حملے اورہلاکتیں کیا آزادانہ منصفانہ انتخابات ہوپائیں گے
فخروبھائی خاموشی توڑیں، پی پی، اے این پی اورمتحدہ بائیکاٹ کردیتی ہیں تو پھرکیاہوگا؟
اگربڑی سیاسی جماعت پی پی پی کاسربراہ بلاول بھٹوزردارویڈیولنک کے ذریعے خطاب تک محدودہوجائے،اربن سندھ کی طاقتورسیاسی قوت ایم کیوایم اپنے کیمپ پرحملے کے بعدتمام انتخابی دفاتربند کردے جبکہ اے این پی کے رہنمامارے جارہے ہوں تو انتخابات کیسے آزادانہ اور منصفانہ ہونگے؟
کیاچیف الیکشن کمشنرجسٹس(ر)فخرالدین جی ابراہیم اپنی خاموشی توڑکریہ حقیقت تسلیم کریں گے؟بلاول کوخفیہ ایجنسیوں کی طرف سے کیاگیاہے کہ وہ کھلے مقامات پرجلسوں یاریلیوں سے خطاب نہ کریں۔پیپلزپارٹی اپنا 31سے 33فیصد ووٹ بینک جوکم ہورہاہے ،اسے حاصل کرنے کی سرتوڑکوشش کررہی ہے۔اسے تشہیری مہم سے زیادہ ذوالفقاربھٹواوربنظیربھٹوجیسے کرشماتی رہمناؤں کی جذباتی تقریروں کی ضرورت ہے۔نوجوان بلاول ابھی تک موثر ثابت نہیں ہوئے۔
پارٹی شاید 2بیٹیوں ،خصوصاًآصفہ کو میدان میں اتاردے جوزیادہ vocalثابت ہوسکتی ہیں۔ کراچی میں انتخابی صورتحال ڈرامائی اورتیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ایم کیوایم کے 2کارکنوں کی ہلاکت سے واضح طورپرمعلوم ہوتاہے کہ وہاںکس قدرہنگامہ خیزانتخابات ہونگے۔ایم کیوایم کے الطاف حسین نے الیکشن کمیشن کی طرف سے اقدامات نہ کرنے پر،جوابھی تک کے پی کے ، بلوچستان اورکراچی میں ناکام ہے ،نہ صرف بائیکاٹ کی دھمکی کاجارحانہ بیان جاری کیاہے بلکہ شہرمیں شدیدمابعداثرات کی تنبیہ کی ہے۔
حتی کہ ایم کیوایم کے مخالفین جماعت اسلامی،ن لیگ اورایم کیوایم حقیقی انتخابات سے پہلے وہاں فوج تعینات کرنے کامطالبہ کررہی ہے۔انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعدسے اب تک دہشت گردی کاسب سے زیادہ نشانہ بننے والی اے این پی نے ایم کیوایم کی آوازمیں آوازملاتے ہوئے خدشہ ظاہرکیاہے کہ اس کے مزیدرہنمانشانہ بن سکتے ہیں۔واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے ان کے مرکزی رہنماغلام بلورخودکشں حملے میں بال بال بچے۔موجودہ صورتحال کے مطابق انتخابی مہم صرف پنجاب میں اورصرف مسلم لیگ ن ،تحریک انصاف ،جماعت اسلامی اورجے یوآئی ف کیلیے نظرآرہی ہے۔
لیگی رہمنانوازشریف اورشہبازشریف سخت سیکیورٹی میں مگرنہ صرف پنجاب بلکہ سندھ اورکے پی کے میں بھی جلسوں سے آزادانہ خطاب کررہے ہیں۔اسی طرح عمران خان بھی پنجاب اورکے پی کے میں انتخابی مہم تیزکرچکے ہیں تاہم یہ رہنماابھی تک کراچی نہیں گئے اورنہ ابھی تک ایساپروگرام بنایاہے۔جے یوآئی ف کیلیے بھی سیکیورٹی کے مسائل اس قدرباعث تشویش نہیں۔اس کے سربراہ فضل الرحمن پراعتمادہوکرکہتے ہیں کہ انھیں فاٹاتک میں ایسے مسائل کاسامنانہیں ہے۔
بلوچستان دوسراصوبہ ہے جہاں انتخابی مہم صرف کارنرمیٹنگز تک محدودہے،منگل کوخودکش حملے اورن لیگ کے رہنماپرحملہ جوقبائلی لڑائی کاشاخسانہ تھا،وہاں باقی دوہفتوں میں بڑی انتخابی مہم کاکم امکان نظرآتاہے۔انتخابی مہم میں، جو9مئی کوختم ہوجائے گی،لوگ پہلی بارپیپلزپارٹی اور اے این پی کاجلسہ شایدنہیں دیکھ پائیں گے ۔ایم کیوایم ،جس نے کچھ دن قبل جناح گراونڈمیں بڑے جلسے سے انتخابی مہم شروع کی تھی،اس کی طرف سے انتخابی سرگرمیاں معطل کیے جانے کے باعث صورتحال مزیدبدترہوگئی ہے۔
منگل کو2 کارکنوں کی ہلاکت کے بعدبدھ کوکراچی مکمل بندرہا۔ایم کیو ایم نے چیف الیکشن کمشنرکومطلع کیاکہ انھیں انتخابات سے قبل مزیدخون خرابے کاخدشہ ہے۔یہ کہنااگرچہ قبل ازوقت ہے کہ ایم کیوایم انتخابات کابائیکاٹ کرسکتی ہے تاہم وہ پارٹی رہنماؤں اورامیدواروں پرمزیدحملوں کی صورت میںایسا کر بھی سکتی ہے۔ایم کیوایم اگر، جس نے گذشتہ انتخابات میں 25 قومی اور51صوبائی نشستیں جیتیں تھیں،بائیکاٹ کرتی ہے توکراچی کے علاوہ سندھ کے مزیدشہروں میں بھی انتخابات کاانعقادمتاثرہوسکتاہے۔
اگرپیپلزپارٹی اوراے این پی بھی اپنے رہنماؤں اورامیدواروں پرحملوں کی صورت میں ایم کیوایم کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہیں توپھرکیاہوگا؟ابھی تک کسی بھی جماعت نے نشترپارک یامزارقائدسے متصل بڑے گراؤنڈ میں جلسہ نہیں کیاجوایک کروڑ80لاکھ کی آبادی والے شہرکی انتخابی رنگارنگی کالازمی حصہ ہے۔جماعتیں صرف کارنر میٹنگزکررہی ہیں ،حالیہ حملوں کے بعدبامعنی اوررنگارنگ انتخابی مہم پرسنجیدہ سوالات اٹھ رہے ہیں۔
سندھ ،بلوچستان اورکے پی کے کے بڑے شہروں میں امن وامان برقراررکھنے کیلئے فوج کی فوری تعیناتی سے پھیکے انتخابی ماحول میں کچھ رونق آسکتی ہے ۔یہ وقت ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان تسلیم کرے کہ وہ موجودہ صورتحال میں آزادانہ اورمنصفانہ انتخابات کی ضمانت نہیں دے سکتا۔وہ یہ کیوں نہیں تسلیم کررہے کہ پیپلزپارٹی ،اے این پی اورایم کیوایم کوبرابرکے مواقع نہیں مل رہے۔نوازشریف کوان جماعتوں کی حمایت میں آگے آناچاہیے اورتسلیم کرناچاہیے کہ وہ نشانے پرہیں۔ عمران خان،منورحسن اورفضل الرحمن کواسی سیاسی تشددکیخلاف بولنااوراپیل کرناچاہیے۔
کیاچیف الیکشن کمشنرجسٹس(ر)فخرالدین جی ابراہیم اپنی خاموشی توڑکریہ حقیقت تسلیم کریں گے؟بلاول کوخفیہ ایجنسیوں کی طرف سے کیاگیاہے کہ وہ کھلے مقامات پرجلسوں یاریلیوں سے خطاب نہ کریں۔پیپلزپارٹی اپنا 31سے 33فیصد ووٹ بینک جوکم ہورہاہے ،اسے حاصل کرنے کی سرتوڑکوشش کررہی ہے۔اسے تشہیری مہم سے زیادہ ذوالفقاربھٹواوربنظیربھٹوجیسے کرشماتی رہمناؤں کی جذباتی تقریروں کی ضرورت ہے۔نوجوان بلاول ابھی تک موثر ثابت نہیں ہوئے۔
پارٹی شاید 2بیٹیوں ،خصوصاًآصفہ کو میدان میں اتاردے جوزیادہ vocalثابت ہوسکتی ہیں۔ کراچی میں انتخابی صورتحال ڈرامائی اورتیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ایم کیوایم کے 2کارکنوں کی ہلاکت سے واضح طورپرمعلوم ہوتاہے کہ وہاںکس قدرہنگامہ خیزانتخابات ہونگے۔ایم کیوایم کے الطاف حسین نے الیکشن کمیشن کی طرف سے اقدامات نہ کرنے پر،جوابھی تک کے پی کے ، بلوچستان اورکراچی میں ناکام ہے ،نہ صرف بائیکاٹ کی دھمکی کاجارحانہ بیان جاری کیاہے بلکہ شہرمیں شدیدمابعداثرات کی تنبیہ کی ہے۔
حتی کہ ایم کیوایم کے مخالفین جماعت اسلامی،ن لیگ اورایم کیوایم حقیقی انتخابات سے پہلے وہاں فوج تعینات کرنے کامطالبہ کررہی ہے۔انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعدسے اب تک دہشت گردی کاسب سے زیادہ نشانہ بننے والی اے این پی نے ایم کیوایم کی آوازمیں آوازملاتے ہوئے خدشہ ظاہرکیاہے کہ اس کے مزیدرہنمانشانہ بن سکتے ہیں۔واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے ان کے مرکزی رہنماغلام بلورخودکشں حملے میں بال بال بچے۔موجودہ صورتحال کے مطابق انتخابی مہم صرف پنجاب میں اورصرف مسلم لیگ ن ،تحریک انصاف ،جماعت اسلامی اورجے یوآئی ف کیلیے نظرآرہی ہے۔
لیگی رہمنانوازشریف اورشہبازشریف سخت سیکیورٹی میں مگرنہ صرف پنجاب بلکہ سندھ اورکے پی کے میں بھی جلسوں سے آزادانہ خطاب کررہے ہیں۔اسی طرح عمران خان بھی پنجاب اورکے پی کے میں انتخابی مہم تیزکرچکے ہیں تاہم یہ رہنماابھی تک کراچی نہیں گئے اورنہ ابھی تک ایساپروگرام بنایاہے۔جے یوآئی ف کیلیے بھی سیکیورٹی کے مسائل اس قدرباعث تشویش نہیں۔اس کے سربراہ فضل الرحمن پراعتمادہوکرکہتے ہیں کہ انھیں فاٹاتک میں ایسے مسائل کاسامنانہیں ہے۔
بلوچستان دوسراصوبہ ہے جہاں انتخابی مہم صرف کارنرمیٹنگز تک محدودہے،منگل کوخودکش حملے اورن لیگ کے رہنماپرحملہ جوقبائلی لڑائی کاشاخسانہ تھا،وہاں باقی دوہفتوں میں بڑی انتخابی مہم کاکم امکان نظرآتاہے۔انتخابی مہم میں، جو9مئی کوختم ہوجائے گی،لوگ پہلی بارپیپلزپارٹی اور اے این پی کاجلسہ شایدنہیں دیکھ پائیں گے ۔ایم کیوایم ،جس نے کچھ دن قبل جناح گراونڈمیں بڑے جلسے سے انتخابی مہم شروع کی تھی،اس کی طرف سے انتخابی سرگرمیاں معطل کیے جانے کے باعث صورتحال مزیدبدترہوگئی ہے۔
منگل کو2 کارکنوں کی ہلاکت کے بعدبدھ کوکراچی مکمل بندرہا۔ایم کیو ایم نے چیف الیکشن کمشنرکومطلع کیاکہ انھیں انتخابات سے قبل مزیدخون خرابے کاخدشہ ہے۔یہ کہنااگرچہ قبل ازوقت ہے کہ ایم کیوایم انتخابات کابائیکاٹ کرسکتی ہے تاہم وہ پارٹی رہنماؤں اورامیدواروں پرمزیدحملوں کی صورت میںایسا کر بھی سکتی ہے۔ایم کیوایم اگر، جس نے گذشتہ انتخابات میں 25 قومی اور51صوبائی نشستیں جیتیں تھیں،بائیکاٹ کرتی ہے توکراچی کے علاوہ سندھ کے مزیدشہروں میں بھی انتخابات کاانعقادمتاثرہوسکتاہے۔
اگرپیپلزپارٹی اوراے این پی بھی اپنے رہنماؤں اورامیدواروں پرحملوں کی صورت میں ایم کیوایم کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہیں توپھرکیاہوگا؟ابھی تک کسی بھی جماعت نے نشترپارک یامزارقائدسے متصل بڑے گراؤنڈ میں جلسہ نہیں کیاجوایک کروڑ80لاکھ کی آبادی والے شہرکی انتخابی رنگارنگی کالازمی حصہ ہے۔جماعتیں صرف کارنر میٹنگزکررہی ہیں ،حالیہ حملوں کے بعدبامعنی اوررنگارنگ انتخابی مہم پرسنجیدہ سوالات اٹھ رہے ہیں۔
سندھ ،بلوچستان اورکے پی کے کے بڑے شہروں میں امن وامان برقراررکھنے کیلئے فوج کی فوری تعیناتی سے پھیکے انتخابی ماحول میں کچھ رونق آسکتی ہے ۔یہ وقت ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان تسلیم کرے کہ وہ موجودہ صورتحال میں آزادانہ اورمنصفانہ انتخابات کی ضمانت نہیں دے سکتا۔وہ یہ کیوں نہیں تسلیم کررہے کہ پیپلزپارٹی ،اے این پی اورایم کیوایم کوبرابرکے مواقع نہیں مل رہے۔نوازشریف کوان جماعتوں کی حمایت میں آگے آناچاہیے اورتسلیم کرناچاہیے کہ وہ نشانے پرہیں۔ عمران خان،منورحسن اورفضل الرحمن کواسی سیاسی تشددکیخلاف بولنااوراپیل کرناچاہیے۔