گنگا یہاں بھی بہتی ہے

سنا ہے کہ جو بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لے وہ پوتر ہو جاتاہے، اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں.

WASHINGTON:
سنا ہے کہ جو بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لے وہ پوتر ہو جاتاہے، اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں، ہاتھ ایک شخص دھوتا ہے مگر اس کی آنے والی نسلیں اس ہاتھ کی مرہون منت رہتی ہیں کہ ابا جی جاتے جاتے بہت کچھ چھوڑ گئے اور پھر اس ملک میں جہاں سفارش عام ہے اور ملازمت محال، ضرورت اس بات کی ہے کہ موقعے سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جائے بلکہ کوئی موقع ہاتھ سے ہی نہ جانے دیا جائے، چنانچہ یہ ہماری واحد سر زمین ہے جہاں ایک چیز پہلے منظور ہوتی ہے پھر نامنظور اور پھر منظور ہو جاتی ہے جو جس قدر مال اڑائے گا اس کو ٹکٹ اتنی ہی آسانی سے مل جائے گا۔

اب دیکھیے نا کہ پچھلے دنوں کتنی زور و شور سے بہت سے با اثر لوگوں کا کچا چٹھا کھلا تھا کہ فلاں نے اربوں کمائے، فلاں نے کروڑوں، کوئی جعلی ڈگری یافتہ تھا تو کوئی نشہ آور ادویات کے کیس میں مشہور ہوا، کسی نے میمو کو ہوا دی تو کوئی ریمنڈ ڈیوس دو تین پاکستانیوں کو ہلاک کر کے امریکا چلتا بنا، کسی نے ٹیکس ادا نہیں کیا تو کوئی بجلی کھا گیا مگر یہاں سب کو ایک نظر سے دیکھا جاتا ہے، اسی لیے دیر یا بدیر حق سب کو ملے گا، کیونکہ کرسی کرسی پر لکھا ہے نا اہلوں اور نالائقوں کا نام یہ کرسی بھی بڑے کام کی چیز ہے جس پر بیٹھنے والا کبھی خالی ہاتھ نہیں جاتا اور اگر اس سے کرسی چھین لی جاتی ہے تو قسمت بھی اس سے روٹھ جاتی ہے۔

قوم کی توجہ ہٹانے کے لیے کسی ایک فوکس پر تمام میڈیا ٹھہر جاتاہے آخر جنرل صاحب نے ہی میڈیا کو آزادی دی بلکہ بے تحاشہ دی سو اس کا میڈیا نے پورا پورا حق ادا کیا، چنانچہ اب تو لوگ یہی کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ۔

خود آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

نہ ہمارے جنرل صاحب اتنے دریا دل بنتے نہ یہ نوبت آتی، لطف کی بات یہ ہے:
لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے

کمال کی بات تو یہ ہے کہ جنرل صاحب نے کرپشن تو ایک کوڑی کی نہیں کی مگر میڈیا نے ان کی عزت ضرور دو کوڑی کی کر دی، کہیں کمانڈو بھاگ گیا، کہیں بھگوڑا فرار ہو گیا، کے ٹیکر ٹی وی کے چھوٹے سے اسکرین پر تیرنے لگے۔

ہمارے ملک کی سیاست ہی یہ ہے کہ مرتے کو مارو بھرتے کو بھرو، سو اگر راجہ جی اربوں روپے کا بے دریغ استعمال کر کے ٹکٹ حاصل کر سکتے ہیں وحیدہ شاہ تھپڑوں سے ایک خاتون کے رخساروں کو قدرتی غازہ بخش سکتی ہیں اور پھر بھی ٹکٹ انھیں مل جاتاہے تو یہ سوچنا ہو گا کہ آخر ہمارے نظام میں ٹیڑھ کہاں ہے اور کیوں ہے؟

کہتے ہیں کہ اگر کسی کے منہ کو خون لگ جائے تو پھر وہ زندگی بھر خون کو ہی اپنی غذا بنا لیتا ہے، سو یہی حال اقتدار کا بھی ہے سیٹ ایک ایسی شے ہے جسے چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا کیونکہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں تو اس وقت ختم ہوتی ہیں جب لذت خواب سحر جاتی ہے، وزیر اعظم سیکریٹریٹ کا ماہانہ خرچہ ہو یا ایوان صدر کا یا دونوں کا کچن کا خرچہ اگر صرف انھی کو منہا کر دیا جائے تو ملک کے بے شمار غریبوں کے گھر کے چولہے جل جائیں۔


ہمارے عوام کو مرغی کے دو پنجے بھی آسانی سے دستیاب نہیں مگر وہاں عشائیوں اور ضیافتوں میں تیتر اور بٹیریں زینت دستر خوان بن جاتی ہیں، لیکن اس میں قابل اعتراض بات بھی کیا ہے کہ کم از کم ان ''پرتعیش دعوتوں'' سے شیف حضرات کو ایک معقول آمدنی حاصل ہو جاتی ہے، اگر کوئی سری پائے یا لسی کا شوقین ہے تو اس میں برائی بھی کیا ہے، کم از کم پائے والے اور لسی والوں کی گزر بسر آرام سے ہو جاتی ہے اگر کسی کو کرنسی نوٹوں کی خوشبو سے محبت ہے تو وہ مہنگی مہنگی پرفیومز خریدنے سے تو بچ جاتاہے، رہی بات غیر ملکی بینکوں میں سرمایہ کاری کی تو یہ ذہین اور فطین سیاستدان صرف اس لیے ایسا کرنے پر مجبور ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں بینک ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر کسی ''مجرم'' کو یا ملزم کو محفوظ مقام پر صرف اس لیے پہنچا دیا جاتا ہے کہ اس کی سیکیورٹی مسئلہ ہوتی ہے تو اپنا پیسہ ملک سے باہر منتقل کرنے میں کیا قابل اعتراض بات ہے، ویسے بھی اس ''ڈاکستان'' میں اب محفوظ بھی کیا رہا ہے، عموماً خواتین جو سونے پر جان دیتی ہیں اور بقول شیخ الاسلام خواتین شوہر سے زیادہ زیور سے پیار کرتی ہیں (شاید وہ اپنے تجربے سے ایسا کہتے ہیں) عورتوں نے سونا پہننا چھوڑ دیا ہے وہ صرف ایمیٹیشن پر ہی گزارا کر رہی ہیں مگر وہ بھی بعض معصوم ڈاکو سونا سمجھ کر چھین لیتے ہیں، اسی سلسلے میں ایک سچا لطیفہ سن لیجیے، ان ڈاکوئوں کا جو زیور لوٹ کر دوسرے دن سنار کی دکان پر لے جاتے ہیں اور مصنوعی ہونے کی صورت میں چراغ پا ہو جاتے ہیں کہ واردات بھی کامیاب ہونے کے باوجود ان کے دلدر دور نہ کر سکی۔

کچھ عرصہ ہوا ڈیفنس میں خیابان شمشیر پر ایک خاتون اپنے رفیق حیات کے ساتھ شادی سے آ رہی تھیں دو اسکوٹر سوار ان کے تعاقب میں تھے، خاتون نے گھر کی بیل دبائی تو ایک ڈاکو اسکوٹر سے اترا اور پستول کے زور پر ان کی چوڑیاں بندے اور ہار چھین کر لے گیا، خاتون نے تھانے میں اس لیے رپورٹ نہیں کرائی کیونکہ وہ زیورات اصلی نہیں تھے، دوسرے دن رات کو دروازے پر دستک ہوئی وہی اسکوٹر سوار نقاب پوش دندناتے ہوئے اندر آئے اور متاثرہ خاتون کے منہ پر دوچار تھپڑ رسید کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے۔

''شرم نہیں آتی اتنے بڑے محل نما گھر میں رہتی ہو گیراج میں پراڈو اور وی ٹی آئی کھڑی ہے اور نقلی زیورات پہن کر لوگوں کو دھوکہ دیتی ہو۔''

یہ لطیفہ نہیں سچا واقعہ ہے سو اب خواتین کو چاہیے کہ مصنوعی زیورات کا بھی استعمال ترک کر دیں اور صرف پھولوں کے زیور پہنیں تا کہ رہزن کا دھڑکا جاتا رہے۔

آج کل ایک بات زبان زد عام ہے کہ میڈیا فی زمانہ جو رول ادا کر رہا ہے وہ پاکستان کی چھ دہائیوں میں نہیں ہوا، وہ جسے چاہتا ہے بادشاہ بناتا ہے اور جسے چاہتا ہے دو ٹکے کا، ایک آزاد میڈیا کو ہمیشہ غیر جانبدار ہونا چاہیے مگر تقریباً سارے ہی چینلز کا بغور تجزیہ کرنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی چینل کسی نہ کسی کا ''پنٹر ہے'' کس کو دیے کس لیے دیے یہ بھید ہنوز آشکار نہیں ہو سکا، بہر حال ہمیں اس سے کیا لینا دینا کہ موقع سے فائدہ سیانے ہی اٹھاتے ہیں اور مادی طور پر کامیاب بھی کہلاتے ہیں ورنہ ایک عام قلمکار تو ساری عمر قلم گھستا رہتا ہے۔

ہمارے بعض دانشوروں اور فنکاروں کو شکوہ ہے کہ کبھی کسی سیاسی پارٹی نے انھیں اسمبلیوں کا ٹکٹ دینے کے قابل نہیں سمجھا ورنہ ادیب اور شاعر حضرات تو ہمارا ادبی سرمایہ ہوتے ہیں، اب انھیں کون سمجھائے کہ اے شکوہ بلب حضرات کیا آپ کے پاس لاکھوں روپے ہیں، الیکشن میں حصہ لینے کے لیے؟

ایوانوں کی زینت نہیں بنے مگر صحافت اور ادب سے سیاست کے کوچے میں گئے تو عمر بھر ماضی میں جو نیک نامی کمائی تھی وہ بھی ہاتھ سے جاتی رہے گی کیونکہ ایوان، جاگیرداروں، وڈیروں، چوروں، لٹیروں، سرمایہ داروں، موروثی خاندانوں کے لیے وقف ہیں اگر آپ کو ترقیاتی فنڈ ملے تو آپ کی خواہش ہو گی کہ ان سے عوام کی فلاح کے لیے کام کریں اگر آپ کو صوابدیدی فنڈ ملے تو آپ نادار ادیبوں اور قلمکاروں کی تحقیقات کو کتابی شکل میں لانے کی کوشش کریں گے مشاعرے، مذاکرے، ادبی کانفرنسیں کروائیں گے اس سے بہتر ہے کاغذ کے سینے پر سوچ کے پھول بکھیرتے رہیں گے کیونکہ اقتدار آپ کے بس کی بات نہیں، بہتر یہی ہے کہ

اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جائیں

کہ یہ ''سونا'' اس سونے سے بہت ارزاں ہے جو60 ہزار روپے تولہ مل رہا ہے۔
Load Next Story