زعما ہمارے
جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد مسلمانوں کی حکومت کا چراغ گل ہوا
متعدد مسلم زعما نے برصغیر میں 1800ء کے وسط میں مسلمانوں کے لیے بے لوث جذبہ اسلام پر بڑے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ اس میں سرسید احمد خان، نواب محسن الملک جن کا اصلی نام سید مہدی علی تھا، نواب وقار الملک ان کا اصلی نام مولوی مشتاق حسین تھا، الطاف حسین جن کا تخلص حالی تھا، جدید اردو شاعری کا آغاز حالی سے ہوا اور اس میں قومی، ملکی، سیاسی اور تمدنی مضامین داخل ہوئے۔ اردو نثر سادگی اور سلاست کی آئینہ دار ہوگئی، اردو ادب میں سوانح نگاری اور تنقیدی ادب کا آغاز بھی حالی سے ہوا۔
علمائے فرنگی محل لکھنو کے خاندان کے بانی مولانا قطب الدین سیالوی تھے، ان کے بیٹے ملا اسعد نے اورنگ زیب عالمگیر سے لکھنو میں فرنگی محل حاصل کیا۔ جہاں کسی زمانے میں فرانسیسی رہتے تھے، علمائے فرنگی محل میں سے مولانا عبدالعلی اور مولانا عبدالحئی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کی بنیاد 1867ء میں مولوی فضل الرحمن اور مولوی ذوالفقار علی نے ڈالی، مولانا محمد قاسم ناناتوی کے بعد زیادہ نام مولانا محمودالحسن نے پایا۔ آپ اسی دارالعلوم کے سند یافتہ 1888ء میں صدر مدرس مقرر ہوئے۔
جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد مسلمانوں کی حکومت کا چراغ گل ہوا اور ان کا تنزل جو تقریباً ڈیڑھ صدی قبل شروع ہوا تھا، اب انتہا کو پہنچ گیا۔ سیاسی، اقتصادی، علمی اور تمدنی انحطاط نے ان کی قومی زندگی کے قالب کو یکسر بے جان کر دیا تھا۔ زبوں حالی کے اس دور میں جب کہ مسلم قوم کے ذہنی افق پر غم و الم، یاس و حرماں کی سیاہ گھٹائیں چھا گئی تھیں، سرسید احمد خان کی آواز بلند ہوئی، اس عظیم شخصیت نے قوم کو نئی تعلیم، نیا ادب، نئی طرز فکر اور نیا لائحہ عمل عطا کیا جس سے حیران کن تیزی کے ساتھ مایوسی کے بادل چھٹنے لگے، امید کی نئی کرن دکھائی دی اور قوم کا روشن مستقبل صاف نظر آنے لگا۔
سرسید احمد خان اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، ان کی قومی خدمات مختلف النوع ہیں تعلیم کی اشاعت، علمی و ادبی خدمات، مذہبی خدمات، سیاسی خدمات قابل ذکر ہیں۔ خاص بات یہ کہ ان کا کام جاری رکھا، ان کی تحریک علی گڑھ نے تعلیمی، معاشرتی، مذہبی، ادبی اور سیاسی میدان میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ مگر بنیادی طور پر یہ ایک تعلیمی اور تمدنی تحریک تھی، اس کا بڑا مقصد مسلمانوں میں مغربی تعلیم کی اشاعت اور ان کی مالی حالت کو بہتر بنانا تھا۔
اس کے لیے ایک طرف ملک بھر میں اسکول اور کالج کھولے گئے اور دوسری طرف حکومت اور مسلمانوں میں باہمی اعتماد پیدا کرنے کی کاوش کی گئی۔ سرسید احمد خان کی کوششوں کا اثر یہ نکلا تعلیم یافتہ مسلمانوں کو سرکاری ملازمتیں مل گئیں، وہ علی گڑھ کالج کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد اس خواہش کی تکمیل کی کوششیں جاری رہیں۔ سرآغا خان کی مساعی سے بیس لاکھ روپیہ جمع ہوا، بالآخر 1921ء میں مسلم یونیورسٹی قائم ہوگئی۔ مذہبی دنیا میں جدید علم الکلام اور اصلاح رسوم اور ادبی دنیا میں جدید اردو ادبیات کا آغاز تحریک علی گڑھ کی امتیازی خصوصیات تھیں۔ سیاسی نکتہ نگاہ سے اس تحریک نے مسلمانوں کی جداگانہ قومی تشکیل میں بڑی مدد دی، جس نے بعد میں تحریک پاکستان کی صورت اختیار کی، ان کے ساتھ متعدد مسلمان زعما نے بے لوث خدمت کی۔
اس ضمن میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھوں گا کہ تحریک علی گڑھ کو برصغیر کے مسلمانوں کی مادی اور دنیوی ترقی مقصود تھی۔ سرسید احمد خان کے نظریات اور خیالات سے اگر اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کے بلند کردار پر شدید مخالفین بھی انگشت نمائی نہ کرسکے اور کسی نے بھی ان کے بے لوث خلوص پر شبہ نہیں کیا۔ دراصل وہ ایک راست باز آدمی تھے دیانت داری، اخلاص اور صاف گوئی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی یہاں تک ان کی یہ خوبیاں ہی ان کی بیشتر مشکلات کا باعث بنیں۔
وہ دروغ مصلحت آمیز کے بھی قائل نہ تھے ریا کاری اور خود غرضی ان میں نام کو نہ تھی جس بات کو وہ صحیح سمجھتے اس پر سختی سے ڈٹ جاتے اور کسی قسم کی مصلحت یا بدنامی کا خوف ان کے ارادے کو متزلزل نہ کرسکتا تھا۔ سرسید احمد خان ایک درویش صفت اور بے لوث انسان تھے، حکومت برطانیہ میں ان کی جو قدر و منزلت تھی اس کی بنا پر اگر وہ چاہتے تو اپنی ریاست قائم کرسکتے تھے مگر انھوں نے اپنا سب کچھ قوم پر قربان کردیا اور جب ان کی وفات ہوئی تو گھر میں ایک پیسہ تک نہ تھا بلکہ ان کا کوئی گھر ہی نہ تھا۔ انھوں نے قوم کو اس حالت میں پایا کہ اس کے سارے اعضا مفلوج ہوچکے تھے لیکن جب انھوں نے وفات پائی تو اس کے (قوم کے) قالب میں نئی روح پھونکی جاچکی تھی اس کی منزل متعین ہوچکی تھی اور وہ اس پر خود اعتمادی کے ساتھ گامزن تھی۔
موجودہ معاشرت میں سرسید احمد خان کا ذکر بڑا ضروری ہے، اس وقت ملک و قوم کو ایسے لوگوں کی اشد ضرورت ہے، صرف ایک انسان پوری قوم کا معاون و مسیحا ہوسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں یقیناً بے لوث مخلص لوگ موجود ہیں لیکن ان لوگوں کو آگے نہیں آنے دیا گیا، خود غرض مطلب پرست عناصر نے وہ کچھ کیا جو ان کے اور ان کے احباب کے لیے فائدہ مند تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے ملک و قوم کے لیے شاید کوئی کچھ کرنا نہیں چاہتا تھا یا پھر اس پر بیرونی طاقت نے ملک و ملت کے لیے کچھ نہ کرنے دیا اس لیے کہ کہیں یہ مسلم مملکت ان کے لیے مشکل نہ کھڑی کردے۔
یہ کہنے پر مجبور ہوں جو بھی آیا اس نے غریب کو غریب بنایا غربت بڑھتی چلی گئی وہ خود امیر ترین ہوتا گیا۔ اگر تاریخ کا وہ مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا ہمارے مسلم زعما کوئی ایسے نہ تھے جس نے اپنی ذات یا اپنے خاندان کے لیے کچھ کیا ہو، بلکہ وہ تو قوم کے لیے مر مٹے، جن کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ افسوس کی بات ہے یہ قوم آج تک اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہی مال و زر ان کو ملا جو صرف اپنے مقاصد کے لیے جھوٹے وعدے کرتے رہے۔ قوم کی سادگی کہوں یا لاعلمی، نصف صدی سے زیادہ جھوٹے دعوے اور وعدے کیے، ایک بھی پورا نہ ہوا، اگر پورا ہوا تو صرف ان کا مطلب و مقصد۔ لکھنے والے سب کچھ لکھتے رہے، کہنے والے سب کچھ کہتے رہے، شاید اب اس قوم میں سوجھ بوجھ آگئی ہو، اس کے باوجود وہ تمام سربراہ مملکت جو صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں ان میں ساری طاقتیں موجود ہیں، وقت آنے پر وہ خریدنا جانتے ہیں۔
ابھی بھی اس ملک میں فروخت ہونے والوں کی کمی نہیں۔ بے چارہ وہ غریب جو ہمیشہ قربانی دیتا رہا ہے اس وقت خط غربت سے بھی نیچے ہے، پھر بھی ان امرا و رؤسا ملک کے اکابرین کو خیال نہیں۔ کف افسوس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ووٹ حاصل کرنے کے لیے تو اس قدر جھوٹ، فریب کا استعمال ہوتا ہے جس کی ساری حدیں پار ہوجاتی ہیں عام آدمی کو شرم آجائے گی، لیکن ان لوگوں کو جھوٹ بولنا اچھا آتا ہے، جس پر یہ قوم بے وقوف بن جاتی ہے۔
افسوس ناک بات ہے اگر میں منصب پر ہوں تو سب ٹھیک ہے، واہ واہ۔ ایسا نہیں کہ وہ عوام کے مسائل دور کر رہے ہوں ان کو تو صرف اپنی غرض ہے جیسے میں نے عرض کیا وہی بات اس میں کوئی الگ بات نہیں۔ ہاں جب منصب سے الگ ہوجاتے ہیں یا نکال دیا جاتا ہے تو ان کے لیے سب برا ہوجاتا ہے، وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے ماضی میں کیا کہا اور اب کیا کہہ رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ان کو اس بات کی کوئی پرواہ ہے نہ فکر وہ تو صرف اپنا فائدہ چاہتے ہیں ان کو ملک سے محبت ہے نہ ملت کی فکر۔ جو شخص اپنے ملک یا ملک کے اداروں کے خلاف برائی کرے تو اس سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟
علمائے فرنگی محل لکھنو کے خاندان کے بانی مولانا قطب الدین سیالوی تھے، ان کے بیٹے ملا اسعد نے اورنگ زیب عالمگیر سے لکھنو میں فرنگی محل حاصل کیا۔ جہاں کسی زمانے میں فرانسیسی رہتے تھے، علمائے فرنگی محل میں سے مولانا عبدالعلی اور مولانا عبدالحئی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کی بنیاد 1867ء میں مولوی فضل الرحمن اور مولوی ذوالفقار علی نے ڈالی، مولانا محمد قاسم ناناتوی کے بعد زیادہ نام مولانا محمودالحسن نے پایا۔ آپ اسی دارالعلوم کے سند یافتہ 1888ء میں صدر مدرس مقرر ہوئے۔
جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد مسلمانوں کی حکومت کا چراغ گل ہوا اور ان کا تنزل جو تقریباً ڈیڑھ صدی قبل شروع ہوا تھا، اب انتہا کو پہنچ گیا۔ سیاسی، اقتصادی، علمی اور تمدنی انحطاط نے ان کی قومی زندگی کے قالب کو یکسر بے جان کر دیا تھا۔ زبوں حالی کے اس دور میں جب کہ مسلم قوم کے ذہنی افق پر غم و الم، یاس و حرماں کی سیاہ گھٹائیں چھا گئی تھیں، سرسید احمد خان کی آواز بلند ہوئی، اس عظیم شخصیت نے قوم کو نئی تعلیم، نیا ادب، نئی طرز فکر اور نیا لائحہ عمل عطا کیا جس سے حیران کن تیزی کے ساتھ مایوسی کے بادل چھٹنے لگے، امید کی نئی کرن دکھائی دی اور قوم کا روشن مستقبل صاف نظر آنے لگا۔
سرسید احمد خان اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، ان کی قومی خدمات مختلف النوع ہیں تعلیم کی اشاعت، علمی و ادبی خدمات، مذہبی خدمات، سیاسی خدمات قابل ذکر ہیں۔ خاص بات یہ کہ ان کا کام جاری رکھا، ان کی تحریک علی گڑھ نے تعلیمی، معاشرتی، مذہبی، ادبی اور سیاسی میدان میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ مگر بنیادی طور پر یہ ایک تعلیمی اور تمدنی تحریک تھی، اس کا بڑا مقصد مسلمانوں میں مغربی تعلیم کی اشاعت اور ان کی مالی حالت کو بہتر بنانا تھا۔
اس کے لیے ایک طرف ملک بھر میں اسکول اور کالج کھولے گئے اور دوسری طرف حکومت اور مسلمانوں میں باہمی اعتماد پیدا کرنے کی کاوش کی گئی۔ سرسید احمد خان کی کوششوں کا اثر یہ نکلا تعلیم یافتہ مسلمانوں کو سرکاری ملازمتیں مل گئیں، وہ علی گڑھ کالج کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد اس خواہش کی تکمیل کی کوششیں جاری رہیں۔ سرآغا خان کی مساعی سے بیس لاکھ روپیہ جمع ہوا، بالآخر 1921ء میں مسلم یونیورسٹی قائم ہوگئی۔ مذہبی دنیا میں جدید علم الکلام اور اصلاح رسوم اور ادبی دنیا میں جدید اردو ادبیات کا آغاز تحریک علی گڑھ کی امتیازی خصوصیات تھیں۔ سیاسی نکتہ نگاہ سے اس تحریک نے مسلمانوں کی جداگانہ قومی تشکیل میں بڑی مدد دی، جس نے بعد میں تحریک پاکستان کی صورت اختیار کی، ان کے ساتھ متعدد مسلمان زعما نے بے لوث خدمت کی۔
اس ضمن میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھوں گا کہ تحریک علی گڑھ کو برصغیر کے مسلمانوں کی مادی اور دنیوی ترقی مقصود تھی۔ سرسید احمد خان کے نظریات اور خیالات سے اگر اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کے بلند کردار پر شدید مخالفین بھی انگشت نمائی نہ کرسکے اور کسی نے بھی ان کے بے لوث خلوص پر شبہ نہیں کیا۔ دراصل وہ ایک راست باز آدمی تھے دیانت داری، اخلاص اور صاف گوئی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی یہاں تک ان کی یہ خوبیاں ہی ان کی بیشتر مشکلات کا باعث بنیں۔
وہ دروغ مصلحت آمیز کے بھی قائل نہ تھے ریا کاری اور خود غرضی ان میں نام کو نہ تھی جس بات کو وہ صحیح سمجھتے اس پر سختی سے ڈٹ جاتے اور کسی قسم کی مصلحت یا بدنامی کا خوف ان کے ارادے کو متزلزل نہ کرسکتا تھا۔ سرسید احمد خان ایک درویش صفت اور بے لوث انسان تھے، حکومت برطانیہ میں ان کی جو قدر و منزلت تھی اس کی بنا پر اگر وہ چاہتے تو اپنی ریاست قائم کرسکتے تھے مگر انھوں نے اپنا سب کچھ قوم پر قربان کردیا اور جب ان کی وفات ہوئی تو گھر میں ایک پیسہ تک نہ تھا بلکہ ان کا کوئی گھر ہی نہ تھا۔ انھوں نے قوم کو اس حالت میں پایا کہ اس کے سارے اعضا مفلوج ہوچکے تھے لیکن جب انھوں نے وفات پائی تو اس کے (قوم کے) قالب میں نئی روح پھونکی جاچکی تھی اس کی منزل متعین ہوچکی تھی اور وہ اس پر خود اعتمادی کے ساتھ گامزن تھی۔
موجودہ معاشرت میں سرسید احمد خان کا ذکر بڑا ضروری ہے، اس وقت ملک و قوم کو ایسے لوگوں کی اشد ضرورت ہے، صرف ایک انسان پوری قوم کا معاون و مسیحا ہوسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں یقیناً بے لوث مخلص لوگ موجود ہیں لیکن ان لوگوں کو آگے نہیں آنے دیا گیا، خود غرض مطلب پرست عناصر نے وہ کچھ کیا جو ان کے اور ان کے احباب کے لیے فائدہ مند تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے ملک و قوم کے لیے شاید کوئی کچھ کرنا نہیں چاہتا تھا یا پھر اس پر بیرونی طاقت نے ملک و ملت کے لیے کچھ نہ کرنے دیا اس لیے کہ کہیں یہ مسلم مملکت ان کے لیے مشکل نہ کھڑی کردے۔
یہ کہنے پر مجبور ہوں جو بھی آیا اس نے غریب کو غریب بنایا غربت بڑھتی چلی گئی وہ خود امیر ترین ہوتا گیا۔ اگر تاریخ کا وہ مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا ہمارے مسلم زعما کوئی ایسے نہ تھے جس نے اپنی ذات یا اپنے خاندان کے لیے کچھ کیا ہو، بلکہ وہ تو قوم کے لیے مر مٹے، جن کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ افسوس کی بات ہے یہ قوم آج تک اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہی مال و زر ان کو ملا جو صرف اپنے مقاصد کے لیے جھوٹے وعدے کرتے رہے۔ قوم کی سادگی کہوں یا لاعلمی، نصف صدی سے زیادہ جھوٹے دعوے اور وعدے کیے، ایک بھی پورا نہ ہوا، اگر پورا ہوا تو صرف ان کا مطلب و مقصد۔ لکھنے والے سب کچھ لکھتے رہے، کہنے والے سب کچھ کہتے رہے، شاید اب اس قوم میں سوجھ بوجھ آگئی ہو، اس کے باوجود وہ تمام سربراہ مملکت جو صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں ان میں ساری طاقتیں موجود ہیں، وقت آنے پر وہ خریدنا جانتے ہیں۔
ابھی بھی اس ملک میں فروخت ہونے والوں کی کمی نہیں۔ بے چارہ وہ غریب جو ہمیشہ قربانی دیتا رہا ہے اس وقت خط غربت سے بھی نیچے ہے، پھر بھی ان امرا و رؤسا ملک کے اکابرین کو خیال نہیں۔ کف افسوس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ووٹ حاصل کرنے کے لیے تو اس قدر جھوٹ، فریب کا استعمال ہوتا ہے جس کی ساری حدیں پار ہوجاتی ہیں عام آدمی کو شرم آجائے گی، لیکن ان لوگوں کو جھوٹ بولنا اچھا آتا ہے، جس پر یہ قوم بے وقوف بن جاتی ہے۔
افسوس ناک بات ہے اگر میں منصب پر ہوں تو سب ٹھیک ہے، واہ واہ۔ ایسا نہیں کہ وہ عوام کے مسائل دور کر رہے ہوں ان کو تو صرف اپنی غرض ہے جیسے میں نے عرض کیا وہی بات اس میں کوئی الگ بات نہیں۔ ہاں جب منصب سے الگ ہوجاتے ہیں یا نکال دیا جاتا ہے تو ان کے لیے سب برا ہوجاتا ہے، وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے ماضی میں کیا کہا اور اب کیا کہہ رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ان کو اس بات کی کوئی پرواہ ہے نہ فکر وہ تو صرف اپنا فائدہ چاہتے ہیں ان کو ملک سے محبت ہے نہ ملت کی فکر۔ جو شخص اپنے ملک یا ملک کے اداروں کے خلاف برائی کرے تو اس سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟