لیاری کی ’’فلمی صنعت‘‘
جس علاقے کی پہچان گینگ وار بنادی گئی اب وہ کیمرے کی آنکھ سے اپنے روشن پہلو دکھا رہا ہے
ISLAMABAD:
شہر قائد کے جس علاقے میں ہم کھڑے تھے، اس جگہ کا نام ہی شاید دوسروں کے ہوش اڑانے کے لیے کافی ہو، ہمارے پیروں تلے موجود سڑک کتنے ہی خون آشام دنوں کی گواہ رہ چکی ہے۔
اس سڑک پر کبھی خون پانی کی طرح بہا کرتا تھا۔ اس سڑک نے گذشتہ چند دہائیوں میں طاقت اور قبضے کی جنگ میں کتنی ہی ماؤں کے بیٹوں، بہنوں کے بھائیوں، اور بیویوں کے سہاگوں کا خون بہتے دیکھا ہوگا۔ لیکن یہ علاقہ تو اب ایک الگ ہی کہانی پیش کر رہا تھا، گلیوں میں کھیلتے بچے، تَھڑوں پر بیٹھے بے فکری سے گپپیں لگاتے، اسمارٹ فونز استعمال کرتے نوجوان، نہ کسی نامعلوم گولی کا نشانہ بننے کا ڈر نہ کوئی اور خوف۔ یہ ہے کراچی کا علاقہ لیاری۔ لیاری اب ایسا علاقہ ہرگز نہیں، جہاں جنگل کا راج ہو، جہاں دن دہاڑے متحارب گروپ ایک دوسرے پر جدید ہتھیاروں اور دستی بموں سے لیس ہوکر حملہ کرتے رہے، لیاری اب جرائم پیشہ افراد، منشیات فروشوں اور گینگ وار کا گڑھ نہیں۔
اس علاقے میں بھی حالات اسی طرح خراب ہوتے ہیں جس طرح شہر کے دوسرے علاقوں میں ہوتے ہیں، جس طرح شہر کے دوسرے علاقوں میں خون خرابہ ہوتا ہے اسی طرح لیاری میں بھی ہوتا ہے، لیکن اب یہاں زندگی اپنی پوری گہماگہمی کے ساتھ جاگ اُٹھی ہے۔ اس بستی کے نام کے ساتھ جُڑے گینگ وار کے تصور کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہماری یہاں آمد کا مقصد لیاری کے ایسے با صلاحیت سے نوجوانوں سے ملاقات تھی، جو تمام تر نامساعد حالات کے باوجود لیاری کے مسائل کو فلم جیسے میڈیم کے ذریعے دنیا بھر میں اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو لوگ لیاری کو پس ماندگی اور گینگ وار استعارے کے طور پر جانتے ہیں انھیں اس علاقے میں فلم سازی کی ابھرتی صنعت کے بارے میں جان کر حیرت ہوگی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ لیاری ہمیشہ سے علمی وادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا گہوارہ رہا ہے، یہاں ایک طرف میدان فٹبال اور باکسنگ کے شان دار کھلاڑے پیدا کرتے رہے ہیں، تو دوسری طرف علم وادب اور ثقافت کے دیے بھی جا بہ جا روشن رہے ہیں۔
اور پھر سیاست تو اس علاقے کی شناخت ہے ہی۔ محض نعرے بازی کی سیاست نہیں، وہ سیاست جو فکروفلسفے کی گود میں پرورش پاتی ہے اور بحث ومباحثے کی فضا میں پروان چڑھتی ہے۔ اس پس منظر اور مصائب اور مسائل کے نرغے میں لیاری میں بہ صلاحیت نوجوانوں کی ایسی کھیپ کی کھیپ تیار ہوچکی ہے جو نہایت کم وسائل اور بہت مشکل حالات کے باوجود معیار شارٹ موویز بنارہے ہیں۔ ان کی تخلیقات عالمی سطح پر مختلف ایوارڈز بھی حاصل کرچکی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق لیاری میں اب تک سو سے زیادہ مختصر دورانیے کی فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔ یوں ''لیاری کی فلمی صنعت'' وجود میں آچکی ہے، اور امید ہے کہ یہ صنعت جلد عالمی سطح پر پاکستان کو چمکتا دمکتا حوالہ بنے گی۔ اس صنعت سے وابستہ افراد سے کی جانے والی گفتگو قارئین کے لیے پیش ہے۔
٭ نعیم نثار بلوچ
نعیم نثار بلوچ کو بلوچی زبان کی پہلی ٹیلی فلم بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس بابت ان کا کہنا ہے کہ 1974ء میں انور اقبال صاحب نے ایک رومانوی فیچر فلم ''ہمل و ماہ گنج'' کے نام سے بنائی جسے چلنے نہیں دیا گیا۔ اس وقت مجھ جیسے بہت سے بلوچی نوجوان اس فلم کے حق میں تھے، کیوں کہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ فلم کے ذریعے ہم اپنی زبان کی ترویج کر سکتے ہیں۔ 1982ء میں ہم دوستوں نے ایک ویڈیو کیمرا خریدا اور اس پر تجربات کرتے رہے۔
1986ء میں ہم نے پہلی بلوچی ٹیلی فلم طنز گیر (طنز کرنے والا) کے نام سے بنائی، جس کے ہم نے تین پارٹ بنائے۔ اس وقت ہماری اس جُرأت کو دیکھتے ہوئے لیاری کے دوسرے نوجوانوں نے بھی مختصر اور دستاویزی فلمیں بنانی شروع کردیں۔ یہاں میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ پہلی بلوچی فلم ''ہمل و ماہ گنج'' کی مخالفت صرف اسی وجہ سے کی گئی تھی کہ اس میں خواتین کو دکھا یا گیا تھا۔ اور اسی بنیاد پر ہماری فلم کو بھی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ فلم ''ہمل و ماہ گنج'' کے لیے یہ سلوگن بن گیا تھا کہ 'فلم چلے گی تو سنیما جلے گی' اور یہی مخالفت ہماری ٹیلی فلم طنزگیر کے لیے بھی تھی۔ اس وقت اگر اس فلم کی مخالفت نہ کی جاتی تو آج ہماری نسل اس صنعت میں اور بہتر مقام پر ہوتی۔
لیکن تمام تر مخالفت اور نامساعد حالات کے بعد اس کے باوجود ہم نے فلموں کے ذریعے اپنے آپ کو منوایا۔ کئی سال تک یہ معمول رہا کہ ملازمت کے ساتھ ساتھ فلم سازی بھی جاری رکھی اور درجن بھر فلمیں بنائیں۔ مجھے شروع دن سے اسکرین پلے لکھنے کا بہت شوق رہا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام میں زیادہ اچھے طریقے سے کرسکتا ہوں، میری اس صلاحیت کو نکھارنے میں بلوچی زبان کے بہت بڑے اداکار دُر محمد خان نے اہم کردار ادا کیا۔
معین اختر کو روحانی استاد سمجھتا ہوں، گھنٹوں ان کے ڈرامے دیکھ کر اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ ہر ساتھ کام کرنے والے سے کچھ نہ کچھ سیکھا۔ جہاں تک بات ہے کہ فلموں میں سرمایہ کاری کون کرتا ہے اس حوالے سے کبھی حکومتی یا کسی نجی ادارے کی جانب سے سرپرستی نہیں کی گئی۔ سب اخراجات خود پورے کیے، بہت سے اداکار ہمارے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کرتے تھے، جب کہ بلوچی زبان کے کچھ سنیئر اداکاروں کو ہم معاوضہ دیتے تھے۔ جب میں نے ٹیلی فلم طنز گیر بنائی تو میرے چاچا نے مجھے بلا کر کہا،''بے شرم آدمی! تم کو پتا ہے کہ تم کس قبیلے، کس خاندان سے تعلق رکھتے ہو، اور تم یہاں ناچ گا رہے ہو۔'' لیکن دو چار سال بعد اسی چاچا نے مجھے بلا کر کہا،''سنا ہے فلموں کے اداکار ہوگئے ہو ذرا اپنی فلم تو دکھاؤ!'' میں اس دن بہت خوش ہوا کہ میں جو کام کر رہا ہوں وہ غلط نہیں ہے۔
فلم سازی کے علاوہ میں نے بہت سی اُردو اور انگریزی زبان کی فلموں کی بلوچی زبان میں ڈبنگ کی۔ طنز گیر کی حمایت میں صرف شاہ جہاں بلوچ (لیاری کے ممتاز دانش ور) ہمارے ساتھ کھڑے تھے۔ انہوں نے ہماری حوصلہ افزائی کی، پوری ٹیم کو ایوارڈ دیے۔ اس وقت انہوں نے ایک بات کی تھی جو اب سچ ثابت ہوتی نظر آتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا،''نعیم بیٹا! تم جو کام کررہے ہوں یہ معمولی کام نہیں ہے۔ آگے چل کر جب بلوچی فلموں کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں تمہارا نام ضرور لکھا جائے گا۔'' بلوچی زبان ہمارا تشخص ہے اور میں اس پر فخر کرتا ہوں۔ اب آپ یہ دیکھیں کہ لیاری کی خواتین بھی فلم سازی کے میدان میں کام یابیاں حاصل کر رہی ہیں۔ اب بلوچی فلموں کو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی سراہا جارہا ہے۔
٭سید احسان شاہ
بین الاقوامی سطح پر لیاری کا نام روشن کرنے والے نوجوانوں میں ایک نام ابھرتے ہوئے فلم ساز، ہدایت کار سید احسان شاہ کا ہے، جن کی فلم ''جاور'' نے 2016ء میں بحرین کی حکومت کی جانب سے منعقد کیے جانے والے ''ناصر بن حماد یوتھ کریٹیویٹی ایوارڈفیسٹیول'' میں فلم سازی کے شعبے میں ایوارڈ حاصل کیا۔ یہ لیاری میں بننے والی کسی بھی فلم کو عالمی سطح پر ملنے والا پہلا ایوارڈ تھا۔ اس طرح احسان شاہ نے دنیا کو باور کرایا کہ لیاری صرف گینگ وار کا، خون خرابے کا نام نہیں ہے، لیاری بین الاقوامی سطح پر مشہور ہنرمند، بہ صلاحیت نوجوانوں، کھلاڑیوں، تیراکوں، باکسرز، دانش وروں ادیبوں کا مسکن بھی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ میری جائے پیدائش لیاری ہے۔ ان گلیوں سے بچپن کی یادیں وابستہ ہیں، ادب اور فنون لطیفہ سے آنکھ کھولتے ہی شناسائی ہوگئی تھی۔ بلوچی زبان میں پہلی غزل کہنے والے ملنگ شاہ میرے ابو کے نانا تھے، جو ایران سے ہجرت کرکے لیاری میں رہائش پذیر ہوگئے تھے۔ فلم سازی کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ میرا تعلق مڈل کلاس طبقے سے ہے۔ ذریعۂ معاش فلم سازی ہی ہے۔ میں 2009ء سے لیاری میں بلوچی زبان میں مختصر فلمیں بنا رہا ہوں۔
اب تک چھے مختصر دستاویزی فلمیں اور چار مختصر فلمیں بنا چکا ہوں۔ پہلی مختصر فلم 'وہیلز' کے نام سے بنائی جس میں لیاری کے سائیکلسٹس کی مہارت اور صلاحیتوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی۔ دوسری فلم 'ورکنگ وومین آف لیاری' کے نام سے لیاری کی اُن ملازمت پیشہ خواتین پر بنائی تھی جو نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھریلو فرائض بھی دل جمعی سے ادا کرتی ہیں۔
چار سال قبل اسٹریٹ چائلڈ فٹ بال ورلڈ کپ میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے اسٹریٹ چلڈرن اور لیاری کے فٹبالرز کو درپیش مسائل پر 'ہڈن ڈائمنڈ آف لیاری' کے نام سے فلم بنائی۔ ان تمام فلموں کو مقامی طور پر کافی سراہا گیا۔ 2011ء میں ''ہم آزمان'' (آسمان) کے نام سے پہلی مختصر فلم بنائی۔ 14منٹ دورانیے کی اس فکشن فلم میں ہم نے اُس دور میں لیاری میں ہونے والے اہدافی قتل، خون خرابے اور گروہی لڑائیوں کے نتیجے میں لیاری کے بچوں کے ذہنوں پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو اجاگر کیا تھا۔
احسان شاہ نے بتایا کہ انہوں نے فلم سازی کی تربیت شرمین عبید چنائے کی کو پروڈیوسر حیافاطمہ اقبال سے حاصل کی اور درحقیقت اسی عرصے میں دستاویزی فلمیں بنانے کا شوق پروان چڑھا، کیوں کہ ہمارے اسائنمنٹ ہی ڈاکیومینٹریز بنانا ہوتے تھے۔ 2016 ء میں ہم نے 'جاور' بنائی۔ مختصر دورانیے کی اس فلم میں لیاری میں ہونے والی گینگ وار کے نتیجے میں ہونے والے جانی و مالی نقصان اور گینگ وار کے ظلم کو موضوع بنایا گیا۔ ایسے حساس موضوع پر فلم بنا نے کا مقصد لوگوں کو لیاری کا اصل چہرہ دکھانا تھا، کیوں کہ ہر لیاری والے کو گینگز کا کارندہ کہا اور سمجھا جاتا ہے، ہم (لیاری کے باشندے) گینگز کے کارندے نہیں بل کہ ان کے ظلم کا شکار مظلوم لوگ ہیں۔
ہمارے ایک دوست نے ہمیں بحرین کے 'ناصر بن حماد یوتھ کریٹیویٹی ایوارڈ فیسٹیول' کا بتایا کہ بحرین کی حکومت کی جانب سے ایک فیسٹیول ہورہا ہے جس میں پوری دنیا سے فلمیں آرہی ہیں، تو تم بھی اپنی فلم اس ایوارڈ کے لیے بھیج دو۔ اس ایوارڈ میں شمولیت فری تھی۔ جب ہماری فلم شارٹ لسٹ ہوکر ٹاپ تھری میں پہنچی تو یہ بات ہی ہمارے لیے قابل فخر تھی کہ پہلی بار بلوچی زبان میں بننے والی فلم ایک بین الاقوامی ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئی۔ باقی دو فلموں میں ایک مِصر کی اور ایک میکسیکن تھی۔ میں خود میکسیکن فلموں کا بہت بڑا شیدائی ہوں اور پہلی بار ہی میرا مقابلہ ایک میکسیکن فلم سے تھا، جو کہ میرے لیے بہت بڑی بات تھی۔ اس ایوارڈ سے ملنے والی رقم سے ہم نے کچھ کیمرے اور تیکنیکی آلات خریدے۔
٭ نازنین شاہ
لیاری کی زرخیز زمین نے بہت سے ہیروں کو جنم دیا ہے جن میں سے ایک ابھرتا ہوا نام بلوچی زبان کی پہلی خاتون فلم ساز نازنین شاہ کا ہے۔ جو بلوچ روایات کے برعکس نہ صرف فلم سازی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کر رہی ہیں بل کہ حال ہی میں انہوں نے ' لیاری اے پریزن ود آؤٹ وال' کے نام سے ایک مختصر فلم بنائی ہے، جس میں لیاری کے ابھرتے ہوئے فٹبالرز کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اپنی الگ شناخت بنانے والی نازنین بلوچ، احسان شاہ کی اہلیہ ہیں۔
ایک نجی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والی نازنین شاہ مستقبل میں بھی اسی شعبے سے وابستہ رہنا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی ہمیں لیاری کے کچھ اور روشن پہلو بھی دنیا کو دکھا نے ہیں، لیاری میں صرف باکسر اور فٹبالر ہی نہیں ہیں، لیاری میں ڈانسر ہیں میوزیشن ہیں، ہمارے پاس تیراک بہت اچھے ہیں۔ ہم لیاری میں رہتے ہیں، اگر کسی کو بتائیں کہ ہم لیاری میں رہتے ہیں تو ہر کوئی ہمیں حیرانی سے دیکھ کر کہتا ہے آہ، لیاری میں رہتے ہو؟ تو ہم اپنی فلموں کے ذریعے لیاری کے مثبت پہلو دنیا کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔
یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے اس کام میں اپنے گھر والوں کی کسی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، ہاں البتہ جب میں نے فلم سازی میں تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تو اس وقت کچھ لوگوں کا کہنا تھا،''پاکستان میں فلم سازی کا کوئی مستقبل نہیں ہے، ایک تو تم بلوچ لڑکی، اوپر سے رہتی بھی لیاری میں ہو، تو اس کام میں تمہارے آگے بڑھنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔'' انہیں یہی لگتا تھا کہ میں اس کام میں فقط وقت کا زیاں کر رہی ہوں۔ لیکن جب میں نے یہ فلم بنائی تو لوگوں نے میرے کام کو بہت سراہا۔
فلم بنانے کے لیے دست یاب وسائل کی بابت ان کا کہنا ہے کہ فلم کی شوٹنگ تو ہم مختصر عرصے میں مکمل کرلیتے ہیں، لیکن ہمیں ایڈیٹنگ کرنے میں کئی ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ ہم نے طے کر رکھا ہے کہ ہر سال چھے ماہ بعد لیاری اور بلوچ عوام پر ایک مختصر فلم ضرور بنائیں گے۔ ہماری فلم کا میڈیم کیوں کہ بلوچی زبان ہے، اس لیے یہ کسی اردو چینل پر نہیں چل سکتی۔ ہم فلم بنانے کے بعد کوئی آڈیٹوریم بک کروا کر اپنی فلم کی اسکریننگ کرتے ہیں اور لیاری کے لوگوں کو مفت میں فلم دکھاتے ہیں، اور لوگ ہمارے کام کو بہت سراہتے بھی ہیں۔
٭ عدیل ولی رئیس
فلم کے یوں تو کئی میڈیم ہیں، لیکن 27 سالہ عدیل ولی رئیس نے اپنے لیے فلم کا ایک مشکل ترین میڈیم ' خاموش فلموں' کا چُنا۔ لیاری کے دبئی چوک میں جنم لینے والے عدیل کی تعلیم تو گرچہ انٹر ہے لیکن فلم سازی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے، بارہ سال کی عمر سے ہی اپنے والد ولی رئیس کے ساتھ فلموں کی ایڈیٹنگ سیکھنا شروع کردی تھی۔ فلم کے اس اہم ترین شعبے میں انتہائی مہارت رکھتے ہیں۔ اور اسی مہارت کی بنا پر فلم سازی اور گرافک ڈیزائننگ کی تعلیم دینے والے ایک بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ میں سینیماٹو گرافی اور فوٹو گرافی پڑھا رہے ہیں۔
لیاری میں فلم سازی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بابت ان کا کہنا ہے،''ہم یہ کام کسی فائدے کے لیے نہیں اپنی روایات، اپنی زبان کو برقرار رکھنے اور دنیا کو لیاری اور خصوصاً بلوچوں کا مثبت چہرہ دکھانے کے لیے کرتے ہیں، میں نے 2012 ء میں اپنی پہلی خاموش دستاویزی فلم موبائل فون کی مدد سے بنائی۔ بارہ منٹ دورانیے کی اس فلم کا نام ' نیڈ فائر ونگس ٹوورڈز اے نیو لائٹ' تھا۔ اس وقت کراچی میں لسانی فسادات اپنے عروج پر تھے۔
اس کے باوجود جشن آزادی کے موضوع پر یہ فلم بنائی۔ اس کے بعد مزید کچھ فلمیں بنائیں۔ 2014 ء میں ہونے والے لیاری فلم فیسٹول میں میری فلم' ٹوون زا ٹو' کو بہترین فلم کا ایوارڈ ملا۔ خاموش فلمیں بنانے کا مقصد ہر زبان کے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانا ہے۔ عدیل ولی رئیس اب تک بارہ ملکی ایوارڈ اور ایک بین الاقوامی ایوارڈ جیت چکے ہیں، ان کی ایک خاموش فلم 'پوسٹر' کو گذشتہ سال اٹلی میں ہونے والے مختصر فلموں کے بین الاقوامی فلم فیسٹول میں 'بیسٹ آڈینس ایوارڈ' سے نوازا گیا۔ ان کی زیادہ تر فلمیں سماجی مسائل، تعلیم اور چائلڈ لیبر کے موضوعات پر ہیں۔ حال ہی میں اُردو زبان میں بنائی گئی ایک فلم 'مائی مدرز برتھ ڈے' کی امریکا میں اسکریننگ ہوئی۔
یہ فلم ایشین فلم فیسٹول اور پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بھی ایوارڈ کے لیے منتخب ہوئی۔ ممتا جیسے انمول اور خوب صورت رشتے کے گرد گھومتی آٹھ منٹ دورانیے کی اس فلم میں سارے اداکار لیاری کے تھے۔ عدیل ولی کا کہنا ہے کہ کراچی اور پاکستان میں، میں نے ابھی تک کوئی ایسا فلم ساز نہیں دیکھا جو خاموش فلموں پر کام کر رہا ہو اور میں نے خود بھی ہالی وڈ سے متاثر ہوکر خاموش فلمیں بنانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے خاموش فلموں کے علاوہ2015ء میں 'شاہ' کے نام سے بننے والی ایک فیچر فلم کے لیے بہ طور معاون ہدایت کار کام کرنے کے ساتھ اس میں اداکاری بھی کی تھی۔ یہ فلم باکسنگ کے موضوع پر بنی تھی۔
لیاری میں فلموں کے لیے درکار وسائل کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ اس وقت لیاری میں چار پروڈکشنز ہاؤسز کام کر رہے ہیں، یہاں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن ہمیں اس کے لیے اپنی جیب بھی دیکھنی پڑتی ہے۔ ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی فلمی صنعت کے زیادہ تر لوگ ہمارے پاس آتے ہیں کہ جی ہمیں ولین کے کردار کے لیے کوئی بندہ چاہیے ۔ وہ لیاری کو صرف بد معاشوں، گینگ وار کا گڑھ سمجھتے ہیں۔ میں اپنی ساری فلموں میں مثبت پیغام دیتا ہوں، جب میں نے ''پوسٹر'' بنائی تھی تو میرے ساتھ ایک چھوٹا لڑکا تھا اس نے بارہ انٹر نیشنل تھیٹر کیے، تھیٹر کے علاوہ اسے ''عارفہ'' نامی فلم میں اہم کردار آفر ہوا، لیکن بدقسمتی سے یہ فلم کچھ وجوہات کی بنا پر مکمل نہیں ہوسکی۔
ان کا کہنا ہے کہ فلم کا یہ میڈیم نسبتاً تھوڑا مشکل ہے، کیوں کہ خاموش فلم کا اسکرپٹ اس طرح بنانا پڑتا ہے کہ ہر کردار اپنی حرکات و سکنات سے ناظر تک اپنا پیغام موثر طریقے سے پہنچا سکے۔ مزاحیہ فلموں میں تو یہ کام نسبتاً زیادہ آسان ہے کہ کردار اپنی حرکتوں سے ناظرین کو ہنسا کر لوٹ پوٹ کردے، لیکن سماجی مسائل پر ایک لفظ کہے بنا اپنا پیغام ناظر تک پہنچانا تھوڑا مشکل کام ہے۔ میں نے اُردو میں بھی فلمیں بنائیں، جن پر کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ ایک بلوچ اُردو زبان میں کیسے فلم بنا سکتا ہے، لیکن میں اُردو زبان میں اس لیے بھی فلمیں بناتا ہوں کیوں کہ اس زبان کی وسعت بہت زیادہ ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم بھی اپنے کام کو بین الاقوامی مارکیٹ تک پہنچانا چاہتے ہیں، ہم ساری زندگی تو اپنی جیب سے فلمیں نہیں بناسکتے ناں! اگر لیاری کے فلم سازوں کو اچھے آلات اور فلم بنانے کا بجٹ ملے تو پھر آپ دیکھیں کہ صرف لیاری نہیں بل کہ پورے پاکستان کی فلمی صنعت کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی۔
٭ عادل بزنجو
شرمیلی طبیعت اور دھیمے لہجے میں بات کرنے والے عادل بزنجو نے لیاری میں ہی جنم لیا۔ جامعہ کراچی سے فلم سازی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنا ذاتی پروڈکشن ہاؤس کھولا، جہاں وہ مختصر فلمیں، ٹی وی کمرشلز اور دستاویزی فلمیں بناتے ہیں۔ عادل بزنجو کا کہنا ہے کہ جامعہ کراچی میں فلم سازی کی تعلیم حاصل کرنے سے بہت پہلے ہی عملی طور پر اس شعبے سے وابستہ ہوگیا تھا، شروع میں ہم ڈبنگ کرتے تھے اس کے بعد مختصر اور دستاویزی فلمیں بنانی شروع کیں۔
ہمیں کبھی کسی ادارے نے سپورٹ نہیں کیا ہم دوست یا ر مل جل کر ہی یہ فلمیں بناتے ہیں، اسکریننگ کرتے ہیں۔ بلوچی زبان کی فلمی صنعت ابھی اتنی ڈیولپ نہیں ہوئی ہے کہ ہم فلمیں بناکر کچھ آمدنی حاصل کرسکیں۔ حال ہی میں ایک بلوچی فلم 'زراب' کی نیوپلیکس اور بحرین کے ایک سنیما میں اسکریننگ کی گئی جو کہ ہمارے لیے بہت خوش آئند بات ہے۔ بچپن ہی سے میری خواہش تھی کہ اپنی بات کسی طرح لوگوں تک پہنچا سکوں۔ 2014ء میں ہماری فلم 'اشتروشتی' کو آغا خان فلم فیسٹیول میں فکشن کی کٹیگری میں سارے ایوارڈ ملے، جب کہ ہماری ایک فلم 'جاور' کو بھی بحرین میں ہونے والے فلم فیسٹول ''ناصر بن حماد یوتھ کریٹیویٹی ایوارڈفیسٹیول'' میں پہلا انعام ملا۔ جہاں تک بات ہے فلم کی زبان کی تو ہماری اولین ترجیح تو اپنی مادری زبان بلوچی ہے، مگر ہم اُردو زبان میں بھی دستاویزی اور مختصر فلمیں بناتے ہیں۔
لیاری میں فلم سازی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ لیاری میں دس پندرہ سال جاری رہنے والی گروہی لڑائی نے یہاں کی بہت سی کہانیوں کو دبا دیا۔ یہاں کے نوجوانوں نے اپنے احساسات، مسائل اور اپنے تجربات کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے کے لیے فلم کے میڈیم کا سہارا لیا۔ گروہی لڑائیوں کے دوران میڈیا نے لیاری کو خانہ جنگی کے شکار علاقے کے طور پر پیش کیا، جب کہ لیاری ا س کے برعکس ہے۔ یہاں کے لوگ فن کے قدر دان ہیں، ادبی رجحان بہت زیادہ ہے، اس علاقے کے بہت سے ادیب، دانش ور، کھلاڑی، باکسر دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں، لیکن میڈیا نے اس بات کو کبھی نہیں بتایا اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے اپنے شہر کے لوگ ہی لیاری میں آنے سے ڈرتے ہیں۔
٭نصیر بنسار
لیاری کے ابھرتے ہوئے اداکاروں میں ایک نام نصیر بنسار کا ہے۔ لیاری کی پہلی خاتون ہدایت کار نازنین بلوچ کی فلم 'لیاری، اے پریزن ود آؤٹ وال' میں 'بَھنڈ' کے کردار میں اس کی جان دار اداکاری نے اس نوجوان کے لیے نئے دروازے وا کردیے ہیں۔ ریپ موسیقی کے دل داہ نصیر بنسار اس سے پہلے علی گُل پیر اور پاکستان کے دیگر معروف گلوکاروں کے ساتھ بہ طور ریپر کام کرچکے ہیں، لیکن اداکاری کا موقع انہیں نازنین بلوچ نے فراہم کیا۔ لیاری میں فلم سازی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بابت ان کا کہنا ہے کہ گینگ وار کے دنو ں میں لوگ کئی کئی دن گھروں میں محصور رہتے تھے تو ہم نوجوان وقت گزاری کے لیے موبائل فون کیمرے سے چھوٹے چھوٹے کلپ بنا کر ایک دوسرے کو بھیجتے تھے، جس سے نوجوانوں میں مختصرفلمیں بنانے کا رجحان بڑھا۔ اب آپ خود دیکھیں کہ مجھ سمیت کئی نوجوان گھر والوں کی سخت مخالفت کے باوجود اپنے شوق کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہمارے لیے فلم ہی سب سے موثر ذریعہ ہے، جس کی مدد سے ہم اس تاثر کو ختم کرسکتے ہیں کہ جی لیاری صرف گینگ وار والوں کا نہیں بلکہ ایسے نوجوانوں کا علاقہ ہے جنہیں اگر موقع دیا جائے تو وہ فلم سازی میں دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرسکتے ہیں۔
٭ شہباز ملک
جامعہ اُردو سے میڈیا سائنسز میں بی ایس کرنے والے نوجوان شہباز ملک کا نام لیاری کے فلمی حلقوں کے لیے نیا نہیں ہے کیوں کہ میٹرک کرنے کے فوراً بعد ہی فلم سازی کی طرف آگئے تھے۔ اپنے اس شوق کی خاطر ابتدا میں گھر والوں کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ شہباز ملک کو تیکنیکی مہارت آسکر ایوارڈ یافتہ پاکستانی فلم ساز شرمین عبید چنائے کے ساتھ کام کرکے ملی۔ انہوں نے گذشتہ چند سال سے اپنے طور پر مختصر اور دستاویزی فلمیں بنانی شروع کیں۔ لیاری کے دوسرے فلم سازوں کی طرح شہباز بھی اس صنعت کے فروغ میں حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے نالاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم تعلیم کے ساتھ ساتھ نوکری کرکے فلمیں بنانے کے لیے پیسے جمع کرتے ہیں اور جب ایک مختصر فلم بنانے کے لیے پیسے جمع ہوجاتے ہیں تو پھر ہم فلم بنانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
ابھی تک بلوچی زبان میں ہی فلمیں بنائی ہیں لیکن آگے چل کر اُردو اور انگریزی میں فلمیں بنانا چاہتا ہوں کیوںکہ اپنے کام کو دنیا بھر میں پہنچانے اور بہتر ابلاغ کے لیے ضروری ہے کہ اس زبان میں فلم سازی کی جائے جس کی وسعت زیادہ ہو، لیکن بلوچی زبان کی ترویج میرا خواب ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میرا شمار بلوچی زبان کے ممتاز فلم سازوں میں کیا جائے۔ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود ہم فلم سازی کر رہے ہیں، کیوں کہ جن حالات اور مسائل کا سامنا ہم لوگ کر رہے ہیں، انہیں اجاگر کرنے کے لیے باہر سے آنے والے لوگ اتنا اچھا کام نہیں کر سکتے۔
٭شریف رند
بتیس سال سے بلوچی فلموں میں کام کرنے والے شریف رند کا شمار لیاری کے سنیئر اداکاروں میں ہوتا ہے۔ 1986ء میں بلوچی زبان کی پہلی ٹیلی فلم طنز گیر سے اداکاری کا آغاز کرنے والے شریف رند سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنے شوق کو بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس بابت ان کا کہنا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ خوش قسمت انسان وہ ہے جس کا شوق اس کا ذریعہ معاش بھی ہو۔ اگر مجھے اداکاری سے اچھی آمدن ہورہی ہوتی تو میں اپنی سرکاری ملازمت بھی چھوڑ دیتا۔ ماضی میں فلم سازی اتنا آسان کام نہیں تھا اور مجھے یاد ہے کہ جب پہلی بار اداکاری کی تو اس وقت ری ٹیک کی گنجائش نہیں ہوتی تھی، ایک سین کرنا ہے تو وہ ایک ہی ٹیک میں ہوگا۔ ایم فائیو کے وی سی آر پر پوری فلم بنتی تھی۔ اب تو جدید کیمروں اور سافٹ ویئرز کی بدولت ماضی کے برعکس فلم بنانا زیادہ آسان ہوگیا ہے۔
ہم لیاری والوں کے پاس فلم سازی کی اعلٰی تعلیم نہیں ہے، ڈپلومے نہیں ہیں، فلم سازی کے جدید آلات نہیں ہیں، لیکن عملی طور پر ہمیں فلم بنانے کا بہت وسیع تیکنیکی تجربہ ہے۔ 1986ء میں جب میں نے گھر والوں کو بتایا کہ میں فلم میں کام کررہا ہوں تو نہ صرف گھر والوں بلکہ دوستوں اور محلے والوں کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اب لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ ہماری نسل میں فلم سازی اور اس کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔
شہر قائد کے جس علاقے میں ہم کھڑے تھے، اس جگہ کا نام ہی شاید دوسروں کے ہوش اڑانے کے لیے کافی ہو، ہمارے پیروں تلے موجود سڑک کتنے ہی خون آشام دنوں کی گواہ رہ چکی ہے۔
اس سڑک پر کبھی خون پانی کی طرح بہا کرتا تھا۔ اس سڑک نے گذشتہ چند دہائیوں میں طاقت اور قبضے کی جنگ میں کتنی ہی ماؤں کے بیٹوں، بہنوں کے بھائیوں، اور بیویوں کے سہاگوں کا خون بہتے دیکھا ہوگا۔ لیکن یہ علاقہ تو اب ایک الگ ہی کہانی پیش کر رہا تھا، گلیوں میں کھیلتے بچے، تَھڑوں پر بیٹھے بے فکری سے گپپیں لگاتے، اسمارٹ فونز استعمال کرتے نوجوان، نہ کسی نامعلوم گولی کا نشانہ بننے کا ڈر نہ کوئی اور خوف۔ یہ ہے کراچی کا علاقہ لیاری۔ لیاری اب ایسا علاقہ ہرگز نہیں، جہاں جنگل کا راج ہو، جہاں دن دہاڑے متحارب گروپ ایک دوسرے پر جدید ہتھیاروں اور دستی بموں سے لیس ہوکر حملہ کرتے رہے، لیاری اب جرائم پیشہ افراد، منشیات فروشوں اور گینگ وار کا گڑھ نہیں۔
اس علاقے میں بھی حالات اسی طرح خراب ہوتے ہیں جس طرح شہر کے دوسرے علاقوں میں ہوتے ہیں، جس طرح شہر کے دوسرے علاقوں میں خون خرابہ ہوتا ہے اسی طرح لیاری میں بھی ہوتا ہے، لیکن اب یہاں زندگی اپنی پوری گہماگہمی کے ساتھ جاگ اُٹھی ہے۔ اس بستی کے نام کے ساتھ جُڑے گینگ وار کے تصور کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہماری یہاں آمد کا مقصد لیاری کے ایسے با صلاحیت سے نوجوانوں سے ملاقات تھی، جو تمام تر نامساعد حالات کے باوجود لیاری کے مسائل کو فلم جیسے میڈیم کے ذریعے دنیا بھر میں اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو لوگ لیاری کو پس ماندگی اور گینگ وار استعارے کے طور پر جانتے ہیں انھیں اس علاقے میں فلم سازی کی ابھرتی صنعت کے بارے میں جان کر حیرت ہوگی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ لیاری ہمیشہ سے علمی وادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا گہوارہ رہا ہے، یہاں ایک طرف میدان فٹبال اور باکسنگ کے شان دار کھلاڑے پیدا کرتے رہے ہیں، تو دوسری طرف علم وادب اور ثقافت کے دیے بھی جا بہ جا روشن رہے ہیں۔
اور پھر سیاست تو اس علاقے کی شناخت ہے ہی۔ محض نعرے بازی کی سیاست نہیں، وہ سیاست جو فکروفلسفے کی گود میں پرورش پاتی ہے اور بحث ومباحثے کی فضا میں پروان چڑھتی ہے۔ اس پس منظر اور مصائب اور مسائل کے نرغے میں لیاری میں بہ صلاحیت نوجوانوں کی ایسی کھیپ کی کھیپ تیار ہوچکی ہے جو نہایت کم وسائل اور بہت مشکل حالات کے باوجود معیار شارٹ موویز بنارہے ہیں۔ ان کی تخلیقات عالمی سطح پر مختلف ایوارڈز بھی حاصل کرچکی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق لیاری میں اب تک سو سے زیادہ مختصر دورانیے کی فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔ یوں ''لیاری کی فلمی صنعت'' وجود میں آچکی ہے، اور امید ہے کہ یہ صنعت جلد عالمی سطح پر پاکستان کو چمکتا دمکتا حوالہ بنے گی۔ اس صنعت سے وابستہ افراد سے کی جانے والی گفتگو قارئین کے لیے پیش ہے۔
٭ نعیم نثار بلوچ
نعیم نثار بلوچ کو بلوچی زبان کی پہلی ٹیلی فلم بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس بابت ان کا کہنا ہے کہ 1974ء میں انور اقبال صاحب نے ایک رومانوی فیچر فلم ''ہمل و ماہ گنج'' کے نام سے بنائی جسے چلنے نہیں دیا گیا۔ اس وقت مجھ جیسے بہت سے بلوچی نوجوان اس فلم کے حق میں تھے، کیوں کہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ فلم کے ذریعے ہم اپنی زبان کی ترویج کر سکتے ہیں۔ 1982ء میں ہم دوستوں نے ایک ویڈیو کیمرا خریدا اور اس پر تجربات کرتے رہے۔
1986ء میں ہم نے پہلی بلوچی ٹیلی فلم طنز گیر (طنز کرنے والا) کے نام سے بنائی، جس کے ہم نے تین پارٹ بنائے۔ اس وقت ہماری اس جُرأت کو دیکھتے ہوئے لیاری کے دوسرے نوجوانوں نے بھی مختصر اور دستاویزی فلمیں بنانی شروع کردیں۔ یہاں میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ پہلی بلوچی فلم ''ہمل و ماہ گنج'' کی مخالفت صرف اسی وجہ سے کی گئی تھی کہ اس میں خواتین کو دکھا یا گیا تھا۔ اور اسی بنیاد پر ہماری فلم کو بھی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ فلم ''ہمل و ماہ گنج'' کے لیے یہ سلوگن بن گیا تھا کہ 'فلم چلے گی تو سنیما جلے گی' اور یہی مخالفت ہماری ٹیلی فلم طنزگیر کے لیے بھی تھی۔ اس وقت اگر اس فلم کی مخالفت نہ کی جاتی تو آج ہماری نسل اس صنعت میں اور بہتر مقام پر ہوتی۔
لیکن تمام تر مخالفت اور نامساعد حالات کے بعد اس کے باوجود ہم نے فلموں کے ذریعے اپنے آپ کو منوایا۔ کئی سال تک یہ معمول رہا کہ ملازمت کے ساتھ ساتھ فلم سازی بھی جاری رکھی اور درجن بھر فلمیں بنائیں۔ مجھے شروع دن سے اسکرین پلے لکھنے کا بہت شوق رہا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام میں زیادہ اچھے طریقے سے کرسکتا ہوں، میری اس صلاحیت کو نکھارنے میں بلوچی زبان کے بہت بڑے اداکار دُر محمد خان نے اہم کردار ادا کیا۔
معین اختر کو روحانی استاد سمجھتا ہوں، گھنٹوں ان کے ڈرامے دیکھ کر اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ ہر ساتھ کام کرنے والے سے کچھ نہ کچھ سیکھا۔ جہاں تک بات ہے کہ فلموں میں سرمایہ کاری کون کرتا ہے اس حوالے سے کبھی حکومتی یا کسی نجی ادارے کی جانب سے سرپرستی نہیں کی گئی۔ سب اخراجات خود پورے کیے، بہت سے اداکار ہمارے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کرتے تھے، جب کہ بلوچی زبان کے کچھ سنیئر اداکاروں کو ہم معاوضہ دیتے تھے۔ جب میں نے ٹیلی فلم طنز گیر بنائی تو میرے چاچا نے مجھے بلا کر کہا،''بے شرم آدمی! تم کو پتا ہے کہ تم کس قبیلے، کس خاندان سے تعلق رکھتے ہو، اور تم یہاں ناچ گا رہے ہو۔'' لیکن دو چار سال بعد اسی چاچا نے مجھے بلا کر کہا،''سنا ہے فلموں کے اداکار ہوگئے ہو ذرا اپنی فلم تو دکھاؤ!'' میں اس دن بہت خوش ہوا کہ میں جو کام کر رہا ہوں وہ غلط نہیں ہے۔
فلم سازی کے علاوہ میں نے بہت سی اُردو اور انگریزی زبان کی فلموں کی بلوچی زبان میں ڈبنگ کی۔ طنز گیر کی حمایت میں صرف شاہ جہاں بلوچ (لیاری کے ممتاز دانش ور) ہمارے ساتھ کھڑے تھے۔ انہوں نے ہماری حوصلہ افزائی کی، پوری ٹیم کو ایوارڈ دیے۔ اس وقت انہوں نے ایک بات کی تھی جو اب سچ ثابت ہوتی نظر آتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا،''نعیم بیٹا! تم جو کام کررہے ہوں یہ معمولی کام نہیں ہے۔ آگے چل کر جب بلوچی فلموں کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں تمہارا نام ضرور لکھا جائے گا۔'' بلوچی زبان ہمارا تشخص ہے اور میں اس پر فخر کرتا ہوں۔ اب آپ یہ دیکھیں کہ لیاری کی خواتین بھی فلم سازی کے میدان میں کام یابیاں حاصل کر رہی ہیں۔ اب بلوچی فلموں کو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی سراہا جارہا ہے۔
٭سید احسان شاہ
بین الاقوامی سطح پر لیاری کا نام روشن کرنے والے نوجوانوں میں ایک نام ابھرتے ہوئے فلم ساز، ہدایت کار سید احسان شاہ کا ہے، جن کی فلم ''جاور'' نے 2016ء میں بحرین کی حکومت کی جانب سے منعقد کیے جانے والے ''ناصر بن حماد یوتھ کریٹیویٹی ایوارڈفیسٹیول'' میں فلم سازی کے شعبے میں ایوارڈ حاصل کیا۔ یہ لیاری میں بننے والی کسی بھی فلم کو عالمی سطح پر ملنے والا پہلا ایوارڈ تھا۔ اس طرح احسان شاہ نے دنیا کو باور کرایا کہ لیاری صرف گینگ وار کا، خون خرابے کا نام نہیں ہے، لیاری بین الاقوامی سطح پر مشہور ہنرمند، بہ صلاحیت نوجوانوں، کھلاڑیوں، تیراکوں، باکسرز، دانش وروں ادیبوں کا مسکن بھی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ میری جائے پیدائش لیاری ہے۔ ان گلیوں سے بچپن کی یادیں وابستہ ہیں، ادب اور فنون لطیفہ سے آنکھ کھولتے ہی شناسائی ہوگئی تھی۔ بلوچی زبان میں پہلی غزل کہنے والے ملنگ شاہ میرے ابو کے نانا تھے، جو ایران سے ہجرت کرکے لیاری میں رہائش پذیر ہوگئے تھے۔ فلم سازی کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ میرا تعلق مڈل کلاس طبقے سے ہے۔ ذریعۂ معاش فلم سازی ہی ہے۔ میں 2009ء سے لیاری میں بلوچی زبان میں مختصر فلمیں بنا رہا ہوں۔
اب تک چھے مختصر دستاویزی فلمیں اور چار مختصر فلمیں بنا چکا ہوں۔ پہلی مختصر فلم 'وہیلز' کے نام سے بنائی جس میں لیاری کے سائیکلسٹس کی مہارت اور صلاحیتوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی۔ دوسری فلم 'ورکنگ وومین آف لیاری' کے نام سے لیاری کی اُن ملازمت پیشہ خواتین پر بنائی تھی جو نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھریلو فرائض بھی دل جمعی سے ادا کرتی ہیں۔
چار سال قبل اسٹریٹ چائلڈ فٹ بال ورلڈ کپ میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے اسٹریٹ چلڈرن اور لیاری کے فٹبالرز کو درپیش مسائل پر 'ہڈن ڈائمنڈ آف لیاری' کے نام سے فلم بنائی۔ ان تمام فلموں کو مقامی طور پر کافی سراہا گیا۔ 2011ء میں ''ہم آزمان'' (آسمان) کے نام سے پہلی مختصر فلم بنائی۔ 14منٹ دورانیے کی اس فکشن فلم میں ہم نے اُس دور میں لیاری میں ہونے والے اہدافی قتل، خون خرابے اور گروہی لڑائیوں کے نتیجے میں لیاری کے بچوں کے ذہنوں پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو اجاگر کیا تھا۔
احسان شاہ نے بتایا کہ انہوں نے فلم سازی کی تربیت شرمین عبید چنائے کی کو پروڈیوسر حیافاطمہ اقبال سے حاصل کی اور درحقیقت اسی عرصے میں دستاویزی فلمیں بنانے کا شوق پروان چڑھا، کیوں کہ ہمارے اسائنمنٹ ہی ڈاکیومینٹریز بنانا ہوتے تھے۔ 2016 ء میں ہم نے 'جاور' بنائی۔ مختصر دورانیے کی اس فلم میں لیاری میں ہونے والی گینگ وار کے نتیجے میں ہونے والے جانی و مالی نقصان اور گینگ وار کے ظلم کو موضوع بنایا گیا۔ ایسے حساس موضوع پر فلم بنا نے کا مقصد لوگوں کو لیاری کا اصل چہرہ دکھانا تھا، کیوں کہ ہر لیاری والے کو گینگز کا کارندہ کہا اور سمجھا جاتا ہے، ہم (لیاری کے باشندے) گینگز کے کارندے نہیں بل کہ ان کے ظلم کا شکار مظلوم لوگ ہیں۔
ہمارے ایک دوست نے ہمیں بحرین کے 'ناصر بن حماد یوتھ کریٹیویٹی ایوارڈ فیسٹیول' کا بتایا کہ بحرین کی حکومت کی جانب سے ایک فیسٹیول ہورہا ہے جس میں پوری دنیا سے فلمیں آرہی ہیں، تو تم بھی اپنی فلم اس ایوارڈ کے لیے بھیج دو۔ اس ایوارڈ میں شمولیت فری تھی۔ جب ہماری فلم شارٹ لسٹ ہوکر ٹاپ تھری میں پہنچی تو یہ بات ہی ہمارے لیے قابل فخر تھی کہ پہلی بار بلوچی زبان میں بننے والی فلم ایک بین الاقوامی ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئی۔ باقی دو فلموں میں ایک مِصر کی اور ایک میکسیکن تھی۔ میں خود میکسیکن فلموں کا بہت بڑا شیدائی ہوں اور پہلی بار ہی میرا مقابلہ ایک میکسیکن فلم سے تھا، جو کہ میرے لیے بہت بڑی بات تھی۔ اس ایوارڈ سے ملنے والی رقم سے ہم نے کچھ کیمرے اور تیکنیکی آلات خریدے۔
٭ نازنین شاہ
لیاری کی زرخیز زمین نے بہت سے ہیروں کو جنم دیا ہے جن میں سے ایک ابھرتا ہوا نام بلوچی زبان کی پہلی خاتون فلم ساز نازنین شاہ کا ہے۔ جو بلوچ روایات کے برعکس نہ صرف فلم سازی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کر رہی ہیں بل کہ حال ہی میں انہوں نے ' لیاری اے پریزن ود آؤٹ وال' کے نام سے ایک مختصر فلم بنائی ہے، جس میں لیاری کے ابھرتے ہوئے فٹبالرز کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اپنی الگ شناخت بنانے والی نازنین بلوچ، احسان شاہ کی اہلیہ ہیں۔
ایک نجی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والی نازنین شاہ مستقبل میں بھی اسی شعبے سے وابستہ رہنا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی ہمیں لیاری کے کچھ اور روشن پہلو بھی دنیا کو دکھا نے ہیں، لیاری میں صرف باکسر اور فٹبالر ہی نہیں ہیں، لیاری میں ڈانسر ہیں میوزیشن ہیں، ہمارے پاس تیراک بہت اچھے ہیں۔ ہم لیاری میں رہتے ہیں، اگر کسی کو بتائیں کہ ہم لیاری میں رہتے ہیں تو ہر کوئی ہمیں حیرانی سے دیکھ کر کہتا ہے آہ، لیاری میں رہتے ہو؟ تو ہم اپنی فلموں کے ذریعے لیاری کے مثبت پہلو دنیا کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔
یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے اس کام میں اپنے گھر والوں کی کسی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، ہاں البتہ جب میں نے فلم سازی میں تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تو اس وقت کچھ لوگوں کا کہنا تھا،''پاکستان میں فلم سازی کا کوئی مستقبل نہیں ہے، ایک تو تم بلوچ لڑکی، اوپر سے رہتی بھی لیاری میں ہو، تو اس کام میں تمہارے آگے بڑھنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔'' انہیں یہی لگتا تھا کہ میں اس کام میں فقط وقت کا زیاں کر رہی ہوں۔ لیکن جب میں نے یہ فلم بنائی تو لوگوں نے میرے کام کو بہت سراہا۔
فلم بنانے کے لیے دست یاب وسائل کی بابت ان کا کہنا ہے کہ فلم کی شوٹنگ تو ہم مختصر عرصے میں مکمل کرلیتے ہیں، لیکن ہمیں ایڈیٹنگ کرنے میں کئی ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ ہم نے طے کر رکھا ہے کہ ہر سال چھے ماہ بعد لیاری اور بلوچ عوام پر ایک مختصر فلم ضرور بنائیں گے۔ ہماری فلم کا میڈیم کیوں کہ بلوچی زبان ہے، اس لیے یہ کسی اردو چینل پر نہیں چل سکتی۔ ہم فلم بنانے کے بعد کوئی آڈیٹوریم بک کروا کر اپنی فلم کی اسکریننگ کرتے ہیں اور لیاری کے لوگوں کو مفت میں فلم دکھاتے ہیں، اور لوگ ہمارے کام کو بہت سراہتے بھی ہیں۔
٭ عدیل ولی رئیس
فلم کے یوں تو کئی میڈیم ہیں، لیکن 27 سالہ عدیل ولی رئیس نے اپنے لیے فلم کا ایک مشکل ترین میڈیم ' خاموش فلموں' کا چُنا۔ لیاری کے دبئی چوک میں جنم لینے والے عدیل کی تعلیم تو گرچہ انٹر ہے لیکن فلم سازی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے، بارہ سال کی عمر سے ہی اپنے والد ولی رئیس کے ساتھ فلموں کی ایڈیٹنگ سیکھنا شروع کردی تھی۔ فلم کے اس اہم ترین شعبے میں انتہائی مہارت رکھتے ہیں۔ اور اسی مہارت کی بنا پر فلم سازی اور گرافک ڈیزائننگ کی تعلیم دینے والے ایک بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ میں سینیماٹو گرافی اور فوٹو گرافی پڑھا رہے ہیں۔
لیاری میں فلم سازی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بابت ان کا کہنا ہے،''ہم یہ کام کسی فائدے کے لیے نہیں اپنی روایات، اپنی زبان کو برقرار رکھنے اور دنیا کو لیاری اور خصوصاً بلوچوں کا مثبت چہرہ دکھانے کے لیے کرتے ہیں، میں نے 2012 ء میں اپنی پہلی خاموش دستاویزی فلم موبائل فون کی مدد سے بنائی۔ بارہ منٹ دورانیے کی اس فلم کا نام ' نیڈ فائر ونگس ٹوورڈز اے نیو لائٹ' تھا۔ اس وقت کراچی میں لسانی فسادات اپنے عروج پر تھے۔
اس کے باوجود جشن آزادی کے موضوع پر یہ فلم بنائی۔ اس کے بعد مزید کچھ فلمیں بنائیں۔ 2014 ء میں ہونے والے لیاری فلم فیسٹول میں میری فلم' ٹوون زا ٹو' کو بہترین فلم کا ایوارڈ ملا۔ خاموش فلمیں بنانے کا مقصد ہر زبان کے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانا ہے۔ عدیل ولی رئیس اب تک بارہ ملکی ایوارڈ اور ایک بین الاقوامی ایوارڈ جیت چکے ہیں، ان کی ایک خاموش فلم 'پوسٹر' کو گذشتہ سال اٹلی میں ہونے والے مختصر فلموں کے بین الاقوامی فلم فیسٹول میں 'بیسٹ آڈینس ایوارڈ' سے نوازا گیا۔ ان کی زیادہ تر فلمیں سماجی مسائل، تعلیم اور چائلڈ لیبر کے موضوعات پر ہیں۔ حال ہی میں اُردو زبان میں بنائی گئی ایک فلم 'مائی مدرز برتھ ڈے' کی امریکا میں اسکریننگ ہوئی۔
یہ فلم ایشین فلم فیسٹول اور پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بھی ایوارڈ کے لیے منتخب ہوئی۔ ممتا جیسے انمول اور خوب صورت رشتے کے گرد گھومتی آٹھ منٹ دورانیے کی اس فلم میں سارے اداکار لیاری کے تھے۔ عدیل ولی کا کہنا ہے کہ کراچی اور پاکستان میں، میں نے ابھی تک کوئی ایسا فلم ساز نہیں دیکھا جو خاموش فلموں پر کام کر رہا ہو اور میں نے خود بھی ہالی وڈ سے متاثر ہوکر خاموش فلمیں بنانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے خاموش فلموں کے علاوہ2015ء میں 'شاہ' کے نام سے بننے والی ایک فیچر فلم کے لیے بہ طور معاون ہدایت کار کام کرنے کے ساتھ اس میں اداکاری بھی کی تھی۔ یہ فلم باکسنگ کے موضوع پر بنی تھی۔
لیاری میں فلموں کے لیے درکار وسائل کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ اس وقت لیاری میں چار پروڈکشنز ہاؤسز کام کر رہے ہیں، یہاں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن ہمیں اس کے لیے اپنی جیب بھی دیکھنی پڑتی ہے۔ ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی فلمی صنعت کے زیادہ تر لوگ ہمارے پاس آتے ہیں کہ جی ہمیں ولین کے کردار کے لیے کوئی بندہ چاہیے ۔ وہ لیاری کو صرف بد معاشوں، گینگ وار کا گڑھ سمجھتے ہیں۔ میں اپنی ساری فلموں میں مثبت پیغام دیتا ہوں، جب میں نے ''پوسٹر'' بنائی تھی تو میرے ساتھ ایک چھوٹا لڑکا تھا اس نے بارہ انٹر نیشنل تھیٹر کیے، تھیٹر کے علاوہ اسے ''عارفہ'' نامی فلم میں اہم کردار آفر ہوا، لیکن بدقسمتی سے یہ فلم کچھ وجوہات کی بنا پر مکمل نہیں ہوسکی۔
ان کا کہنا ہے کہ فلم کا یہ میڈیم نسبتاً تھوڑا مشکل ہے، کیوں کہ خاموش فلم کا اسکرپٹ اس طرح بنانا پڑتا ہے کہ ہر کردار اپنی حرکات و سکنات سے ناظر تک اپنا پیغام موثر طریقے سے پہنچا سکے۔ مزاحیہ فلموں میں تو یہ کام نسبتاً زیادہ آسان ہے کہ کردار اپنی حرکتوں سے ناظرین کو ہنسا کر لوٹ پوٹ کردے، لیکن سماجی مسائل پر ایک لفظ کہے بنا اپنا پیغام ناظر تک پہنچانا تھوڑا مشکل کام ہے۔ میں نے اُردو میں بھی فلمیں بنائیں، جن پر کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ ایک بلوچ اُردو زبان میں کیسے فلم بنا سکتا ہے، لیکن میں اُردو زبان میں اس لیے بھی فلمیں بناتا ہوں کیوں کہ اس زبان کی وسعت بہت زیادہ ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم بھی اپنے کام کو بین الاقوامی مارکیٹ تک پہنچانا چاہتے ہیں، ہم ساری زندگی تو اپنی جیب سے فلمیں نہیں بناسکتے ناں! اگر لیاری کے فلم سازوں کو اچھے آلات اور فلم بنانے کا بجٹ ملے تو پھر آپ دیکھیں کہ صرف لیاری نہیں بل کہ پورے پاکستان کی فلمی صنعت کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی۔
٭ عادل بزنجو
شرمیلی طبیعت اور دھیمے لہجے میں بات کرنے والے عادل بزنجو نے لیاری میں ہی جنم لیا۔ جامعہ کراچی سے فلم سازی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنا ذاتی پروڈکشن ہاؤس کھولا، جہاں وہ مختصر فلمیں، ٹی وی کمرشلز اور دستاویزی فلمیں بناتے ہیں۔ عادل بزنجو کا کہنا ہے کہ جامعہ کراچی میں فلم سازی کی تعلیم حاصل کرنے سے بہت پہلے ہی عملی طور پر اس شعبے سے وابستہ ہوگیا تھا، شروع میں ہم ڈبنگ کرتے تھے اس کے بعد مختصر اور دستاویزی فلمیں بنانی شروع کیں۔
ہمیں کبھی کسی ادارے نے سپورٹ نہیں کیا ہم دوست یا ر مل جل کر ہی یہ فلمیں بناتے ہیں، اسکریننگ کرتے ہیں۔ بلوچی زبان کی فلمی صنعت ابھی اتنی ڈیولپ نہیں ہوئی ہے کہ ہم فلمیں بناکر کچھ آمدنی حاصل کرسکیں۔ حال ہی میں ایک بلوچی فلم 'زراب' کی نیوپلیکس اور بحرین کے ایک سنیما میں اسکریننگ کی گئی جو کہ ہمارے لیے بہت خوش آئند بات ہے۔ بچپن ہی سے میری خواہش تھی کہ اپنی بات کسی طرح لوگوں تک پہنچا سکوں۔ 2014ء میں ہماری فلم 'اشتروشتی' کو آغا خان فلم فیسٹیول میں فکشن کی کٹیگری میں سارے ایوارڈ ملے، جب کہ ہماری ایک فلم 'جاور' کو بھی بحرین میں ہونے والے فلم فیسٹول ''ناصر بن حماد یوتھ کریٹیویٹی ایوارڈفیسٹیول'' میں پہلا انعام ملا۔ جہاں تک بات ہے فلم کی زبان کی تو ہماری اولین ترجیح تو اپنی مادری زبان بلوچی ہے، مگر ہم اُردو زبان میں بھی دستاویزی اور مختصر فلمیں بناتے ہیں۔
لیاری میں فلم سازی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ لیاری میں دس پندرہ سال جاری رہنے والی گروہی لڑائی نے یہاں کی بہت سی کہانیوں کو دبا دیا۔ یہاں کے نوجوانوں نے اپنے احساسات، مسائل اور اپنے تجربات کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے کے لیے فلم کے میڈیم کا سہارا لیا۔ گروہی لڑائیوں کے دوران میڈیا نے لیاری کو خانہ جنگی کے شکار علاقے کے طور پر پیش کیا، جب کہ لیاری ا س کے برعکس ہے۔ یہاں کے لوگ فن کے قدر دان ہیں، ادبی رجحان بہت زیادہ ہے، اس علاقے کے بہت سے ادیب، دانش ور، کھلاڑی، باکسر دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں، لیکن میڈیا نے اس بات کو کبھی نہیں بتایا اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے اپنے شہر کے لوگ ہی لیاری میں آنے سے ڈرتے ہیں۔
٭نصیر بنسار
لیاری کے ابھرتے ہوئے اداکاروں میں ایک نام نصیر بنسار کا ہے۔ لیاری کی پہلی خاتون ہدایت کار نازنین بلوچ کی فلم 'لیاری، اے پریزن ود آؤٹ وال' میں 'بَھنڈ' کے کردار میں اس کی جان دار اداکاری نے اس نوجوان کے لیے نئے دروازے وا کردیے ہیں۔ ریپ موسیقی کے دل داہ نصیر بنسار اس سے پہلے علی گُل پیر اور پاکستان کے دیگر معروف گلوکاروں کے ساتھ بہ طور ریپر کام کرچکے ہیں، لیکن اداکاری کا موقع انہیں نازنین بلوچ نے فراہم کیا۔ لیاری میں فلم سازی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بابت ان کا کہنا ہے کہ گینگ وار کے دنو ں میں لوگ کئی کئی دن گھروں میں محصور رہتے تھے تو ہم نوجوان وقت گزاری کے لیے موبائل فون کیمرے سے چھوٹے چھوٹے کلپ بنا کر ایک دوسرے کو بھیجتے تھے، جس سے نوجوانوں میں مختصرفلمیں بنانے کا رجحان بڑھا۔ اب آپ خود دیکھیں کہ مجھ سمیت کئی نوجوان گھر والوں کی سخت مخالفت کے باوجود اپنے شوق کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہمارے لیے فلم ہی سب سے موثر ذریعہ ہے، جس کی مدد سے ہم اس تاثر کو ختم کرسکتے ہیں کہ جی لیاری صرف گینگ وار والوں کا نہیں بلکہ ایسے نوجوانوں کا علاقہ ہے جنہیں اگر موقع دیا جائے تو وہ فلم سازی میں دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرسکتے ہیں۔
٭ شہباز ملک
جامعہ اُردو سے میڈیا سائنسز میں بی ایس کرنے والے نوجوان شہباز ملک کا نام لیاری کے فلمی حلقوں کے لیے نیا نہیں ہے کیوں کہ میٹرک کرنے کے فوراً بعد ہی فلم سازی کی طرف آگئے تھے۔ اپنے اس شوق کی خاطر ابتدا میں گھر والوں کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ شہباز ملک کو تیکنیکی مہارت آسکر ایوارڈ یافتہ پاکستانی فلم ساز شرمین عبید چنائے کے ساتھ کام کرکے ملی۔ انہوں نے گذشتہ چند سال سے اپنے طور پر مختصر اور دستاویزی فلمیں بنانی شروع کیں۔ لیاری کے دوسرے فلم سازوں کی طرح شہباز بھی اس صنعت کے فروغ میں حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے نالاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم تعلیم کے ساتھ ساتھ نوکری کرکے فلمیں بنانے کے لیے پیسے جمع کرتے ہیں اور جب ایک مختصر فلم بنانے کے لیے پیسے جمع ہوجاتے ہیں تو پھر ہم فلم بنانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
ابھی تک بلوچی زبان میں ہی فلمیں بنائی ہیں لیکن آگے چل کر اُردو اور انگریزی میں فلمیں بنانا چاہتا ہوں کیوںکہ اپنے کام کو دنیا بھر میں پہنچانے اور بہتر ابلاغ کے لیے ضروری ہے کہ اس زبان میں فلم سازی کی جائے جس کی وسعت زیادہ ہو، لیکن بلوچی زبان کی ترویج میرا خواب ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میرا شمار بلوچی زبان کے ممتاز فلم سازوں میں کیا جائے۔ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود ہم فلم سازی کر رہے ہیں، کیوں کہ جن حالات اور مسائل کا سامنا ہم لوگ کر رہے ہیں، انہیں اجاگر کرنے کے لیے باہر سے آنے والے لوگ اتنا اچھا کام نہیں کر سکتے۔
٭شریف رند
بتیس سال سے بلوچی فلموں میں کام کرنے والے شریف رند کا شمار لیاری کے سنیئر اداکاروں میں ہوتا ہے۔ 1986ء میں بلوچی زبان کی پہلی ٹیلی فلم طنز گیر سے اداکاری کا آغاز کرنے والے شریف رند سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنے شوق کو بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس بابت ان کا کہنا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ خوش قسمت انسان وہ ہے جس کا شوق اس کا ذریعہ معاش بھی ہو۔ اگر مجھے اداکاری سے اچھی آمدن ہورہی ہوتی تو میں اپنی سرکاری ملازمت بھی چھوڑ دیتا۔ ماضی میں فلم سازی اتنا آسان کام نہیں تھا اور مجھے یاد ہے کہ جب پہلی بار اداکاری کی تو اس وقت ری ٹیک کی گنجائش نہیں ہوتی تھی، ایک سین کرنا ہے تو وہ ایک ہی ٹیک میں ہوگا۔ ایم فائیو کے وی سی آر پر پوری فلم بنتی تھی۔ اب تو جدید کیمروں اور سافٹ ویئرز کی بدولت ماضی کے برعکس فلم بنانا زیادہ آسان ہوگیا ہے۔
ہم لیاری والوں کے پاس فلم سازی کی اعلٰی تعلیم نہیں ہے، ڈپلومے نہیں ہیں، فلم سازی کے جدید آلات نہیں ہیں، لیکن عملی طور پر ہمیں فلم بنانے کا بہت وسیع تیکنیکی تجربہ ہے۔ 1986ء میں جب میں نے گھر والوں کو بتایا کہ میں فلم میں کام کررہا ہوں تو نہ صرف گھر والوں بلکہ دوستوں اور محلے والوں کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اب لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ ہماری نسل میں فلم سازی اور اس کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔