مذاق مت اڑائیں …
تاکید کی گئی ہے کہ کسی ایسی محفل میں جہاں مذہب کا مضحکہ اڑایا جا رہا ہو وہاں مت بیٹھو۔
'' مسلمانو تم پر روزے اور پکوڑے فرض کیے گئے ہیں ... ''
'' پکوڑوں کے بغیر افطاری کرنے سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے!! ''
'' کیا بیوی کے جوتے کھانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟ ''
''سنا ہے کہ رمضان میں شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے مگر فلاں فلاں تو آزاد گھوم رہا ہے!! ''
'' سورج جانے کیوں نہیں ڈوب رہا ہے آج، لگتا ہے کہ ہم اس سے پہلے ڈوب جائیں گے... ''
اللہ تعالی معاف کرے، اس کالم میں ایسی چند مثالیں دیتے ہوئے بھی دل خوف میں مبتلا ہے۔ یہ اور ایسی ہی کئی پوسٹ رمضان شروع ہوتے ہی بار بار، کبھی کسی حوالے سے اور کبھی کسی گروپ سے ملتی ہیں اور پھر انھیں لطیفے کے طور پر فوراً فارورڈ کردیا جاتا ہے۔ نہ صرف روزے اور نماز تراویح کے بارے میں بلکہ عام حالات میں نماز، حج اور زکوۃ کے بارے میں، جنت اور جہنم کے بارے میں اپنی معلومات کو ہم کوئی منفی پہلو نکال کر لطیفے میں ڈھال لیتے ہیں اور دوسروں کو سناتے ہیں تا کہ وہ بھی محظوظ ہوں ۔
کسی کی شکل و صورت کے بارے میں منفی بات کرنا، کسی کی قومیت ، قبیلے یا ذات کو برا کہنا اور کسی کے مذہب کے بارے میں دل دکھانے والی بات کرنا، ان کے بارے میں لطائف گھڑنا، بری بات کو سننا اور پھر ایسی بات کی مزید تشہیر کرنا، یہ سب دانستہ گناہوں کے زمرے میں آنے والے گناہ ہیں ۔ ہم اتنے باشعور اور خواندہ تو ہیں کہ ہمیں اسمارٹ فون کا استعمال کرنا آتا ہے، پیغام وصول کرنا اور فارورڈ کرنا آتا ہے تو کیا ہمیں اس بات کا شعور نہیں ہوتا کہ ہم اپنی طرف سے جسے مذاق سمجھ رہے ہیں وہ بسا اوقات شرک میں شمار ہوتا ہے۔ کبھی مذہب کی تضحیک میں اور کبھی حقوق العباد کی خلاف ورزی کے زمرے میں، دل آزاری کر کے ہم گناہ کے مرتکب ہو جاتے ہیں ۔
جنت کی حوروں کے بارے میں لطائف... کبھی جہنم میں بننے والے بار بی کیو کا تذکرہ اور کبھی اس اس لتر کا تذکرہ جس کے ساتھ جہنم میں پٹائی ہو گی!! ہم کسی اور کا نہیں بلکہ اپنے ہی مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں اور جانتے نہیں کہ اللہ تعالی اگر غفور الرحیم ہے تو قہار اور جبار بھی ہے۔
'' کیا یہ نہیں جانتے کہ جو بھی اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کرے گااس کے لیے یقینا دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہنے والا ہے ، یہ زبردست رسوائی ہے۔
منافقوں کو ہر وقت اس بات کا کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی سورت نہ اترے جو ان کے دلوںکی باتیں انھیں بتا دے۔ کہہ دیجیے کہ تم مذاق اڑاتے رہو، یقینا اللہ تعالی اسے ظاہر کرنے والا ہے جس سے تم ڈر دبک رہے ہو۔
اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجیے کہ اللہ، اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لیے رہ گئے ہیں۔
تم بہانے نہ بناؤیقینا تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہو گئے ، اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر کر بھی لیں تو کچھ لوگوں کو ان کے جرم کی سنگین سزا بھی دیں گے۔ ''( سورۃ توبہ۔ آیات 63 تا 66)
'' اورجب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات کی عیب جوئی کر رہے ہیںتو ان لوگوں سے کنارہ کش ہو جائیںیہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیںاور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں ۔ '' (سورۃ الانعام۔ آیت، 68)
'' اور اللہ تعالی تمہارے پاس اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ جب تم کسی مجلس والوں کو اللہ تعالی کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنوتو اس مجمع میں ان کے ساتھ نہ بیٹھو! جب تک کہ وہ اس کے علاوہ اور باتیں نہ کرنے لگیں، ورنہ تم بھی اس وقت ان ہی جیسے ہو، یقینا اللہ تعالی تمام کافروں اور سب منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔'' (سورۃ النساء۔ آیت، 140)
اس کے علاوہ بھی قرآن میں کئی دفعہ اس بات کی تنبیہ کی گئی ہے کہ اللہ، اس کی آیتوں، اس کے رسولوں اور اس کے احکامات کو اپنے مذاق کا نشانہ بنانے والا دل سے مسلمان نہیں ہو سکتا۔ شیطان کے بہکاوے میں آکر ہم اپنا ایمان کتنی آسانی سے مشکوک کر لیتے ہیں۔ بسا اوقات ہم وہ الفاظ انجانے میں کہہ جاتے ہیں جو ہمیں سمجھ میں آئیں تو ہم دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں ۔ ہم بلا ارادہ شرک کے مرتکب ہو جاتے ہیںیا توہین رسالت کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔ جہنم اور سزا کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ یونہی ہمیں ڈرانے کے لیے کہہ دیا گیا ہے۔ کبھی سوچا کہ کس نے کہا، کہاں کہا اور کیا وہ کہنے والا ایسی بڑی بات صرف مذاق میں( نعوذ باللہ) کہے گا۔
تاکید کی گئی ہے کہ کسی ایسی محفل میں جہاں مذہب کا مضحکہ اڑایا جا رہا ہو وہاں مت بیٹھو، ایسے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرو، اگر وہ نہ سمجھیں اور اپنی روش پر قائم رہیں تو ان سے کنارہ کر لو۔ اپنے منہ سے اسلام کے خلاف بات کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور اس پر فتوی ہے کہ ایسا کرنے والا دوبارہ کلمہء شہادت پڑھ کر ایمان لائے مگر ظاہر ہے کہ اس کے بعد اسے اس پر محتاط رہنا چاہیے۔ ہم آج کل جس ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں اس سے پیغام ایک لمحے میں سو پچاس لوگوں تک پہنچ جاتا ہے اور وہ سو پچاس میں سے اگر آدھے لوگ بھی اسے اپنے مزید کانٹیکٹ میں بھیجیں تو اس غلط پیغام کی ترسیل سیکڑوں ہزاروں تک فورا ہوجاتی ہے۔
اب ہم سوچیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟؟ کیا ہمارے ایسے چھوٹے چھوٹے مذاق اورلطائف اللہ کی نظر سے پوشیدہ ہیں، کیا ہم اپنا لکھا اور کہا ہوا اس سے چھپا سکتے ہیں؟ وہ تو وہ ہے جو ہمارے دلوں میں امڈ آنے والے وسوسوں سے بھی واقف ہے، ہمارے برے خیالات کو بھی جانتا ہے اور ہمارے نیک ارادوں کو بھی۔
کیا ہم اس لیے مسلمان کہلائے جاتے ہیں کہ ہمارے نام مسلمانوں والے ہیں یا ہم مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے تھے، اس کے بعدہم خود ایسا کیا کرتے ہیں جو ہمیں غیر مسلموں سے ممتاز کرتا ہے۔ ہم لباس میں تقلید کرتے ہیں، حلیے میں، بناؤ سنگھار میں اور اب تو بہت سی غیر اسلامی رسومات اور تہوار بھی ہم نے اپنا لیے ہیں بلکہ ان سے زیادہ اہتمام کرتے ہیں جن کی معاشرت کا حصہ وہ تہوار ہیں۔ آزادی اور حقوق کے حصول کے نام پر معاشرے میںجن برائیوں نے جنم لے لیا ہے اب ان کا قلع قمع کسی طور ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہم اپنے اندر کی ہر برائی کی وجہ اغیار کی سازش اور میڈیا کی یلغارکہہ کر خود کو تسلی تو دے لیتے ہیں مگر میڈیا کو کون چلا رہا ہے... ہم اور ہمارے جیسے لوگ جو بیرون ملک سے در کر آنے والے منفی تاثرات کو زیادہ اجاگر کرتے ہیں اور ان ہی کے معاشرے میں موجود اچھائیوں پر کوئی عمل نہیں کرتا جس میں صفائی، وعدے اور وقت کی پابندی، تنظیم اور اپنے ملک اور مذہب کی عزت شامل ہیں۔
یہ کہنا کہ برائی میں کشش ہے، از خود ایک منفی پراپیگنڈا ہے جس سے اجتناب کیا جانا چاہیے... ہاں وہ شخص جسے برائی لبھاتی ہو جو شیطان سے متاثر ہو، وہ یقینا برائی میں کشش محسوس کرتا ہے۔ اصل کشش اپنے وجود کے خالق اور اس کے احکامات کی ہونا چاہیے اور اللہ تعالی سے دعاکرتی ہوں کہ وہ ہم سب کو سیدھے راستے پر چلائے اور برائی سے بچنے کی ہمت دے، آمین !!
'' پکوڑوں کے بغیر افطاری کرنے سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے!! ''
'' کیا بیوی کے جوتے کھانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟ ''
''سنا ہے کہ رمضان میں شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے مگر فلاں فلاں تو آزاد گھوم رہا ہے!! ''
'' سورج جانے کیوں نہیں ڈوب رہا ہے آج، لگتا ہے کہ ہم اس سے پہلے ڈوب جائیں گے... ''
اللہ تعالی معاف کرے، اس کالم میں ایسی چند مثالیں دیتے ہوئے بھی دل خوف میں مبتلا ہے۔ یہ اور ایسی ہی کئی پوسٹ رمضان شروع ہوتے ہی بار بار، کبھی کسی حوالے سے اور کبھی کسی گروپ سے ملتی ہیں اور پھر انھیں لطیفے کے طور پر فوراً فارورڈ کردیا جاتا ہے۔ نہ صرف روزے اور نماز تراویح کے بارے میں بلکہ عام حالات میں نماز، حج اور زکوۃ کے بارے میں، جنت اور جہنم کے بارے میں اپنی معلومات کو ہم کوئی منفی پہلو نکال کر لطیفے میں ڈھال لیتے ہیں اور دوسروں کو سناتے ہیں تا کہ وہ بھی محظوظ ہوں ۔
کسی کی شکل و صورت کے بارے میں منفی بات کرنا، کسی کی قومیت ، قبیلے یا ذات کو برا کہنا اور کسی کے مذہب کے بارے میں دل دکھانے والی بات کرنا، ان کے بارے میں لطائف گھڑنا، بری بات کو سننا اور پھر ایسی بات کی مزید تشہیر کرنا، یہ سب دانستہ گناہوں کے زمرے میں آنے والے گناہ ہیں ۔ ہم اتنے باشعور اور خواندہ تو ہیں کہ ہمیں اسمارٹ فون کا استعمال کرنا آتا ہے، پیغام وصول کرنا اور فارورڈ کرنا آتا ہے تو کیا ہمیں اس بات کا شعور نہیں ہوتا کہ ہم اپنی طرف سے جسے مذاق سمجھ رہے ہیں وہ بسا اوقات شرک میں شمار ہوتا ہے۔ کبھی مذہب کی تضحیک میں اور کبھی حقوق العباد کی خلاف ورزی کے زمرے میں، دل آزاری کر کے ہم گناہ کے مرتکب ہو جاتے ہیں ۔
جنت کی حوروں کے بارے میں لطائف... کبھی جہنم میں بننے والے بار بی کیو کا تذکرہ اور کبھی اس اس لتر کا تذکرہ جس کے ساتھ جہنم میں پٹائی ہو گی!! ہم کسی اور کا نہیں بلکہ اپنے ہی مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں اور جانتے نہیں کہ اللہ تعالی اگر غفور الرحیم ہے تو قہار اور جبار بھی ہے۔
'' کیا یہ نہیں جانتے کہ جو بھی اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کرے گااس کے لیے یقینا دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہنے والا ہے ، یہ زبردست رسوائی ہے۔
منافقوں کو ہر وقت اس بات کا کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی سورت نہ اترے جو ان کے دلوںکی باتیں انھیں بتا دے۔ کہہ دیجیے کہ تم مذاق اڑاتے رہو، یقینا اللہ تعالی اسے ظاہر کرنے والا ہے جس سے تم ڈر دبک رہے ہو۔
اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجیے کہ اللہ، اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لیے رہ گئے ہیں۔
تم بہانے نہ بناؤیقینا تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہو گئے ، اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر کر بھی لیں تو کچھ لوگوں کو ان کے جرم کی سنگین سزا بھی دیں گے۔ ''( سورۃ توبہ۔ آیات 63 تا 66)
'' اورجب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات کی عیب جوئی کر رہے ہیںتو ان لوگوں سے کنارہ کش ہو جائیںیہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیںاور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں ۔ '' (سورۃ الانعام۔ آیت، 68)
'' اور اللہ تعالی تمہارے پاس اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ جب تم کسی مجلس والوں کو اللہ تعالی کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنوتو اس مجمع میں ان کے ساتھ نہ بیٹھو! جب تک کہ وہ اس کے علاوہ اور باتیں نہ کرنے لگیں، ورنہ تم بھی اس وقت ان ہی جیسے ہو، یقینا اللہ تعالی تمام کافروں اور سب منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔'' (سورۃ النساء۔ آیت، 140)
اس کے علاوہ بھی قرآن میں کئی دفعہ اس بات کی تنبیہ کی گئی ہے کہ اللہ، اس کی آیتوں، اس کے رسولوں اور اس کے احکامات کو اپنے مذاق کا نشانہ بنانے والا دل سے مسلمان نہیں ہو سکتا۔ شیطان کے بہکاوے میں آکر ہم اپنا ایمان کتنی آسانی سے مشکوک کر لیتے ہیں۔ بسا اوقات ہم وہ الفاظ انجانے میں کہہ جاتے ہیں جو ہمیں سمجھ میں آئیں تو ہم دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں ۔ ہم بلا ارادہ شرک کے مرتکب ہو جاتے ہیںیا توہین رسالت کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔ جہنم اور سزا کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ یونہی ہمیں ڈرانے کے لیے کہہ دیا گیا ہے۔ کبھی سوچا کہ کس نے کہا، کہاں کہا اور کیا وہ کہنے والا ایسی بڑی بات صرف مذاق میں( نعوذ باللہ) کہے گا۔
تاکید کی گئی ہے کہ کسی ایسی محفل میں جہاں مذہب کا مضحکہ اڑایا جا رہا ہو وہاں مت بیٹھو، ایسے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرو، اگر وہ نہ سمجھیں اور اپنی روش پر قائم رہیں تو ان سے کنارہ کر لو۔ اپنے منہ سے اسلام کے خلاف بات کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور اس پر فتوی ہے کہ ایسا کرنے والا دوبارہ کلمہء شہادت پڑھ کر ایمان لائے مگر ظاہر ہے کہ اس کے بعد اسے اس پر محتاط رہنا چاہیے۔ ہم آج کل جس ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں اس سے پیغام ایک لمحے میں سو پچاس لوگوں تک پہنچ جاتا ہے اور وہ سو پچاس میں سے اگر آدھے لوگ بھی اسے اپنے مزید کانٹیکٹ میں بھیجیں تو اس غلط پیغام کی ترسیل سیکڑوں ہزاروں تک فورا ہوجاتی ہے۔
اب ہم سوچیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟؟ کیا ہمارے ایسے چھوٹے چھوٹے مذاق اورلطائف اللہ کی نظر سے پوشیدہ ہیں، کیا ہم اپنا لکھا اور کہا ہوا اس سے چھپا سکتے ہیں؟ وہ تو وہ ہے جو ہمارے دلوں میں امڈ آنے والے وسوسوں سے بھی واقف ہے، ہمارے برے خیالات کو بھی جانتا ہے اور ہمارے نیک ارادوں کو بھی۔
کیا ہم اس لیے مسلمان کہلائے جاتے ہیں کہ ہمارے نام مسلمانوں والے ہیں یا ہم مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے تھے، اس کے بعدہم خود ایسا کیا کرتے ہیں جو ہمیں غیر مسلموں سے ممتاز کرتا ہے۔ ہم لباس میں تقلید کرتے ہیں، حلیے میں، بناؤ سنگھار میں اور اب تو بہت سی غیر اسلامی رسومات اور تہوار بھی ہم نے اپنا لیے ہیں بلکہ ان سے زیادہ اہتمام کرتے ہیں جن کی معاشرت کا حصہ وہ تہوار ہیں۔ آزادی اور حقوق کے حصول کے نام پر معاشرے میںجن برائیوں نے جنم لے لیا ہے اب ان کا قلع قمع کسی طور ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہم اپنے اندر کی ہر برائی کی وجہ اغیار کی سازش اور میڈیا کی یلغارکہہ کر خود کو تسلی تو دے لیتے ہیں مگر میڈیا کو کون چلا رہا ہے... ہم اور ہمارے جیسے لوگ جو بیرون ملک سے در کر آنے والے منفی تاثرات کو زیادہ اجاگر کرتے ہیں اور ان ہی کے معاشرے میں موجود اچھائیوں پر کوئی عمل نہیں کرتا جس میں صفائی، وعدے اور وقت کی پابندی، تنظیم اور اپنے ملک اور مذہب کی عزت شامل ہیں۔
یہ کہنا کہ برائی میں کشش ہے، از خود ایک منفی پراپیگنڈا ہے جس سے اجتناب کیا جانا چاہیے... ہاں وہ شخص جسے برائی لبھاتی ہو جو شیطان سے متاثر ہو، وہ یقینا برائی میں کشش محسوس کرتا ہے۔ اصل کشش اپنے وجود کے خالق اور اس کے احکامات کی ہونا چاہیے اور اللہ تعالی سے دعاکرتی ہوں کہ وہ ہم سب کو سیدھے راستے پر چلائے اور برائی سے بچنے کی ہمت دے، آمین !!