رہی تھی کہ اس ائیر پورٹ کو نام کیا دیا جائے اور اس کے لیے بہت سی تجاویز زیر گردش تھیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے قراردادیں منظور کروانے کی کوششیں ہورہی تھیں کہ اسے عبدالستار ایدھی کے نام سے موسوم کر دیا جائے۔
پھر سنا کہ اسے لیاقت علی خان کے نام سے موسوم کرنے کی ایک تجویز ہے... اور بالآخر فیصلہ ہوا کہ اسے اسلام آباد انٹر نیشنل ائیرپورٹ کانام دیا گیا ہے۔ یہ ایک بہتر فیصلہ ہے اور سیاسی شخصیات کے ناموں سے ملک کی اہم عمارتوں کو پکارے جانے کا جانے کیا مقصد ہے، اگر کوئی نام دینا ہی مقصود ہو تو ایسا نام دیا جائے جن شخصیات کے بارے میں دنیا ہمیں اچھے طریقے سے جانتی ہے، قائد اعظم اور علامہ اقبال کے ناموں سے ائیر پورٹ پہلے ہی موجود ہیں، عبدالستار ایدھی کے نام سے موسوم کرنا بہترین ہوتا کہ وہ دنیا بھر میںپاکستان کا ایک بہترین امیج قائم کرتا ہے بہر حال...
ایک سو پانچ بلین روپے کی لاگت سے تیار ہونے والا یہ نیا ائیر پورٹ اپنی حالیہ صورت میں سال بھر میں پندرہ ملین مسافروں کی ترسیل کی گنجائش رکھتا ہے جسے بڑھا کر پچیس ملین سالانہ تک کر دیا جائے گا۔ مسافروںکی گنجائش کے حساب سے اب تک بننے والا یہ پاکستان کا سب سے بڑا ائیر پورٹ ہے۔ پرانے ائیر پورٹ سے نئے ائیرپورٹ کے تقابلی جائزے کی کوئی بنیاد نہیں ہے، ان دونوں
میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ نیا ائیر پورٹ شہر سے کافی فاصلے پر ہے اور یقینا اس کے لیے رش کے اوقات میں اس فاصلے کو طے کرنے کے لیے موجودہ سڑکوں کی بجائے کوئی نیا روٹ بنانا ہو گا جس میں ظاہر ہے کہ وقت لگے گا۔
سوئے اتفاق ابھی تک نئے ائیر پورٹ پر جانا نہیں ہوا مگر اس کے بارے میں شنید ہے کہ پندرہ گیٹ ہیں، دو رن وے ہیں، امیگریشن کے لیے بیالیس کاؤنٹر ہیں، ایک چار ستاروں والا ہوٹل بھی ہے اور ڈیوٹی فری شاپنگ کے لیے دکانیں بھی۔ اس ائیر پورٹ پر سب سے بڑے جہاز A- 380 کو آپریٹ کرنے کی گنجائش بھی موجود ہے۔ دنیا کے باقی ائیر پورٹس کی طرح یہاں پر بھی جدید ترین اور ماڈرن سہولیات موجود ہیں جن کا کہ ہم نے تین ہفتوں سے بھی کم وقت میں حشر نشر کر کے رکھ دیاہے۔ سوشل میڈیا پر اس ائیر پورٹ کا حشر ہونے کی تصاویر اتنی وائرل ہو چکی ہیں کہ یقینا دنیا بھر میں پھیل چکی ہیں اور اس کے بارے میں منفی پراپیگنڈا کرنے کے لیے کسی کو خود آ کر اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
شہر سے فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے وہاں تک رسائی آسان نہیں اور اسی لیے شاید سوشل میڈیا پر ہمیں ایسے مسائل نظر آتے ہیں کہ لوگوں کو طویل انتظار کرنا پڑتا ہے اور سامان تین سے پانچ گھنٹوں کے انتظار کے بعد ملتا ہے۔ کئی لوگوں نے ٹویٹ کیے ہیں کہ ائیر پورٹ پر بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں ملی اور انھیں فرشوں پر بیٹھنا پڑا۔ میںنے انٹر نیٹ کے ذریعے ہی جاننے کی کوشش کی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، انتظار گاہیں کافی نظر آئیں مگر ا س کے باوجود اگر لوگوں کو فرشوں پر بیٹھنا پڑا تو یقینا وہ انتظار گاہیں ناکافی ہیں۔
ممکن ہے کہ ایک وقت میں کئی جانے والی پروازوں کے مسافر وہاں موجود ہوں اور آنے والی پروازوں کے مسافر بھی۔ اگر انھیں سامان کے لیے یوں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے تو یقینا اتنی دیر کھڑا ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ ا س لیے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ انتظامی کجیوں کے بارے میں ایسا کوئی منفی تاثر دنیا میں ہمارے اس نئے ائیر پور ٹ کے بارے میں نہ جائے۔
جن تصاویر کو دیکھ کر دکھ ہوا، وہ اس نئے چمچماتے ائیر پورٹ پر پھینکی ہوئی گندگی کے ان مناظر کی ہیں جو کہ ہماری فطرت کا خاصہ ہیں۔ کوڑے دان موجود ہوں تو بھی ہم گملوں، فرشوں، بنچوں اور سیڑھیوں پر کوڑا پھینکے بنا اپنی گندی حسوں کو تسکین نہیں پہنچا سکتے۔ ہمارے لیے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے اس خالی ریپر، چپس کے پیکٹ یا کسی پھل کے چھلکے سے کہیں بھی نجات پالینا ہماری فطرت ثانیہ ہے مگر اس کا مظاہرہ ہمارے لیے بین الاقوامی سطح پر کس شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔
اس کا ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ مگر ہماری فطرت ثانیہ بدلے بھی تو کس طرح، ہمارے اطوار کو نیا ائیر پورٹ کس طرح تبدیل کر دے جب ہماری پرواخت ہی اس نکتہء نظر کے تحت ہوتی ہے کہ ہم وہ مخلوق ہیں جس کا کام گندگی پھیلانا ہے اور اسے سمیٹنے کے لیے ہم تنخواہ پر لوگ رکھتے ہیں۔ اسی لیے ہم جہاں بھی ہوں اسی جگہ کو اپنے گھر جیسا سمجھ لیتے ہیں۔ ہمیں صرف کتابوں کی حد تک ضرور پڑھایا جاتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے مگر عملی طور پر ہمیں یقین ہے کہ یہ صفائی کرنی کسی اور نے ہے، ہماری انا تو اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ ہم اپنے ہی پھیلائے ہوئے گند کو بھی اٹھا لیں، کجا کہ کسی اور کے ہاتھوں سے پھینکا ہوا کوئی ریپر۔
چند تصاویر جو میں نے دیکھی ہیں ان میں ایک غسل خانے کا مٹی سے اٹا ہوا سنک، کسی کے سامان کا ایک ڈبہ پھٹ جانے سے کسی پھل کا پھیلا ہوا ملغوبہ، صفائی پر مامور شخص، اپنے فون کو ائیر پورٹ کی فری چارجنگ پورٹ سے لگا کر بنچ پر بیٹھا ہوا، اپنا فرض یاد نہیں اور اس سے ضروری کام فون کا استعمال ہے۔ دیواروں سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے انتظار کرتے ہوئے لوگ، ننگے فرشوں پر نماز ادا کرتے ہوئے مسافر، ٹرالیوں کی ٹکر سے ٹوٹے ہوئے حفاظتی جنگلے، گملوں، فرشوں اور ایسکیلیٹرز پر پھینکے گئے چپس کے خالی ریپر جب کہ ان کے قریب ہی کوڑے دان بھی موجود ہیں، زمین پر بیٹھ کر انتظار کرتے ہوئے مسافر۔
ہم نے بین الاقوامی معیار کا نیا ائیر پورٹ بنا لیا ہے مگر اس میں جن لوگوں کو آنا جانا ہے ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جواپنے ہاتھ میں خالی کاغذ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے اور اٹھ کر کوڑے دان تک جانا اپنی توہین سمجھتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ صفائی کے عملے کو جو تنخواہ دی جاتی ہے وہ ان کے ٹیکس کے پیسے سے ادا ہوتی ہے۔
انگریزی طرز کے کموڈ کے اوپر ٹانگیں رکھ کر بیٹھتے ہیں، سنک میں اپنے مٹی سے بھرے ہوئے جوتے رکھ کر دھوتے ہیں، انھیں خود کار سیڑھیوں اور راستوں پر پاؤں رکھتے ہوئے یہ خوف ہوتا ہے کہ وہ گر جائیں گے، کرسیوں اور بنچوں پر بیٹھیں گے توپاؤں اوپر رکھ کر، کنویئر بیلٹ کے اوپر چڑھ کر اپنا سامان وصول کرتے ہیں۔ یہ لوگ یہ سب کچھ صرف یہیں نہیں کر رہے بلکہ ان کے اس طرح کے مظاہرے میں نے دنیا میںہر اس جگہ دیکھے ہیں جہاں جہاں مجھے سفر کرنے کا اتفاق ہوا ہے۔
اکثریت کا تعلق ان علاقوں سے ہوتا ہے جہاں انتہا کی پسماندگی ہے اور انھوں نے ایسی سہولیات خواب میں بھی نہیں دیکھی ہوتیں۔ ا س طرح کی صورت حال کے تدارک کے لیے ایک حقیر سی تجویز ہے کہ ائیر پورٹ پر یقینا اسکرینیں آویزاں کی گئی ہوں گی جو کہ مسلسل مسافروں کو آگاہ رکھنے کے لیے ہوں گی، انھی اسکرینوں کو استعمال کرتے ہوئے اگر مختلف معلوماتی اشتہارات اور چھوٹے چھوٹے کلپ ان پر چلائے جائیں، لوگوں کو ان سہولیات کے درست استعمال کا طریقہ بھی سکھایا جائے اور انھیں معلومات دی جائیں کہ اس ائیر پورٹ کی صفائی اور فعال کارکردگی میں وہ اپنا کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں۔
گھروں پر بیٹھ کر ہم جو ٹیلی وژن دیکھتے ہیں اس پر بھی اگر دن اکا یک گھنٹہ مختص کر کے ہمیں اچھے شہری بننے کا طریقہ سکھا دیا جائے تو امید ہے کہ ہمیں ایسی تصاویر مزید دیکھنے کو نہیں ملیں گی جو کہ ہمارے ملک کا چہرہ مسخ کرنے والی ہوتی ہیں، ان شااللہ!!
کسی بچے کو بھی نیا کھلونا دیا جائے تو وہ چار دن اس کی عزت قدر کرتا ہے، سلیقے سے سنبھال کر رکھتا اور احتیاط سے کھیلتا ہے مگر ہم بڑے... ہم بڑے ہوکر بھول جاتے ہیں کہ احتیاط اور سلیقہ کون سی بلائیں ہیں۔ تم نے مجھے جو تصاویر بھیجی ہیں وہ اسلام آباد کے ائیر پورٹ کی تصاویر ہیں جو کہ حال ہی میں پایہء تکمیل کو پہنچا اور تین مئی سے باقاعدہ فنکشنل ہوا ہے، صرف تین ہفتے پہلے اور ان تین ہفتوں میں ہم نے اس کا وہ حال کر دیا ہے جو کہ ہمارے ملک کے ہر گلی کوچے کا ہے۔
جڑواں شہروں سے لگ بھگ بیس کلومیٹر کی دوری پر واقع یہ نیا بین الاقوامی ائیر پورٹ، ابھی تک جانا نہیں ہوا مگر اس کی تصاویر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اب دنیا میں ہمارا چہرہ ایک نئے انداز سے دیکھا جائے گا، مگر اب ان تصاویر کے تناظر میں اس کے اندرونی مناظر دیکھ کر اپنا یہ اندازہ باطل ہوتا نظر آتا ہے۔ یہ پاکستان کا پہلا گرین فیلڈ ائیر پورٹ ہے۔ چند مہینوں سے اس بات پر بحث ہو رہی تھی کہ اس ائیر پورٹ کو نام کیا دیا جائے اور اس کے لیے بہت سی تجاویز زیر گردش تھیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے قراردادیں منظور کروانے کی کوششیں ہورہی تھیں کہ اسے عبدالستار ایدھی کے نام سے موسوم کر دیا جائے۔
پھر سنا کہ اسے لیاقت علی خان کے نام سے موسوم کرنے کی ایک تجویز ہے... اور بالآخر فیصلہ ہوا کہ اسے اسلام آباد انٹر نیشنل ائیرپورٹ کانام دیا گیا ہے۔ یہ ایک بہتر فیصلہ ہے اور سیاسی شخصیات کے ناموں سے ملک کی اہم عمارتوں کو پکارے جانے کا جانے کیا مقصد ہے، اگر کوئی نام دینا ہی مقصود ہو تو ایسا نام دیا جائے جن شخصیات کے بارے میں دنیا ہمیں اچھے طریقے سے جانتی ہے، قائد اعظم اور علامہ اقبال کے ناموں سے ائیر پورٹ پہلے ہی موجود ہیں، عبدالستار ایدھی کے نام سے موسوم کرنا بہترین ہوتا کہ وہ دنیا بھر میںپاکستان کا ایک بہترین امیج قائم کرتا ہے بہر حال...
ایک سو پانچ بلین روپے کی لاگت سے تیار ہونے والا یہ نیا ائیر پورٹ اپنی حالیہ صورت میں سال بھر میں پندرہ ملین مسافروں کی ترسیل کی گنجائش رکھتا ہے جسے بڑھا کر پچیس ملین سالانہ تک کر دیا جائے گا۔ مسافروںکی گنجائش کے حساب سے اب تک بننے والا یہ پاکستان کا سب سے بڑا ائیر پورٹ ہے۔ پرانے ائیر پورٹ سے نئے ائیرپورٹ کے تقابلی جائزے کی کوئی بنیاد نہیں ہے، ان دونوں
میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ نیا ائیر پورٹ شہر سے کافی فاصلے پر ہے اور یقینا اس کے لیے رش کے اوقات میں اس فاصلے کو طے کرنے کے لیے موجودہ سڑکوں کی بجائے کوئی نیا روٹ بنانا ہو گا جس میں ظاہر ہے کہ وقت لگے گا۔
سوئے اتفاق ابھی تک نئے ائیر پورٹ پر جانا نہیں ہوا مگر اس کے بارے میں شنید ہے کہ پندرہ گیٹ ہیں، دو رن وے ہیں، امیگریشن کے لیے بیالیس کاؤنٹر ہیں، ایک چار ستاروں والا ہوٹل بھی ہے اور ڈیوٹی فری شاپنگ کے لیے دکانیں بھی۔ اس ائیر پورٹ پر سب سے بڑے جہاز A- 380 کو آپریٹ کرنے کی گنجائش بھی موجود ہے۔ دنیا کے باقی ائیر پورٹس کی طرح یہاں پر بھی جدید ترین اور ماڈرن سہولیات موجود ہیں جن کا کہ ہم نے تین ہفتوں سے بھی کم وقت میں حشر نشر کر کے رکھ دیاہے۔ سوشل میڈیا پر اس ائیر پورٹ کا حشر ہونے کی تصاویر اتنی وائرل ہو چکی ہیں کہ یقینا دنیا بھر میں پھیل چکی ہیں اور اس کے بارے میں منفی پراپیگنڈا کرنے کے لیے کسی کو خود آ کر اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
شہر سے فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے وہاں تک رسائی آسان نہیں اور اسی لیے شاید سوشل میڈیا پر ہمیں ایسے مسائل نظر آتے ہیں کہ لوگوں کو طویل انتظار کرنا پڑتا ہے اور سامان تین سے پانچ گھنٹوں کے انتظار کے بعد ملتا ہے۔ کئی لوگوں نے ٹویٹ کیے ہیں کہ ائیر پورٹ پر بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں ملی اور انھیں فرشوں پر بیٹھنا پڑا۔ میںنے انٹر نیٹ کے ذریعے ہی جاننے کی کوشش کی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، انتظار گاہیں کافی نظر آئیں مگر ا س کے باوجود اگر لوگوں کو فرشوں پر بیٹھنا پڑا تو یقینا وہ انتظار گاہیں ناکافی ہیں۔
ممکن ہے کہ ایک وقت میں کئی جانے والی پروازوں کے مسافر وہاں موجود ہوں اور آنے والی پروازوں کے مسافر بھی۔ اگر انھیں سامان کے لیے یوں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے تو یقینا اتنی دیر کھڑا ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ ا س لیے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ انتظامی کجیوں کے بارے میں ایسا کوئی منفی تاثر دنیا میں ہمارے اس نئے ائیر پور ٹ کے بارے میں نہ جائے۔
جن تصاویر کو دیکھ کر دکھ ہوا، وہ اس نئے چمچماتے ائیر پورٹ پر پھینکی ہوئی گندگی کے ان مناظر کی ہیں جو کہ ہماری فطرت کا خاصہ ہیں۔ کوڑے دان موجود ہوں تو بھی ہم گملوں، فرشوں، بنچوں اور سیڑھیوں پر کوڑا پھینکے بنا اپنی گندی حسوں کو تسکین نہیں پہنچا سکتے۔ ہمارے لیے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے اس خالی ریپر، چپس کے پیکٹ یا کسی پھل کے چھلکے سے کہیں بھی نجات پالینا ہماری فطرت ثانیہ ہے مگر اس کا مظاہرہ ہمارے لیے بین الاقوامی سطح پر کس شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔
اس کا ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ مگر ہماری فطرت ثانیہ بدلے بھی تو کس طرح، ہمارے اطوار کو نیا ائیر پورٹ کس طرح تبدیل کر دے جب ہماری پرواخت ہی اس نکتہء نظر کے تحت ہوتی ہے کہ ہم وہ مخلوق ہیں جس کا کام گندگی پھیلانا ہے اور اسے سمیٹنے کے لیے ہم تنخواہ پر لوگ رکھتے ہیں۔ اسی لیے ہم جہاں بھی ہوں اسی جگہ کو اپنے گھر جیسا سمجھ لیتے ہیں۔ ہمیں صرف کتابوں کی حد تک ضرور پڑھایا جاتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے مگر عملی طور پر ہمیں یقین ہے کہ یہ صفائی کرنی کسی اور نے ہے، ہماری انا تو اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ ہم اپنے ہی پھیلائے ہوئے گند کو بھی اٹھا لیں، کجا کہ کسی اور کے ہاتھوں سے پھینکا ہوا کوئی ریپر۔
چند تصاویر جو میں نے دیکھی ہیں ان میں ایک غسل خانے کا مٹی سے اٹا ہوا سنک، کسی کے سامان کا ایک ڈبہ پھٹ جانے سے کسی پھل کا پھیلا ہوا ملغوبہ، صفائی پر مامور شخص، اپنے فون کو ائیر پورٹ کی فری چارجنگ پورٹ سے لگا کر بنچ پر بیٹھا ہوا، اپنا فرض یاد نہیں اور اس سے ضروری کام فون کا استعمال ہے۔ دیواروں سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے انتظار کرتے ہوئے لوگ، ننگے فرشوں پر نماز ادا کرتے ہوئے مسافر، ٹرالیوں کی ٹکر سے ٹوٹے ہوئے حفاظتی جنگلے، گملوں، فرشوں اور ایسکیلیٹرز پر پھینکے گئے چپس کے خالی ریپر جب کہ ان کے قریب ہی کوڑے دان بھی موجود ہیں، زمین پر بیٹھ کر انتظار کرتے ہوئے مسافر۔
ہم نے بین الاقوامی معیار کا نیا ائیر پورٹ بنا لیا ہے مگر اس میں جن لوگوں کو آنا جانا ہے ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جواپنے ہاتھ میں خالی کاغذ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے اور اٹھ کر کوڑے دان تک جانا اپنی توہین سمجھتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ صفائی کے عملے کو جو تنخواہ دی جاتی ہے وہ ان کے ٹیکس کے پیسے سے ادا ہوتی ہے۔
انگریزی طرز کے کموڈ کے اوپر ٹانگیں رکھ کر بیٹھتے ہیں، سنک میں اپنے مٹی سے بھرے ہوئے جوتے رکھ کر دھوتے ہیں، انھیں خود کار سیڑھیوں اور راستوں پر پاؤں رکھتے ہوئے یہ خوف ہوتا ہے کہ وہ گر جائیں گے، کرسیوں اور بنچوں پر بیٹھیں گے توپاؤں اوپر رکھ کر، کنویئر بیلٹ کے اوپر چڑھ کر اپنا سامان وصول کرتے ہیں۔ یہ لوگ یہ سب کچھ صرف یہیں نہیں کر رہے بلکہ ان کے اس طرح کے مظاہرے میں نے دنیا میںہر اس جگہ دیکھے ہیں جہاں جہاں مجھے سفر کرنے کا اتفاق ہوا ہے۔
اکثریت کا تعلق ان علاقوں سے ہوتا ہے جہاں انتہا کی پسماندگی ہے اور انھوں نے ایسی سہولیات خواب میں بھی نہیں دیکھی ہوتیں۔ ا س طرح کی صورت حال کے تدارک کے لیے ایک حقیر سی تجویز ہے کہ ائیر پورٹ پر یقینا اسکرینیں آویزاں کی گئی ہوں گی جو کہ مسلسل مسافروں کو آگاہ رکھنے کے لیے ہوں گی، انھی اسکرینوں کو استعمال کرتے ہوئے اگر مختلف معلوماتی اشتہارات اور چھوٹے چھوٹے کلپ ان پر چلائے جائیں، لوگوں کو ان سہولیات کے درست استعمال کا طریقہ بھی سکھایا جائے اور انھیں معلومات دی جائیں کہ اس ائیر پورٹ کی صفائی اور فعال کارکردگی میں وہ اپنا کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں۔
گھروں پر بیٹھ کر ہم جو ٹیلی وژن دیکھتے ہیں اس پر بھی اگر دن اکا یک گھنٹہ مختص کر کے ہمیں اچھے شہری بننے کا طریقہ سکھا دیا جائے تو امید ہے کہ ہمیں ایسی تصاویر مزید دیکھنے کو نہیں ملیں گی جو کہ ہمارے ملک کا چہرہ مسخ کرنے والی ہوتی ہیں، ان شااللہ!!