زمانہ سانس لیتا ہے
کیاشعراءاورادیبوں کی تخلیقات تقریروتحریرکوپراثراوردلچسپ بنانےکےلیےہیں اوروقت کابہترین مصرف بھی ثابت ہوتی ہیں۔
کیا شعراء اور ادیبوں کی تخلیقات تقریر و تحریر کو پر اثر اور دلچسپ بنانے کے لیے ہیں اور وقت کا بہترین مصرف بھی ثابت ہوتی ہیں۔ ان تحریروں سے ہی علم حاصل کیا جاتا ہے۔ ہجرت کا نوحہ، جنگوں کا احوال، تلخ و شیریں مسائل، سائنس و طب کے فوائد، معاشرتی ناہمواریاں، رشتوں ناتوں کا زہر، بے انصافی، معاشی و ذہنی مسئلے، ذات کا کرب، انسانوں کی محرومی، بنت حوا پر ہونے والے مظالم اور جبر، گویا مکمل زندگی، سماج اور اس دنیا کا احاطہ شعر و ادب سے ہی ہوتا ہے، مورخ تو اپنے وقت پر تاریخ لکھتا ہے لیکن ادیب و شعراء کے قلم اسی وقت حرکت میں آ جاتے ہیں جب چوٹ کہیں اور لگتی ہے اور درد دوسروں کے دل میں اٹھتا ہے وہ کوئی دوسری مخلوق نہیں ہے وہ انسان ہی ہیں اور وہ بھی قلم کے رشتوں سے جڑے ہوئے۔
زمانے کے مصائب اور آزار کو محسوس کرنے اور روح کے کربناک سناٹوں میں اتارنے والے، دل و دماغ کے نازک حصوں پر لفظ کے خنجر گاڑنے والے، یہ قلمکار ہی ہیں جو دکھ اٹھاتے ہیں، غم سہتے ہیں، قبرستان و شمشان کے اندھیروں اور سناٹوں میں سفر کرنے والے، انسانوں کے مذبحہ خانے میں جھانکنے والے یہ ہی وہ حساس طبقہ ہے، ان کے اپنے ذاتی رنج و الم تو ہوتے ہیں لیکن دھرتی کے دکھوں کا بوجھ بھی تنہا ہی اٹھاتے اور دل کے آنگن میں مایوسی و حرماں نصیبی کی فصل بوتے ہیں اور پھر یہ اس فصل کو کاٹتے بھی خود ہیں، کوئی ان کے دل اور روح میں اتر کر تو دیکھے۔ گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے، بجلی کڑک رہی ہے، بادل گرج رہے ہیں، کہیں دور سے بانسری کی مدھر آواز بھی آ رہی ہے اور شہنائی کے سر سنائی دے رہے ہیں۔
خوشی و غم سے ہر انسان کی طرح یہ بھی آراستہ ہیں لیکن انداز ذرا مختلف ہے، تخلیق کار ہر بات کو شدت سے محسوس کرتا ہے اور تحریر کے قالب میں ڈھالتا ہے، سچی بات تو یہ ہے کہ زندگی اللہ کی و دیعت کردہ نعمت ہے ہماری سانسوں پر اس کا ہی اختیار ہے جب چاہے وہ بدن کے اس انجن کو بند کر دے تو جسم کی مشین خود بخود رک جائے گی، اس لیے کہ نہ زندگی ہمارے اختیار میں ہے اور نہ موت لہٰذا ہر طرح کا ستم برداشت کرنے کے باوجود انسان زندہ رہتا ہے، اسے بڑی کٹھنائیوں سے گزرنا پڑتا ہے، اپنے دل نازک پر ہونے والے صدموں اور محرومیوں کی بوچھاڑ کو سہنا پڑتا ہے۔
لیکن بات بڑے دکھ کی ہے، یہ سب کچھ کرنے کے باوجود اس کے حصے میں کچھ نہیں آتا ہے بلکہ بعض تو اتنے مجبور و بے کس ہیں کہ چند سکوں کی خاطر خون ِ جگر سے لکھی ہوئی تحریریں دوسروں کے سپرد کر دیتے ہیں اور خود گمنام زندگی گزارتے ہیں، اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو سکتا ہے ایک ادیب و شاعر کے لیے۔ ہمارے معاشرے میں کوئی اہمیت نہیں، کوئی قدر نہیں۔
ہم نے حال ہی میں یہ خبر پڑھی کہ بقول تخلیق کار، سیاسی جماعتیں ہمارے اشعار کا سہارا لے کر ہمیں رد کر دیتی ہیں امجد اسلام امجد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہمیشہ ہی سے قلمکاروں کو رد کیا گیا ہے اور اس بات میں کوئی شک بھی نہیں کہ قلمکاروں کو ان کا جائز مقام نہیں مل سکا ہے ان کی علمیت و قابلیت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا گنتی کے چند ہی لوگ ایسے ہیں جنھیں تھوڑی بہت مراعات حاصل رہی ہیں لیکن اکثریت کی اتنی بھی اہمیت نہیں ہے وہ شب و روز محنت کرتے ہیں، ان کا دماغ مثبت اور تخلیقی خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، ان کی تحریروں سے اور ان افکار سے فائدہ ضرور اٹھایا جاتا ہے لیکن ان قابل ہستیوں کو فائدہ نہیں پہنچایا جاتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کوئی بھی سابقہ یا موجودہ حکومت قلمکاروں کے لیے ایسے ادارے بنا دیتی جہاں وہ ملک و قوم کے لیے تخلیقی و تعمیری کام بذریعہ قلم کرتے اور اس کی انھیں معقول تنخواہیں دی جاتیں، ٹرانسپورٹ کا انتظام بھی اہل علم کے لیے ناگزیر ہے کہ قلمکاروں کی تحریروں میں زمانہ سانس لیتا ہے، ہر عہد کی داستان پوشیدہ ہوتی ہے، پھر ان کی ناقدری کیوں؟
قابل توجہ بات یہ ہے کہ جو لوگ اعلیٰ عہدوں کے اہل نہیں ہیں اور نہ ہی وہ سرکار سے ملنے والی سہولتوں کے حق دار ہیں انھیں ہر طرح کی آسانی اور معاشی استحکام بہم پہنچایا جاتا ہے شاید یہ ہی وجہ ہے کہ وہ ان کرسیوں کو چھوڑنے کے لیے راضی نہیں ہوتے ہیں، چاہے انھیں کتنا برا بھلا کہا جائے لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔
انور مقصود نے قلمکار کے لیے کہا کہ پاکستان میں اسے بے کار آدمی سمجھا جاتا ہے جب کہ وہ ہی ملک کی تقدیر لکھتا ہے ۔ ممتاز مزاح نگار مشتاق یوسفی نے سچی بات کہی کہ قلمکاروں کی ایوانوں میں بیٹھنے کا حق حاصل ہے اس لیے کہ اہل قلم نے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔
یہ بات قابل فہم ہے کہ ملک کی تقدیر کے فیصلے وہ ہی افراد کر سکتے ہیں جو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ باشعور بھی ہوں، اچھے برے میں تمیز کر سکتے ہوں اور وطن و قوم سے محبت و ایثار کے تقاضوں سے واقف ہوں، لیکن یہ بات افسوس کے ساتھ کہنی پڑتی ہے کہ ہمارے ملک میں عجیب ریت ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے لیے وراثت کا پیمانہ بنا دیا گیا ہے اور اپنے خاص دوست و احباب، عزیز و اقارب کو سیٹیں دی جاتی ہیں، ممتاز شاعر افتخار عارف نے ٹھیک ہی کہا کہ سیاسی پارٹیاں کرپٹ وڈیروں کو ٹکٹ دیتی ہیں۔
یہ بات سچ ہے جاگیرداروں اور وڈیروں کے پاس انصاف نہیں ہوتا ہے وہ اپنے سے کمزور لوگوں کو جانور سے کمتر سمجھتے ہیں، طاقت اور پیسے کا استعمال بے دریغ کرتے ہیں، قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اس کی ایک نہیں بے شمار مثالیں بذریعہ میڈیا ہم سب تک پہنچتی رہتی ہیں، قاتل و مقتول شاہ رخ اور شاہ زیب کا ہی تازہ ترین واقعہ لے لیجیے، مجرم کو ہر صورت میں بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ بات بھی دکھ کی ہے کہ اقربا پروری کی وبا قلم قبیلے میں موجود ہے اگر وہ اس برائی کا خاتمہ کر دیں تب انصاف کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں۔ اسلام آباد میں پچھلے دنوں ادیبوں و شاعروں کی کانفرنس ''اکادمی ادبیات'' کی جانب سے تھی، کراچی سے بھی وہی لوگ گئے تھے، جو ہمیشہ جاتے ہیں اور باقی لوگوں کو حسب روایت نظرانداز کیا گیا، ان کے اس عمل سے لکھنے پڑھنے والوں پر بالکل اثر نہیں پڑتا ہے وہ تخلیقی کام کر رہے ہیں، انھیں کوئی غرض نہیں کہ کہاں کیا ہو رہا ہے؟ انھیں اپنے کام سے مطلب ہے اور یہ کام ہی انھیں شناخت دیتا ہے، ان کی پہچان بناتا ہے، ایک عام قاری بھی ان سے واقف ہے، واقف نہیں ہیں تو اکادمی والے نہیں ہیں، اور اس بات پر حیرت بھی ہے کہ کب دعوت نامے اور ٹکٹ وغیرہ اپنے پسندیدہ لوگوں کو بھیج دیے جاتے ہیں، چونکہ بے شمار لکھنے والوں کو تو معلوم ہی نہیں کہ کہاں کہاں ادبی کانفرنسیں منعقد ہو رہی ہیں اور انعامات و اعزازات کن کن لوگوں کو بانٹے جا رہے ہیں اور کیا وہ اس کے حقدار بھی ہیں؟ اگر حقدار ہیں تب تو خوشی کی بات ہے کہ اپنی ہی برادری کے لوگوں کو اعزازات سے نوازا گیا اور اگر ایسا نہیں ہے تو بات خوشی کی نہیں افسوس کی ہے۔
اہل قلم کسی بھی ملک کے لیے اس ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ بیرون ممالک میں قلمکاروں، تخلیق کاروں کی بے حد عزت ہے، انھیں نہ کہ اعلیٰ عہدوں پر بٹھایا جاتا ہے بلکہ دوسری سہولیات بھی دی جاتی ہیں کتابوں کی اشاعت بھی حکومت کے ہی ذمے ہے، ادیب و شاعر کے ذہن کو ہر طرح آسودگی بخشی جاتی ہے، جو ہمارے ملک کے قلمکاروں کو میسر نہیں ہے۔
زمانے کے مصائب اور آزار کو محسوس کرنے اور روح کے کربناک سناٹوں میں اتارنے والے، دل و دماغ کے نازک حصوں پر لفظ کے خنجر گاڑنے والے، یہ قلمکار ہی ہیں جو دکھ اٹھاتے ہیں، غم سہتے ہیں، قبرستان و شمشان کے اندھیروں اور سناٹوں میں سفر کرنے والے، انسانوں کے مذبحہ خانے میں جھانکنے والے یہ ہی وہ حساس طبقہ ہے، ان کے اپنے ذاتی رنج و الم تو ہوتے ہیں لیکن دھرتی کے دکھوں کا بوجھ بھی تنہا ہی اٹھاتے اور دل کے آنگن میں مایوسی و حرماں نصیبی کی فصل بوتے ہیں اور پھر یہ اس فصل کو کاٹتے بھی خود ہیں، کوئی ان کے دل اور روح میں اتر کر تو دیکھے۔ گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے، بجلی کڑک رہی ہے، بادل گرج رہے ہیں، کہیں دور سے بانسری کی مدھر آواز بھی آ رہی ہے اور شہنائی کے سر سنائی دے رہے ہیں۔
خوشی و غم سے ہر انسان کی طرح یہ بھی آراستہ ہیں لیکن انداز ذرا مختلف ہے، تخلیق کار ہر بات کو شدت سے محسوس کرتا ہے اور تحریر کے قالب میں ڈھالتا ہے، سچی بات تو یہ ہے کہ زندگی اللہ کی و دیعت کردہ نعمت ہے ہماری سانسوں پر اس کا ہی اختیار ہے جب چاہے وہ بدن کے اس انجن کو بند کر دے تو جسم کی مشین خود بخود رک جائے گی، اس لیے کہ نہ زندگی ہمارے اختیار میں ہے اور نہ موت لہٰذا ہر طرح کا ستم برداشت کرنے کے باوجود انسان زندہ رہتا ہے، اسے بڑی کٹھنائیوں سے گزرنا پڑتا ہے، اپنے دل نازک پر ہونے والے صدموں اور محرومیوں کی بوچھاڑ کو سہنا پڑتا ہے۔
لیکن بات بڑے دکھ کی ہے، یہ سب کچھ کرنے کے باوجود اس کے حصے میں کچھ نہیں آتا ہے بلکہ بعض تو اتنے مجبور و بے کس ہیں کہ چند سکوں کی خاطر خون ِ جگر سے لکھی ہوئی تحریریں دوسروں کے سپرد کر دیتے ہیں اور خود گمنام زندگی گزارتے ہیں، اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو سکتا ہے ایک ادیب و شاعر کے لیے۔ ہمارے معاشرے میں کوئی اہمیت نہیں، کوئی قدر نہیں۔
ہم نے حال ہی میں یہ خبر پڑھی کہ بقول تخلیق کار، سیاسی جماعتیں ہمارے اشعار کا سہارا لے کر ہمیں رد کر دیتی ہیں امجد اسلام امجد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہمیشہ ہی سے قلمکاروں کو رد کیا گیا ہے اور اس بات میں کوئی شک بھی نہیں کہ قلمکاروں کو ان کا جائز مقام نہیں مل سکا ہے ان کی علمیت و قابلیت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا گنتی کے چند ہی لوگ ایسے ہیں جنھیں تھوڑی بہت مراعات حاصل رہی ہیں لیکن اکثریت کی اتنی بھی اہمیت نہیں ہے وہ شب و روز محنت کرتے ہیں، ان کا دماغ مثبت اور تخلیقی خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، ان کی تحریروں سے اور ان افکار سے فائدہ ضرور اٹھایا جاتا ہے لیکن ان قابل ہستیوں کو فائدہ نہیں پہنچایا جاتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کوئی بھی سابقہ یا موجودہ حکومت قلمکاروں کے لیے ایسے ادارے بنا دیتی جہاں وہ ملک و قوم کے لیے تخلیقی و تعمیری کام بذریعہ قلم کرتے اور اس کی انھیں معقول تنخواہیں دی جاتیں، ٹرانسپورٹ کا انتظام بھی اہل علم کے لیے ناگزیر ہے کہ قلمکاروں کی تحریروں میں زمانہ سانس لیتا ہے، ہر عہد کی داستان پوشیدہ ہوتی ہے، پھر ان کی ناقدری کیوں؟
قابل توجہ بات یہ ہے کہ جو لوگ اعلیٰ عہدوں کے اہل نہیں ہیں اور نہ ہی وہ سرکار سے ملنے والی سہولتوں کے حق دار ہیں انھیں ہر طرح کی آسانی اور معاشی استحکام بہم پہنچایا جاتا ہے شاید یہ ہی وجہ ہے کہ وہ ان کرسیوں کو چھوڑنے کے لیے راضی نہیں ہوتے ہیں، چاہے انھیں کتنا برا بھلا کہا جائے لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔
انور مقصود نے قلمکار کے لیے کہا کہ پاکستان میں اسے بے کار آدمی سمجھا جاتا ہے جب کہ وہ ہی ملک کی تقدیر لکھتا ہے ۔ ممتاز مزاح نگار مشتاق یوسفی نے سچی بات کہی کہ قلمکاروں کی ایوانوں میں بیٹھنے کا حق حاصل ہے اس لیے کہ اہل قلم نے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔
یہ بات قابل فہم ہے کہ ملک کی تقدیر کے فیصلے وہ ہی افراد کر سکتے ہیں جو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ باشعور بھی ہوں، اچھے برے میں تمیز کر سکتے ہوں اور وطن و قوم سے محبت و ایثار کے تقاضوں سے واقف ہوں، لیکن یہ بات افسوس کے ساتھ کہنی پڑتی ہے کہ ہمارے ملک میں عجیب ریت ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے لیے وراثت کا پیمانہ بنا دیا گیا ہے اور اپنے خاص دوست و احباب، عزیز و اقارب کو سیٹیں دی جاتی ہیں، ممتاز شاعر افتخار عارف نے ٹھیک ہی کہا کہ سیاسی پارٹیاں کرپٹ وڈیروں کو ٹکٹ دیتی ہیں۔
یہ بات سچ ہے جاگیرداروں اور وڈیروں کے پاس انصاف نہیں ہوتا ہے وہ اپنے سے کمزور لوگوں کو جانور سے کمتر سمجھتے ہیں، طاقت اور پیسے کا استعمال بے دریغ کرتے ہیں، قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اس کی ایک نہیں بے شمار مثالیں بذریعہ میڈیا ہم سب تک پہنچتی رہتی ہیں، قاتل و مقتول شاہ رخ اور شاہ زیب کا ہی تازہ ترین واقعہ لے لیجیے، مجرم کو ہر صورت میں بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ بات بھی دکھ کی ہے کہ اقربا پروری کی وبا قلم قبیلے میں موجود ہے اگر وہ اس برائی کا خاتمہ کر دیں تب انصاف کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں۔ اسلام آباد میں پچھلے دنوں ادیبوں و شاعروں کی کانفرنس ''اکادمی ادبیات'' کی جانب سے تھی، کراچی سے بھی وہی لوگ گئے تھے، جو ہمیشہ جاتے ہیں اور باقی لوگوں کو حسب روایت نظرانداز کیا گیا، ان کے اس عمل سے لکھنے پڑھنے والوں پر بالکل اثر نہیں پڑتا ہے وہ تخلیقی کام کر رہے ہیں، انھیں کوئی غرض نہیں کہ کہاں کیا ہو رہا ہے؟ انھیں اپنے کام سے مطلب ہے اور یہ کام ہی انھیں شناخت دیتا ہے، ان کی پہچان بناتا ہے، ایک عام قاری بھی ان سے واقف ہے، واقف نہیں ہیں تو اکادمی والے نہیں ہیں، اور اس بات پر حیرت بھی ہے کہ کب دعوت نامے اور ٹکٹ وغیرہ اپنے پسندیدہ لوگوں کو بھیج دیے جاتے ہیں، چونکہ بے شمار لکھنے والوں کو تو معلوم ہی نہیں کہ کہاں کہاں ادبی کانفرنسیں منعقد ہو رہی ہیں اور انعامات و اعزازات کن کن لوگوں کو بانٹے جا رہے ہیں اور کیا وہ اس کے حقدار بھی ہیں؟ اگر حقدار ہیں تب تو خوشی کی بات ہے کہ اپنی ہی برادری کے لوگوں کو اعزازات سے نوازا گیا اور اگر ایسا نہیں ہے تو بات خوشی کی نہیں افسوس کی ہے۔
اہل قلم کسی بھی ملک کے لیے اس ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ بیرون ممالک میں قلمکاروں، تخلیق کاروں کی بے حد عزت ہے، انھیں نہ کہ اعلیٰ عہدوں پر بٹھایا جاتا ہے بلکہ دوسری سہولیات بھی دی جاتی ہیں کتابوں کی اشاعت بھی حکومت کے ہی ذمے ہے، ادیب و شاعر کے ذہن کو ہر طرح آسودگی بخشی جاتی ہے، جو ہمارے ملک کے قلمکاروں کو میسر نہیں ہے۔