امید بہار رکھ

سیاستدانوں کا کام اب ایک دوسرے پرکیچڑ اْچھالنا اور الزامات لگانا ہی رہ گیا ہے۔

WASHINGTON, DC:
گزشتہ دنوں کوئٹہ میں دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں 12 افراد کو نشانہ بنایا گیا۔ اِن میں عیسائی برادری اور ہزارہ قوم کے لوگ شامل تھے۔ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی سیاسی و سماجی کارکن اور وکیل جلیلہ حیدر نے ان ہلاکتوں کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے تادمِ مرگ بھوک ہڑتال شروع کی۔

صوبائی اور وفاقی وفود سے ملاقات کے بعد مطالبہ کیا تھا کہ ہم اپنا احتجاج نہ صرف بڑھائیں گے بلکہ صوبے کی سطح پر اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک آرمی چیف کوئٹہ نہیں آتے، ان کا کہنا تھا کہ ہزارہ برادری کی تین ہزار بیوائیں جواب چاہتی ہیںکہ20 سال سے ہمیں کیوں قتل کیا جا رہا ہے۔

اس کے محرکات کیا ہیں؟ اس کے پیچھے کون ہے؟ نیشنل ایکشن پلان کہاں ہے؟ نیکٹا کہاں کھڑی ہے؟ کوئٹہ سیف سٹی پروجیکٹ کا کیا ہوا؟ سوال یہ تھا کہ ہزارہ برادری کے عمائدین صرف آرمی سربراہ سے ہی کیوں ملنا چاہتے تھے۔ ایک سادہ سی بات تو یہ ہے کہ اب عوام کا اعتماد سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں پر سے اْٹھ گیا ہے۔ جب ملک کے کسی کونے سے کسی کی بیٹی کو اغوا کیا جاتا ہے ، اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی جاتی ہے، معصوم بچیوں کو قتل کیا جاتا ہے تو اقتدار پر بیٹھے ہوئے حکمران اور انتظامیہ مجرموں کوگرفتار کرنے میں نا کام نظر آتے ہیں۔ اس صورت حال میں لوگ اپنی مدد کے لیے آرمی چیف کو پکارتے ہیں یا انصاف کے لیے سپریم کورٹ کی طرف دیکھتے ہیں۔

جب عوام کا پارلیمنٹ، سیاستدانوںاور انتظامیہ پر سے اعتماد اْٹھ جائے تو پھر قوم کا آرمی چیف اور چیف جسٹس سے امیدیں وابستہ کر لینا ایک قدرتی عمل ہے۔ عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے سیاستدان عوام کے دکھوں کا مداوا کیوں نہیں کرتے۔ بے شمار مسائل ہیں جو برسوں سے حل طلب ہیں۔ ملک کے ہر شہر اور ہرگاؤں اور بستی کا ایک ہی حال ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔ مسئلہ جب پینے کے پانی کا ہو، مسئلہ اسپتال میں علاج اور ادویات کا ہو، مسئلہ غیر معیاری دودھ کا ہو، مسئلہ ماحولیاتی آلودگی کا ہو، مسئلہ کرپشن اور لوٹ کار، ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش چیف جسٹس کر رہے ہوں۔

پاکستان کی سرحدوں اور اندرون ملک امن وامان کو حل کرنے کی ذمے داری افواج پاکستان ادا کررہی ہوں۔ ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لیے افواج پاکستان کے آفیسر اور سپاہی اپنی جانیں قربان کر رہے ہوں۔ افواج پاکستان ملک بھر میں دہشتگردوں کے خلاف پوری جانفشانی اور عزم سے کارروائیاں کر رہی ہے، چند روز قبل بلوچستان میں دہشتگردوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں ملٹری انٹیلی جنس کے کرنل سہیل عابد شہید ہوئے اس سے قبل سیکڑوں بیٹے مادر وطن پر قربان ہو چکے ہیں۔

اس آپریشن میں لشکر جھنگوی بلوچستان کا سربراہ سلمان بادینی مارا گیا جو پولیس اہلکاروں اور کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی کے سو سے زائد افراد کے قتل میں بھی ملوث تھا۔ انتہائی مطلوب دشتگردوںکا مارا جانا اس بات کا ثبوت ہے آرمی چیف ہزارہ عمائدین سے کیے گئے وعدے کو پورا کر رہے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ریاست کے تمام خرابیوں کو درست کرنے کی ذمے داری ا فواج پاکستان اور سپریم کورٹ نے ہی ادا کرنا ہے تو پھر پارلیمنٹ میں بیٹھے سیاستدان کس مرض کی دوا ہیں، اگر ایمانداری سے پارلیمنٹ اور سیاستدانوں کی کارکردگی کا حساب کیا جائے تو صورتحال یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم چار سال میں صرف چند دن ہی ایوان میں تشریف لائے، یہی حال عمران خان سمیت دیگر مرکزی سیاسی رہنماؤں کا ہے جو اپنی اپنی جماعت کی ایوان بالا میں نمایندگی کرتے ہیں ۔


سیاستدانوں کا کام اب ایک دوسرے پرکیچڑ اْچھالنا اور الزامات لگانا ہی رہ گیا ہے۔ انھیں نہ جمہوریت کی فکر ہے نہ عوام کی اور نہ ملک کی۔ اگر فکر ہے تو صرف وزیر اعظم بننے کی۔ جب عوام کا سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر سے اعتماد اْٹھ جائے تو پھر جمہوریت اور پارلیمنٹ بے معنی ہو جاتی ہے۔

ہمارے دوست لیاقت علی ہزارہ اور بزرگ سماجی کارکن مرزوق علی ہزارہ کئی سال قبل پاکستان سے ہجرت کے لندن میں آباد ہو چکے ہیں وہاں سے ہزارہ کمیونٹی کی جان و مال کے تحفظ کے لیے بین القوامی سطح پرآواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ چند ماہ قبل ان کا پاکستان آنا ہوا تو مجھے کوئٹہ مدعوکیا اور ہزارہ برادری کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ''پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں اچھے اور برے طالبان کے نعروں اور تشریحات سے عوام میں ابہام پیدا کرتی ر ہی ہیں یہ جماعتیں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایسے عناصر کی پشت پناہی اور حمایت کرتی ہیں جو پاکستان میں اقلیتوں کے قتل کی ذمے داری لیتی ہیں۔

ایک سیاسی جماعت نے مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کو تیس کروڑ روپے فنڈز دیے جب کہ دوسری جماعت کے وفاقی وزیر داخلہ لال مسجد اور اس کے حمایتی انتہاپسندوں کی حمایت کرتے نظرآتے ہیں۔ بد قسمتی سے سیاست دانوں کی جانب سے تکفیری ذہنیت رکھنے والی تنظیموں کی سرپرستی کی گئی جس کے سبب ہزارہ قوم کو سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ ہزارہ قوم کے باسیوں کو کوئٹہ میں سیکیورٹی حصار میں محدود کر دیا گیا ہے۔ سیکیورٹی کے نام پر ان کی شہری آزادی سلب کی گئی ہے۔ تحفظ کے نام پر ڈر اور خوف کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ہے۔''

چند ماہ قبل تک اْن کی گفتگو میں بے چینی، اضطراب اور عدم تحفظ کا احساس نمایاں تھا۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ہزارہ برادری سے اظہار یکجہتی اور ملاقات کے بعد ان دوستوںنے لندن سے ایک میل بھیجی۔ جیسے پڑھ کر لگا کہ انھیں اپنی قوم کے کسی بھی فرد کے قتل ہو جانے کا ایک انجانا ساخوف جو ہمیشہ گھیرے رہتا تھا، اب یہ خوف کم ضرور ہوا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ ''جب قوم کی بیٹی جلیلہ حیدر نے تادم بھوک ہڑتال کی کال دی تو ہم پریشان تھے، اب ناجانے کب تک ہمیں ہڑتال میں بیٹھنا ہوگا اور ناجانے کب ہماری آواز حکمرانوں کے ضمیرکو جگائے گی، مگر جس طرح ایک اپیل پرآرمی چیف نے کوئٹہ پہنچ کر ہمارے سروں پر ہاتھ رکھا ہے ہماری بات کو سننا ہے۔

ہمیں قوی امید ہے کہ جو مطالبات برسوں سے حکومتِ وقت کے سامنے پیش کر رہے تھے اب ان مطالبات کو حل کر لیا جائے گا۔'' مجھے دوستوں کی میل پڑھ کراندازہ ہوا کہ پاکستان کی سیاست میں کوئی تبدیلی آئے نہ آئے لیکن یہ تبدیلی ضرور آئی ہے کہ عوام کا اعتماد اور یقین اپنی افواج کے سپہ سالار اور چیف جسٹس پر بڑھ رہا ہے سیاستدانوں سے مایوس ہوکر پاکستان کے عوام نے دونوں محترم چیفس سے بہت سی امیدیں وابستہ کر لی ہیں ۔ بقول شاعر

ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ

پیوستہ رہ شجر سے، امید بہار رکھ
Load Next Story