پرویزمشرف اوربلوچستان
بلوچستان کے معاملے میں پرویز مشرف نے جو کچھ بھی کیا، بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ اُس میں اکیلے ملوث نہیں تھے
پاکستان میں سابق فوجی سربراہ اور سابق صدرِ مملکت پرویز مشرف کے مواخذے کو لے کر جو بحث چھڑی ہوئی ہے، اس میں وہ محب وطن پاکستانی جو مشرف کو سزا کی صورت میں ایک نئے پاکستان کو جنم لیتا ہوا دیکھ رہے ہیں، ان کا ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ پرویز مشرف کو سزا ملنے سے جہاں قانون کی بالادستی ہو گی، جمہوریت کا بول بالا ہو گا، عسکری قوتوں کی اقتدار کی جانب پیش قدمی کو روکا جا سکے گا، وہیں 'ناراض' بلوچوں کے غم و غصے کو بھی ٹھنڈا کیا جا سکے گا۔ ایسی رائے رکھنے والوں کی حب الوطنی پر تو کوئی شک نہیں کیا جا سکتا، لیکن بلوچوں اور بلوچستان سے متعلق ان کی کم فہمی پر کف ِ افسوس ضرور ملا جا سکتا ہے۔
ایک تو یہ 'ناراض' بلوچوں کی اصطلاح سے متعلق معروف سینئر صحافی محمد حنیف نے کراچی پریس کلب کے ایک پروگرام میں کیا خوب کہا کہ یہ سن کر ایسے لگتا ہے جیسے کسی بچے کو اس کا پسندیدہ کھلونا نہ ملے تو وہ ناراض ہو جائے، یا دو ٹین ایجر دوستوں کے مابین اَن بن ہو جائے تو وہ ناراض ہوں اور ایک دوسرے سے بول چال بند کی ہوئی ہو۔ ایک بلوچ سیاست دان نے اس اصطلاح کے جواب میں کیا خوب کہا تھا کہ بلوچ ، وفاق سے ناراض نہیں، بے زار ہیں۔
دوم یہ کہ پرویز مشرف کو آج پاکستان میں ایک ایسے شخص کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو ملک کی تمام تر برائیوں کی جڑ ہو، اور جسے اگر بیچ چوراہے پر لٹکا دیا جائے تو پاکستان کا اونٹ سیدھی کروٹ پہ بیٹھ جائے گا، سبھی ٹیڑھے رستے سیدھے ہو جائیں گے، برسوں کے بھٹکے عوام کو منزل مل جائے گی۔ اگر بالفرض ایسا ہو بھی جاتا ہے تو یہ اداروں کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی ایک کامیاب کوشش ہو گی۔ ایک شخص کی بَلی چڑھا کر کئی اداروں اور افراد کے گناہ بخشوا لیے جائیں گے۔
بلوچستان کے معاملے میں پرویز مشرف نے جو کچھ بھی کیا، بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ اُس میں اکیلے ملوث نہیں تھے بلکہ کئی سرکردہ اداروں اور افراد کی پشت پناہی انھیں حاصل تھی، جو 'غیر جانبداری' کے تمام تر تاثر کے باوجود آج بھی انھیں حاصل ہے، اور انھی کے طفیل آئین توڑنے اور ملک سے غداری جیسے سنگین مقدمات میں مطلوب ہونے کے باوجود وہ اپنی شاہانہ رہائش میں 'مزے' سے نظر بند ہیں، جب کہ یہاں قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں ایک منتخب عوامی نمایندے کو رات کی تاریکی میں سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ اس ملک میں عوامی نمایندوں کی جگہ شاہی قلعہ اور قلی کیمپوں میں رہی ہے،غیر جمہوری و غیر نمایندہ قوتوں کی تمام تر بد اعمالیو ں کے باوجود ان کی زندگی بھی شاہانہ رہتی ہے اور انجام بھی شاہانہ ہی رہتا ہے۔
کوئی بھی ذی عقل یہ ماننے کو تیار نہیں کہ نواب اکبر بگٹی کے قتل جیسا فیصلہ ایک اکیلے آدمی یا سربراہِ مملکت کا ہو سکتا ہے۔ اس کے ثبوت میں ذرایع ابلاغ میں نشر اور شایع ہونے والے ان کے وہ بیانات آج بھی محفوظ ہیں جس میں انھوں نے اگلے ہی روز اس آپریشن میں حصہ لینے والے جوانوں کو 'تاریخی کامیابی' پر مبارک باد پیش کی۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اس آپریشن کا فیصلہ تنِ تنہا پرویز مشرف نے کیا تھا توکسی نے اس پر اعتراض کیوں نہ کیا؟ تمام تر برائیوں کے باوجود یہ سیاست دان ہی تھے، جنہوں نے تب بھی اس فیصلے کی مخالفت کی، اور اسے ملک کے مستقبل کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔
اس لیے آج اگریہ کہا جا ر ہا ہے کہ بلوچستان میں آگ اور خون کا کھیل شروع کرنے کی تمام تر ذمے داری پرویز مشرف پر عائد ہوتی ہے تو اسے صرف آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ نیز اس کا اس سے بڑھ کر اور کیا جواب ہو گا کہ اگر آگ اور خون کا یہ کھیل محض پرویز مشرف کی رضامندی سے ہی کھیلا جا رہا تھا، تو ان کی اقتدار سے رخصتی کے پانچ سال بعد بھی اسے کیوں کر نہیں روکا جا سکا؟ بلکہ جمہوری دور میں یہ خون خرابہ مزید تیز ہوا۔ صاف ظاہر ہے کہ اس تباہی کے ذمے دارسب لوگ ہیں نہ کہ محض ایک فرد۔
پرویز مشرف کے مواخذے اور بلوچستان سے متعلق ان کے کردار کو یہاں ایک اور مختلف تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ یہ نقطہ نظر اُس وقت سے موجود ہے، جب 2008 میں مشرف کے اقتدار سے رخصت ہونے کے ساتھ ہی ان کے خلاف کارروائی کی بحث چھڑ گئی تھی۔ اُس وقت ایک نوجوان بلوچ کالم نگار نے ایک مقامی بلوچ روزنامے میں لکھا کہ ،''بلوچ توا پنے نقطہ نظر میں مشرف کے دورِ اقتدار کو اپنی تحریک کے لیے سود مند سمجھتے ہیں کیونکہ مشرف کے دور ِحکومت میں بلوچوں کے احساسِ محرومی میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ بلوچوں کی تحریک کی آواز کوہلو و ڈیرہ بگٹی کے پہاڑوں سے نکل کر بلوچستان کے دُور دراز علاقوں میں گدان نشینوں کے گوش گزار ہو کر بلوچستان کی جغرافیائی حدود سے نکل عالمی دنیا کی نظروں میں اجاگر ہوئی اور آج کل عالمی برادری میں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔'' اس کے لیے وہ یہ دلائل دیتے ہیں کہ، ''یہ مشرف ہی تھے جن کے دور میں بلوچوں کے خلاف بھرپور فوجی طاقت کا مظاہرہ کیا گیا اور بلوچوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کر کے راہِ آجوئی (آزادی) پر گامزن کرنے کا فن سکھایا۔ تو پھر بھلا مشرف کے مواخذے سے بلوچوں کو کیا خوشی ہو گی۔
گو کہ یہ یک طرفہ اور انتہا پسندانہ نقطہ نظر ہے۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ بلوچستان کا ایک وسیع حلقہ آج بھی اس نقطہ نظر کا حامی ہے۔ واضح رہے کہ جس اخبار (روزنامہ آساپ) میں یہ مضمون شایع ہوا، ٹھیک ایک سال بعد (اگست 2009 میں) اسے اپنی اشاعت معطل کرنے پر مجبور دیا گیا، جب کہ مزید دو، ڈھائی برس بعد (مئی2012 میں) اس مضمون کے مصنف جواں سال محمد خان مری کی بوری بند لاش کوئٹہ کے نواح میں سے ملی۔ یہ وہی پچیس سالہ محمد خان بلوچ تھے، جنھیں ان کے بیس سالہ چھوٹے بھائی سمیت اغوا کیا گیا، اور جن کی گمشدگی کا نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس نے تین دن کے اندر مغویوں کو سامنے لانے اور عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا۔ اور محض ایک ہفتے بعد دونوں بھائیوں کی بوری بند تشدد زدہ لاشیں بر آمد ہوئیں۔
باقی بلوچستان کی حد تک ، یاد رکھیے کہ مشرف کا مواخذہ کوئی حل نہیں ہے۔ حقیقی بلوچ قیادت اور عوام کی پرویز مشرف کے انجام میں رتی برابر دلچسپی نہیں۔ جب کہ فہمیدہ حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ پرویز مشرف اصل مسئلے کی جڑ نہیں، بلکہ محض ایک مہرہ ہیں، اس لیے ان کے الگ ہونے سے نہ تو اس عمارت کا ٹیڑھا پن درست ہو گا، نہ ہی کھیل ختم ہو گا۔ ہاں اگر ایسا کر کے پاکستان خود کو عوامی فلاحی اور منصف ریاست بنانے کی جانب پیش قدمی کرنا چاہتا ہے تو اس حد تک اسے ملک کے لیے نیک شگون تو کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ ناانصافی اور استحصال پر مبنی اس نظام کو جڑ سے اکھاڑے بنا کوئی بھی حل دیر پا ثابت نہیں ہو گا۔
ایک تو یہ 'ناراض' بلوچوں کی اصطلاح سے متعلق معروف سینئر صحافی محمد حنیف نے کراچی پریس کلب کے ایک پروگرام میں کیا خوب کہا کہ یہ سن کر ایسے لگتا ہے جیسے کسی بچے کو اس کا پسندیدہ کھلونا نہ ملے تو وہ ناراض ہو جائے، یا دو ٹین ایجر دوستوں کے مابین اَن بن ہو جائے تو وہ ناراض ہوں اور ایک دوسرے سے بول چال بند کی ہوئی ہو۔ ایک بلوچ سیاست دان نے اس اصطلاح کے جواب میں کیا خوب کہا تھا کہ بلوچ ، وفاق سے ناراض نہیں، بے زار ہیں۔
دوم یہ کہ پرویز مشرف کو آج پاکستان میں ایک ایسے شخص کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو ملک کی تمام تر برائیوں کی جڑ ہو، اور جسے اگر بیچ چوراہے پر لٹکا دیا جائے تو پاکستان کا اونٹ سیدھی کروٹ پہ بیٹھ جائے گا، سبھی ٹیڑھے رستے سیدھے ہو جائیں گے، برسوں کے بھٹکے عوام کو منزل مل جائے گی۔ اگر بالفرض ایسا ہو بھی جاتا ہے تو یہ اداروں کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی ایک کامیاب کوشش ہو گی۔ ایک شخص کی بَلی چڑھا کر کئی اداروں اور افراد کے گناہ بخشوا لیے جائیں گے۔
بلوچستان کے معاملے میں پرویز مشرف نے جو کچھ بھی کیا، بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ اُس میں اکیلے ملوث نہیں تھے بلکہ کئی سرکردہ اداروں اور افراد کی پشت پناہی انھیں حاصل تھی، جو 'غیر جانبداری' کے تمام تر تاثر کے باوجود آج بھی انھیں حاصل ہے، اور انھی کے طفیل آئین توڑنے اور ملک سے غداری جیسے سنگین مقدمات میں مطلوب ہونے کے باوجود وہ اپنی شاہانہ رہائش میں 'مزے' سے نظر بند ہیں، جب کہ یہاں قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں ایک منتخب عوامی نمایندے کو رات کی تاریکی میں سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ اس ملک میں عوامی نمایندوں کی جگہ شاہی قلعہ اور قلی کیمپوں میں رہی ہے،غیر جمہوری و غیر نمایندہ قوتوں کی تمام تر بد اعمالیو ں کے باوجود ان کی زندگی بھی شاہانہ رہتی ہے اور انجام بھی شاہانہ ہی رہتا ہے۔
کوئی بھی ذی عقل یہ ماننے کو تیار نہیں کہ نواب اکبر بگٹی کے قتل جیسا فیصلہ ایک اکیلے آدمی یا سربراہِ مملکت کا ہو سکتا ہے۔ اس کے ثبوت میں ذرایع ابلاغ میں نشر اور شایع ہونے والے ان کے وہ بیانات آج بھی محفوظ ہیں جس میں انھوں نے اگلے ہی روز اس آپریشن میں حصہ لینے والے جوانوں کو 'تاریخی کامیابی' پر مبارک باد پیش کی۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اس آپریشن کا فیصلہ تنِ تنہا پرویز مشرف نے کیا تھا توکسی نے اس پر اعتراض کیوں نہ کیا؟ تمام تر برائیوں کے باوجود یہ سیاست دان ہی تھے، جنہوں نے تب بھی اس فیصلے کی مخالفت کی، اور اسے ملک کے مستقبل کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔
اس لیے آج اگریہ کہا جا ر ہا ہے کہ بلوچستان میں آگ اور خون کا کھیل شروع کرنے کی تمام تر ذمے داری پرویز مشرف پر عائد ہوتی ہے تو اسے صرف آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ نیز اس کا اس سے بڑھ کر اور کیا جواب ہو گا کہ اگر آگ اور خون کا یہ کھیل محض پرویز مشرف کی رضامندی سے ہی کھیلا جا رہا تھا، تو ان کی اقتدار سے رخصتی کے پانچ سال بعد بھی اسے کیوں کر نہیں روکا جا سکا؟ بلکہ جمہوری دور میں یہ خون خرابہ مزید تیز ہوا۔ صاف ظاہر ہے کہ اس تباہی کے ذمے دارسب لوگ ہیں نہ کہ محض ایک فرد۔
پرویز مشرف کے مواخذے اور بلوچستان سے متعلق ان کے کردار کو یہاں ایک اور مختلف تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ یہ نقطہ نظر اُس وقت سے موجود ہے، جب 2008 میں مشرف کے اقتدار سے رخصت ہونے کے ساتھ ہی ان کے خلاف کارروائی کی بحث چھڑ گئی تھی۔ اُس وقت ایک نوجوان بلوچ کالم نگار نے ایک مقامی بلوچ روزنامے میں لکھا کہ ،''بلوچ توا پنے نقطہ نظر میں مشرف کے دورِ اقتدار کو اپنی تحریک کے لیے سود مند سمجھتے ہیں کیونکہ مشرف کے دور ِحکومت میں بلوچوں کے احساسِ محرومی میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ بلوچوں کی تحریک کی آواز کوہلو و ڈیرہ بگٹی کے پہاڑوں سے نکل کر بلوچستان کے دُور دراز علاقوں میں گدان نشینوں کے گوش گزار ہو کر بلوچستان کی جغرافیائی حدود سے نکل عالمی دنیا کی نظروں میں اجاگر ہوئی اور آج کل عالمی برادری میں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔'' اس کے لیے وہ یہ دلائل دیتے ہیں کہ، ''یہ مشرف ہی تھے جن کے دور میں بلوچوں کے خلاف بھرپور فوجی طاقت کا مظاہرہ کیا گیا اور بلوچوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کر کے راہِ آجوئی (آزادی) پر گامزن کرنے کا فن سکھایا۔ تو پھر بھلا مشرف کے مواخذے سے بلوچوں کو کیا خوشی ہو گی۔
گو کہ یہ یک طرفہ اور انتہا پسندانہ نقطہ نظر ہے۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ بلوچستان کا ایک وسیع حلقہ آج بھی اس نقطہ نظر کا حامی ہے۔ واضح رہے کہ جس اخبار (روزنامہ آساپ) میں یہ مضمون شایع ہوا، ٹھیک ایک سال بعد (اگست 2009 میں) اسے اپنی اشاعت معطل کرنے پر مجبور دیا گیا، جب کہ مزید دو، ڈھائی برس بعد (مئی2012 میں) اس مضمون کے مصنف جواں سال محمد خان مری کی بوری بند لاش کوئٹہ کے نواح میں سے ملی۔ یہ وہی پچیس سالہ محمد خان بلوچ تھے، جنھیں ان کے بیس سالہ چھوٹے بھائی سمیت اغوا کیا گیا، اور جن کی گمشدگی کا نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس نے تین دن کے اندر مغویوں کو سامنے لانے اور عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا۔ اور محض ایک ہفتے بعد دونوں بھائیوں کی بوری بند تشدد زدہ لاشیں بر آمد ہوئیں۔
باقی بلوچستان کی حد تک ، یاد رکھیے کہ مشرف کا مواخذہ کوئی حل نہیں ہے۔ حقیقی بلوچ قیادت اور عوام کی پرویز مشرف کے انجام میں رتی برابر دلچسپی نہیں۔ جب کہ فہمیدہ حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ پرویز مشرف اصل مسئلے کی جڑ نہیں، بلکہ محض ایک مہرہ ہیں، اس لیے ان کے الگ ہونے سے نہ تو اس عمارت کا ٹیڑھا پن درست ہو گا، نہ ہی کھیل ختم ہو گا۔ ہاں اگر ایسا کر کے پاکستان خود کو عوامی فلاحی اور منصف ریاست بنانے کی جانب پیش قدمی کرنا چاہتا ہے تو اس حد تک اسے ملک کے لیے نیک شگون تو کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ ناانصافی اور استحصال پر مبنی اس نظام کو جڑ سے اکھاڑے بنا کوئی بھی حل دیر پا ثابت نہیں ہو گا۔