سمندر میں موجود اربوں ڈالر کے خزانے سے بھرپور بحری جہاز دریافت
1708 میں ڈوہنے والے ان جہازوں میں سونے چاندی اور دیگر قیمتی اشیا موجود ہیں۔
سائنسدانوں نے تین صدیوں بعد ایک غرق شدہ بحری بیڑہ دریافت کیا ہے جس میں کھربوں روپے مالیت کا خزانہ موجود ہوسکتا ہے۔
اس ہسپانوی بحری جہاز کا نام سان ہوزے ہے جو 1708 میں کولمبیا سے روانہ ہوا تھا اور راستے میں سمندر برد ہوگیا تھا۔ تاریخی حوالوں میں قیمتی سونے چاندی اور دیگر اشیا سے لدے اس جہاز کو کئی ملاحوں، خزانہ ڈھونڈنے والوں اور دیگر افراد نے بہت تلاش کیا لیکن انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تاہم ماہرین نے 2015 میں اسے ڈھونڈ نکالا تھا۔
وڈز ہول اوشیانوگرافی انسٹی ٹیوشن ( ڈبلیو ایچ او آئی) کے سمندری ماہرین نے اسے ایک زیرِ آب تحقیق کرنے والے روبوٹ سے دریافت کیا ہے اور خیال ہے کہ اس میں 17 ارب ڈالر کا خزانہ اور قیمتی اشیا موجود ہیں۔ اس کی دریافت سے اس کے حقِ ملکیت پر کئی سوالات اٹھ گئے ہیں۔
بحری جہاز پر 60 توپیں نصب تھیں اور اس پر 600 افراد کا عملہ موجود تھا جو اسپین کا قیمتی ترین بحری بیڑہ بھی تھا۔ اس کا ملبہ 600 میٹر گہرائی میں دریافت ہوا ہے جس میں انتہائی جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔
ماہرین نے اس خزانے کو ہاتھ بھی نہیں لگایا ہے جب کہ اس کے اندر موجود اشیا نکالنے کے لیے ایک منظم آپریشن کی ضرورت ہے جو اس کی ملکیت کے مسئلے کے حل کے بعد ہی ممکن ہوسکے گا۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں لاکھوں کی تعداد میں سونے کے سکے اور چاندی کے زیورات موجود ہیں۔
اس ہسپانوی بحری جہاز کا نام سان ہوزے ہے جو 1708 میں کولمبیا سے روانہ ہوا تھا اور راستے میں سمندر برد ہوگیا تھا۔ تاریخی حوالوں میں قیمتی سونے چاندی اور دیگر اشیا سے لدے اس جہاز کو کئی ملاحوں، خزانہ ڈھونڈنے والوں اور دیگر افراد نے بہت تلاش کیا لیکن انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تاہم ماہرین نے 2015 میں اسے ڈھونڈ نکالا تھا۔
وڈز ہول اوشیانوگرافی انسٹی ٹیوشن ( ڈبلیو ایچ او آئی) کے سمندری ماہرین نے اسے ایک زیرِ آب تحقیق کرنے والے روبوٹ سے دریافت کیا ہے اور خیال ہے کہ اس میں 17 ارب ڈالر کا خزانہ اور قیمتی اشیا موجود ہیں۔ اس کی دریافت سے اس کے حقِ ملکیت پر کئی سوالات اٹھ گئے ہیں۔
بحری جہاز پر 60 توپیں نصب تھیں اور اس پر 600 افراد کا عملہ موجود تھا جو اسپین کا قیمتی ترین بحری بیڑہ بھی تھا۔ اس کا ملبہ 600 میٹر گہرائی میں دریافت ہوا ہے جس میں انتہائی جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔
ماہرین نے اس خزانے کو ہاتھ بھی نہیں لگایا ہے جب کہ اس کے اندر موجود اشیا نکالنے کے لیے ایک منظم آپریشن کی ضرورت ہے جو اس کی ملکیت کے مسئلے کے حل کے بعد ہی ممکن ہوسکے گا۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں لاکھوں کی تعداد میں سونے کے سکے اور چاندی کے زیورات موجود ہیں۔