بوڑھا شیر
اچانک جنگل میں سناٹا چھا گیا، چھوٹے بڑے جانوروں نے چھلانگیں لگا کر محفوظ پناہ گاہوں کا رُخ کیا۔
اچانک جنگل میں سناٹا چھا گیا، چھوٹے بڑے جانوروں نے چھلانگیں لگا کر محفوظ پناہ گاہوں کا رُخ کیا۔ درختوں پر چہچہاتے پرندے یکایک خاموش ہو گئے۔ حتیٰ کہ ایک بڑے اور گھنے برگد کی ڈالیوں پر جھولتے ہوئے شوخ و شریر بندر بھی سہم کر درخت کے تنوں سے چمٹ گئے۔ جنگل میں چھا جانے والی یہ اچانک خاموشی، غیر فطری نہیں بلکہ ''جنگل کے قانون'' کے مطابق عین فطری تھی۔
کیونکہ جنگل کا بادشاہ، شیر جب اپنی بھوک مٹانے کے لیے اپنی کچھار سے باہر نکل کر دھاڑتا ہے تو ہر کمزور اور ناتواں جنگل کا ''شہری'' اپنی جان بچانے کی فطری جبلّت کے تحت چپ سادھ کر خود کو روپوش کرنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کرتا ہے۔ شیر کچھار سے باہر آیا تو اُسے دور سے دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ بادشاہ بوڑھا ہو چکا ہے اُس کے جسم میں وہ چُستی اور پھرتی نظر نہیں آتی جو چند برس قبل اُس کے انگ انگ سے پھوٹتی تھی۔
بادشاہ کو خود بھی اپنی اِس کمزوری کا احساس تھا وہ جانتا تھا کہ اپنی خوراک حاصل کرنے کے لیے اُسے جو طاقت درکار ہے وہ اُس سے اب محروم ہو چکا ہے لیکن اُسے یہ بھی بخوبی علم تھا کہ اُس کا رُعب اور اُس کی دہشت بدستور قائم ہے۔ اِسی لیے وہ بڑے باوقار انداز سے چلتا ہوا آہستہ آہستہ آگے بڑھا اُس کی چال میں وہ شاہانہ تمکنت اور جاہ جلال صاف نظر آتا تھا، جس کے باعث اُسے پورے جنگل میں ممتاز ترین حیثیت حاصل تھی۔ شیر آہستہ خرامی سے چلتا ہوا، برگد کے اُس درخت کے نیچے آ کر بیٹھ گیا، جس پر درجنوں بندر خوف و دہشت کے عالم میں درخت کی ڈالیوں سے چمٹے ہوئے تھے۔
بوڑھے شیر نے سر اُٹھا کر درخت پر موجود بندروں کو دیکھا پھر ایک بندر کا انتخاب کر کے اُسے ''فوکس'' کیا، اُس کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈال کر آہستہ سے غرّایا، ساتھ ہی اپنا دایاں پنجہ ہلا کر اُسے نیچے آنے کا اشارہ کیا۔ وہ بندر اب ''ہپناٹائز'' ہو چکا تھا، اُس کی مجال نہ تھی کہ شیر کی آنکھوں سے اپنی نظریں چُرا سکے وہی کیا، درخت پر موجود تمام بندر، اب شیر کی دہشت کے اسیر ہو چکے تھے۔ لیکن شیر کی تمام تر توجہ کا مرکز وہی مخصوص بندر تھا، جس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شیر نے اپنے دائیں پنجے سے نیچے آنے کا اشارہ کیا تھا۔ دوسری مرتبہ شیر کی غرّاہٹ قدرے اونچی تھی اور پنجے کی حرکت میں بھی تیزی تھی بندر خوف زدہ ہوکر ڈال سے مزید چپک گیا۔
تیسری مرتبہ غرّاہٹ کا والیوم مزید بلند ہوا۔ لیکن چوتھی دھاڑ اور پنجے کی حرکت میں ایک ایسی غضب کی جھنجھلاہٹ تھی کہ اگلے ہی لمحے وہ بندر درخت چھوڑ کر شیر کی بانہوں میں ایسے چلا آیا، جیسے بقول شاعر ''کچے دھاگے سے چلے آتے ہیں 'سرکار' بندھے۔'' شیر نے بندر کو منہ میں دبایا اور اطمینان سے اُٹھ کر اپنی کچھار کی جانب روانہ ہو گیا کوئی کچھ نہ بولا، کسی نے کوئی احتجاج نہیں کیا کیونکہ جنگل کا قانون یہی ہے جسکی لاٹھی اُسکی بھینس۔ یعنی طاقتور کے لیے کوئی قانون نہیں بلکہ طاقتوروں کی خواہشات کو پورا کرنا ہی کمزوروں کے لیے ایک ایسا لازمی ضابطہ ہے جن سے فرار حاصل کرنا کسی بھی کمزور کے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔
18 اپریل 2013ء کو اسلام آباد، ہائی کورٹ کے احاطے میں جنگل کے قانون کے اِسی مذکورہ بالا ایکشن کا ری پلے اُس وقت چلتا دیکھا گیا جب ایک ریٹائرڈ ''شیر'' ججز نظر بندی کیس میں اپنی ضمانت منسوخ ہونے کے بعد بڑی شان سے چلتے ہوئے کمرہِ عدالت سے باہر آیا، بُلٹ پروف گاڑی میں بیٹھا اور خاصے بڑے ہجوم کے درمیان سے گزر کر اپنی ''کچھار'' کی جانب روانہ ہوگیا۔ کوئی کچھ نہ بولا۔ وہ اپنے محافظوں کے جھُرمٹ میں جہاں سے گزرا، ہجوم کائی کی طرح پھٹتا رہا اور اُنہیں راستہ دیتا رہا۔ وہ اُسی بوڑھے شیر کی طرح شاہانہ چال چلتے ہوئے اپنی رہائش گاہ چک شہزاد پہنچ گئے۔
فرق صرف اتنا ہی تھا کہ بوڑھے شیر کے منہ میں ایک بے جان بندر تھا اور اس ضیغم ناتواں کے جبڑوں میں اِس ملک کا قانون۔ وہی قانون اور وہی آئین جسے ساڑھے آٹھ برس تک وہ اپنے نوکیلے دانتوں سے بھنبھوڑتے رہے تھے، اور اِس آئین کے خون کا ذائقہ اِن کو اتنا مرغوب ہو چکا تھا کہ اِس ذائقے کے سامنے اِنہیں ہر قسم کے ذائقے ہیچ لگتے تھے بالکل اِسی طرح جیسے کسی شیر کو اگر کسی آدمی کے خون اور گوشت کی لذّت سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل جائے تو اُسے کسی دوسرے جانور کا گوشت اچھا نہیں لگتا۔ وہ آدم خور بن جاتا ہے۔ ہائی کورٹ سے اِنکی روانگی کے دوران پولیس سمیت تمام ہجوم اِس لیے خاموش کھڑا رہا کہ وہ ہجوم جانتا تھا کہ ''شیر'' ہیں۔
65 برس سے اِس ملک میں جنگل کا قانون نافذ ہے، لہذا اپنے جبڑوں میں اِس ملک کا قانون دبا کر اپنے گھر لوٹ جانا ان صاحب کا ''پیدائشی حق'' ہے ۔ لیکن پھر ایک معجزہ ہوا۔ بوڑھا شیر اپنی کچھار میں پہنچا ہی تھا کہ اُسے "ہانکے" کا شور سُنائی دیا۔ جس نے اُسے کچھار سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ اُسے معلوم ہوا کہ اِس ریاستِ خدا داد میں جنگل کا قانون ختم ہو چکا ہے اور اب محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو چکے ہیں، اب کوئی یہاں مقدّس نہیں ہے، کوئی دیوتا نہیں ہے۔
بوڑھے شیر نے اپنی طاقت اور جوانی کے جوش میں جس عدلیہ کو پابندِ سلاسل کیا تھا، عوامی اتفاقِ رائے کی طاقت سے وہ نہ صرف بحال ہو چکی ہے بلکہ طاقتور اور آزاد بھی ہو چکی ہے اِسی اتفاقِ رائے نے عدلیہ اور میڈیا کے ساتھ مل کر اب نام نہاد ''نظریہ ضرورت'' بھی فنا کر دیا ہے اور یہی وہ اتفاقِ رائے ہے جو 11 مئی کو اِس ریاست کے سب سے زیادہ سپریم ادارے پارلیمنٹ کو بھی آزاد اور خود مختار بنانے والا ہے۔
یہ اتفاقِ رائے خدا کے بعد کسی بھی ریاست کی وہ سب سے بڑی طاقت ہوتا ہے جس کے سامنے ہر قسم کی طاقت سر نگوں ہو جاتی ہے یہ اتفاقِ رائے جب 47 ء میں سامنے آیا تو یہ ملکِ خدا داد وجود میں آ گیا تھا۔ 65 ء میں سامنے آیا تو ریاست کے دفاع پر آنچ نہ آنے دی۔ 2005ء کے زلزلے پر سامنے آیا تو متاثرینِ زلزلہ کے لیے امداد کے ڈھیر لگ گئے اور اب جمہوریت کے تسلسل کے لیے اور آمریت کے خلاف، اتفاقِ رائے کی یہ طاقت تن کر کھڑی ہو چکی ہے اب کسی کی مجال نہیں کہ اِس ریاست میں سوائے جمہوریت کے کسی اور نظام کو نافذ کر سکے قانون کی بالادستی و حکمرانی سے متصادم اب کسی '' شخصی بادشاہت'' کی یہاں کوئی گنجائش نہیں، اب اِس ریاست کا ہر فرد مقدّس ہے ریاست 65 برس بعد اب حقیقی معنوں میں آزاد ہو چکی ہے۔ شیر اپنی ''کچھار'' میں محصور ہو چکا ہے۔ بوڑھا شیر اپنی کچھار میں بیٹھ کر حیرانی سے یہی سوچتا ہو گا کہ
''اِلٰہی یہ کیا ماجرا ہو گیا؟''
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا
کیونکہ جنگل کا بادشاہ، شیر جب اپنی بھوک مٹانے کے لیے اپنی کچھار سے باہر نکل کر دھاڑتا ہے تو ہر کمزور اور ناتواں جنگل کا ''شہری'' اپنی جان بچانے کی فطری جبلّت کے تحت چپ سادھ کر خود کو روپوش کرنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کرتا ہے۔ شیر کچھار سے باہر آیا تو اُسے دور سے دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ بادشاہ بوڑھا ہو چکا ہے اُس کے جسم میں وہ چُستی اور پھرتی نظر نہیں آتی جو چند برس قبل اُس کے انگ انگ سے پھوٹتی تھی۔
بادشاہ کو خود بھی اپنی اِس کمزوری کا احساس تھا وہ جانتا تھا کہ اپنی خوراک حاصل کرنے کے لیے اُسے جو طاقت درکار ہے وہ اُس سے اب محروم ہو چکا ہے لیکن اُسے یہ بھی بخوبی علم تھا کہ اُس کا رُعب اور اُس کی دہشت بدستور قائم ہے۔ اِسی لیے وہ بڑے باوقار انداز سے چلتا ہوا آہستہ آہستہ آگے بڑھا اُس کی چال میں وہ شاہانہ تمکنت اور جاہ جلال صاف نظر آتا تھا، جس کے باعث اُسے پورے جنگل میں ممتاز ترین حیثیت حاصل تھی۔ شیر آہستہ خرامی سے چلتا ہوا، برگد کے اُس درخت کے نیچے آ کر بیٹھ گیا، جس پر درجنوں بندر خوف و دہشت کے عالم میں درخت کی ڈالیوں سے چمٹے ہوئے تھے۔
بوڑھے شیر نے سر اُٹھا کر درخت پر موجود بندروں کو دیکھا پھر ایک بندر کا انتخاب کر کے اُسے ''فوکس'' کیا، اُس کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈال کر آہستہ سے غرّایا، ساتھ ہی اپنا دایاں پنجہ ہلا کر اُسے نیچے آنے کا اشارہ کیا۔ وہ بندر اب ''ہپناٹائز'' ہو چکا تھا، اُس کی مجال نہ تھی کہ شیر کی آنکھوں سے اپنی نظریں چُرا سکے وہی کیا، درخت پر موجود تمام بندر، اب شیر کی دہشت کے اسیر ہو چکے تھے۔ لیکن شیر کی تمام تر توجہ کا مرکز وہی مخصوص بندر تھا، جس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شیر نے اپنے دائیں پنجے سے نیچے آنے کا اشارہ کیا تھا۔ دوسری مرتبہ شیر کی غرّاہٹ قدرے اونچی تھی اور پنجے کی حرکت میں بھی تیزی تھی بندر خوف زدہ ہوکر ڈال سے مزید چپک گیا۔
تیسری مرتبہ غرّاہٹ کا والیوم مزید بلند ہوا۔ لیکن چوتھی دھاڑ اور پنجے کی حرکت میں ایک ایسی غضب کی جھنجھلاہٹ تھی کہ اگلے ہی لمحے وہ بندر درخت چھوڑ کر شیر کی بانہوں میں ایسے چلا آیا، جیسے بقول شاعر ''کچے دھاگے سے چلے آتے ہیں 'سرکار' بندھے۔'' شیر نے بندر کو منہ میں دبایا اور اطمینان سے اُٹھ کر اپنی کچھار کی جانب روانہ ہو گیا کوئی کچھ نہ بولا، کسی نے کوئی احتجاج نہیں کیا کیونکہ جنگل کا قانون یہی ہے جسکی لاٹھی اُسکی بھینس۔ یعنی طاقتور کے لیے کوئی قانون نہیں بلکہ طاقتوروں کی خواہشات کو پورا کرنا ہی کمزوروں کے لیے ایک ایسا لازمی ضابطہ ہے جن سے فرار حاصل کرنا کسی بھی کمزور کے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔
18 اپریل 2013ء کو اسلام آباد، ہائی کورٹ کے احاطے میں جنگل کے قانون کے اِسی مذکورہ بالا ایکشن کا ری پلے اُس وقت چلتا دیکھا گیا جب ایک ریٹائرڈ ''شیر'' ججز نظر بندی کیس میں اپنی ضمانت منسوخ ہونے کے بعد بڑی شان سے چلتے ہوئے کمرہِ عدالت سے باہر آیا، بُلٹ پروف گاڑی میں بیٹھا اور خاصے بڑے ہجوم کے درمیان سے گزر کر اپنی ''کچھار'' کی جانب روانہ ہوگیا۔ کوئی کچھ نہ بولا۔ وہ اپنے محافظوں کے جھُرمٹ میں جہاں سے گزرا، ہجوم کائی کی طرح پھٹتا رہا اور اُنہیں راستہ دیتا رہا۔ وہ اُسی بوڑھے شیر کی طرح شاہانہ چال چلتے ہوئے اپنی رہائش گاہ چک شہزاد پہنچ گئے۔
فرق صرف اتنا ہی تھا کہ بوڑھے شیر کے منہ میں ایک بے جان بندر تھا اور اس ضیغم ناتواں کے جبڑوں میں اِس ملک کا قانون۔ وہی قانون اور وہی آئین جسے ساڑھے آٹھ برس تک وہ اپنے نوکیلے دانتوں سے بھنبھوڑتے رہے تھے، اور اِس آئین کے خون کا ذائقہ اِن کو اتنا مرغوب ہو چکا تھا کہ اِس ذائقے کے سامنے اِنہیں ہر قسم کے ذائقے ہیچ لگتے تھے بالکل اِسی طرح جیسے کسی شیر کو اگر کسی آدمی کے خون اور گوشت کی لذّت سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل جائے تو اُسے کسی دوسرے جانور کا گوشت اچھا نہیں لگتا۔ وہ آدم خور بن جاتا ہے۔ ہائی کورٹ سے اِنکی روانگی کے دوران پولیس سمیت تمام ہجوم اِس لیے خاموش کھڑا رہا کہ وہ ہجوم جانتا تھا کہ ''شیر'' ہیں۔
65 برس سے اِس ملک میں جنگل کا قانون نافذ ہے، لہذا اپنے جبڑوں میں اِس ملک کا قانون دبا کر اپنے گھر لوٹ جانا ان صاحب کا ''پیدائشی حق'' ہے ۔ لیکن پھر ایک معجزہ ہوا۔ بوڑھا شیر اپنی کچھار میں پہنچا ہی تھا کہ اُسے "ہانکے" کا شور سُنائی دیا۔ جس نے اُسے کچھار سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ اُسے معلوم ہوا کہ اِس ریاستِ خدا داد میں جنگل کا قانون ختم ہو چکا ہے اور اب محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو چکے ہیں، اب کوئی یہاں مقدّس نہیں ہے، کوئی دیوتا نہیں ہے۔
بوڑھے شیر نے اپنی طاقت اور جوانی کے جوش میں جس عدلیہ کو پابندِ سلاسل کیا تھا، عوامی اتفاقِ رائے کی طاقت سے وہ نہ صرف بحال ہو چکی ہے بلکہ طاقتور اور آزاد بھی ہو چکی ہے اِسی اتفاقِ رائے نے عدلیہ اور میڈیا کے ساتھ مل کر اب نام نہاد ''نظریہ ضرورت'' بھی فنا کر دیا ہے اور یہی وہ اتفاقِ رائے ہے جو 11 مئی کو اِس ریاست کے سب سے زیادہ سپریم ادارے پارلیمنٹ کو بھی آزاد اور خود مختار بنانے والا ہے۔
یہ اتفاقِ رائے خدا کے بعد کسی بھی ریاست کی وہ سب سے بڑی طاقت ہوتا ہے جس کے سامنے ہر قسم کی طاقت سر نگوں ہو جاتی ہے یہ اتفاقِ رائے جب 47 ء میں سامنے آیا تو یہ ملکِ خدا داد وجود میں آ گیا تھا۔ 65 ء میں سامنے آیا تو ریاست کے دفاع پر آنچ نہ آنے دی۔ 2005ء کے زلزلے پر سامنے آیا تو متاثرینِ زلزلہ کے لیے امداد کے ڈھیر لگ گئے اور اب جمہوریت کے تسلسل کے لیے اور آمریت کے خلاف، اتفاقِ رائے کی یہ طاقت تن کر کھڑی ہو چکی ہے اب کسی کی مجال نہیں کہ اِس ریاست میں سوائے جمہوریت کے کسی اور نظام کو نافذ کر سکے قانون کی بالادستی و حکمرانی سے متصادم اب کسی '' شخصی بادشاہت'' کی یہاں کوئی گنجائش نہیں، اب اِس ریاست کا ہر فرد مقدّس ہے ریاست 65 برس بعد اب حقیقی معنوں میں آزاد ہو چکی ہے۔ شیر اپنی ''کچھار'' میں محصور ہو چکا ہے۔ بوڑھا شیر اپنی کچھار میں بیٹھ کر حیرانی سے یہی سوچتا ہو گا کہ
''اِلٰہی یہ کیا ماجرا ہو گیا؟''
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا