اسٹیٹ بینک کی 2 ماہی مانیٹری پالیسی
اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافہ بھی ڈالر کی شرح مبادلہ کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے آئندہ 2 ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے بنیادی شرح سود میں نصف فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ اضافہ روپے کی گرتی ہوئی قدر اور خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے جنم لینے والے افراط زر کے دباؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ اس اضافے سے پالیسی ریٹ 6 فیصد سے بڑھا کر 6.5 فیصد مقرر کر دیا گیا ہے۔
مانیٹری پالیسی میں معیشت کا جائزہ پیش کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک نے کہا کہ مالی سال 18-2017ء میں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح نمو 5.8 فیصد رہے گی جو 13 سال کی بلند ترین سطح ہے، اسٹیٹ بینک کے مطابق عمومی مہنگائی 6 فیصد کے سالانہ ہدف سے کم رہے گی، اسٹیٹ بینک نے اعتراف کیا کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں 18 مئی تک 5.8 ارب ڈالر کمی ہوئی جب کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر رواں مالی سال کے دوران 9.3 فیصد تک گر چکی ہے لہذا آئندہ مالی سال میں معاشی شرح نمو کا ہدف 6.2 تک رہنا بھی دشوار ہے جب کہ آئندہ مالی سال کے دوران مہنگائی بھی 6 فیصد کے ہدف سے زائد رہے گی۔
حکومت کے پیش کردہ اعداد وشمار اپنی جگہ درست ہوں گے لیکن مارکیٹ کی صورت حال دیکھی جائے تو مہنگائی میں کئی گنا زائد اضافہ نظر آتا ہے۔ جہاں تک مالی سال 2017ء، 2018ء میں معاشی نمو کی شرح کا زیادہ رہنے کا تعلق ہے تو یہ معیشت کے لیے اچھی خبر ہے لیکن اس معاشی ترقی کا اثر گراس روٹ لیول پر نظر نہیں آ رہا۔
معیشت کے کچھ شعبوں کی ترقی کو پوری معیشت کی ترقی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ زرعی شعبے میں ترقی کا عمل سست ہے۔ زرعی مداخل مہنگے ہونے کی وجہ سے کسان کی فی ایکڑ لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وجہ سے کسان غربت کی چکی میں پس رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافہ بھی ڈالر کی شرح مبادلہ کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے۔
بہرحال مانیٹری پالیسی کو جتنا زیادہ حقاق کے مطابق رکھا جائے گا اس کے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ افراط زر کو بھی کنٹرول میں رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ افراط زر کی وجہ سے بھی مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔
مانیٹری پالیسی میں معیشت کا جائزہ پیش کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک نے کہا کہ مالی سال 18-2017ء میں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح نمو 5.8 فیصد رہے گی جو 13 سال کی بلند ترین سطح ہے، اسٹیٹ بینک کے مطابق عمومی مہنگائی 6 فیصد کے سالانہ ہدف سے کم رہے گی، اسٹیٹ بینک نے اعتراف کیا کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں 18 مئی تک 5.8 ارب ڈالر کمی ہوئی جب کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر رواں مالی سال کے دوران 9.3 فیصد تک گر چکی ہے لہذا آئندہ مالی سال میں معاشی شرح نمو کا ہدف 6.2 تک رہنا بھی دشوار ہے جب کہ آئندہ مالی سال کے دوران مہنگائی بھی 6 فیصد کے ہدف سے زائد رہے گی۔
حکومت کے پیش کردہ اعداد وشمار اپنی جگہ درست ہوں گے لیکن مارکیٹ کی صورت حال دیکھی جائے تو مہنگائی میں کئی گنا زائد اضافہ نظر آتا ہے۔ جہاں تک مالی سال 2017ء، 2018ء میں معاشی نمو کی شرح کا زیادہ رہنے کا تعلق ہے تو یہ معیشت کے لیے اچھی خبر ہے لیکن اس معاشی ترقی کا اثر گراس روٹ لیول پر نظر نہیں آ رہا۔
معیشت کے کچھ شعبوں کی ترقی کو پوری معیشت کی ترقی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ زرعی شعبے میں ترقی کا عمل سست ہے۔ زرعی مداخل مہنگے ہونے کی وجہ سے کسان کی فی ایکڑ لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وجہ سے کسان غربت کی چکی میں پس رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافہ بھی ڈالر کی شرح مبادلہ کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے۔
بہرحال مانیٹری پالیسی کو جتنا زیادہ حقاق کے مطابق رکھا جائے گا اس کے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ افراط زر کو بھی کنٹرول میں رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ افراط زر کی وجہ سے بھی مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔