ماہِ صیام کی عظمت و برکات

رمضان میں جنّت کے دروازے کھل جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں، اور شیاطین کو طوق پہنا دیے جاتے ہیں۔

، ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو رمضان کا مہینہ پائے اور پھر اس کی بخشش نہ ہو۔ فوٹو: فائل

رمضان المبارک وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم نازل فرمایا۔

رمضان المبارک کی ہی ایک بابرکت شب آسمانِ دنیا پر قرآن کا نزول ہوا لہٰذا اس رات کو رب العزت نے تمام راتوں پر فضیلت عطا فرمائی اور اسے شبِ قدر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ رمضان المبارک کی فضیلت و عظمت اور اس کے فیوض و برکات کے باب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: ''جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کردیا جاتا ہے۔'' (بخاری )

رمضان المبارک کے روزوں کو جو امتیازی شرف اور فضیلت حاصل ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرمؐ کی اس حدیث مبارک سے لگایا جاسکتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص بہ حالتِ ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔'' (بخاری)

رمضان المبارک کی ہر ایک ساعت اس قدر برکتوں اور سعادتوں کی حامل ہے کہ باقی گیارہ ماہ مل کر بھی اس کی برابری و ہم سری نہیں کرسکتے۔ قیامِ رمضان کی فضیلت سے متعلق حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: ''جس نے رمضان میں بہ حالتِ ایمان ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کردیے گئے۔'' (بخاری، الصحیح، کتاب الایمان، باب تطوع قیام رمضان من الایمان)

قران میں ارشاد باری ہے: '' ماہِ رمضان ہے جس میں قرآن مجید بھیجا گیا، جس کا وصف یہ ہے کہ لوگوں کے لیے (ذریعہ) ہدایت ہے اور واضح الدلالت ہے، من جملہ ان کتب کے جو (ذریعہ) ہدایت (بھی) ہیں اور (حق و باطل میں) فیصلہ کرنے والی (بھی) ہیں۔ سو جو شخص اس ماہ میں موجود ہو اس کو ضرور اس (ماہ) میں روزہ رکھنا چاہیے، اور جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے ایام کا (اتنا ہی) شمار (کرکے ان میں روزہ) رکھنا (اس پر واجب) ہے۔ اللہ تعالیٰ کو تمہارے ساتھ (اَحکام میں) آسانی کرنا منظور ہے اور تمہارے ساتھ (اَحکام و قوانین مقرّر کرنے میں) دشواری منظور نہیں، اور تاکہ تم لوگ (ایام ادا یا قضا کی) شمار کی تکمیل کرلیا کرو (کہ ثواب میں کمی نہ رہے) لہٰذا تم لوگ اللہ تعالیٰ کی بزرگی (و ثنا) بیان کیا کرو اس پر کہ تم کو (ایک ایسا) طریقہ بتلادیا (جس سے تم برکات و ثمراتِ رمضان سے محروم نہ رہو گے) اور (عذر سے خاص رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت اس لیے دے دی) تاکہ تم لوگ (اس نعمتِ آسانی پر اللہ کا) شکر ادا کیا کرو۔'' (ترجمہ حضرت تھانوی)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب رمضان داخل ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں (اور ایک روایت میں ہے: جنت کے دروازے۔ اور ایک اور روایت میں ہے: رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں) اور جہنم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں، اور شیاطین پابندِ سلاسل کردیے جاتے ہیں۔'' (بخاری و مسلم)

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: '' تم پر رمضان کا مبارک مہینہ آیا ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کا روزہ فرض کیا ہے، اس میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، اور سرکش شیطان قید کردیے جاتے ہیں، اس میں اللہ کی (جانب سے) ایک ایسی رات (رکھی گئی) ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو شخص اس کی خیر سے محروم رہا، وہ محروم ہی رہا۔''


(احمد، نسائی، مشکوٰۃ)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جن قید کردیے جاتے ہیں، اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، پس اس کا کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا، اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، پس اس کا کوئی دروازہ بند نہیں رہتا، اور ایک منادی کرنے والا (فرشتہ) اعلان کرتا ہے کہ: اے خیر کے تلاش کرنے والے! آگے آ، اور اے شر کے تلاش کرنے والے! رْک جا۔ اور اللہ کی طرف سے بہت سے لوگوں کو دوزخ سے آزاد کردیا جاتا ہے، اور یہ رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے۔''

(احمد، ترمذی، ابنِ ماجہ، مشکوٰۃ)

حضرت سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ نے شعبان کے آخری دن ہمیں خطبہ دیا، اس میں فرمایا: '' اے لوگو! تم پر ایک بڑی عظمت والا، بڑا بابرکت مہینہ آرہا ہے، اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کا روزہ فرض کیا ہے، اور اس کے قیام کو نفل بنایا ہے، جو شخص اس میں کسی بھلائی کے (نفلی) کام کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا تقرّب حاصل کرے، وہ ایسا ہے کہ کسی نے غیر رمضان میں فرض ادا کیا، اور جس نے اس میں فرض ادا کیا، وہ ایسا ہے کہ کسی نے غیر رمضان میں ستّر فرض ادا کیے، یہ صبر کا مہینہ ہے، اور صبر کا ثواب جنت ہے، اور یہ ہم دردی و غم خواری کا مہینہ ہے، اس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے، اور جس نے اس میں کسی روزہ دار کا روزہ اِفطار کرایا تو وہ اس کے لیے اس کے گناہوں کی بخشش اور دوزخ سے اس کی گلوخلاصی کا ذریعہ ہے، اور اس کو بھی روزہ دار کے برابر ثواب ملے گا، مگر روزہ دار کے ثواب میں ذرا بھی کمی نہ ہوگی۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! ہم میں سے ہر شخص کو تو وہ چیز میسر نہیں جس سے روزہ اِفطار کرائے؟ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا فرمائیں گے جس نے پانی ملے دْودھ کے گھونٹ سے، یا ایک کھجور سے، یا پانی کے گھونٹ سے روزہ اِفطار کرادیا، اور جس نے روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلایا پلایا اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض (کوثر) سے پلائیں گے جس کے بعد وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا، یہاں تک کہ جنت میں داخل ہوجائے (اور جنت میں بھوک پیاس کا سوال ہی نہیں)، یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا پہلا حصہ رحمت، درمیان حصہ بخشش اور آخری حصہ دوزخ سے آزادی (کا) ہے۔ اور جس نے اس مہینے میں اپنے غلام (اور نوکر) کا کام ہلکا کیا، اللہ تعالیٰ اس کی بخشش فرمائیں گے، اور اسے دوزخ سے آزاد کردیں گے۔'' (بیہقی شعب الایمان)

ابنِ عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا: '' رمضان کی خاطر جنت کو آراستہ کیا جاتا ہے، سال کے سرے سے اگلے سال تک، پس جب رمضان کی پہلی تاریخ ہوتی ہے تو عرش کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے (جو) جنت کے پتوں سے (نکل کر) جنت کی حوروں پر (سے گزرتی ہے) تو وہ کہتی ہیں: اے ہمارے رَبّ! اپنے بندوں میں سے ہمارے ایسے شوہر بنا جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ہم سے ان کی آنکھیں۔'' ( البیہقی) حضرت انسؓ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے خود سنا ہے کہ رمضان آچکا ہے، اس میں جنّت کے دروازے کھل جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں، اور شیاطین کو طوق پہنا دیے جاتے ہیں، ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو رمضان کا مہینہ پائے اور پھر اس کی بخشش نہ ہو۔ جب اس مہینے میں بخشش نہ ہوئی تو کب ہوگی؟

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: '' جس نے ایمان کے جذبے سے اور طلبِ ثواب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا، اس کے گزشتہ گناہوں کی بخشش ہوگئی۔'' (بخاری و مسلم، مشکوٰۃ)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (نیک) عمل جو آدمی کرتا ہے تو (اس کے لیے عام قانون یہ ہے کہ ) نیکی دس سے لے کر سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: مگر روزہ اس (قانون) سے مستثنیٰ ہے (کہ اس کا ثواب ان اندازوں سے عطا نہیں کیا جاتا) کیوں کہ وہ میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کا (بے حد و حساب) بدلہ دوں گا، (اور روزے کے میرے لیے ہونے کا سبب یہ ہے کہ) وہ اپنی خواہش اور کھانے (پینے) کو محض میری (رضا) کی خاطر چھوڑتا ہے، روزہ دار کے لیے دو فرحتیں ہیں، ایک فرحت اِفطار کے وقت ہوتی ہے، اور دْوسری فرحت اپنے رَبّ سے ملاقات کے وقت ہوگی۔ اور روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک (و عنبر) سے زیادہ خوش بودار ہے۔ (بخاری و مسلم)

اللہ تعالیٰ ہمیں اس مہینے کی قدر کی توفیق عطا فرمائے۔ امین
Load Next Story