پاکستان کا اصل امتحان
پہلی بار پاکستان میں لگاتار تیسری جمہوری حکومت آنے والی ہے، الیکشن قریب آرہے ہیں، نگران سیٹ اپ زیر تعمیر ہیں۔
آئیے ایک تصوراتی کہانی کا خاکہ ذہن میں بناتے ہیں جس کے اہم کرداروں میں نواز شریف (مسلم لیگ ن)، اپوزیشن، حسین حقانی، جنرل پرویز مشرف، جنرل اسد درانی، عالمی اسٹیبلشمنٹ(امریکا، بھارت، افغانستان، اسرائیل وغیرہ) ، پاک فوج اور پاکستان ہے۔
کہانی کا منظر نامہ یہ ہے کہ پہلی بار پاکستان میں لگاتار تیسری جمہوری حکومت آنے والی ہے، الیکشن قریب آرہے ہیں، نگران سیٹ اپ زیر تعمیر ہیں۔ کہانی کا آغاز کچھ یوں ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن گزشتہ 5سال سے ''پاکستان'' میں سیاہ و سفید کی مالک رہی ہے، اور اب وہ نئے الیکشن میں کامیابی کی منصوبہ بندی کررہی ہے جب کہ اپوزیشن بقول شخصے ملکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اس ''ناسور'' سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔
جب کہ ناسور کو علم ہے کہ اگر اُسے کوئی اقتدار دلا سکتا ہے تو وہ امریکی لابی ہے، اور امریکی لابی تب ہی راضی ہوگی جب بھارت رام ہوگا، اس لیے نواز شریف ممبئی حملوں جیسا متنازع بیان دیتے ہیں جس کی بھارت میں بڑی واہ واہ ہوتی ہے اور امریکا بھی خوش ہو جاتا ہے... آگے چل کر سابق آئی ایس آئی چیف جنرل اسد درانی کی انٹری ہوتی ہے جو پہلے ہی نواز شریف کے حامی اور ہم خیال سمجھے جاتے ہیں ، ان کے ماضی کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور پڑھا جا رہا ہے۔کہانی میں کلائیمیکس آتا ہے، جنرل درانی اور سابق چیف ''را''امرجیت سنگھ دولت مشترکہ طور پر کتاب لکھتے ہیں جس میں کئی مبینہ راز افشاء کیے جاتے ہیں جن کا میں بعد میں ذکر کروں گا۔ اب اس کہانی میں بھارت کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔
نواز شریف بطور وزیراعظم مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے کسی متنازع پراجیکٹ اور کشمیر کے حوالے سے نہیں بولا ۔کشن گنگا ڈیم کیس کی مثال سب کے سامنے ہے جس پر بھارت نے سالوں پہلے کام شروع کردیا تھا، تب ن لیگ نے پراسرار خاموشی اختیار کیے رکھی اور اب ورلڈ بینک نے ثالثی سے بھی صاف جواب دے دیا ہے لہٰذاوقت گزرنے کے بعد ہم دریائے نیلم اور نیلم جہلم پراجیکٹ کو لے کر ٹسوے بہا رہے ہیں۔
اب تصور کیجیے کہ پاکستان بیچ منجھدار میں کھڑا ہے،دشمن ہر طرف سے حملہ کیے ہوئے ہے اور پاک فوج ''ہیرو''کے طور پرپاکستان پر ہر ہر حملے کا جواب دے رہا ہے۔ اس دوران جنرل پرویز مشرف بیان داغتے ہیں کہ اگر میں اقتدار میں ہوتا تو شکیل آفریدی کے حوالے سے امریکا سے کوئی لے دے کا سودا کر لیتا۔ اس بیان کے بعد امریکا میں موجود حسین حقانی چوکنے ہوتے ہیں اور پرویز مشرف کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب کہنے کو تو پاکستان جیسا کہ شروع میں میں نے لکھا ہے کہ ترقی پذیر ملک ہے لیکن اسے قیمتی ''ہیرا''سمجھتے ہوئے ہر کوئی اپنی انگلی کی انگوٹھی میں جڑنا چاہتا ہے۔
یہ تصوراتی کہانی ابھی جاری ہے، اس میں رواں سال کے آخر تک بہت سے نئے کردار آئیں گے ،کئی جگہ ٹوسٹ (Twist) بھی دیکھنے کو ملیں گا اور کئی جگہ کبھی خوشی کبھی غم جیسے سین بھی آئیں گے لیکن ہمیں علم ہے کہ پاکستان ہمیشہ ان کا مقابلہ کرتا رہے گا۔
اب کہانی سے ذراباہر نکلتے ہیں اور اُن خطرات کو بھانپتے ہیں جن کی وجہ سے وطن عزیز مشکلات سے دوچار ہے، ابھی حال ہی میں پاکستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہوں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی اور امرجیت سنگھ دولت کی مشترکہ تصنیف''دی اسپائے کرونیکلز: را، آئی ایس آئی اینڈ دی الوژن آف پیس'' کے منظر عام پر آنے کے بعد سے دونوں ملکوں کے سیاسی، عسکری، صحافتی اور عوامی حلقوں میں خاصی ہلچل برپا ہے۔اول تو اس کتاب کے آنے کی ٹائمنگ چیک کریں کہ کس طرح عالمی پراپیگنڈہ کروایا جارہا ہے، کہ پاکستان میں اقتدار انھی کے پاس ہونا چاہیے جو ''وفادار'' ہیں۔خیر پوری کتاب انٹرویو اور مکالموں کی شکل میں ہے۔ اس پوری کتاب کا سرسری جائزہ لینے کے بعد میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ امرجیت سنگھ خاصے محتاط نظرآئے جب کہ ہمارے جنرل درانی صاحب نے بڑھ چڑھ کر بات کی ہے ۔
انھوں نے القائدہ اور اس سربراہ اسامہ بن لادن کے حوالے سے بھی خاصے انکشاف کیے جو پاکستان کے لیے مسائل کا باعث بن سکتے ہیں۔ انھوںنے کارگل آپریشن، ایبٹ آباد میں امریکی نیوی سیلرز کا بن لادن آپریشن، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری، حافظ سعید، کشمیر، برہان وانی اور دیگر کئی حساس موضوعات پر بات کی ہے ۔ان کے علاوہ بھی انھوں نے بہت کچھ ایسا کہا ہے جو حقیقت میں ہماری فوج کی بدنامی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
کتاب کے مندرجات کی صداقت پر سوالات اٹھائے جانے کے ساتھ ساتھ بجا طور پر حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے کہ ایسے نہایت حساس موضوعات جن میں رازداری کے تقاضوں کو ہمیشہ آخری حد تک ملحوظ رکھا جاتا ہے،انھیں کیوں اس کتاب میں موضوع گفتگو بنایا گیا اور یہ اقدام کس کے مفاد میں ہے۔ پھر اسی وجہ سے ہمارے سیاسی قائدین بھی انگلیاں اُٹھاتے ہیں جیسے سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے سوال اُٹھایا کہ کیا جنرل اسد درانی نے وفاقی حکومت سے کتاب لکھنے سے قبل اجازت لی تھی ؟اگر یہ کتاب کسی عام شہری یا پاکستانی سیا ستد ا ن نے اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مل کر لکھی ہوتی تو آسمان سر پر اُٹھا لیا جاتا۔
جنرل دارنی کو جی ایچ کیو میں طلب کیا جاچکا ہے، امید ہے اُن کے حوالے سے میرٹ پر فیصلہ ہوگا۔ اُمید ہے جنرل قمر جاوید باجوہ اُن سابق جرنیلوںجو ٹی وی پر آکر بولتے ہیں اور کئی قسم کے دعوے کر جاتے ہیں اُن کی بھی اسکریننگ کریں گے اور سب سے اہم ترین بات کہ اس پر بھی پابندی ہونی چاہیے کہ کوئی بھی ریٹائرڈ جنرل، بیوروکریٹ اور سیاستدان اور اُس کا خاندان پاکستان کے سوا کسی اور ملک کی شہریت نہیں رکھ سکتا۔
کیا یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ جنرل اسد درانی کے کیس کو بنیاد بنا کر ''اسکریننگ'' کا عمل کیا جائے اور اس اسکریننگ کے ذریعے ایسے لوگوں کو تلاش کیا جائے جن کی ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ نہیں بلکہ کسی اور طاقت کے ساتھ ہیں۔ ایسا کرنے سے ہی پاکستان امتحانوں سے نکل سکتا ہے ورنہ خاکم بدہن بہت سے طوفانوں کا سامنا ابھی کرنا باقی ہے!!!
کہانی کا منظر نامہ یہ ہے کہ پہلی بار پاکستان میں لگاتار تیسری جمہوری حکومت آنے والی ہے، الیکشن قریب آرہے ہیں، نگران سیٹ اپ زیر تعمیر ہیں۔ کہانی کا آغاز کچھ یوں ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن گزشتہ 5سال سے ''پاکستان'' میں سیاہ و سفید کی مالک رہی ہے، اور اب وہ نئے الیکشن میں کامیابی کی منصوبہ بندی کررہی ہے جب کہ اپوزیشن بقول شخصے ملکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اس ''ناسور'' سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔
جب کہ ناسور کو علم ہے کہ اگر اُسے کوئی اقتدار دلا سکتا ہے تو وہ امریکی لابی ہے، اور امریکی لابی تب ہی راضی ہوگی جب بھارت رام ہوگا، اس لیے نواز شریف ممبئی حملوں جیسا متنازع بیان دیتے ہیں جس کی بھارت میں بڑی واہ واہ ہوتی ہے اور امریکا بھی خوش ہو جاتا ہے... آگے چل کر سابق آئی ایس آئی چیف جنرل اسد درانی کی انٹری ہوتی ہے جو پہلے ہی نواز شریف کے حامی اور ہم خیال سمجھے جاتے ہیں ، ان کے ماضی کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور پڑھا جا رہا ہے۔کہانی میں کلائیمیکس آتا ہے، جنرل درانی اور سابق چیف ''را''امرجیت سنگھ دولت مشترکہ طور پر کتاب لکھتے ہیں جس میں کئی مبینہ راز افشاء کیے جاتے ہیں جن کا میں بعد میں ذکر کروں گا۔ اب اس کہانی میں بھارت کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔
نواز شریف بطور وزیراعظم مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے کسی متنازع پراجیکٹ اور کشمیر کے حوالے سے نہیں بولا ۔کشن گنگا ڈیم کیس کی مثال سب کے سامنے ہے جس پر بھارت نے سالوں پہلے کام شروع کردیا تھا، تب ن لیگ نے پراسرار خاموشی اختیار کیے رکھی اور اب ورلڈ بینک نے ثالثی سے بھی صاف جواب دے دیا ہے لہٰذاوقت گزرنے کے بعد ہم دریائے نیلم اور نیلم جہلم پراجیکٹ کو لے کر ٹسوے بہا رہے ہیں۔
اب تصور کیجیے کہ پاکستان بیچ منجھدار میں کھڑا ہے،دشمن ہر طرف سے حملہ کیے ہوئے ہے اور پاک فوج ''ہیرو''کے طور پرپاکستان پر ہر ہر حملے کا جواب دے رہا ہے۔ اس دوران جنرل پرویز مشرف بیان داغتے ہیں کہ اگر میں اقتدار میں ہوتا تو شکیل آفریدی کے حوالے سے امریکا سے کوئی لے دے کا سودا کر لیتا۔ اس بیان کے بعد امریکا میں موجود حسین حقانی چوکنے ہوتے ہیں اور پرویز مشرف کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب کہنے کو تو پاکستان جیسا کہ شروع میں میں نے لکھا ہے کہ ترقی پذیر ملک ہے لیکن اسے قیمتی ''ہیرا''سمجھتے ہوئے ہر کوئی اپنی انگلی کی انگوٹھی میں جڑنا چاہتا ہے۔
یہ تصوراتی کہانی ابھی جاری ہے، اس میں رواں سال کے آخر تک بہت سے نئے کردار آئیں گے ،کئی جگہ ٹوسٹ (Twist) بھی دیکھنے کو ملیں گا اور کئی جگہ کبھی خوشی کبھی غم جیسے سین بھی آئیں گے لیکن ہمیں علم ہے کہ پاکستان ہمیشہ ان کا مقابلہ کرتا رہے گا۔
اب کہانی سے ذراباہر نکلتے ہیں اور اُن خطرات کو بھانپتے ہیں جن کی وجہ سے وطن عزیز مشکلات سے دوچار ہے، ابھی حال ہی میں پاکستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہوں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی اور امرجیت سنگھ دولت کی مشترکہ تصنیف''دی اسپائے کرونیکلز: را، آئی ایس آئی اینڈ دی الوژن آف پیس'' کے منظر عام پر آنے کے بعد سے دونوں ملکوں کے سیاسی، عسکری، صحافتی اور عوامی حلقوں میں خاصی ہلچل برپا ہے۔اول تو اس کتاب کے آنے کی ٹائمنگ چیک کریں کہ کس طرح عالمی پراپیگنڈہ کروایا جارہا ہے، کہ پاکستان میں اقتدار انھی کے پاس ہونا چاہیے جو ''وفادار'' ہیں۔خیر پوری کتاب انٹرویو اور مکالموں کی شکل میں ہے۔ اس پوری کتاب کا سرسری جائزہ لینے کے بعد میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ امرجیت سنگھ خاصے محتاط نظرآئے جب کہ ہمارے جنرل درانی صاحب نے بڑھ چڑھ کر بات کی ہے ۔
انھوں نے القائدہ اور اس سربراہ اسامہ بن لادن کے حوالے سے بھی خاصے انکشاف کیے جو پاکستان کے لیے مسائل کا باعث بن سکتے ہیں۔ انھوںنے کارگل آپریشن، ایبٹ آباد میں امریکی نیوی سیلرز کا بن لادن آپریشن، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری، حافظ سعید، کشمیر، برہان وانی اور دیگر کئی حساس موضوعات پر بات کی ہے ۔ان کے علاوہ بھی انھوں نے بہت کچھ ایسا کہا ہے جو حقیقت میں ہماری فوج کی بدنامی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
کتاب کے مندرجات کی صداقت پر سوالات اٹھائے جانے کے ساتھ ساتھ بجا طور پر حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے کہ ایسے نہایت حساس موضوعات جن میں رازداری کے تقاضوں کو ہمیشہ آخری حد تک ملحوظ رکھا جاتا ہے،انھیں کیوں اس کتاب میں موضوع گفتگو بنایا گیا اور یہ اقدام کس کے مفاد میں ہے۔ پھر اسی وجہ سے ہمارے سیاسی قائدین بھی انگلیاں اُٹھاتے ہیں جیسے سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے سوال اُٹھایا کہ کیا جنرل اسد درانی نے وفاقی حکومت سے کتاب لکھنے سے قبل اجازت لی تھی ؟اگر یہ کتاب کسی عام شہری یا پاکستانی سیا ستد ا ن نے اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مل کر لکھی ہوتی تو آسمان سر پر اُٹھا لیا جاتا۔
جنرل دارنی کو جی ایچ کیو میں طلب کیا جاچکا ہے، امید ہے اُن کے حوالے سے میرٹ پر فیصلہ ہوگا۔ اُمید ہے جنرل قمر جاوید باجوہ اُن سابق جرنیلوںجو ٹی وی پر آکر بولتے ہیں اور کئی قسم کے دعوے کر جاتے ہیں اُن کی بھی اسکریننگ کریں گے اور سب سے اہم ترین بات کہ اس پر بھی پابندی ہونی چاہیے کہ کوئی بھی ریٹائرڈ جنرل، بیوروکریٹ اور سیاستدان اور اُس کا خاندان پاکستان کے سوا کسی اور ملک کی شہریت نہیں رکھ سکتا۔
کیا یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ جنرل اسد درانی کے کیس کو بنیاد بنا کر ''اسکریننگ'' کا عمل کیا جائے اور اس اسکریننگ کے ذریعے ایسے لوگوں کو تلاش کیا جائے جن کی ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ نہیں بلکہ کسی اور طاقت کے ساتھ ہیں۔ ایسا کرنے سے ہی پاکستان امتحانوں سے نکل سکتا ہے ورنہ خاکم بدہن بہت سے طوفانوں کا سامنا ابھی کرنا باقی ہے!!!