جمعیت علماء اسلام ف اور قومی وطن پارٹی کا محدود سیاسی اتحاد
سب سے زیادہ خطرات بھی پولنگ ڈے ہی کے حوالے سے ظاہر کیے جارہے ہیں کیونکہ اس دن ووٹروں کو گھروں سے نکل کر پولنگ۔۔۔
گوکہ صوبے کا پہلا سیاسی اتحاد طے پاگیا ہے تاہم جمعیت علماء اسلام (ف)اور قومی وطن پارٹی کے درمیان طے پانے والے اس اتحاد کو اتحاد کہنا مناسب نہیں ہوگا۔
کیونکہ صوبہ کے پچیس میں سے صرف چار اضلاع کی چار قومی اور سولہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر یہ اتحاد ہوا ہے اور وہ بھی کچھ اس طرح کہ چارسدہ میں این اے 7 پر اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی خان کو تو زک پہنچانے کے لیے دونوں پارٹیاں یکجا ہوئی ہیں، تاہم این اے 8 پر ان کا اتحاد نہیں ہے جس پر قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد شیر پاؤ خود الیکشن لڑرہے ہیں اور نہ ہی پی کے اکیس پر یہ اتحاد ہوا ہے جس پر قومی وطن پارٹی کے صوبائی صدر سکندر شیر پاؤ الیکشن لڑ رہے ہیں۔
جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس اتحاد کا اصل مقصد انتخابات میں ایک دوسرے کو فائدہ یا دوسروں کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ الیکشن کے بعد حکومت سازی کے موقع پر ایک دوسرے کے ساتھ کا فائدہ اٹھانا ہے کیونکہ دونوں پارٹیوں کی جانب سے اس بات کا عندیہ دیا گیا ہے، تاہم جہاں تک یہ خیال کیا جارہا ہے کہ الیکشن میں ان دونوں پارٹیوں کے ایک ہونے سے ان کو کوئی فائدہ ہوگا تو یہ مشکل ہی نظر آرہا ہے اور بات وہیں پر پہنچتی ہے کہ ہر پارٹی کو اپنی اچھائیوں اور برائیوں کا بوجھ خود اپنے ہی کندھوں پر لے کر چلنا ہوگا اوراسی بنیاد پر انھیں عوام سے اپنے لیے سپورٹ اور ووٹ مانگنے ہوں گے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں پر حملوں کے بعد کی صورت حال میں مسلسل یہ افواہیں پھیلائی جارہی تھیں کہ اے این پی اس صورت حال کی وجہ سے الیکشن کا بائیکاٹ کرتے ہوئے میدان سے باہر ہوجائے گی، تاہم انہی سطور میں عرض کیا گیا تھا کہ اے این پی کبھی بھی ایسا نہیں کرے گی کیونکہ ماضی میں ہونے والے بائیکاٹس پر بعدمیں خود سیاسی پارٹیاں پشیمان نظر آئیں اور اب کوئی بھی پارٹی ایک اور بائیکاٹ کرتے ہوئے اپنے لیے کوئی پشیمانی ادھار نہیں رکھنا چاہتی اور اس صورت حال کو اے این پی نے اپنے تھنک ٹینک کے اجلاس میں واضح کردیا ہے جس میں بڑے واضح انداز میں کہہ دیا گیا ہے کہ اے این پی نہ تو الیکشن کا بائیکاٹ کرے گی اور نہ ہی الیکشن کے میدان سے باہر بیٹھے گی بلکہ وہ میدان میں رہتے ہوئے الیکشن میں دیگر سیاسی جماعتوں کا مقابلہ کرے گی۔
اب جبکہ عام انتخابات کے انعقاد میں نصف ماہ کے قریب رہ گیا ہے جو صورت حال بن رہی ہے اس میں تمام سیاسی پارٹیاں ہم پلہ ہی نظر آرہی ہیں اور کسی بھی ایک پارٹی کو کسی دوسری پارٹی پر کوئی ایسی برتری نظر نہیں آرہی ہے جس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکے کہ ہوا اس کی جانب چل رہی ہے، اس الیکشن میں کوئی ہوا اس وقت چلتی ہوئی نظر نہیں آرہی اور کچھ عرصہ قبل صوبہ میں کچھ پارٹیوں کے حق میں جو ہوائیں چلتی ہوئی نظر آرہی تھیں وہ ایک یا دوسری وجہ سے تھم چکی ہیں اور نظر یہی آرہا ہے کہ جو پارٹی اپنے یقینی ووٹوں کے ساتھ کچھ منتشر ووٹ لینے میں کامیاب رہے گی جیت اسی کے حصہ میں آئے گی۔
خیبرپختونخوا کی حد تک الیکشن کا ماحول شروع ہونے سے پہلے تحریک انصاف کے حوالے سے بڑی پیشن گوئیاں کی جارہی تھیں اور ایسا نقشہ پیش کیا جارہا تھا کہ اس میں سب کچھ تحریک انصاف ہی کی گود میں پکے ہوئے پھل کی طرح گرتا ہوا دکھ رہا تھا، تاہم اب جبکہ الیکشن کا ماحول بن چکا ہے تو اس وقت صورت حال یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں چند ایک حلقوں پر ہی پی ٹی آئی کے امیدوار دوڑ لگاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
جبکہ دیگر حلقوں پر یا تو ان کے امیدوار اتنے نئے ہیں کہ وہ اس میراتھن میں بہت پیچھے ہیں یا پھر پارٹی کے اندر جو اختلافات ہیں اور خود اپنی ہی پارٹی کے ناراض کارکن ایک دوسرے کی جس انداز میں ٹانگیں کھینچ رہے ہیں اس کی وجہ سے تحریک انصاف صوبہ میں کسی سوئپنگ پوزیشن میں دکھائی نہیں دے رہی تاہم وہ دیگر پارٹیوں کے ساتھ نشستوں کی تقسیم میں شریک ضرور ہوگی اور یہی صورتحال مسلم لیگ(ن) کے حوالے سے بھی ہے جو انہی نشستوں پر زیادہ مستحکم پوزیشن میں نظر آرہی ہے جہاں روایتی طور پر مسلم لیگ جیتتی آئی ہے جبکہ دیگر نشستوں پر لیگی امیدواروں کو اچھی خاصی دوڑ بھی لگانا پڑے گی اور محنت بھی کرنا ہوگی تاکہ وہ ماحول کو اپنے حق میں سازگار بنا سکیں بصورت دیگر الیکشن کے حوالے سے کئی حلقوں پر روایتی ماحول بنتا جارہا ہے اور اس روایتی ماحول میں روایتی اندازہی میں الیکشن کے انعقاد اور روایتی نتائج آنے ہی کی توقع ہے تاہم 11 مئی کو ووٹرز کیا کرتے ہیں اس کا پتا تو بہر حال گیارہ مئی ہی کو چلے گا۔
انتخابی مہم کے اعتبار سے جمعیت علماء اسلام (ف) صوبہ میں تحریک انصاف سے بھی ایک قدم آگے جارہی تھی جس کی جانب سے صوبہ میں آئندہ حکومت تشکیل دینے سمیت بڑے ،بڑے دعوے بھی کیے جارہے ہیں، تاہم جے یو آئی کو سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ کئی حلقوں پر جے یو آئی نے اپنی پارٹی کے پرانے اور نظریاتی ساتھیوں کو ڈراپ کرتے ہوئے کئی ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دے دیا ہے جو صرف ٹکٹ ہی کے لیے پارٹی میں شامل ہوئے اور شامل ہوتے ہی اپنی منزل پاگئے جس کی وجہ سے پارٹی کے پرانے اور نظریاتی کارکنوں میں مایوسی بھی پائی جاتی ہے اور غصہ بھی، کیونکہ جس پالیسی کو بقول ان کے پارٹی پالیسی کے طور پر اپنایا گیا ہے اس کی وجہ سے پارٹی کو نقصان پہنچا ہے اور جے یو آئی کے ورکر جے یو آئی کے منشور اور نظریات کے ذریعے جس تبدیلی کے لیے کوشاں تھے اس میں خلل پڑگیا ہے، کیونکہ جو ساتھی آج ٹکٹ نہ ملنے پر دوسری پارٹیوں کو چھوڑ کر ٹکٹ کے حصول کے لیے جے یو آئی میں آئے ہیں وہ کل کو جے یو آئی کو چھوڑ کر کسی دوسری پارٹی میں بھی جاسکتے ہیں۔
جے یو آئی (ف) کے حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انتخابی ماحول شروع ہونے سے قبل سینیٹر غلام علی جنھیں وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں شامل سمجھا جارہا تھا انھیں صوبائی اسمبلی کے لیے ٹکٹ ہی جاری نہیں کیا گیا اور کیوں نہیں جاری کیا گیا؟اس کے پیچھے بھی پوری کہانی ہے کہ پارٹی کے بڑے،بڑے قائدین نے ذاتی طور پر اس معاملے میں شامل ہوکر ان کو ٹکٹ جاری کیے جانے کا راستہ روکا ہے بلکہ کچھ قائدین تو انھیں قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے اجراء کے حق میں بھی نہیں تھے تاہم ان کے حامیوں اور ساتھیوں نے یہ کوشش کامیاب نہیں ہونے دی اور ان کے لیے پشاور سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ حاصل کیا۔
دوسری جانب اکرم خان درانی کے صوبائی کے ساتھ قومی اسمبلی کے لیے الیکشن لڑنا اور مولانا فضل الرحمٰن کے برادر اصغر مولانا لطف الرحمٰن کا دونشستوں سے الیکشن لڑنا بھی الگ کہانی سنا رہا ہے اور اس بات کا پتا دے رہا ہے کہ اگر جے یو آئی صوبہ میں اکثریت حاصل کرتی ہے اور ڈرائیونگ سیٹ تک پہنچتی ہے تو اس سیٹ پر بیٹھنے والا بھی 2002 ء کے دور سے ہٹ کر کوئی ہوگا۔
صوبہ کی نگران حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے ذریعے انتخابی مہم اور انتخابی عمل کو محفوظ بنانے کے لیے کئی معاملات تو طے کرلیے ہیں تاہم ان پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد کرنا نہ صرف نگران صوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن بلکہ امیدواروں کا بھی اصل امتحان ہوگا کیونکہ کئی معاملات ایسے ہیں کہ جن پر آنے والے دنوں میں صورت حال تبدیل ہوسکتی ہے اور پھر خصوصی طور پر پولنگ ڈے پر الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کو یقینی بنانا اور نگران حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کو عملی شکل میں لانا آسان کام نہیں ہوگا ۔
سب سے زیادہ خطرات بھی پولنگ ڈے ہی کے حوالے سے ظاہر کیے جارہے ہیں کیونکہ اس دن ووٹروں کو گھروں سے نکل کر پولنگ سٹیشنوں پر آنا ہوگا جن کی حفاظت کوپولنگ سٹیشنوں پر یقینی بنانااور ان کی بحفاظت گھروں کو واپسی سکیورٹی فورسز اور انتخابی عمل کی نگرانی کرنے والوں کے لیے ایک بڑا مرحلہ ہوگا اور اس مرحلہ کو کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچادیا گیا تو یہ یقینی طور پر نگرانوں اور الیکشن کمیشن کی بڑی کامیابی ہوگی جس کے حصول کے لیے ان تمام کو ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ہوگا اور اس میں پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے ایف سی کی صوبہ کو واپسی کے حکم اور اس حکم پر عمل درآمد شروع کرانے کی وجہ سے نگرانوں کے لیے مزید سہولت پیدا ہوگئی ہے جس کے ذریعے وہ صورتحال کو کافی حد تک کنٹرول کرسکتے ہیں۔
کیونکہ صوبہ کے پچیس میں سے صرف چار اضلاع کی چار قومی اور سولہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر یہ اتحاد ہوا ہے اور وہ بھی کچھ اس طرح کہ چارسدہ میں این اے 7 پر اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی خان کو تو زک پہنچانے کے لیے دونوں پارٹیاں یکجا ہوئی ہیں، تاہم این اے 8 پر ان کا اتحاد نہیں ہے جس پر قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد شیر پاؤ خود الیکشن لڑرہے ہیں اور نہ ہی پی کے اکیس پر یہ اتحاد ہوا ہے جس پر قومی وطن پارٹی کے صوبائی صدر سکندر شیر پاؤ الیکشن لڑ رہے ہیں۔
جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس اتحاد کا اصل مقصد انتخابات میں ایک دوسرے کو فائدہ یا دوسروں کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ الیکشن کے بعد حکومت سازی کے موقع پر ایک دوسرے کے ساتھ کا فائدہ اٹھانا ہے کیونکہ دونوں پارٹیوں کی جانب سے اس بات کا عندیہ دیا گیا ہے، تاہم جہاں تک یہ خیال کیا جارہا ہے کہ الیکشن میں ان دونوں پارٹیوں کے ایک ہونے سے ان کو کوئی فائدہ ہوگا تو یہ مشکل ہی نظر آرہا ہے اور بات وہیں پر پہنچتی ہے کہ ہر پارٹی کو اپنی اچھائیوں اور برائیوں کا بوجھ خود اپنے ہی کندھوں پر لے کر چلنا ہوگا اوراسی بنیاد پر انھیں عوام سے اپنے لیے سپورٹ اور ووٹ مانگنے ہوں گے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں پر حملوں کے بعد کی صورت حال میں مسلسل یہ افواہیں پھیلائی جارہی تھیں کہ اے این پی اس صورت حال کی وجہ سے الیکشن کا بائیکاٹ کرتے ہوئے میدان سے باہر ہوجائے گی، تاہم انہی سطور میں عرض کیا گیا تھا کہ اے این پی کبھی بھی ایسا نہیں کرے گی کیونکہ ماضی میں ہونے والے بائیکاٹس پر بعدمیں خود سیاسی پارٹیاں پشیمان نظر آئیں اور اب کوئی بھی پارٹی ایک اور بائیکاٹ کرتے ہوئے اپنے لیے کوئی پشیمانی ادھار نہیں رکھنا چاہتی اور اس صورت حال کو اے این پی نے اپنے تھنک ٹینک کے اجلاس میں واضح کردیا ہے جس میں بڑے واضح انداز میں کہہ دیا گیا ہے کہ اے این پی نہ تو الیکشن کا بائیکاٹ کرے گی اور نہ ہی الیکشن کے میدان سے باہر بیٹھے گی بلکہ وہ میدان میں رہتے ہوئے الیکشن میں دیگر سیاسی جماعتوں کا مقابلہ کرے گی۔
اب جبکہ عام انتخابات کے انعقاد میں نصف ماہ کے قریب رہ گیا ہے جو صورت حال بن رہی ہے اس میں تمام سیاسی پارٹیاں ہم پلہ ہی نظر آرہی ہیں اور کسی بھی ایک پارٹی کو کسی دوسری پارٹی پر کوئی ایسی برتری نظر نہیں آرہی ہے جس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکے کہ ہوا اس کی جانب چل رہی ہے، اس الیکشن میں کوئی ہوا اس وقت چلتی ہوئی نظر نہیں آرہی اور کچھ عرصہ قبل صوبہ میں کچھ پارٹیوں کے حق میں جو ہوائیں چلتی ہوئی نظر آرہی تھیں وہ ایک یا دوسری وجہ سے تھم چکی ہیں اور نظر یہی آرہا ہے کہ جو پارٹی اپنے یقینی ووٹوں کے ساتھ کچھ منتشر ووٹ لینے میں کامیاب رہے گی جیت اسی کے حصہ میں آئے گی۔
خیبرپختونخوا کی حد تک الیکشن کا ماحول شروع ہونے سے پہلے تحریک انصاف کے حوالے سے بڑی پیشن گوئیاں کی جارہی تھیں اور ایسا نقشہ پیش کیا جارہا تھا کہ اس میں سب کچھ تحریک انصاف ہی کی گود میں پکے ہوئے پھل کی طرح گرتا ہوا دکھ رہا تھا، تاہم اب جبکہ الیکشن کا ماحول بن چکا ہے تو اس وقت صورت حال یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں چند ایک حلقوں پر ہی پی ٹی آئی کے امیدوار دوڑ لگاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
جبکہ دیگر حلقوں پر یا تو ان کے امیدوار اتنے نئے ہیں کہ وہ اس میراتھن میں بہت پیچھے ہیں یا پھر پارٹی کے اندر جو اختلافات ہیں اور خود اپنی ہی پارٹی کے ناراض کارکن ایک دوسرے کی جس انداز میں ٹانگیں کھینچ رہے ہیں اس کی وجہ سے تحریک انصاف صوبہ میں کسی سوئپنگ پوزیشن میں دکھائی نہیں دے رہی تاہم وہ دیگر پارٹیوں کے ساتھ نشستوں کی تقسیم میں شریک ضرور ہوگی اور یہی صورتحال مسلم لیگ(ن) کے حوالے سے بھی ہے جو انہی نشستوں پر زیادہ مستحکم پوزیشن میں نظر آرہی ہے جہاں روایتی طور پر مسلم لیگ جیتتی آئی ہے جبکہ دیگر نشستوں پر لیگی امیدواروں کو اچھی خاصی دوڑ بھی لگانا پڑے گی اور محنت بھی کرنا ہوگی تاکہ وہ ماحول کو اپنے حق میں سازگار بنا سکیں بصورت دیگر الیکشن کے حوالے سے کئی حلقوں پر روایتی ماحول بنتا جارہا ہے اور اس روایتی ماحول میں روایتی اندازہی میں الیکشن کے انعقاد اور روایتی نتائج آنے ہی کی توقع ہے تاہم 11 مئی کو ووٹرز کیا کرتے ہیں اس کا پتا تو بہر حال گیارہ مئی ہی کو چلے گا۔
انتخابی مہم کے اعتبار سے جمعیت علماء اسلام (ف) صوبہ میں تحریک انصاف سے بھی ایک قدم آگے جارہی تھی جس کی جانب سے صوبہ میں آئندہ حکومت تشکیل دینے سمیت بڑے ،بڑے دعوے بھی کیے جارہے ہیں، تاہم جے یو آئی کو سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ کئی حلقوں پر جے یو آئی نے اپنی پارٹی کے پرانے اور نظریاتی ساتھیوں کو ڈراپ کرتے ہوئے کئی ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دے دیا ہے جو صرف ٹکٹ ہی کے لیے پارٹی میں شامل ہوئے اور شامل ہوتے ہی اپنی منزل پاگئے جس کی وجہ سے پارٹی کے پرانے اور نظریاتی کارکنوں میں مایوسی بھی پائی جاتی ہے اور غصہ بھی، کیونکہ جس پالیسی کو بقول ان کے پارٹی پالیسی کے طور پر اپنایا گیا ہے اس کی وجہ سے پارٹی کو نقصان پہنچا ہے اور جے یو آئی کے ورکر جے یو آئی کے منشور اور نظریات کے ذریعے جس تبدیلی کے لیے کوشاں تھے اس میں خلل پڑگیا ہے، کیونکہ جو ساتھی آج ٹکٹ نہ ملنے پر دوسری پارٹیوں کو چھوڑ کر ٹکٹ کے حصول کے لیے جے یو آئی میں آئے ہیں وہ کل کو جے یو آئی کو چھوڑ کر کسی دوسری پارٹی میں بھی جاسکتے ہیں۔
جے یو آئی (ف) کے حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انتخابی ماحول شروع ہونے سے قبل سینیٹر غلام علی جنھیں وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں شامل سمجھا جارہا تھا انھیں صوبائی اسمبلی کے لیے ٹکٹ ہی جاری نہیں کیا گیا اور کیوں نہیں جاری کیا گیا؟اس کے پیچھے بھی پوری کہانی ہے کہ پارٹی کے بڑے،بڑے قائدین نے ذاتی طور پر اس معاملے میں شامل ہوکر ان کو ٹکٹ جاری کیے جانے کا راستہ روکا ہے بلکہ کچھ قائدین تو انھیں قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے اجراء کے حق میں بھی نہیں تھے تاہم ان کے حامیوں اور ساتھیوں نے یہ کوشش کامیاب نہیں ہونے دی اور ان کے لیے پشاور سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ حاصل کیا۔
دوسری جانب اکرم خان درانی کے صوبائی کے ساتھ قومی اسمبلی کے لیے الیکشن لڑنا اور مولانا فضل الرحمٰن کے برادر اصغر مولانا لطف الرحمٰن کا دونشستوں سے الیکشن لڑنا بھی الگ کہانی سنا رہا ہے اور اس بات کا پتا دے رہا ہے کہ اگر جے یو آئی صوبہ میں اکثریت حاصل کرتی ہے اور ڈرائیونگ سیٹ تک پہنچتی ہے تو اس سیٹ پر بیٹھنے والا بھی 2002 ء کے دور سے ہٹ کر کوئی ہوگا۔
صوبہ کی نگران حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے ذریعے انتخابی مہم اور انتخابی عمل کو محفوظ بنانے کے لیے کئی معاملات تو طے کرلیے ہیں تاہم ان پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد کرنا نہ صرف نگران صوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن بلکہ امیدواروں کا بھی اصل امتحان ہوگا کیونکہ کئی معاملات ایسے ہیں کہ جن پر آنے والے دنوں میں صورت حال تبدیل ہوسکتی ہے اور پھر خصوصی طور پر پولنگ ڈے پر الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کو یقینی بنانا اور نگران حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کو عملی شکل میں لانا آسان کام نہیں ہوگا ۔
سب سے زیادہ خطرات بھی پولنگ ڈے ہی کے حوالے سے ظاہر کیے جارہے ہیں کیونکہ اس دن ووٹروں کو گھروں سے نکل کر پولنگ سٹیشنوں پر آنا ہوگا جن کی حفاظت کوپولنگ سٹیشنوں پر یقینی بنانااور ان کی بحفاظت گھروں کو واپسی سکیورٹی فورسز اور انتخابی عمل کی نگرانی کرنے والوں کے لیے ایک بڑا مرحلہ ہوگا اور اس مرحلہ کو کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچادیا گیا تو یہ یقینی طور پر نگرانوں اور الیکشن کمیشن کی بڑی کامیابی ہوگی جس کے حصول کے لیے ان تمام کو ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ہوگا اور اس میں پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے ایف سی کی صوبہ کو واپسی کے حکم اور اس حکم پر عمل درآمد شروع کرانے کی وجہ سے نگرانوں کے لیے مزید سہولت پیدا ہوگئی ہے جس کے ذریعے وہ صورتحال کو کافی حد تک کنٹرول کرسکتے ہیں۔