براہِ کرم حاضری رجسٹر پر دستخط مت کیجیے
ہمیں نہیں معلوم کہ کون اس الیکشن کے راستے آرہا ہے اور کون جا رہا ہے اور کتنے انتخابی اخراجات کر کے آ رہا ہے۔
آخری امریکی انتخابی اخراجات کا تخمینہ پانچ ارب ڈالر ہے ، جبکہ مودی نے دو ہزار چودہ میں جو الیکشن جیتے ان میں بھی تمام امیدواروں نے کل ملا کے پانچ ارب ڈالر خرچ کیے۔پاکستان میں اگر الیکشن ایکٹ دو ہزار سترہ کی عینک سے دیکھا جائے تو ہر مڈل کلاسیا باآسانی الیکشن لڑ بھی سکتا ہے اور جیت بھی سکتا ہے۔
مثلاً قومی اسمبلی کے امیدوار کے انتخابی اخراجات کی حد پندرہ لاکھ سے بڑھا کر چالیس لاکھ کر دی گئی ہے ، صوبائی اسمبلی کا امیدوار پہلے دس لاکھ روپے خرچ کر سکتا تھا اب بیس لاکھ تک خرچہ کر سکتا ہے۔سب سے سستا سینیٹ کا الیکشن ہے۔یعنی سینیٹر بننے کا ہر خواہش مند اب زیادہ سے زیادہ پندرہ لاکھ روپے خرچ کر سکتا ہے۔اس مد میں گذشتہ حد دس لاکھ روپے تھی۔
الیکشن کمیشن کی حدِ اخراجات بالکل اس طرح ہے جس طرح گوشت کا سرکاری نرخ نامہ۔مٹن سات سو چالیس روپے۔بیف ہڈی والا تین سو اور بغیر ہڈی کا تین سو چالیس روپے۔یہ ریٹ کمیشنر کراچی نے پندرہ روز پہلے اٹھارہ مئی دو ہزار اٹھارہ کو طے کیے اور محلے کے بھورے قصائی نے گتے پر چسپاں کر کے دھڑلے سے تار کے ساتھ لٹکا دئیے۔
میں نے بھورے سے پوچھا کہ بھیا تو مجھے مٹن سات سو چالیس کے بجائے ساڑھے نو سو اور بیف تین سو کے بجائے ساڑھے پانچ سو میں کیوں دے رہا ہے۔ بھورے نے بگدا دستی پر مارتے ہوئے کہا میاں جی تم صحافی ہو کر اتنے ننھے کیوں بن رہے ہو ؟ ساڑھے تین سو میں کہیں سے کتے کا لادو پوری گائے مفت میں گھر پہنچا دوں گا۔شکر کرو تم میڈیا کے ہو کوئی اور ایسی بات کرتا تو قسم اللہ کی اس کے قدموں میں یہی بگدا پٹک دیتا۔اب کام کی بات کرو کہاں کا کاٹوں۔تمہیں تو گردن پسند ہے نا ؟
لاحول ولاقوت ، کہاں سے بات کہاں نکل گئی۔ آپ نے ابھی تازہ تازہ ہوئے سینیٹ انتخابات میں دیکھ لیا ہوگا کہ کیا کیا چمتکار سننے میں نہیں آیا۔ یوں لگتا ہے کہ الیکشن اخراجات میں حلال کی کمائی سے زیادہ پھل ہے۔ورنہ کاہے کو ایک سینیٹیر کے پندرہ لاکھ میں ایسی برکت پڑ جاتی کہ وہ پندرہ کروڑ لگنے لگتے۔
اسی طرح آپ دیکھئے گا کہ پچیس جولائی کے انتخابات میں قومی اسمبلی کا امیدوار خرچ تو چالیس لاکھ کرے گا مگر لگے گا یوں جیسے چالیس کروڑ جیب سے نکل گیا جبکہ صوبائی امیدوار بیس لاکھ خرچ کر کے بھی محسوس کرے گا گویا بیس کروڑ کا کام اتر گیا۔
ثبوت یہ ہے کہ جب الیکشن کمیشن کو انتخابی اخراجات کے گوشوارے جمع کروائے جائیں گے تو ان میں سے شائد ہی کوئی گوشوارہ ایسا ہو جس میں کسی نے یہ اعتراف کیا ہو کہ معافی چاہتا ہوں اس بار چالیس لاکھ کے بجائے چالیس لاکھ انیس ہزار خرچ ہو گئے۔نیت صاف ہو تو فرشتے بھی مدد کو پہنچ جاتے ہیں اور امیدوار ایماندار ہو تو بڑے بڑے سیٹھوں ، کمپنیوں اور سمندر پار بیٹھے مخیر حضرات کی بھی جیبیں ڈھیلی پڑ جاتی ہیں۔
خوشی کی بات ہے کہ الیکشن اور چھوٹی عید کے بزنس کا سیزن اس بار ایک ساتھ پڑ گیا ہے۔لہذا کاروبار اور پیسے کی گردش ریکارڈ سطح تک بڑھنے کا امکان ہے۔اس کا فائدہ سبھی کو ہے۔حمائیتی ووٹروں کے لیے بند ڈیرے کھل جائیں گے ، دیگیں چڑھ جائیں گی۔تنبو، قنات، کراکری، روٹی،چاول، گوشت، بے روزگار نوجوانوں کو جزوقتی ورکرز بننے کا موقع ملے گا، ہزاروں نئی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں خریدی جائیں گی، لٹھے کی اضافی پیداوار بینروں میں کھپ جائے گی۔ پینٹرز،پرنٹنگ پریس، ڈجیٹل پرنٹرز، ساؤنڈ سسٹمز اور چئیرز سپلآئرز ، گلوکار ، موسیقار ، ڈھولی،پرائیوی سیکیورٹی کمپنیاں،پٹرول پمپ مالکان، برادریوں سے رابطہ کرنے والے فکسرز، فری لانس اور ریگولر صحافی، اشتہاری ادارے، اخبارات کے سپلیمنٹس تیار کرنے والے ، ٹی وی کی اشتہاری مہم ، فرمائشی و پروموشنل کالم ، مضامین و تقاریر کے لکھاری ، بلاگرز ، قصیدہ و ہجو گو شعرا ، انتخابی پول سروے کرنے والے ادارے ، تھنک ٹینکس۔
اس کے ساتھ ساتھ چائے کے ہوٹلوں پر '' اب کیا ہوگا ''جیسے ادق مسائل پر غور کرنے والے عوام الناس کا جمگھٹا بڑھے گا تو چائے والے کا بزنس بھی بڑھے گا۔ غرض کون سا ایسا شعبہ یا فرد ہے جسے کوئی جیتے کوئی ہارے سے قطع نظر انتخابی مہم سے فائدہ نہیں ہوگا۔اور اس سب کو اگر جمع تفریق ضرب کر لیا جائے تو معیشت میں اربوں روپے کی سرکولیشن ہوگی۔ایک جمہوری مشق سے کتنوں کا بھلا ہوتا ہے۔
جیب و دامان و گریباں، بخیہ و چاک و رفو
عشق کے اک کام سے کتنے نکل آتے ہیں کام
(احمد نوید )
اس قدر ہما ہمی کے بعد ہم قومی و صوبائی اسمبلیوں کے کل ملا کے ایک ہزار سے زائد ارکان اس امید پر چنتے ہیں کہ وہ ہماری روزمرہ زندگی کی راہ میں پڑے سب نہیں تو تھوڑے سے کانٹے چن لیں۔مگر ہوتا کیا ہے ، کچھ کو اسٹیبلشمنٹ اپنے کاموں کے لیے چن لیتی ہے ، کچھ انتخابی خرچے کی بازیابی کی راہیں چن لیتے ہیں ، کچھ واقعی عوام دوست قانون سازی کرنے اور ہر اہم قومی مسئلے پر کھل کے بولنے کا ایجنڈا چن لیتے ہیں ، کچھ صرف ڈیسک بجانے کا ہنر چن لیتے ہیں اور کچھ پانچ برس تک بالکل چپ ، گم صم بیٹھنے کی یوگائی مشق چن لیتے ہیں۔ایسے '' نہ برا کہو ، نہ برا دیکھو نہ برا سنو ''ٹائپ ارکانِ اسمبلی کی چپ کارکردگی دیکھ دیکھ کر کھولتے خون والے ووٹروں کا جی چاہتا ہے کہ انتخاب میں چننے کے بجائے دیوار میں چن دیتے تو کیسا اچھا ہوتا۔
ہمیں نہیں معلوم کہ کون اس الیکشن کے راستے آرہا ہے اور کون جا رہا ہے اور کتنے انتخابی اخراجات کر کے آ رہا ہے اور کتنے اخراجات کاغذ پے دکھا رہا ہے۔مگر مجھ سے پوچھا جائے کہ ہر رکنِ اسمبلی سے اگلے پانچ برس میں سب سے چھوٹی اور آسان توقع میں کیا رکھتا ہوں تو وہ یہ ہے کہ آپ جب اسمبلی کی کارروائی میں شریک نہ ہوں تو حاضری رجسٹر پر حاضری کے خانے میں ٹک نہ کریں۔ جس رکن کو غیر حاضری کے نتیجے میں چند ہزار روپے کے حاضری الاؤنس سے دستبردار ہونا نہیں آتا وہ پھر کسی ترغیب و لالچ کے آگے نہیں ٹھہر سکتا۔اگر میری یہی توقع پوری ہو جائے تو سمجھوں گا جمہوریت واقعی جڑ پکڑ رہی ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
مثلاً قومی اسمبلی کے امیدوار کے انتخابی اخراجات کی حد پندرہ لاکھ سے بڑھا کر چالیس لاکھ کر دی گئی ہے ، صوبائی اسمبلی کا امیدوار پہلے دس لاکھ روپے خرچ کر سکتا تھا اب بیس لاکھ تک خرچہ کر سکتا ہے۔سب سے سستا سینیٹ کا الیکشن ہے۔یعنی سینیٹر بننے کا ہر خواہش مند اب زیادہ سے زیادہ پندرہ لاکھ روپے خرچ کر سکتا ہے۔اس مد میں گذشتہ حد دس لاکھ روپے تھی۔
الیکشن کمیشن کی حدِ اخراجات بالکل اس طرح ہے جس طرح گوشت کا سرکاری نرخ نامہ۔مٹن سات سو چالیس روپے۔بیف ہڈی والا تین سو اور بغیر ہڈی کا تین سو چالیس روپے۔یہ ریٹ کمیشنر کراچی نے پندرہ روز پہلے اٹھارہ مئی دو ہزار اٹھارہ کو طے کیے اور محلے کے بھورے قصائی نے گتے پر چسپاں کر کے دھڑلے سے تار کے ساتھ لٹکا دئیے۔
میں نے بھورے سے پوچھا کہ بھیا تو مجھے مٹن سات سو چالیس کے بجائے ساڑھے نو سو اور بیف تین سو کے بجائے ساڑھے پانچ سو میں کیوں دے رہا ہے۔ بھورے نے بگدا دستی پر مارتے ہوئے کہا میاں جی تم صحافی ہو کر اتنے ننھے کیوں بن رہے ہو ؟ ساڑھے تین سو میں کہیں سے کتے کا لادو پوری گائے مفت میں گھر پہنچا دوں گا۔شکر کرو تم میڈیا کے ہو کوئی اور ایسی بات کرتا تو قسم اللہ کی اس کے قدموں میں یہی بگدا پٹک دیتا۔اب کام کی بات کرو کہاں کا کاٹوں۔تمہیں تو گردن پسند ہے نا ؟
لاحول ولاقوت ، کہاں سے بات کہاں نکل گئی۔ آپ نے ابھی تازہ تازہ ہوئے سینیٹ انتخابات میں دیکھ لیا ہوگا کہ کیا کیا چمتکار سننے میں نہیں آیا۔ یوں لگتا ہے کہ الیکشن اخراجات میں حلال کی کمائی سے زیادہ پھل ہے۔ورنہ کاہے کو ایک سینیٹیر کے پندرہ لاکھ میں ایسی برکت پڑ جاتی کہ وہ پندرہ کروڑ لگنے لگتے۔
اسی طرح آپ دیکھئے گا کہ پچیس جولائی کے انتخابات میں قومی اسمبلی کا امیدوار خرچ تو چالیس لاکھ کرے گا مگر لگے گا یوں جیسے چالیس کروڑ جیب سے نکل گیا جبکہ صوبائی امیدوار بیس لاکھ خرچ کر کے بھی محسوس کرے گا گویا بیس کروڑ کا کام اتر گیا۔
ثبوت یہ ہے کہ جب الیکشن کمیشن کو انتخابی اخراجات کے گوشوارے جمع کروائے جائیں گے تو ان میں سے شائد ہی کوئی گوشوارہ ایسا ہو جس میں کسی نے یہ اعتراف کیا ہو کہ معافی چاہتا ہوں اس بار چالیس لاکھ کے بجائے چالیس لاکھ انیس ہزار خرچ ہو گئے۔نیت صاف ہو تو فرشتے بھی مدد کو پہنچ جاتے ہیں اور امیدوار ایماندار ہو تو بڑے بڑے سیٹھوں ، کمپنیوں اور سمندر پار بیٹھے مخیر حضرات کی بھی جیبیں ڈھیلی پڑ جاتی ہیں۔
خوشی کی بات ہے کہ الیکشن اور چھوٹی عید کے بزنس کا سیزن اس بار ایک ساتھ پڑ گیا ہے۔لہذا کاروبار اور پیسے کی گردش ریکارڈ سطح تک بڑھنے کا امکان ہے۔اس کا فائدہ سبھی کو ہے۔حمائیتی ووٹروں کے لیے بند ڈیرے کھل جائیں گے ، دیگیں چڑھ جائیں گی۔تنبو، قنات، کراکری، روٹی،چاول، گوشت، بے روزگار نوجوانوں کو جزوقتی ورکرز بننے کا موقع ملے گا، ہزاروں نئی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں خریدی جائیں گی، لٹھے کی اضافی پیداوار بینروں میں کھپ جائے گی۔ پینٹرز،پرنٹنگ پریس، ڈجیٹل پرنٹرز، ساؤنڈ سسٹمز اور چئیرز سپلآئرز ، گلوکار ، موسیقار ، ڈھولی،پرائیوی سیکیورٹی کمپنیاں،پٹرول پمپ مالکان، برادریوں سے رابطہ کرنے والے فکسرز، فری لانس اور ریگولر صحافی، اشتہاری ادارے، اخبارات کے سپلیمنٹس تیار کرنے والے ، ٹی وی کی اشتہاری مہم ، فرمائشی و پروموشنل کالم ، مضامین و تقاریر کے لکھاری ، بلاگرز ، قصیدہ و ہجو گو شعرا ، انتخابی پول سروے کرنے والے ادارے ، تھنک ٹینکس۔
اس کے ساتھ ساتھ چائے کے ہوٹلوں پر '' اب کیا ہوگا ''جیسے ادق مسائل پر غور کرنے والے عوام الناس کا جمگھٹا بڑھے گا تو چائے والے کا بزنس بھی بڑھے گا۔ غرض کون سا ایسا شعبہ یا فرد ہے جسے کوئی جیتے کوئی ہارے سے قطع نظر انتخابی مہم سے فائدہ نہیں ہوگا۔اور اس سب کو اگر جمع تفریق ضرب کر لیا جائے تو معیشت میں اربوں روپے کی سرکولیشن ہوگی۔ایک جمہوری مشق سے کتنوں کا بھلا ہوتا ہے۔
جیب و دامان و گریباں، بخیہ و چاک و رفو
عشق کے اک کام سے کتنے نکل آتے ہیں کام
(احمد نوید )
اس قدر ہما ہمی کے بعد ہم قومی و صوبائی اسمبلیوں کے کل ملا کے ایک ہزار سے زائد ارکان اس امید پر چنتے ہیں کہ وہ ہماری روزمرہ زندگی کی راہ میں پڑے سب نہیں تو تھوڑے سے کانٹے چن لیں۔مگر ہوتا کیا ہے ، کچھ کو اسٹیبلشمنٹ اپنے کاموں کے لیے چن لیتی ہے ، کچھ انتخابی خرچے کی بازیابی کی راہیں چن لیتے ہیں ، کچھ واقعی عوام دوست قانون سازی کرنے اور ہر اہم قومی مسئلے پر کھل کے بولنے کا ایجنڈا چن لیتے ہیں ، کچھ صرف ڈیسک بجانے کا ہنر چن لیتے ہیں اور کچھ پانچ برس تک بالکل چپ ، گم صم بیٹھنے کی یوگائی مشق چن لیتے ہیں۔ایسے '' نہ برا کہو ، نہ برا دیکھو نہ برا سنو ''ٹائپ ارکانِ اسمبلی کی چپ کارکردگی دیکھ دیکھ کر کھولتے خون والے ووٹروں کا جی چاہتا ہے کہ انتخاب میں چننے کے بجائے دیوار میں چن دیتے تو کیسا اچھا ہوتا۔
ہمیں نہیں معلوم کہ کون اس الیکشن کے راستے آرہا ہے اور کون جا رہا ہے اور کتنے انتخابی اخراجات کر کے آ رہا ہے اور کتنے اخراجات کاغذ پے دکھا رہا ہے۔مگر مجھ سے پوچھا جائے کہ ہر رکنِ اسمبلی سے اگلے پانچ برس میں سب سے چھوٹی اور آسان توقع میں کیا رکھتا ہوں تو وہ یہ ہے کہ آپ جب اسمبلی کی کارروائی میں شریک نہ ہوں تو حاضری رجسٹر پر حاضری کے خانے میں ٹک نہ کریں۔ جس رکن کو غیر حاضری کے نتیجے میں چند ہزار روپے کے حاضری الاؤنس سے دستبردار ہونا نہیں آتا وہ پھر کسی ترغیب و لالچ کے آگے نہیں ٹھہر سکتا۔اگر میری یہی توقع پوری ہو جائے تو سمجھوں گا جمہوریت واقعی جڑ پکڑ رہی ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)