الوداع مسلم لیگ ن … نئی اُمیدیں
اگر کل کو عمران خان اپنی پارٹی اپنے بچوں سے حوالے کرے گا تو ہم اُس کی بھی مخالفت کریں گے
موجودہ قومی اسمبلی کا کل آخری دن ہے، اپنی آئینی مدت مکمل کرکے خود بخود تحلیل ہوجائے گی اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ ن کی حکومت بھی ختم ہو جائے گی اور مرکز میں نگران سیٹ اپ جسٹس ناصر الملک کی قیادت میں ذمے داریاں سنبھالے گا۔ اگر ہم حالات اور واقعات کا جائزہ لیں تو مسلم لیگ کے 5سالہ دور میں کوئی خاطر خوا اقتصادی اور سماجی ترقی نہیں ہوئی۔ پاکستان کا قرضہ جو 2013 میں 13ہزار ارب روپے تھا، 28ہزار ارب تک پہنچ گیا۔ حکومت جو پرائیویٹ کمپنیوں سے بجلی لیتی ہے، اس کا قرضہ یا سرکلر ڈیٹ بھی ایک ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا جو آنے والی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر دے گا۔
حیران کن امر یہ ہے کہ مسلم لیگ ن آج فی کس ڈیڑھ لاکھ روپے قرض چھوڑ کر جا رہی ہے، اور جب یہ اقتدار میں آئی تھی تو اُس وقت کم و بیش 80ہزار روپے فی کس قرض تھا۔ 2013ء کے انتخاب میں عمران خان کی بے پناہ مقبولیت کے باوجود نواز شریف حیران کن طور پر بھاری مارجن سے جیت گئے ۔ اقتدار میں آنے کے بعد نواز شریف مئی 2014ء میں نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنے کے لیے خصوصی طور پر دہلی پہنچے۔ جب کہ جواب میں نریندر مودی نے حلف اٹھاتے ہی پاکستان کے خلاف پوری دنیا میں جارحانہ سفارت کاری شروع کردی۔ جواباً نواز شریف خاموش رہے اورپاکستان کا وزیرخارجہ مقرر نہ کرنے کا حیران کن فیصلہ کیا۔ پھر خواجہ آصف کو وزیرخارجہ مقرر کیا ، ان کی سفارت کاری سب کے سامنے ہے۔مسلم لیگ کے دور میں کشمیر کا کیس عالمی دنیا میں کمزور ہوا۔ مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا ۔ جنہوں نے غیر ملکی دورے تو کیے لیکن نتائج کوئی نہیں نکلے۔ بلوچ فراریوں، ایم کیو ایم اور کلبھوشن یادیو کے حوالے سے ''را'' کا ایجنڈا سامنے آیا ۔
احسان اللہ احسان کا انٹرویو، نیوز لیکس، عالمی عدالت میں کلبھوشن کیس کی ناکامی،کشن گنگاڈیم پر خاموشی، نیلم جہلم پراجیکٹ کیا تباہی، پاک ایران چین گیس پائپ لائن کا تعطل، ایل او سی پر ریکارڈ بریکر حملے، پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنا، افغانستان و امریکاکے ساتھ تعلقات کی خرابی، پاکستان کی فوجی امداد بند ہونا وغیرہ عوام سے قطعاََ ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ان کے علاوہ وہ ملکی پراجیکٹس جو ناکام ہوئے لیپ ٹاپ اسکیم، دانش اسکول، سستی روٹی ، قرضہ اسکیم ، آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم سمیت درجنوں منصوبے ناکام ہوئے اور آج نیب ان پر اربوں روپے کی کرپشن انکوائریاں کر رہا ہے۔ وہ اعتراف کرے کہ اُن کی پارٹی میں قیادت اور ٹیم کا فقدان ہے۔
اگر لیڈر نیک نیتی سے کام کرتا تو نیچے ٹیم بھی نیک نیتی سے کام کرتی، جب ہمارے ہاں سیاسی پارٹیاں موروثیت پر یقین رکھیں گی تو ہمیشہ فل اسٹاپ اور قومے پڑھنے والی قیادت ہی ہمیں میسر ہوگی، ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ پاکستان دنیا بھر میں موروثی سیاست میں سب سے آگے ہے، ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے68فیصد سیاستدان موروثیت کا شکار ہیں۔نواز شریف کے بعد اُس کی بیٹی، شہباز شریف کے بعد اُس کا بیٹا حمزہ شہباز، بے نظیر کے بعد اُس کا بیٹا بلاول، جہانگیر ترین کے بعد اُس کا بیٹا علی ترین، مولانا مفتی محمود کی جگہ مولانا فضل الرحمن، چوہدری، ٹوانے، قریشی، گیلانی، مخدوم، خٹک، عبدالولی خاندان،ہوتی خاندان، سیف اللہ خاندان ، اچکزئی، بزنجو، مری، رئیسانی، مینگل، بگٹی، زہری سمیت بہت سے خاندان موروثی سیاست کی وہ لڑیاں ہیں جس سے جان چھڑانا مشکل ہے۔
اگر کل کو عمران خان اپنی پارٹی اپنے بچوں سے حوالے کرے گا تو ہم اُس کی بھی مخالفت کریں گے۔ اس قوم کو اس ملک میں سسٹم چاہیے ہے اور یقینا ان موروثی جماعتوں سے سسٹم نہیں ملنے والا، اگر یہی جماعتیں آگے آتی رہیں، موروثیت کو فروغ دیتی رہیں تو ہم ہر پانچ سال بعد اسی طرح کے کالم لکھتے رہیں گے کہ پانچ سالوں میں ہم نے کیا کیا کھویا ہے۔ ہم ن لیگ کے مخالف بھی نہیں مگر آپ اپنی غلطیوں سے سیکھیں اور کوشش کریں کہ اس کو خاندانی پارٹی سے سیاسی پارٹی کی طرف لے کر جائیں۔ کیا ضروری ہے کہ مریم نواز ہی اس پارٹی کے فیصلے کرے گی، کیوں مریم اورنگ زیب پارٹی قائد نہیں بن سکتی، کیوں خواجہ سعد رفیق آگے نہیں آسکتا، کیوں بلال یاسین نہیں سامنے آسکتا، کیوں پرویز رشید، چوہدری نثار جیسے لوگ سامنے نہیں آسکتے۔کیوں رضا ربانی اور اعتزاز احسن جیسے لوگوں کو بھی بلاول کے سامنے جواب دینا ہوگا۔ دنیا میں کونسا ایسا ترقی یافتہ سیاسی ملک ہے، جہاں کی سیاسی جماعت خاندانوں پر انحصار کرتی ہیں۔
کیا مہاتیر محمد کے بعد اُس کا بیٹا آیا تھا؟کیا ماؤزے تنگ کے بعد اُس کا بیٹا آیا تھا؟کیا طیب اردگان کے بعد اُس کا بیٹا اقتدار کے لیے تڑپ رہا ہے۔ حقیقت میں پاکستان کو اس وقت مضبوط سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے۔آج جب مسلم لیگ ن اپنے پانچ سال پورے کر رہی ہے تو اس حوالے سے ہمیں ن لیگ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرنا چاہیے کیوں کہ قائداعظم کی مسلم لیگ ہے اس لیے اسے قائد اعظم کی مسلم لیگ بننا چاہیے۔ اور اُمید رکھنی ہے کہ تمام جماعتیں اپنا احتساب کرکے آگے بڑھیں اور ملک کو کھوکھلا کرنے کے بجائے اس کی ترقی میں حصہ دار بنیں!!!
حیران کن امر یہ ہے کہ مسلم لیگ ن آج فی کس ڈیڑھ لاکھ روپے قرض چھوڑ کر جا رہی ہے، اور جب یہ اقتدار میں آئی تھی تو اُس وقت کم و بیش 80ہزار روپے فی کس قرض تھا۔ 2013ء کے انتخاب میں عمران خان کی بے پناہ مقبولیت کے باوجود نواز شریف حیران کن طور پر بھاری مارجن سے جیت گئے ۔ اقتدار میں آنے کے بعد نواز شریف مئی 2014ء میں نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنے کے لیے خصوصی طور پر دہلی پہنچے۔ جب کہ جواب میں نریندر مودی نے حلف اٹھاتے ہی پاکستان کے خلاف پوری دنیا میں جارحانہ سفارت کاری شروع کردی۔ جواباً نواز شریف خاموش رہے اورپاکستان کا وزیرخارجہ مقرر نہ کرنے کا حیران کن فیصلہ کیا۔ پھر خواجہ آصف کو وزیرخارجہ مقرر کیا ، ان کی سفارت کاری سب کے سامنے ہے۔مسلم لیگ کے دور میں کشمیر کا کیس عالمی دنیا میں کمزور ہوا۔ مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا ۔ جنہوں نے غیر ملکی دورے تو کیے لیکن نتائج کوئی نہیں نکلے۔ بلوچ فراریوں، ایم کیو ایم اور کلبھوشن یادیو کے حوالے سے ''را'' کا ایجنڈا سامنے آیا ۔
احسان اللہ احسان کا انٹرویو، نیوز لیکس، عالمی عدالت میں کلبھوشن کیس کی ناکامی،کشن گنگاڈیم پر خاموشی، نیلم جہلم پراجیکٹ کیا تباہی، پاک ایران چین گیس پائپ لائن کا تعطل، ایل او سی پر ریکارڈ بریکر حملے، پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنا، افغانستان و امریکاکے ساتھ تعلقات کی خرابی، پاکستان کی فوجی امداد بند ہونا وغیرہ عوام سے قطعاََ ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ان کے علاوہ وہ ملکی پراجیکٹس جو ناکام ہوئے لیپ ٹاپ اسکیم، دانش اسکول، سستی روٹی ، قرضہ اسکیم ، آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم سمیت درجنوں منصوبے ناکام ہوئے اور آج نیب ان پر اربوں روپے کی کرپشن انکوائریاں کر رہا ہے۔ وہ اعتراف کرے کہ اُن کی پارٹی میں قیادت اور ٹیم کا فقدان ہے۔
اگر لیڈر نیک نیتی سے کام کرتا تو نیچے ٹیم بھی نیک نیتی سے کام کرتی، جب ہمارے ہاں سیاسی پارٹیاں موروثیت پر یقین رکھیں گی تو ہمیشہ فل اسٹاپ اور قومے پڑھنے والی قیادت ہی ہمیں میسر ہوگی، ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ پاکستان دنیا بھر میں موروثی سیاست میں سب سے آگے ہے، ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے68فیصد سیاستدان موروثیت کا شکار ہیں۔نواز شریف کے بعد اُس کی بیٹی، شہباز شریف کے بعد اُس کا بیٹا حمزہ شہباز، بے نظیر کے بعد اُس کا بیٹا بلاول، جہانگیر ترین کے بعد اُس کا بیٹا علی ترین، مولانا مفتی محمود کی جگہ مولانا فضل الرحمن، چوہدری، ٹوانے، قریشی، گیلانی، مخدوم، خٹک، عبدالولی خاندان،ہوتی خاندان، سیف اللہ خاندان ، اچکزئی، بزنجو، مری، رئیسانی، مینگل، بگٹی، زہری سمیت بہت سے خاندان موروثی سیاست کی وہ لڑیاں ہیں جس سے جان چھڑانا مشکل ہے۔
اگر کل کو عمران خان اپنی پارٹی اپنے بچوں سے حوالے کرے گا تو ہم اُس کی بھی مخالفت کریں گے۔ اس قوم کو اس ملک میں سسٹم چاہیے ہے اور یقینا ان موروثی جماعتوں سے سسٹم نہیں ملنے والا، اگر یہی جماعتیں آگے آتی رہیں، موروثیت کو فروغ دیتی رہیں تو ہم ہر پانچ سال بعد اسی طرح کے کالم لکھتے رہیں گے کہ پانچ سالوں میں ہم نے کیا کیا کھویا ہے۔ ہم ن لیگ کے مخالف بھی نہیں مگر آپ اپنی غلطیوں سے سیکھیں اور کوشش کریں کہ اس کو خاندانی پارٹی سے سیاسی پارٹی کی طرف لے کر جائیں۔ کیا ضروری ہے کہ مریم نواز ہی اس پارٹی کے فیصلے کرے گی، کیوں مریم اورنگ زیب پارٹی قائد نہیں بن سکتی، کیوں خواجہ سعد رفیق آگے نہیں آسکتا، کیوں بلال یاسین نہیں سامنے آسکتا، کیوں پرویز رشید، چوہدری نثار جیسے لوگ سامنے نہیں آسکتے۔کیوں رضا ربانی اور اعتزاز احسن جیسے لوگوں کو بھی بلاول کے سامنے جواب دینا ہوگا۔ دنیا میں کونسا ایسا ترقی یافتہ سیاسی ملک ہے، جہاں کی سیاسی جماعت خاندانوں پر انحصار کرتی ہیں۔
کیا مہاتیر محمد کے بعد اُس کا بیٹا آیا تھا؟کیا ماؤزے تنگ کے بعد اُس کا بیٹا آیا تھا؟کیا طیب اردگان کے بعد اُس کا بیٹا اقتدار کے لیے تڑپ رہا ہے۔ حقیقت میں پاکستان کو اس وقت مضبوط سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے۔آج جب مسلم لیگ ن اپنے پانچ سال پورے کر رہی ہے تو اس حوالے سے ہمیں ن لیگ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرنا چاہیے کیوں کہ قائداعظم کی مسلم لیگ ہے اس لیے اسے قائد اعظم کی مسلم لیگ بننا چاہیے۔ اور اُمید رکھنی ہے کہ تمام جماعتیں اپنا احتساب کرکے آگے بڑھیں اور ملک کو کھوکھلا کرنے کے بجائے اس کی ترقی میں حصہ دار بنیں!!!