رمضان المبارک کے مقاصد
روزے سے مقصود یہ ہے کہ نفس انسانی خواہشات اور عادتوں کے شکنجے سے آزاد ہوسکے۔
مسلمانان عالم ماہ مقدس رمضان المبارک کے روزے ذوق وشوق سے رکھتے ہیں، لیکن روزوں کے مقاصد سے بہت کم لوگ آگاہی رکھتے ہیں تو مناسب معلوم ہوا کہ صوم رمضان کے مقاصد پر مختصراً روشی ڈالی جائے کہ '' صوم رمضان کا مقصد'' کیا ہے، یعنی رمضان المبارک کے روزے رکھنا مسلمانوں کے لیے کیوں ضروری ہیں۔ صومِ شھر رمضان مسلمانوں پر فرض ہیں، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں اور جس طرح ہمیں فرضیت رمضان کا علم ہے اسی طرح ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ مقاصد صوم رمضان کیا ہیں۔
امام غزالیؒ مقاصد صوم رمضان یوں تحریر فرماتے ہیں: '' روزہ کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اخلاق الہٰیہ میں سے ایک اخلاق کا پر تو اپنے اندر پیدا کرے، جس کو صمدیت کہتے ہیں، وہ امکانی حد تک فرشتوں کی تقلید کرتے ہوئے، خواہشات سے دست کش ہوجائے، اس لیے کہ فرشتے بھی خواہشات سے پاک ہیں اور انسان کا مرتبہ بھی بہائم سے بلند ہے، نیز خواہشات کے مقابلہ کے لیے اس کو عقل و تمیز کی روشنی عطا کی گئی ہے، البتہ وہ فرشتوں سے اس لحاظ سے کم تر ہے کہ خواہشات اکثر اس پر غلبہ پالیتی ہیں، اس کو ان سے آزاد ہونے کے لیے سخت مجاہدہ کرنا پڑتا ہے، چناں چہ جب وہ اپنی خواہشات کی رو میں بہنے لگتا ہے، تو اسفل سافلین تک جا پہنچتا ہے، اور جانوروں کے ریوڑ سے جا ملتا ہے، اور جب اپنی خواہشات پر غالب آتا ہے، تو اعلیٰ علیین اور فرشتوں کے آفاق تک پہنچ جاتا ہے۔'' (احیاء العلوم )
ابن القیمؒ تحریر فرماتے ہیں: '' روزہ سے مقصود یہ ہے کہ نفس انسانی خواہشات اور عادتوں کے شکنجہ سے آزاد ہوسکے، اس کی شہوانی قوتوں میں اعتدال اور توازن پیدا ہو، اور اس ذریعہ سے وہ سعادت ابدی کے گوہر مقصود تک رسائی حاصل کرسکے، اور حیات ابدی کے حصول کے لیے اپنے نفس کا تزکیہ کرسکے، بھوک اور پیاس سے اس کی ہوس کی تیزی اور شہوت کی حدت میں تخفیف پیدا ہو اور یہ بات یاد آئی کہ کتنے مسکین ہیں، جو نان شبینہ کے محتاج ہیں، وہ شیطان کے راستوں کو اس پر تنگ کردے، اور اعضاء و جوارح کو ان چیزوں کی طرف مائل ہونے سے روک دے، جن میں کی دنیا و آخرت دونوں کا نقصان ہے، اس لحاظ سے یہ اہل تقویٰ کی لگام، مجاہدین کی ڈھال اور ابرار و مقربین کی ریاضت ہے۔'' (زاد المعاد)
حضرت امام ابن القیمؒ تحریر فرماتے ہیں : '' روزہ جوارح ظاہری اور قوائے باطنی کی حفاظت میں بڑی تاثیر رکھتا ہے، فاسد مادہ کی جمع ہوجانے سے انسان میں خرابیاں پیدا ہوجاتی ہے، اس سے وہ اس کی حفاظت کرتا ہے، جو چیزیں مانع صحت ہیں، ان کو خارج کردیتا ہے، اور اعضاء و جوارح میں جو خرابیاں ہَوا و ہوس کے نتیجہ میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں، وہ اس سے دفع ہوتی ہیں، وہ صحت کے لیے مفید اور تقوی کی زندگی اختیار کرنے میں بہت ممدومعان ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے قبل ہوئے ہیں، عجب نہیں کہ تم متقی بن جاؤ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : روزہ ڈھال ہے، چناں چہ ایسے شخص کو جو نکاح کا خواہش مند ہو اور استطاعت نہ رکھتا ہو، روزہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے، اور اس کو اس کا تریاق قرار دیا گیا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ روزہ مصالح اور فوائد چوں کہ عقل سلیم اور فطرت صحیحہ کی رو سے مسلمہ تھے، اس لیے اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی حفاظت کی خاطر محض اپنی رحمت اور احسان سے فرض کیا ہے۔'' (زاد المعاد)
امام ابن القیمؒ اسی سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے مزید تحریر فرماتے ہیں : ''چوں کہ قلب کی اصلاح اور استقامت حال سلوک الی اللہ اور جمعیت باطنی پر منحصر ہے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف بالکلیہ توجہ انابت پر اس کا دار و مدار ہے، اس لیے پراگندہ خاطر ی اس کے حق میں سخت مضمر ہے، کھانے پینے کی زاید مقدار، لوگوں سے زیادہ میل جول، ضرورت سے زیادہ گفت گو وہ چیزیں ہیں، جن سے جمعیت باطنی میں فرق آتا ہے اور انسان اللہ تعالیٰ سے منقطع ہوکر مختلف راستوں پر بھٹکنے لگتا ہے، بعض وقت محض اسی وجہ سے اس کی راہ کھوٹی ہوتی ہے، ان سب باتو ں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کی مقتضی تھی کہ اپنے بندوں پر روزہ فرض کرے اور اس کے ذریعہ کھانوں کی زائد مقدار اور خواہشات کے فیصلہ کا ازالہ و تنقیہ ہوسکے، جس کی وجہ سے آدمی وصول الی اللہ سے محروم رہتا ہے، وہ اس سے دنیا و آخرت دونوں جگہ فائدہ اٹھا سکے، اور اس کی عارضی اور مستقل کسی مصلحت کو نقصان نہ پہنچے۔'' (زاد المعاد)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں:'' روزہ کے مقاصد میں ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ ضرورت سے زاید گہرائی میں نہ پڑا جائے، نکتہ آفرینی اور تشدد کی راہ اختیار کرنے کا دروازہ بند کر دیا جائے، اس لیے کہ یہ عبادت یہود و نصاریٰ اور خود عرب کے عبادت گزار لوگوں میں معروف اور رائج تھی۔
انہوں نے یہ سوچ کر کہ روزہ کی بنیاد نفس کشی پر ہے، اس میں بہت تشدد سے کام لیا اور نفس کو تکلیف پہنچانے کی غرض سے بہت سی چیزیں اپنی طرف سے ایجاد کرلیں، اور یہی وہ نقطہ ہے جس سے تحریف کا آغاز ہوتا ہے، جو کبھی کمیت میں ہوتی ہے کبھی کیفیت میں، کمیت میں اس کی مثال حضور ﷺ کے اس ارشاد سے سمجھ میں آتی ہے، کہ رمضان سے پہلے (متصلاً) کوئی ایک روزہ یا دو روزے نہ رکھے، اسی طرح عید اور شک کے روزہ سے آپ ﷺ کا منع فرمانا کہ ''اس کے اور رمضان کے بیچ میں کوئی فصل نہیں ہے'' اس لیے کہ اگر یہ متشدد لوگ اس کو سنت بنالیں گے تو دوسرے ان کی اتناع کریں گے، اور اس طرح بات تحریف تک جا پہنچے گی، تشدد دراصل شدت احتیاط ہی سے پیدا ہوتا ہے، اور شک کا روزہ اسی قبیل سے ہے، کیفیت میں اس کی مثال صومِ وصال کی ممانعت، سحری کی ترغیب، اور اس کی تاخیر کا حکم ہے، اس لیے کہ یہ سارا تشدد اور غلو جاہلیت کی پیداوار ہے۔'' (حجۃ اللہ البالغہ)
ان اکابرین ملت اسلامیہ کے فرمودات پڑھنے کے بعد ہمیں چاہیے کہ اس ماہ مقدس بذریعہ صوم اپنے اندر کے سفلی جذبات و خواہشات کو مار کر ملکوتی صفات پیدا کریں، اور بہمیت تر ک کرکے ملکوتیت کو اپنائیں، اگر اس نکتہ نظر سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ ماہ مبارک ہمارے لیے عطیہ خداوندی ہے کہ اس میں ہم ذرا سی محنت کرکے منازل سلوک طے کرسکتے ہیں ، اور ارتقائے روحانی کے لیے اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن کریم اور آیاتِ الہٰیہ میں تدبر و تفکر کریں، کیوں کہ رمضان اور قرآن لازم و ملزوم ہیں۔
امام غزالیؒ مقاصد صوم رمضان یوں تحریر فرماتے ہیں: '' روزہ کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اخلاق الہٰیہ میں سے ایک اخلاق کا پر تو اپنے اندر پیدا کرے، جس کو صمدیت کہتے ہیں، وہ امکانی حد تک فرشتوں کی تقلید کرتے ہوئے، خواہشات سے دست کش ہوجائے، اس لیے کہ فرشتے بھی خواہشات سے پاک ہیں اور انسان کا مرتبہ بھی بہائم سے بلند ہے، نیز خواہشات کے مقابلہ کے لیے اس کو عقل و تمیز کی روشنی عطا کی گئی ہے، البتہ وہ فرشتوں سے اس لحاظ سے کم تر ہے کہ خواہشات اکثر اس پر غلبہ پالیتی ہیں، اس کو ان سے آزاد ہونے کے لیے سخت مجاہدہ کرنا پڑتا ہے، چناں چہ جب وہ اپنی خواہشات کی رو میں بہنے لگتا ہے، تو اسفل سافلین تک جا پہنچتا ہے، اور جانوروں کے ریوڑ سے جا ملتا ہے، اور جب اپنی خواہشات پر غالب آتا ہے، تو اعلیٰ علیین اور فرشتوں کے آفاق تک پہنچ جاتا ہے۔'' (احیاء العلوم )
ابن القیمؒ تحریر فرماتے ہیں: '' روزہ سے مقصود یہ ہے کہ نفس انسانی خواہشات اور عادتوں کے شکنجہ سے آزاد ہوسکے، اس کی شہوانی قوتوں میں اعتدال اور توازن پیدا ہو، اور اس ذریعہ سے وہ سعادت ابدی کے گوہر مقصود تک رسائی حاصل کرسکے، اور حیات ابدی کے حصول کے لیے اپنے نفس کا تزکیہ کرسکے، بھوک اور پیاس سے اس کی ہوس کی تیزی اور شہوت کی حدت میں تخفیف پیدا ہو اور یہ بات یاد آئی کہ کتنے مسکین ہیں، جو نان شبینہ کے محتاج ہیں، وہ شیطان کے راستوں کو اس پر تنگ کردے، اور اعضاء و جوارح کو ان چیزوں کی طرف مائل ہونے سے روک دے، جن میں کی دنیا و آخرت دونوں کا نقصان ہے، اس لحاظ سے یہ اہل تقویٰ کی لگام، مجاہدین کی ڈھال اور ابرار و مقربین کی ریاضت ہے۔'' (زاد المعاد)
حضرت امام ابن القیمؒ تحریر فرماتے ہیں : '' روزہ جوارح ظاہری اور قوائے باطنی کی حفاظت میں بڑی تاثیر رکھتا ہے، فاسد مادہ کی جمع ہوجانے سے انسان میں خرابیاں پیدا ہوجاتی ہے، اس سے وہ اس کی حفاظت کرتا ہے، جو چیزیں مانع صحت ہیں، ان کو خارج کردیتا ہے، اور اعضاء و جوارح میں جو خرابیاں ہَوا و ہوس کے نتیجہ میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں، وہ اس سے دفع ہوتی ہیں، وہ صحت کے لیے مفید اور تقوی کی زندگی اختیار کرنے میں بہت ممدومعان ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے قبل ہوئے ہیں، عجب نہیں کہ تم متقی بن جاؤ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : روزہ ڈھال ہے، چناں چہ ایسے شخص کو جو نکاح کا خواہش مند ہو اور استطاعت نہ رکھتا ہو، روزہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے، اور اس کو اس کا تریاق قرار دیا گیا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ روزہ مصالح اور فوائد چوں کہ عقل سلیم اور فطرت صحیحہ کی رو سے مسلمہ تھے، اس لیے اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی حفاظت کی خاطر محض اپنی رحمت اور احسان سے فرض کیا ہے۔'' (زاد المعاد)
امام ابن القیمؒ اسی سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے مزید تحریر فرماتے ہیں : ''چوں کہ قلب کی اصلاح اور استقامت حال سلوک الی اللہ اور جمعیت باطنی پر منحصر ہے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف بالکلیہ توجہ انابت پر اس کا دار و مدار ہے، اس لیے پراگندہ خاطر ی اس کے حق میں سخت مضمر ہے، کھانے پینے کی زاید مقدار، لوگوں سے زیادہ میل جول، ضرورت سے زیادہ گفت گو وہ چیزیں ہیں، جن سے جمعیت باطنی میں فرق آتا ہے اور انسان اللہ تعالیٰ سے منقطع ہوکر مختلف راستوں پر بھٹکنے لگتا ہے، بعض وقت محض اسی وجہ سے اس کی راہ کھوٹی ہوتی ہے، ان سب باتو ں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کی مقتضی تھی کہ اپنے بندوں پر روزہ فرض کرے اور اس کے ذریعہ کھانوں کی زائد مقدار اور خواہشات کے فیصلہ کا ازالہ و تنقیہ ہوسکے، جس کی وجہ سے آدمی وصول الی اللہ سے محروم رہتا ہے، وہ اس سے دنیا و آخرت دونوں جگہ فائدہ اٹھا سکے، اور اس کی عارضی اور مستقل کسی مصلحت کو نقصان نہ پہنچے۔'' (زاد المعاد)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں:'' روزہ کے مقاصد میں ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ ضرورت سے زاید گہرائی میں نہ پڑا جائے، نکتہ آفرینی اور تشدد کی راہ اختیار کرنے کا دروازہ بند کر دیا جائے، اس لیے کہ یہ عبادت یہود و نصاریٰ اور خود عرب کے عبادت گزار لوگوں میں معروف اور رائج تھی۔
انہوں نے یہ سوچ کر کہ روزہ کی بنیاد نفس کشی پر ہے، اس میں بہت تشدد سے کام لیا اور نفس کو تکلیف پہنچانے کی غرض سے بہت سی چیزیں اپنی طرف سے ایجاد کرلیں، اور یہی وہ نقطہ ہے جس سے تحریف کا آغاز ہوتا ہے، جو کبھی کمیت میں ہوتی ہے کبھی کیفیت میں، کمیت میں اس کی مثال حضور ﷺ کے اس ارشاد سے سمجھ میں آتی ہے، کہ رمضان سے پہلے (متصلاً) کوئی ایک روزہ یا دو روزے نہ رکھے، اسی طرح عید اور شک کے روزہ سے آپ ﷺ کا منع فرمانا کہ ''اس کے اور رمضان کے بیچ میں کوئی فصل نہیں ہے'' اس لیے کہ اگر یہ متشدد لوگ اس کو سنت بنالیں گے تو دوسرے ان کی اتناع کریں گے، اور اس طرح بات تحریف تک جا پہنچے گی، تشدد دراصل شدت احتیاط ہی سے پیدا ہوتا ہے، اور شک کا روزہ اسی قبیل سے ہے، کیفیت میں اس کی مثال صومِ وصال کی ممانعت، سحری کی ترغیب، اور اس کی تاخیر کا حکم ہے، اس لیے کہ یہ سارا تشدد اور غلو جاہلیت کی پیداوار ہے۔'' (حجۃ اللہ البالغہ)
ان اکابرین ملت اسلامیہ کے فرمودات پڑھنے کے بعد ہمیں چاہیے کہ اس ماہ مقدس بذریعہ صوم اپنے اندر کے سفلی جذبات و خواہشات کو مار کر ملکوتی صفات پیدا کریں، اور بہمیت تر ک کرکے ملکوتیت کو اپنائیں، اگر اس نکتہ نظر سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ ماہ مبارک ہمارے لیے عطیہ خداوندی ہے کہ اس میں ہم ذرا سی محنت کرکے منازل سلوک طے کرسکتے ہیں ، اور ارتقائے روحانی کے لیے اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن کریم اور آیاتِ الہٰیہ میں تدبر و تفکر کریں، کیوں کہ رمضان اور قرآن لازم و ملزوم ہیں۔