مہاجر صوبہ ضروری ہے

آخرکس بناپر متحدہ اس وقت مہاجرصوبے کا نعرہ لگارہی ہے جب صوبے بھرمیں سندھی اور مہاجر آپس میں شیر و شکرہیں

مہاجر صوبے کا نعرہ آج اس وقت بلند کیا جارہا ہے جب نہ مہاجر سیاست متحد ہے اور نہ ہی مہاجر عوام۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مہاجر قومی موومنٹ کی سیاست میں 1992 میں مہاجر نعرہ ترک کرکے پاکستان کا نعرہ بلند کئے جانے پر مہاجر قومی موومنٹ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی جن میں سے ایک دھڑا جنوبی صوبہ سندھ کے نعرے پر قائم رہ کر مہاجر سیاست ہی کرتا رہا جبکہ اصل دھڑے نے، جسے متحدہ قومی موومنٹ کا نام دیا گیا تھا، گرگٹ کی طرح رنگ تبدیل کرتے ہوئے مہاجروں کو ماسوائے مسائل کے کچھ نہ دینے کےلیے وفاق کی سیاست شروع کردی اور ہر اقتدار کے ساتھ سمٹ کر اپنے اور اپنے ساتھیوں کو، جو اورنگی کورنگی میں رہائش پذیر تھے، ڈیفنس تک پہنچا دیا۔

اکتیس سال تک متحدہ کی سیاست کرنے والوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہے مگر اس دوران ان کی جانب سے شہر کراچی کو مکمل طور پر یرغمال بنائے جانے اور مہاجروں پر ہی مظالم ڈھائے جانے کے سبب مہاجروں کو متحدہ کے قائد اور ان کے کارندوں کی جی حضوری کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوا۔

متحدہ قومی موومنٹ کے قائدین نے عام مہاجر خاندانوں کے منہ سے ان کا نوالہ تک چھین لیا اور اپنے حواریوں میں تقسیم کرتے رہے جس کے سبب سیاست سے لاتعلق مہاجروں کے اندر متحدہ کی سیاست کے خلاف نفرت بڑھتی رہی مگر کیونکہ بوری بند لاشوں، قتل و غارت گری نے ان کے منہ پر تالے ڈال دیئے تھے لہذا کوئی بھی اپنے جان و مال، عزت و آبرو کی خاطر ان کے آ گے چوں نہیں کرسکا۔

مگر کہتے ہیں کہ خدا کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں، اس کی لاٹھی بے آواز ہوا کرتی ہے۔ اس کی لا ٹھی حرکت میں آئی اور 22 اگست 2016 کو متحدہ کے قائد نے ملک کے خلاف ایسے نعرے بلند کردیئے جنہوں نے نہ صرف پوری مہاجر قوم بلکہ خود انہیں بھی ذلیل و رسوا کردیا۔ لیکن متحدہ کے قائد کا دم بھرنے والے اور ان کے حکم پر لبیک کہہ کر جائز و ناجائز کام کرنے والے رہنما جو اُس دن بھی ان کے ساتھ تھے اور ملک کے خلاف نعرے بلند کررہے تھے، انہوں نے بھی اچانک اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے کے ساتھ ہی اس قائد پر جس کے طفیل وہ آرام دہ زندگی گزار رہے تھے، لعنت بھیج کر نئے نام ''متحدہ (پاکستان)'' کے نام سے مہاجر عوام کو بیوقوف بنانے کےلیے نئی سیاست شروع کردی۔ مگر کیونکہ مہاجر عوام اکتیس سال سے بار بار ان کے کھوکھلے نعروں سے تنگ آچکے تھے اس لیے انہوں نے اس بار ان کا ساتھ نہ دیا اور اس طرح متحدہ (پاکستان) ہوا میں معلق ہوکر اپنی سیاست کرتی رہی۔

اور کیونکہ ان کے دلوں میں فتور تھا اور ان کی نیتیں مہاجر عوام تو کیا ایک دوسرے کےلیے بھی ٹھیک نہیں تھیں، لہٰذا پھر سے تقسیم در تقسیم کا شکار ہوگئی اور تقسیم ہونے والوں میں ایک گروپ کو متحدہ (بہادر آباد) کا نام دیا گیا۔ جبکہ دوسرا گروپ متحدہ (پی آئی بی) کہلانے لگا جس کی سربراہی ڈاکٹر فاروق ستار کررہے تھے۔ دونوں گروپوں نے ایک بار پھر متحدہ کے نام سے عوام پر حکمرانی کرنے کی کوشش کی مگر اس میں انہیں کسی قسم کی کامیابی نہیں ملی جس کے پیش نظر فاروق ستار نے، جنہیں متحدہ قومی موومنٹ کی سیاست کو بچانے کا کریڈٹ دیا جا تا ہے، ایک نئے ویژن کے تحت مہاجر عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کےلیے ایک بار پھر جئے مہاجر اور مہاجر صوبے کا نعرہ لگانا شروع کردیا؛ یہاں تک کہ انہوں نے چند روز قبل وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کی جانب سے سندھ کی تقسیم کی بات کرنے اور مہاجر صوبے کا نعرہ لگانے والوں پر بھیجی گئی لعنت کے خلاف نہ صرف لفظی جنگ شروع کردی بلکہ لیاقت آباد نمبر 10 پر وزیر اعلی کے اس بیان کے خلاف باقاعدہ طور پر ایک احتجاجی مظاہرہ بھی منعقد کر ڈالا جس میں مہاجر اتحاد تحریک کے سربراہ ڈاکٹر سلیم حیدر بھی ان کے ہمراہ تھے۔ مگر متحدہ یا مہاجر سیاست کرنے والے دوسرے گروپوں نے اس احتجاج سے مکمل طور پر لاتعلقی کا اظہار کیا۔

چند سو نفوس پر مشتمل اس مظاہرے میں متحدہ (پاکستان) کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے ایک بار پھر مہاجر کا چولہ پہن کر انتہائی جوش و جذبے سے کہا کہ اب یک طرفہ ٹریفک نہیں چلے گا اور مہاجر صوبہ بن کر رہے گا۔ ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ ہم متروکہ سندھ کے حقدار ہیں اور اپنا صوبہ اور اپنے حقوق لے کر رہیں گے۔ ان کی جانب سے لگائے جانے والے مہاجر صوبے کے نعرے کے بعد مہاجر عوام ایک بار پھر سخت تشویش میں مبتلا ہیں اور قوم کا یہ سوال ہے کہ بالآخر وہ کونسی وجوہ تھیں جن کی بنیاد پر جب آپ بار بار اقتدار سے چمٹے رہے مگر اس کے باوجود آپ نے کبھی مہاجر صوبہ تو کجا، مہاجر حقوق کی بات بھی نہیں کی۔


عوام یہ سوال کر نے میں حق بجانب ہیں کہ آخر یہ کونسا موقع ہے جب آپ کو ایک بار پھر مہاجر صو بہ اور مہاجر سیاست یاد آگئی اور آپ ایک بار پھر ریورس گیئر لگا کر وفاق کی سیاست سے نفاق کی سیاست میں شامل ہوگئے؟ مہاجر عوام کا اس سیاست کی تبدیلی پر کہنا یہ بھی ہے کہ خدارا اب مہاجر قوم پر رحم کیجیے اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے تاکہ وہ تمام قوموں کے ساتھ مل جل کر بھائی چارے سے زندگی گزار سکیں اور آپس کی محبت سے ایک دوسرے کے منہ سے نوالہ چھیننے کے بجائے آپس میں روٹی بانٹ کر کھا سکیں۔

مگر مہاجر عوام کی التجا کے باوجود متحدہ (پاکستان) کے سر براہ، جو قانونی طور پر پارٹی کے سربراہ بھی نہیں، ایک بار پھر مہاجر عوام کو سیاست کی نئی آگ میں جھونکنے پر بضد ہیں جس میں نہ تو مہاجر عوام ان کا ساتھ دے رہے ہیں اور نہ ہی مہاجر سیاست کرنے والی دوسری سیاسی جماعتیں (مہاجر قومی موومنٹ اور مہاجر اتحاد تحریک) جو مہاجر صوبے کے نعرے کی حامی تھیں، ان کے ساتھ کھڑی ہیں۔

اب جہاں تک مہاجر صوبے یا جنوبی صوبہ سندھ کی بات ہے تو اس سے شاید کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے کہ مہاجر جنہوں نے بھارت میں رہتے ہوئے پاکستان کےلیے نہ صرف سخت جدوجہد کی بلکہ اپنی جائیدادیں، دھن دولت اور جانوں کی قربانی دی، ان کےلیے ایک علیحدہ صوبہ ہونا چاہیے تھا جہاں وطن پاکستان کےلیے لازوال قربانیاں پیش کرنے والوں کو تمام تر حقوق ملنے چاہیے تھے۔

اس کےلیے ماضی میں نہ صرف مہاجر صوبے کے قیام کےلیے بھوک ہڑتالیں کی گئیں بلکہ ایم ایم بشیر نے باقاعدہ طور پر مہاجر صوبے کےلیے تحریک چلائی جبکہ محمود گل، الحق عثمانی، رئیس امروہوی، اے کے سومار، آزاد بن حیدر بھی ان کے حامی رہے۔ ان کا مؤقف تھا کہ 1951 میں بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان کے در میان باقاعدہ طور پر ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت بھارت کی طرف نقل مکانی کرنے والے ہندو، مسلمان مہاجرین کی جائیدادوں کے حقدار پائے جبکہ اسی طرح بھارت سے آ نے والے مہاجروں کو ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں کا قانونی مالک قرار دیا گیا۔ اس طرح کلیم (claim) کے طور پر مہاجرین کو نہ صرف کراچی بلکہ سندھ بھر میں جائیدادیں ملیں اور اسی کے پیش نظر لکھنؤ کے نواب نسیم السلام کو لاڑکانہ میں سب سے زیادہ جا ئیداد ملی اور وہ سب سے بڑے زمیندار بن گئے۔ اسی طرح ایک اور نواب نذر حسین کو ٹنڈو آدم میں کلیم کے طور پر بڑی جائیدادیں ملیں۔

ان حقائق کے پیش نظر مہاجر بھی ٹھیک اسی طرح سندھ کا والی وارث ہے جس طرح ایک مقامی سندھی، لہذا مہاجروں کا بھی باقاعدہ صوبہ ہونا چاہیے مگر اس قسم کے خیالات رکھنے پر مہاجروں کو صو بے کے حقوق دینے کے بجائے جیلوں میں ڈالا گیا جس کی وجہ سے مہاجر صوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ اس کے بعد 1979 میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنا ئزیشن (اے پی ایم ایس او) سے مہاجر سیاست کا آغاز کرنے والی مہاجر قومی موومنٹ، جس نے ایک طویل عرصے تک شہر پر راج کیا، اس نے بھی ضرورت پڑنے پر اس قسم کے نعرے تو ضرور بلند کیے مگر کبھی اس کےلیے جدوجہد نہیں کی۔

سوال یہ ہے کہ آخرکار وہ کونسی وجوہ ہیں جن کی بنیاد پر متحدہ (پاکستان) اس وقت مہاجر صوبے کا نعرہ بلند کررہی ہے جبکہ صوبے بھر میں سندھی مہاجر بھائی بھائی ہوکر آپس میں شیر و شکر ہیں۔ کہیں یہ ایک بار پھر دو قوموں کو آپس میں لڑوانے کی سازش تو نہیں کیونکہ مہاجر صوبے کا نعرہ آج اس وقت بلند کیا جارہا ہے جب نہ مہاجر سیاست متحد ہے اور نہ ہی مہاجر عوام۔ کہیں یہ ایک بار پھر مہاجر اور سندھی کو آپس میں لڑوانے کی سازش تو نہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story