گلوکار محمد رفیع کی مقبول نعتیں اور منظوم حکایتیں
اگر گلوکار محمد رفیع کبھی بھجن گاتا تھا توہندوستان میں لتا منگیشکرکی آواز میں نعتیں بھی ریکارڈ ہوتی تھیں۔
LONDON:
وہ بھی ایک زمانہ تھا تقسیم ہندوستان سے پہلے مسلمانوں اور دیگر مذہبی قومیتوں میں بڑا بھائی چارہ تھا، آج کے دورکی طرح دلوں میں نفرتیں نہیں تھیں، ایک دوسرے کے تہواروں کے موقعے پر لوگ خوش دلی کا مظاہرہ کیا کرتے تھے، اگر گلوکار محمد رفیع کبھی بھجن گاتا تھا توہندوستان میں لتا منگیشکرکی آواز میں نعتیں بھی ریکارڈ ہوتی تھیں، اسی زمانے میں گلوکار محمد رفیع کی آواز میں بہت سی نعتیں اور کئی مذہبی منظوم حکایتیں گراموفون کمپنیوں نے ریکارڈ کیں جنھیں سارے ہندوستان بلکہ برصغیر میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔
اس سے پہلے کہ میں محمد رفیع کی مقبول اور سپرہٹ نعتوں اور منظوم حکایتوں کا تذکرہ کروں محمد رفیع کو گانے کا شوق کس عمر میں اورکس طرح پیدا ہوا، اس کا تذکرہ کرتا چلوں۔ محمد رفیع پنجاب کے ایک گاؤں کوٹلہ سلطان کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، جہاں نماز اور روزے کی پابندی ہوا کرتی تھی، یہ وہ زمانہ تھا جب گلی گلی بہت سے فقیر کوئی نرساز بجاتے ہوئے یا پھر گانا گاتے ہوئے گزرتے اور لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتے تھے اور لوگ انھیں کبھی کچھ پیسے اور کبھی کچھ آٹا اور چاول دے دیا کرتے تھے۔ یہ اسی زمانے کی بات ہے محمد رفیع کی عمر نو دس برس کی تھی ایک فقیر اکثر اس کے گھر کے پاس گانا گاتا ہوا گزرتا تھا۔
محمد رفیع کو اس کا گانا بہت اچھا لگتا تھا کبھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ کمسن محمد رفیع اس فقیر کی آواز سن کر گھر سے نکلتا اور اس فقیر کا گانا سنتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے کافی دور تک چلا جاتا تھا۔ جب واپس آتا تو گھر والوں کی ڈانٹ بھی پڑتی تھی۔ مگر محمد رفیع نے اس فقیر کو اپنا کمسنی ہی میں آئیڈیل بنا لیا تھا۔ پھر محمد رفیع کوٹلہ سلطان سے لاہور آ گیا۔ جب کچھ بڑا ہوا تو موسیقی کا شوق اس کی رگ رگ میں سما چکا تھا۔ لاہور میں یہ موسیقار فیروز نظامی کی شاگردی میں آ گیا پھر اس نے آل انڈیا ریڈیو سے گانا شروع کر دیا۔ یہ لاہور سے بمبئی پہنچ گیا تھا۔ وہاں اس کی ملاقات موسیقار سندرشیام جی سے ہوئی ان دنوں وہ فلم ''گل بلوچ'' کی موسیقی دے رہے تھے۔
محمد رفیع نے اپنا پہلا فلمی گانا اسی فلم کے لیے ریکارڈ کرایا تھا۔ محمد رفیع کے والد نہیں چاہتے تھے کہ وہ فلمی گلوکار بنے مگر قسمت کو یہی منظور تھا اسی دوران فلمساز و ہدایت کار شوکت حسین رضوی نے فلم ''جگنو'' بنائی جس میں دلیپ کمار کے ساتھ میڈم نور جہاں کو ہیروئن لیا، فلم کے موسیقار فیروز نظامی تھے اور فیروز نظامی ہی نے اپنے شاگرد محمد رفیع کو فلم ''جگنو'' میں بڑے خوبصورت انداز سے گوایا اور ''جگنو'' فلم کے گیتوں سے محمد رفیع کی شہرت کے سفر کا آغاز ہوا۔
اب میں پھر محمد رفیع کی مقبول نعتوں کی طرف آتا ہوں۔ آہستہ آہستہ محمد رفیع ہاٹ کیک سنگر بنتا جا رہا تھا لہٰذا کئی گرامو فون کمپنیوں نے محمد رفیع کی آواز میں نعتیں، منقبت اور منظوم حکایتوں کے ریکارڈ سارے ہندوستان میں پھیلا دیے جنھیں مسلم عوام میں بڑی مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ اب میں اس دور کی چند مشہور نعتوں اور منظوم حکایتوں کا تذکرہ کروں گا۔ جس پہلی نعت کو بڑی شہرت ملی اس کے بول تھے:
اگر مل گئی مجھ کو راہِ مدینہ
محمد کے نقشِ قدم چوم لوں گا
عقیدت سے کعبہ میں سر کو جھکا کر
نگاہوں سے بابِ حرم چوم لوں گا
اسی زمانے میں محمد رفیع کی آواز میں ایک اور نعت جو لوگوں کے دلوں میں اترتی چلی جاتی تھی اور رمضان کے دنوں میں تو خاص طور پر اکثر گھروں میں یہ ریڈیو سے سنی جاتی تھی اور روح کو منور کرتی تھی اور مدینے کی گلیوں کا نقشہ آنکھوں میں سما جاتا تھا اس نعت کے بول ہیں:
ہر اک شے سے اعلیٰ ہر اک شے سے افضل
ہر اک شے سے برتر مدینے کی گلیاں
قسم سبز گنبد کی اپنے لیے تو
ہیں جنت سے بڑھ کر مدینے کی گلیاں
محمد رفیع کی آواز میں ایک منقبت بھی بڑی مشہور ہوئی تھی جو ایک حکایت سے منسوب ہے کہ بچوں میں سب سے پہلے جو اسلام لائے تھے وہ حضرت علیؓ تھے اور اس حکایت میں حضرت علیؓ کی شان بیان کی گئی ہے۔
ہوئے کعبہ میں پیدا اور پلے دامان رحمت میں
علیؓ نے پرورش پائی ہے آغوش رسالت میں
حرا سے جب نبی اللہؐ کا فرمان لے آئے
علیؓ بچوں میں سب سے پہلے ہی ایمان لے آئے
اسی زمانے میں محمد رفیع کی آواز میں اور بھی کئی منظوم حکایتوں کا بڑا چرچا رہا تھا جن میں ایک نظم صبر ایوب علیہ السلام پر تھی اور ایک حضرت موسیٰؑ کے واقعات پر مبنی تھی اور قرآن کے کئی واقعات کو نظم کی صورت میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اور حضرت ایوب علیہ السلام سے متعلق ایک نظم کو بڑا پسند کیا گیا تھا جس کے بول تھے:
ایوبؑ کی یہ شان توکل ہے دیکھئے
کس درجہ میٹھا صبر کا یہ پھل ہے دیکھئے
محمد رفیع نے اپنے ابتدائی دور میں بے شمار منظوم حکایتیں گائی تھیں جنھیں عوام الناس میں بڑا پسند کیا جاتا تھا۔ محمد رفیع نے قرآن میں بیان کیا گیا، حضرت آدم اور حوا کا جو واقعہ ہے اس کو بھی منظوم انداز میں پیش کیا تھا۔ آخر میں اس کا بھی تھوڑا سا تذکرہ کروں گا، اس منظوم حکایت نے بھی ایک دھوم مچا دی تھی اور ایک طویل نظم کے صرف چند اشعار ہی پیش کروں گا۔
خدا نے جب کیے ساتوں زمیں ساتوں فلک پیدا
کیے عرش بریں' لوح و قلم جنوں ملک پیدا
تو سوچا پھر خدا نے ایک مخلوق ایسی پیدا ہو
جو ہر مخلوق کی سرتاج ہو جو فخرِ دنیا ہو
محمد رفیع ایک سچا عاشق رسول بھی تھا اور وہ ساری زندگی پابند صوم و صلوٰۃ رہا گلوکار محمد رفیع ایک ور اسٹائل سنگر تھا سب سے زیادہ گیت ہندوستان کے بیشتر زبانوں میں گائے سب سے زیادہ فلم فیئر ایوارڈز، نیشنل ایوارڈ اور حکومت کی طرف سے پدماشری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا جب محمد رفیع کا 31 جولائی 1980ء میں انتقال ہوا تو ان کے جنازے میں اتنے لوگ تھے کہ یوں لگتا تھا کہ سارا شہر سمٹ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ محمد رفیع کے درجات بلند کرے اور اپنے جوار رحمت میں جگہ دے (آمین۔)
وہ بھی ایک زمانہ تھا تقسیم ہندوستان سے پہلے مسلمانوں اور دیگر مذہبی قومیتوں میں بڑا بھائی چارہ تھا، آج کے دورکی طرح دلوں میں نفرتیں نہیں تھیں، ایک دوسرے کے تہواروں کے موقعے پر لوگ خوش دلی کا مظاہرہ کیا کرتے تھے، اگر گلوکار محمد رفیع کبھی بھجن گاتا تھا توہندوستان میں لتا منگیشکرکی آواز میں نعتیں بھی ریکارڈ ہوتی تھیں، اسی زمانے میں گلوکار محمد رفیع کی آواز میں بہت سی نعتیں اور کئی مذہبی منظوم حکایتیں گراموفون کمپنیوں نے ریکارڈ کیں جنھیں سارے ہندوستان بلکہ برصغیر میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔
اس سے پہلے کہ میں محمد رفیع کی مقبول اور سپرہٹ نعتوں اور منظوم حکایتوں کا تذکرہ کروں محمد رفیع کو گانے کا شوق کس عمر میں اورکس طرح پیدا ہوا، اس کا تذکرہ کرتا چلوں۔ محمد رفیع پنجاب کے ایک گاؤں کوٹلہ سلطان کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، جہاں نماز اور روزے کی پابندی ہوا کرتی تھی، یہ وہ زمانہ تھا جب گلی گلی بہت سے فقیر کوئی نرساز بجاتے ہوئے یا پھر گانا گاتے ہوئے گزرتے اور لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتے تھے اور لوگ انھیں کبھی کچھ پیسے اور کبھی کچھ آٹا اور چاول دے دیا کرتے تھے۔ یہ اسی زمانے کی بات ہے محمد رفیع کی عمر نو دس برس کی تھی ایک فقیر اکثر اس کے گھر کے پاس گانا گاتا ہوا گزرتا تھا۔
محمد رفیع کو اس کا گانا بہت اچھا لگتا تھا کبھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ کمسن محمد رفیع اس فقیر کی آواز سن کر گھر سے نکلتا اور اس فقیر کا گانا سنتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے کافی دور تک چلا جاتا تھا۔ جب واپس آتا تو گھر والوں کی ڈانٹ بھی پڑتی تھی۔ مگر محمد رفیع نے اس فقیر کو اپنا کمسنی ہی میں آئیڈیل بنا لیا تھا۔ پھر محمد رفیع کوٹلہ سلطان سے لاہور آ گیا۔ جب کچھ بڑا ہوا تو موسیقی کا شوق اس کی رگ رگ میں سما چکا تھا۔ لاہور میں یہ موسیقار فیروز نظامی کی شاگردی میں آ گیا پھر اس نے آل انڈیا ریڈیو سے گانا شروع کر دیا۔ یہ لاہور سے بمبئی پہنچ گیا تھا۔ وہاں اس کی ملاقات موسیقار سندرشیام جی سے ہوئی ان دنوں وہ فلم ''گل بلوچ'' کی موسیقی دے رہے تھے۔
محمد رفیع نے اپنا پہلا فلمی گانا اسی فلم کے لیے ریکارڈ کرایا تھا۔ محمد رفیع کے والد نہیں چاہتے تھے کہ وہ فلمی گلوکار بنے مگر قسمت کو یہی منظور تھا اسی دوران فلمساز و ہدایت کار شوکت حسین رضوی نے فلم ''جگنو'' بنائی جس میں دلیپ کمار کے ساتھ میڈم نور جہاں کو ہیروئن لیا، فلم کے موسیقار فیروز نظامی تھے اور فیروز نظامی ہی نے اپنے شاگرد محمد رفیع کو فلم ''جگنو'' میں بڑے خوبصورت انداز سے گوایا اور ''جگنو'' فلم کے گیتوں سے محمد رفیع کی شہرت کے سفر کا آغاز ہوا۔
اب میں پھر محمد رفیع کی مقبول نعتوں کی طرف آتا ہوں۔ آہستہ آہستہ محمد رفیع ہاٹ کیک سنگر بنتا جا رہا تھا لہٰذا کئی گرامو فون کمپنیوں نے محمد رفیع کی آواز میں نعتیں، منقبت اور منظوم حکایتوں کے ریکارڈ سارے ہندوستان میں پھیلا دیے جنھیں مسلم عوام میں بڑی مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ اب میں اس دور کی چند مشہور نعتوں اور منظوم حکایتوں کا تذکرہ کروں گا۔ جس پہلی نعت کو بڑی شہرت ملی اس کے بول تھے:
اگر مل گئی مجھ کو راہِ مدینہ
محمد کے نقشِ قدم چوم لوں گا
عقیدت سے کعبہ میں سر کو جھکا کر
نگاہوں سے بابِ حرم چوم لوں گا
اسی زمانے میں محمد رفیع کی آواز میں ایک اور نعت جو لوگوں کے دلوں میں اترتی چلی جاتی تھی اور رمضان کے دنوں میں تو خاص طور پر اکثر گھروں میں یہ ریڈیو سے سنی جاتی تھی اور روح کو منور کرتی تھی اور مدینے کی گلیوں کا نقشہ آنکھوں میں سما جاتا تھا اس نعت کے بول ہیں:
ہر اک شے سے اعلیٰ ہر اک شے سے افضل
ہر اک شے سے برتر مدینے کی گلیاں
قسم سبز گنبد کی اپنے لیے تو
ہیں جنت سے بڑھ کر مدینے کی گلیاں
محمد رفیع کی آواز میں ایک منقبت بھی بڑی مشہور ہوئی تھی جو ایک حکایت سے منسوب ہے کہ بچوں میں سب سے پہلے جو اسلام لائے تھے وہ حضرت علیؓ تھے اور اس حکایت میں حضرت علیؓ کی شان بیان کی گئی ہے۔
ہوئے کعبہ میں پیدا اور پلے دامان رحمت میں
علیؓ نے پرورش پائی ہے آغوش رسالت میں
حرا سے جب نبی اللہؐ کا فرمان لے آئے
علیؓ بچوں میں سب سے پہلے ہی ایمان لے آئے
اسی زمانے میں محمد رفیع کی آواز میں اور بھی کئی منظوم حکایتوں کا بڑا چرچا رہا تھا جن میں ایک نظم صبر ایوب علیہ السلام پر تھی اور ایک حضرت موسیٰؑ کے واقعات پر مبنی تھی اور قرآن کے کئی واقعات کو نظم کی صورت میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اور حضرت ایوب علیہ السلام سے متعلق ایک نظم کو بڑا پسند کیا گیا تھا جس کے بول تھے:
ایوبؑ کی یہ شان توکل ہے دیکھئے
کس درجہ میٹھا صبر کا یہ پھل ہے دیکھئے
محمد رفیع نے اپنے ابتدائی دور میں بے شمار منظوم حکایتیں گائی تھیں جنھیں عوام الناس میں بڑا پسند کیا جاتا تھا۔ محمد رفیع نے قرآن میں بیان کیا گیا، حضرت آدم اور حوا کا جو واقعہ ہے اس کو بھی منظوم انداز میں پیش کیا تھا۔ آخر میں اس کا بھی تھوڑا سا تذکرہ کروں گا، اس منظوم حکایت نے بھی ایک دھوم مچا دی تھی اور ایک طویل نظم کے صرف چند اشعار ہی پیش کروں گا۔
خدا نے جب کیے ساتوں زمیں ساتوں فلک پیدا
کیے عرش بریں' لوح و قلم جنوں ملک پیدا
تو سوچا پھر خدا نے ایک مخلوق ایسی پیدا ہو
جو ہر مخلوق کی سرتاج ہو جو فخرِ دنیا ہو
محمد رفیع ایک سچا عاشق رسول بھی تھا اور وہ ساری زندگی پابند صوم و صلوٰۃ رہا گلوکار محمد رفیع ایک ور اسٹائل سنگر تھا سب سے زیادہ گیت ہندوستان کے بیشتر زبانوں میں گائے سب سے زیادہ فلم فیئر ایوارڈز، نیشنل ایوارڈ اور حکومت کی طرف سے پدماشری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا جب محمد رفیع کا 31 جولائی 1980ء میں انتقال ہوا تو ان کے جنازے میں اتنے لوگ تھے کہ یوں لگتا تھا کہ سارا شہر سمٹ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ محمد رفیع کے درجات بلند کرے اور اپنے جوار رحمت میں جگہ دے (آمین۔)