فاٹا میں نئے دور کا آغاز

فاٹا کے عوام قرون وسطیٰ کے دور میں زندگی بسر کرتے رہے۔

www.facebook.com/shah Naqvi

ISLAMABAD:
آخر کار اللہ اللہ کرکے قومی اسمبلی میں فاٹا انضمام کا بل منظور ہوگیا اور 24 مئی اس حوالے سے تاریخی دن قرار پایا۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 70 سال سے زیادہ ہونے کو آئے ہیں لیکن فاٹا کے عوام کو پاکستان کا حصہ بن کر بھی آزادی نصیب نہ ہو سکی۔

فاٹا کے عوام قرون وسطیٰ کے دور میں زندگی بسر کرتے رہے۔ زندگی کیا بسر کرتے رہے زندگی ان کے لیے عذاب تھی۔ زندہ رہنا ان کے لیے جرم بنایا دیا گیا۔ پولیٹیکل ایجنٹس ان کے آقا اور وہ ان کے غلام تھے۔ عزت، جان، مال گھر سب اسی کے رحم و کرم پر تھے۔ انگریزوں کا نو آبادیاتی دور ان پر مسلط رہا۔ وہ بفرزون تھے پاکستان، افغانستان اور سوویت یونین کے درمیان۔ پاکستان آزاد ہونے کے باوجود آخر کیوں ان کو آزادی نہ مل سکی۔

اگر آپ اس علاقے کے محل و قوع پر نظر دوڑائیں تو آپ پر اس راز سے پردہ اٹھ جائے گا۔ فاٹا کے علاقے کے لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق اس لیے نہیں مل سکے کہ امریکا کو سوویت یونین سے مقابلے کے لیے اس علاقے کی ضرورت تھی۔ نہ صرف اس علاقے کو تمام دنیا کے مذہبی انتہا پسندوں، دہشتگردوں کی آماجگاہ بنا دیا گیا بلکہ اس علاقے کی افرادی قوت کو جہاد کے نام پر سوویت یونین کے خلاف خام مال کے طور پر استعمال کیا گیا اور ان کے ذہنوں میں مذہبی انتہا پسندی کا زہر بھر دیا گیا۔

ان علاقوں کے رہنے والے سادہ بھولے بھالے قدامت پسند لوگوں کے لیے یہ نسخہ امریکا اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں تیار کیا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھیں تھنک ٹینک کہا جاتا ہے۔ وہ مسلمانوں کے مذہبی تضادات اور اختلافات سے بہت اچھی طرح آگاہ تھے۔ شیعہ سنی تضادات چودہ سو سال پرانے ہیں۔ ایرانی انقلاب نے بھی ان تضادات کو ابھارا۔

ایران میں انقلاب کے عرب ممالک میں یہ خوف پیدا ہوگیا کہ کہیں عرب ممالک کے عوام بھی ایرانی انقلاب کے اثرات کی لپیٹ میں نہ آجائیں ، یوں امریکا اور برطانیہ نے ان تضادات کو کو اس بڑے پیمانے پر اجاگر کیا جائے کہ آج مشرق وسطیٰ بدامنی کا شکار ہے۔ اب مسلمان اس میں اس قدر پھنس چکے ہیں کہ اگلی کئی دہائیوں میں اس خوفناک جال سے نکلنا آسان کام نہیں۔

ایک طرف مغرب کے ان ذہین لوگوں نے مسلمانوں کو تقسیم کیا تو دوسری طرف شدت پسندی پیدا کی کیونکہ انھیں اپنے دشمن سوویت یونین سے لڑنے کے لیے افرادی قوت درکار تھی۔ اس کے لیے فاٹا کا علاقہ بیس کمیپ بنا جہاں دنیا بھر سے جہادیوں کو لاکر بسایا گیا۔ افغانستان کی زمین میدان جنگ بنی جہاں کمیونزم اور کیپٹل ازم کی جنگ لڑی گی لیکن بڑی عیاری سے اس جنگ کو جہاد کا نام دے کر اسلام سے جوڑ دیا گیا۔


سرمایہ دار دنیا نے یہ جنگ جیت لی لیکن جہادیوں کو تنہا چھوڑ دیا۔بعد میں ان کے خلاف امریکا نے دہشت گردی کی جنگ کا آغاز کردیا۔ مغرب کے نزدیک سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اسلام ہی واحد خطرہ تھا جس سے نبٹنے کے لیے اس سازش پر عمل پیرا ہوکر پچھلے چالیس سال سے تباہی و بربادی مسلمانوں کا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔

اب سعودی عرب میں ''کھلاپن'' پیدا کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اب کیوں؟ جواب اس کا یہ ہے کہ مذہبی بنیاد پرستی کا مقابلہ روشن خیالی سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب اور دیگر عرب بادشاہتوں سے روشن خیالی کا ایسا سیلاب برآمد ہوگا جو ایرانی روشن خیال قوتوں کو اتنا طاقتور کر دے کہ وہ اپنی مذہبی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ دیکھا کیسا شطرنجی منصوبہ ہے۔ ہے نہ کمال کی سوچ۔

سوویت یونین ختم ہو گیا لیکن پاکستان ابھی تک سرد جنگ کے اثرات میں گردن تک دھنسا ہوا ہے۔ جب کہ آرمی چیف قمر جاوید باوجودہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان سرد جنگ کے اثرات سے باہر نکلنا چاہتا ہے۔ فاٹا کے ادغام کی حمایت آرمی چیف کئی مرتبہ کر چکے ہیں کہ یہ پاکستان کے مفاد اور سلامتی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس معاملے میں انھوں نے مولانا فضل الرحمٰن کو قائل کرنے کی کوشش کی۔

سوال یہ ہے کہ آخر کیوں۔ جواب اس کا یہ ہے کہ ہمارا خطہ پھر سے ایک بڑی جنگ کا میدان بننے والا ہے۔ امریکی سامراج کی خون کی پیاس پھر سے بھڑک اٹھی ہے تاکہ وہ فاٹا کے لوگوں کو ماضی کی طرح جنگ کا ایندھن بنا دے۔ فاٹا کا ادغام اس علاقے کے لوگوں کی محرومیوں کا کافی حد تک ازالہ کرتے ہوئے انھیں امریکی سازشوں سے محفوظ رکھے گا۔ یہ امریکا ہی تھا جس کی سامراجی ضرورتوں کی وجہ سے فاٹا کے لوگ اب تک اپنے بنیادی اور انسانی حقوق سے محروم رہے۔

نو آبادیاتی دور کی غلامی کی زنجیروں کے ٹوٹنے پر صرف فاٹا کے لوگوں کو ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کو جشن منانا چاہیے کہ ان کے بھائیوں نے آخر کار آزادی کی ایک جھلک دیکھ لی ہے۔ پولیٹکل ایجنٹس جو ان کی زندگیوں، عزت، جان و مال، گھروں کے مالک تھے صرف ان کی مرضی اور الفاظ ہی قانون کا درجہ رکھتے تھے۔ پاکستان کا کوئی قانون اس علاقے پر نافذ نہیں ہوتا تھا۔ فاٹا علاقے میں کرپشن کی کہانیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔

٭... پیش گوئی کے حوالے سے 27 سالہ اور حالیہ 7 سالہ دور جس کا خاتمہ ابھی 15 مئی کو ہوا ہے، مقدر نے فاٹا کے حق میں فیصلہ سناکر ان کی سوسال سے زائد غلامی کی زنجیریں توڑ دیں۔

سیل فون: 0346-4527997
Load Next Story