اگلی حکومت بھی کوئی آسان نہ ہوگی
قومی سیاست میں نادیدہ قوتوں کے خفیہ ہاتھ اور کردار سے انکار کوئی بھی ذی شعور شخص نہیں کرسکتا۔
تمام وسوسوں اور خدشات کے باوجود ہم ایک بار پھر جمہوری طریقہ انتخاب اپناتے ہوئے اپنے لیے اِک نئی حکومت منتخب کرنے جارہے ہیں ۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ میں شاید پہلی بار ہونے جا رہا ہے کہ ہم نے گزشتہ دس سالوں میں دو جمہوری حکومتوں کے پانچ پانچ سال بغیر کسی غیر آئینی مداخلت کے خیریت سے گذار لیے اور بہت جلد تیسری بار عوامی استصواب رائے کے ذریعے کسی نئی حکومت کے انتخاب کا مرحلہ بھی عبورکرنے والے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کو اپنے دور کے ابتدا ہی دنوں سے مشکلات اور سازشوں کا سامنا رہا اور 126دنوں تک اِس ملک کا دارالحکومت چند ضدی سیاسی عناصر کے ہاتھوں یرغمال بنا رہا لیکن بہرحال اُس نے اپنے پانچ سال نہ صرف مکمل کیے بلکہ امن و مان اور تعمیر و ترقی کے حوالے سے مثالی کارنامے بھی سر انجام دیے۔
2013ء کے الیکشن کے وقت ہمارا وطن عزیز آئے دن کے بم دھماکوں اور خود کش حملوں سے لہو لہان ہو رہا تھا ۔کوئی شہر اورکوئی قصبہ بھی دہشت گردوں کی کارروائیوں سے محفوظ نہیں تھا ۔ حالات اِس قدر خراب تھے کہ انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کو کھل کر میدان میں اترنے کاموقعہ بھی نہ ملا ۔دوسری جانب کراچی شہر بھی خود اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں آئے دن کے احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے سبب تباہ و برباد ہو چکا تھا۔ وہاں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے دس سے بارہ افراد کا لقمہ اجل بن جانا روزانہ کا معمول بن چکا تھا ۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بہر حال اِس بات کا کریڈٹ تو ضرور جاتا ہے کہ اُس نے اِس ملک میں امن و امان واپس لانے میں عزم صمیم اور خلوص نیت کا مظاہرہ کیا اور عسکری قوتوں کے ساتھ مل کراپنے اِس نیک مقصد میں اہم کامیابی حاصل کی۔ ساتھ ہی ساتھ اُس نے ترقی و خوشحالی کے اپنے وژن کو بھی حقیقی اور عملی شکل دیکر انفرا اسٹرکچرکے بہت سے منصوبوں پر نہ صرف کام شروع کیا بلکہ اُنہیں اپنے پانچ سالہ دور میں مکمل بھی کیا۔اُس نے سڑکوں اور شاہراہوں کے اِس ملک میں اتنے جال بچھائے جو شاید ہی ہماری تاریخ کے باقی سالوں میں کبھی بچھائے گئے ہوں گے۔
بجلی اور توانائی کے شعبے میں بھی اُس نے نمایاں اور خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کیں اور اِس ملک سے لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں کو دور کیا ۔ ہمارے یہاں سی پیک کے منصوبے کے دعوے دار تو بہت سے لوگ ہیں لیکن کیا بات ہے کہ اِس منصوبے پر عمل درآمد کا سہرا کسی اور کے سر نہیں سجا۔ یہ مسلم لیگ (ن) ہی کی حکومت کا کریڈٹ ہے کہ اُس نے تیزی کے ساتھ اِس منصوبے پر کام شروع کیا اور بہت ہی کم وقت میں اِسے اِس قابل بنادیا کہ وہ ہمارے روشن مستقبل کی ضامن بن سکے۔
ریلوے کا نظام اِس حکومت سے پہلے جس حال کو پہنچ چکا تھا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ 2013ء میں ریلوے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا ۔ بس اُس کی آخری رسومات ہی ادا کرنی باقی رہ گئی تھیں۔اُسے ایک بار پھر آئی سی یو سے نکال کر اُس میں جان ڈال کر بہت ہی مختصر عرصے میں کارآمد اور فعال بنانا موجودہ حکومت ہی کا کارنامہ ہے۔
یہ اِنہی کامیابیوں کا نتیجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنے خلاف ہونے والی تمام ظاہری اور خفیہ سازشوں کے باوجود آنے والے الیکشن میں ایک مضبوط کھلاڑی کے طور پر کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔ اُس نے اگر عوامی بھلائی اور بہبود کے یہ کام نہ کیے ہوئے ہوتے تو اُس کا حشر بھی پاکستان پیپلز پارٹی سے ہرگز مختلف نہ ہوتا اور خان صاحب کی پی ٹی آئی کو اگلا الیکشن جیت جانے کے لیے اتنے جتن نہ کرنے پڑتے۔
سیاسی میدان میں مسلم لیگ (ن) کو ہرانا چونکہ کچھ لوگوں کے لیے اِک ڈراؤنا خواب بن چکا تھا اِس لیے اُسے دیگر طریقوں سے ختم کرنے کی کوششیں کی جانے لگیں۔ دو تین سال کی اِس مشق کہن کے بعد بھی اُسے انتخابی میدان میں شکست دینا تاحال ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ لہذا اب اُس کے پرانے اور دیرینہ کارکنوں کو پیسہ اور لالچ دیکر خریدنے کی کوششیں کی جارہی ہیں یا پھر ڈرا دھمکا کر اُنہیں اپنی وفاداریاں بدل لینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔یہ حربہ بھی اگر کارگر نہ ہوا تو الیکشن کے نتائج کو بدلنے کا آپشن تو بہر حال ابھی باقی ہے۔
قومی سیاست میں نادیدہ قوتوں کے خفیہ ہاتھ اور کردار سے انکار کوئی بھی ذی شعور شخص نہیں کرسکتا۔ہمارے یہاں پہلے بھی یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہورہا ہے۔ مشہور زمانہ اصغر خان کیس اِس خفیہ کردار کی ملکی سیاسی معاملات میں مداخلت کا ناقابل تردید ٹھوس اور حقیقی ثبوت ہے۔یہ اور بات ہے کہ اداروں کا احترام ہمیں اِس پر بات کرنے سے مانع اور روکے ہوئے ہے۔
اگلے انتخابات کا نتیجہ بھلا کیسا بھی ہو اور اِس میں کوئی بھی پارٹی جیتے لیکن یہ بات یقینی اور اٹل ہے کہ جیتنے والوں کے لیے اگلے پانچ سال کوئی اتنے آسان اور آرام دہ نہیں ہونگے، اگر یہ کہاجائے کہ یہ مسلم لیگ (ن) کے اِن پانچ سالوں سے بھی زیادہ مشکل اور دشوار ہونگے تو شاید غلط اور بیجابھی نہیں ہے۔ اول تو اِن انتخابات کے نتیجے میں کسی ایک سیاسی پارٹی کے لیے تنہا حکومت بنانا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
سیاست کو اپنے تابع اور زیر اثر رکھنے والوں نے یہ غلطی اب دہرانی بھی نہیں ہے۔ ویسے بھی حالات یہی عندیہ دے رہے ہیں کہ اگلے انتخابات کے نتیجے میں ایک معلق پارلیمنٹ معرض وجود میں آئے گی اور اگلی حکومت اِس لحاظ سے ایک مخلوط حکومت ہوگی جس میں بھانت بھانت کے لوگ مل کر ایک ایسا کنبہ تشکیل دینگے جسے ہرلمحے بکھر جانے کا اندیشہ اورخطرہ لاحق ہوگا پھر جناب خان صاحب نے قومی سیاست میں جس طرح کی ہنگامہ آرائی اور اشتعال انگیزی کی نئی روایات ڈال دی ہیں وہ اب رکنے والی نہیں ہیں۔
اگلی حکومت کو بھی بد قسمتی سے اب ایسے ہی حالات کا سامنا رہے گا ۔ ملک کے معاشی اور اقتصادی حالات بھی کوئی اِس قدر خوش کن نہیں ہیں کہ جیتنے والا اپنی جیت کا کوئی جشن بھی مناسکے۔اُسے تو پہلے دن سے انتہائی مشکلات کاسامنا کرنا ہوگا ۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں، امپورٹ اور ایکسپورٹ کا تناسب خطرناک حدوں کو چھورہا ہے، ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ اِس قدر بڑھ چکا ہے کہ اُسکی ادائیگی کے لیے قومی خزانے میں وافر مقدار میں رقم ہی باقی نہیں ہے۔
ملک کے دیوالیہ یا ڈیفالٹ کرجانے کے خدشات سرپر منڈلا رہے ہیں۔ایسے حالات میںحکومت کرنا کوئی اطمینان یا خوشی کا باعث نہ ہوگا ہوسکتا ہے آنیوالی حکومت کو ایک بار پھر غیر ملکی مالیاتی اداروں سے مدد حاصل کرنا پڑے اور اِس بار آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کامزاج بھی کوئی اچھا نہیں لگ رہا ۔ وہ نرم اور آسان شرائط پر اب ہمیں قرضے دینے کی کسی موڈ میں بھی دکھائی نہیں دے رہے اورسخت شرائط پر قرضے لے کر ہم اپنی قوم پر ایک نئی مصیبت لاد رہے ہونگے۔
دوسری جانب پیٹرول کی عالمی قیمتیں بھی تیزی کے ساتھ اوپر کی جانب جاتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہمارا روپیہ بھی اپنی قدر کھورہا ہے۔ ایسی صورتحال میں حکومت کرنا پل صراط سے گذرنے کے مترادف ہوگا۔
ہمیں اپنے طرز عمل اور رویوں پر غورکرنا ہوگا ۔ سیاسی مخالفت میں ہم اِس قدر ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں کہ ملک کی سالمیت اور ترقی وخوشحالی کے بھی درپے ہوجاتے ہیں۔ ہماری اولین کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہمارے علاوہ کوئی بھی حکومت یہاں کام نہ کرپائے ۔ ہم اُس کی راہ میں ہرطرح کے روڑے اٹکاتے رہتے ہیں ۔کسی حکومت کے اچھے کاموں کی تعریف کرنا یا اُسے سراہنا تو درکنار اُس کا اعتراف کرلینا بھی ہمیں اپنی شکست معلوم ہونے لگتا ہے۔
ہماری بھرپورکوشش یہی ہوتی ہے کہ یہ حکومت ترقی وخوشحالی کی سمت میں کوئی کام نہ کرپائے۔کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو پھر ہماری سیاست تو ناکامی اور نامرادی سے دو چار ہوجائے گی۔ہم نے اِن پانچ سالوں میں اِس ملک میں یہی ہوتادیکھا ہے اور بہت ممکن ہے اگلے دور میں بھی ایسا ہی کچھ ہو۔نجانے ہم کب اِس قابل ہونگے کہ سیاسی بصیرت اور پختگی ہمیں اپنی ذات سے ذیادہ ملک اور قوم کے لیے سوچنے پر مجبورکردے۔
مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کو اپنے دور کے ابتدا ہی دنوں سے مشکلات اور سازشوں کا سامنا رہا اور 126دنوں تک اِس ملک کا دارالحکومت چند ضدی سیاسی عناصر کے ہاتھوں یرغمال بنا رہا لیکن بہرحال اُس نے اپنے پانچ سال نہ صرف مکمل کیے بلکہ امن و مان اور تعمیر و ترقی کے حوالے سے مثالی کارنامے بھی سر انجام دیے۔
2013ء کے الیکشن کے وقت ہمارا وطن عزیز آئے دن کے بم دھماکوں اور خود کش حملوں سے لہو لہان ہو رہا تھا ۔کوئی شہر اورکوئی قصبہ بھی دہشت گردوں کی کارروائیوں سے محفوظ نہیں تھا ۔ حالات اِس قدر خراب تھے کہ انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کو کھل کر میدان میں اترنے کاموقعہ بھی نہ ملا ۔دوسری جانب کراچی شہر بھی خود اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں آئے دن کے احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے سبب تباہ و برباد ہو چکا تھا۔ وہاں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے دس سے بارہ افراد کا لقمہ اجل بن جانا روزانہ کا معمول بن چکا تھا ۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بہر حال اِس بات کا کریڈٹ تو ضرور جاتا ہے کہ اُس نے اِس ملک میں امن و امان واپس لانے میں عزم صمیم اور خلوص نیت کا مظاہرہ کیا اور عسکری قوتوں کے ساتھ مل کراپنے اِس نیک مقصد میں اہم کامیابی حاصل کی۔ ساتھ ہی ساتھ اُس نے ترقی و خوشحالی کے اپنے وژن کو بھی حقیقی اور عملی شکل دیکر انفرا اسٹرکچرکے بہت سے منصوبوں پر نہ صرف کام شروع کیا بلکہ اُنہیں اپنے پانچ سالہ دور میں مکمل بھی کیا۔اُس نے سڑکوں اور شاہراہوں کے اِس ملک میں اتنے جال بچھائے جو شاید ہی ہماری تاریخ کے باقی سالوں میں کبھی بچھائے گئے ہوں گے۔
بجلی اور توانائی کے شعبے میں بھی اُس نے نمایاں اور خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کیں اور اِس ملک سے لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں کو دور کیا ۔ ہمارے یہاں سی پیک کے منصوبے کے دعوے دار تو بہت سے لوگ ہیں لیکن کیا بات ہے کہ اِس منصوبے پر عمل درآمد کا سہرا کسی اور کے سر نہیں سجا۔ یہ مسلم لیگ (ن) ہی کی حکومت کا کریڈٹ ہے کہ اُس نے تیزی کے ساتھ اِس منصوبے پر کام شروع کیا اور بہت ہی کم وقت میں اِسے اِس قابل بنادیا کہ وہ ہمارے روشن مستقبل کی ضامن بن سکے۔
ریلوے کا نظام اِس حکومت سے پہلے جس حال کو پہنچ چکا تھا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ 2013ء میں ریلوے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا ۔ بس اُس کی آخری رسومات ہی ادا کرنی باقی رہ گئی تھیں۔اُسے ایک بار پھر آئی سی یو سے نکال کر اُس میں جان ڈال کر بہت ہی مختصر عرصے میں کارآمد اور فعال بنانا موجودہ حکومت ہی کا کارنامہ ہے۔
یہ اِنہی کامیابیوں کا نتیجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنے خلاف ہونے والی تمام ظاہری اور خفیہ سازشوں کے باوجود آنے والے الیکشن میں ایک مضبوط کھلاڑی کے طور پر کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔ اُس نے اگر عوامی بھلائی اور بہبود کے یہ کام نہ کیے ہوئے ہوتے تو اُس کا حشر بھی پاکستان پیپلز پارٹی سے ہرگز مختلف نہ ہوتا اور خان صاحب کی پی ٹی آئی کو اگلا الیکشن جیت جانے کے لیے اتنے جتن نہ کرنے پڑتے۔
سیاسی میدان میں مسلم لیگ (ن) کو ہرانا چونکہ کچھ لوگوں کے لیے اِک ڈراؤنا خواب بن چکا تھا اِس لیے اُسے دیگر طریقوں سے ختم کرنے کی کوششیں کی جانے لگیں۔ دو تین سال کی اِس مشق کہن کے بعد بھی اُسے انتخابی میدان میں شکست دینا تاحال ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ لہذا اب اُس کے پرانے اور دیرینہ کارکنوں کو پیسہ اور لالچ دیکر خریدنے کی کوششیں کی جارہی ہیں یا پھر ڈرا دھمکا کر اُنہیں اپنی وفاداریاں بدل لینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔یہ حربہ بھی اگر کارگر نہ ہوا تو الیکشن کے نتائج کو بدلنے کا آپشن تو بہر حال ابھی باقی ہے۔
قومی سیاست میں نادیدہ قوتوں کے خفیہ ہاتھ اور کردار سے انکار کوئی بھی ذی شعور شخص نہیں کرسکتا۔ہمارے یہاں پہلے بھی یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہورہا ہے۔ مشہور زمانہ اصغر خان کیس اِس خفیہ کردار کی ملکی سیاسی معاملات میں مداخلت کا ناقابل تردید ٹھوس اور حقیقی ثبوت ہے۔یہ اور بات ہے کہ اداروں کا احترام ہمیں اِس پر بات کرنے سے مانع اور روکے ہوئے ہے۔
اگلے انتخابات کا نتیجہ بھلا کیسا بھی ہو اور اِس میں کوئی بھی پارٹی جیتے لیکن یہ بات یقینی اور اٹل ہے کہ جیتنے والوں کے لیے اگلے پانچ سال کوئی اتنے آسان اور آرام دہ نہیں ہونگے، اگر یہ کہاجائے کہ یہ مسلم لیگ (ن) کے اِن پانچ سالوں سے بھی زیادہ مشکل اور دشوار ہونگے تو شاید غلط اور بیجابھی نہیں ہے۔ اول تو اِن انتخابات کے نتیجے میں کسی ایک سیاسی پارٹی کے لیے تنہا حکومت بنانا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
سیاست کو اپنے تابع اور زیر اثر رکھنے والوں نے یہ غلطی اب دہرانی بھی نہیں ہے۔ ویسے بھی حالات یہی عندیہ دے رہے ہیں کہ اگلے انتخابات کے نتیجے میں ایک معلق پارلیمنٹ معرض وجود میں آئے گی اور اگلی حکومت اِس لحاظ سے ایک مخلوط حکومت ہوگی جس میں بھانت بھانت کے لوگ مل کر ایک ایسا کنبہ تشکیل دینگے جسے ہرلمحے بکھر جانے کا اندیشہ اورخطرہ لاحق ہوگا پھر جناب خان صاحب نے قومی سیاست میں جس طرح کی ہنگامہ آرائی اور اشتعال انگیزی کی نئی روایات ڈال دی ہیں وہ اب رکنے والی نہیں ہیں۔
اگلی حکومت کو بھی بد قسمتی سے اب ایسے ہی حالات کا سامنا رہے گا ۔ ملک کے معاشی اور اقتصادی حالات بھی کوئی اِس قدر خوش کن نہیں ہیں کہ جیتنے والا اپنی جیت کا کوئی جشن بھی مناسکے۔اُسے تو پہلے دن سے انتہائی مشکلات کاسامنا کرنا ہوگا ۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں، امپورٹ اور ایکسپورٹ کا تناسب خطرناک حدوں کو چھورہا ہے، ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ اِس قدر بڑھ چکا ہے کہ اُسکی ادائیگی کے لیے قومی خزانے میں وافر مقدار میں رقم ہی باقی نہیں ہے۔
ملک کے دیوالیہ یا ڈیفالٹ کرجانے کے خدشات سرپر منڈلا رہے ہیں۔ایسے حالات میںحکومت کرنا کوئی اطمینان یا خوشی کا باعث نہ ہوگا ہوسکتا ہے آنیوالی حکومت کو ایک بار پھر غیر ملکی مالیاتی اداروں سے مدد حاصل کرنا پڑے اور اِس بار آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کامزاج بھی کوئی اچھا نہیں لگ رہا ۔ وہ نرم اور آسان شرائط پر اب ہمیں قرضے دینے کی کسی موڈ میں بھی دکھائی نہیں دے رہے اورسخت شرائط پر قرضے لے کر ہم اپنی قوم پر ایک نئی مصیبت لاد رہے ہونگے۔
دوسری جانب پیٹرول کی عالمی قیمتیں بھی تیزی کے ساتھ اوپر کی جانب جاتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہمارا روپیہ بھی اپنی قدر کھورہا ہے۔ ایسی صورتحال میں حکومت کرنا پل صراط سے گذرنے کے مترادف ہوگا۔
ہمیں اپنے طرز عمل اور رویوں پر غورکرنا ہوگا ۔ سیاسی مخالفت میں ہم اِس قدر ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں کہ ملک کی سالمیت اور ترقی وخوشحالی کے بھی درپے ہوجاتے ہیں۔ ہماری اولین کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہمارے علاوہ کوئی بھی حکومت یہاں کام نہ کرپائے ۔ ہم اُس کی راہ میں ہرطرح کے روڑے اٹکاتے رہتے ہیں ۔کسی حکومت کے اچھے کاموں کی تعریف کرنا یا اُسے سراہنا تو درکنار اُس کا اعتراف کرلینا بھی ہمیں اپنی شکست معلوم ہونے لگتا ہے۔
ہماری بھرپورکوشش یہی ہوتی ہے کہ یہ حکومت ترقی وخوشحالی کی سمت میں کوئی کام نہ کرپائے۔کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو پھر ہماری سیاست تو ناکامی اور نامرادی سے دو چار ہوجائے گی۔ہم نے اِن پانچ سالوں میں اِس ملک میں یہی ہوتادیکھا ہے اور بہت ممکن ہے اگلے دور میں بھی ایسا ہی کچھ ہو۔نجانے ہم کب اِس قابل ہونگے کہ سیاسی بصیرت اور پختگی ہمیں اپنی ذات سے ذیادہ ملک اور قوم کے لیے سوچنے پر مجبورکردے۔