ہمارے شعلہ بیان

ایک بار کہیں پڑھا تھا ’’گفتگو بہت سستی مل جاتی ہے کیونکہ رسد طلب سے زیادہ ہوتی ہے۔‘‘

tariq@tariqmian.com

ایک بار کہیں پڑھا تھا ''گفتگو بہت سستی مل جاتی ہے کیونکہ رسد طلب سے زیادہ ہوتی ہے۔''

یہ بات سیاسی گفتگو پر بھی صادق آتی ہے کیونکہ ہماری قوم کے اگلے چند ہفتے اب اسی کی نذر ہو جانے ہیں۔ سب اس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں۔ وہ جمہوریت کے تسلسل کو ترسے ہوئے ہیں اور سیاسی عمل سے لطف اٹھانا چاہتے ہیں لیکن بوڑھے جرنیل کے بختوں اور روز روز کی کھٹ پٹ نے رنگ میں بھنگ ڈال دی ہے۔ خود تو اس نے پھنسنا ہی تھا قوم کو بھی بے مزہ کر دیا ہے۔ بہرحال انتخابی مہم کا آغاز ہو چکا ہے اور ہم لیڈروں کی شعلہ بیانیاں دیکھنے کو بے تاب ہیں۔

شعلہ بیان وہ ہوتا ہے جو کہانیوں والے اژدھے کی طرح پھنکار مارے اور جنگل میں آگ لگ جائے۔ یا پھر تماشا دکھانے والا وہ مداری گر جو مٹی کا تیل منہ میں ڈال کے آگ لگے پھندنے پر پھونک مارتا ہے تو شعلے فلک بوس ہونے لگتے ہیں۔ ایسے میں پاپی پیٹ کی خاطر کچھ تیل پاپی پیٹ میں بھی چلا جاتا ہو گا۔

ہماری سیاست میں بھی بہت دھانسو قسم کے شعلہ بیان پائے جاتے ہیں جو لفظوں سے آگ لگادیتے ہیں۔ عام آدمی فلسفی نہیں ہوتا کہ آرام سے بیٹھ کر ٹھنڈی ٹھار اور پر مغز تقاریر سنتا اور ان پر سر دھنتا رہے۔ انھیں چٹکلے چھوڑنے والے جیتے جاگتے مقرر یا پھر الفاظ کے انگاروں پر آواز کی پھونک مارنے والے شعلہ بیان اچھے لگتے ہیں۔

شعلہ بیانی کا ذکر جب بھی ہوتا ہے آغاز عطاء اللہ شاہ بخاری سے کیا جاتا ہے۔ سنا ہے کہ ان سے بلند پایہ شعلہ بیان اور کوئی نہیں دیکھا گیا۔ لوگ تمام رات ان کی آواز کے سحر میں ڈوبے رہتے اور ہلنے کا نام نہ لیتے۔ لیکن یہ ہم سے بہت پہلے کی بات ہے۔ وہ 1961ء میں وفات پا گئے۔ ہاں البتہ ان کے ایک ساتھی اور شاگرد کو میں نے بھی سنا ہے۔ آغا شورش کاشمیری۔ ایوب خان کے خلاف حزب اختلاف کی ایک مری مری سی تحریک جاری تھی۔ کوئی سر اٹھاتا تو فوراً ہی حوالات کی نفری میں اضافہ ہو جاتا۔

میں ایسے میں ایک بار کچھ دوستوں کے ساتھ مال روڈ لاہور پر موجود تھا۔ وائی ایم سی اے ہال کے اندر جلسہ جاری تھا۔ رش کی وجہ سے ہم لوگ باہر سڑک پر ہی کھڑے ہو گئے۔ اندر گرما گرم تقاریر ہو رہی تھیں۔ تالیوں کی گونج میں شورش کاشمیری کی باری آئی تو انھوں نے فوراً ہی رنگ جما دیا۔ لوگوں کا جوش دیدنی تھا۔ الفاظ کے چناؤ اور آواز کے زیر و بم سے ہمارے بدن میں بھی بجلی کی لہریں دوڑ دوڑ جاتی تھیں۔ ہر طرف نعروں کی گونج تھی۔ ایک جملہ مجھے آج بھی یاد ہے جو انھوں نے ٹھہر ٹھہر کے اور ایک ایک لفظ کو چبا چبا کے ادا کیا تھا۔


''یہ ملک ۔۔۔۔ کسی ایوب خان کے ۔۔۔۔۔ بیٹوں کے باپ کی جاگیر نہیں ہے۔۔۔۔۔ کہ یہاں اس کی مرضی کا قانون چلتا رہے۔۔۔۔۔''

شورش کاشمیری کی خطابت کا یہ جہاد یحییٰ خان اور بھٹو کے دور حکومت میں بھی جاری رہا۔ 1975ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔

تحریک پاکستان کے زمانے کے سب سے مقبول شعلہ بیان مقرر نواب بہادر یار جنگ تھے۔ وہ حیدر آباد دکن کے رہنے والے تھے۔ تحریک پاکستان میں ان سے زیادہ موثر اردو کا خطیب اور کوئی نہیں تھا۔ وہ بھی گھنٹوں انتہائی نپی تلی اور دلچسپ خطابت کے جوہر دکھاتے اور لوگ مزید سننے کے متمنی ہوتے۔ لیکن افسوس کہ وہ 1944ء میں صرف 39 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔ یہ تحریک پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ ان کی وفات اچانک ہوئی تھی اور شک ہے کہ انھیں قتل کیا گیا تھا۔ اس رات ایک دعوت میں کھانے کے بعد انھوں نے جونہی حقے کا ایک کش لیا تو وہ ان کی فوری موت کا سبب بن گیا۔ شاید اس میں زہر تھا۔

شعلہ بیانی فقط نثری خطابت تک محدود نہیں ہے بلکہ شاعر لوگ تو اور بھی تیزی سے آگ بھڑکا سکتے ہیں۔ وہ براہ راست دل پر وار کرتے ہیں۔ دماغ کہیں پیچھے رہ جاتا ہے۔ ہمارے دور میں حبیب جالب اس کی سب سے عمدہ مثال ہیں۔ ایوب خان، یحییٰ خان، بھٹو، ضیاء الحق۔۔۔۔ انھوں نے کسی کو نہیں بخشا۔ ایک تو وہ شاعر اچھے تھے اور اوپر سے قدرت نے لحن ایسا عطا کیا تھا کہ لوگ دیوانے ہو جاتے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی بے مثال شعلہ بیانی کی جھلکیاں تو ٹی وی کے طفیل آج بھی دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ اگر کسی شخص کی خطابت نے ہماری سیاسی تاریخ پر سب سے زیادہ اثرات مرتب کیے ہیں تو وہ انھی کی شخصیت ہے۔ مولانا کوثر نیازی نے ان کی ذات کے اس پہلو پر ایک کتاب بھی لکھ ڈالی تھی۔ مولانا کوثر نیازی خود بھی ایک اعلیٰ پایے کے مقرر تھے اور میں انھیں شعلہ بیانوں کی صف میں شریک کرتا ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ہاں مولوی ہمیشہ شعلہ بیانی میں اس لیے سبقت لے جاتا ہے کہ جذبات کو بھڑکانے کے لیے اس کے خطاب میں مذہب کا تڑکا بھی لگا ہوتا ہے۔

ایک صاحب جنھیں اب تک سب بھول بھال گئے ہیں وہ رفیق باجوہ ہیں۔ بھٹو کے خلاف سن 77ء کی تحریک میں وہ نو ستاروں والے اپوزیشن اتحاد کے سیکریٹری جنرل تھے۔ ایک انتہائی اعلیٰ پایے کے مقرر۔ ان کی شعلہ بیانی اور گفتار کی شیریں کاٹ شورش کاشمیری کی یاد دلاتی تھی۔ اس تحریک کے دوران انھوں نے اتنے بڑے بڑے اجتماعات کو گرمایا تھا کہ جن کا آج ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن موصوف ایک ہی رات میں عرش سے فرش پر آ رہے اور سیاست کی دنیا سے غائب ہو گئے۔ اپوزیشن کے ایک اہم ترین رہنما ہونے کے باوجود انھوں نے بھٹو سے ایک خفیہ ملاقات کر لی تھی۔ جونہی یہ راز فاش ہوا اپوزیشن اور عوام کے دل و دماغ سے غائب ہونے میں انھیں ایک دن سے زیادہ وقت نہیں لگا۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کے تابناک واقعات میں سے ایک ہے۔

اس کے بعد باری آتی ہے ہمارے آج کے دور کے شعلہ بیانوں کی۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں اس کا آغاز سیاسی دوڑ سے ڈرامائی طور پر نکل جانے والے مقرر علامہ طاہر القادری سے کروں لیکن اس کے لیے آپ کو اگلے کالم کا انتظار کرنا ہو گا۔
Load Next Story