خبردار گدھے خطرے میں ہیں
پاکستان میں بھی گدھے کو ’’ نرا ہی گدھا ‘‘ قرار دیے جانے کے باوجود اسے دھوبی گھاٹ سے نکال کر ایوانوں تک پہنچا دیا گیا۔
ہزاروں سال سے گدھا انسان کا لادا بوجھ اٹھائے اٹھائے معاشرے کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے۔ کبھی یہ پیغمبروں کی سواری بنا توکبھی دوسری جنگ عظیم کا سپاہی اورکبھی کرشن چندر کی کہانی۔ گالیوں میں توکبھی کہانیوں میں یہ ہمیشہ سے موجود ہے۔ کتنے ہی محاروے اور کہاوتیں اس سے وابستہ ہیں ۔ صنعتی اور سائنسی ترقی نے کے بعد بھی انسانی معاشرے سے گدھے کی ضرورت ختم نہ ہوسکی۔
دلچسپ امر تو یہ کہ گدھے کا سیاسی گہماگہمیوں سے بھی مضبوط تعلق ہے۔ امریکا میں یہ حکمراں پارٹی کا انتخابی نشان ہے۔ بھارت میں2017ء کے انتخابی ماحول میں میاں گدھے کا خوب ہی بول بالا رہا۔ اس حوالے سے نریندر مودی جی کا ایک قصہ سنتے جائیے پھر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ اترپردیش اسمبلی کے انتخابات کے دوران سماج وادی پارٹی کے رہنما اکھلیش یادیو نے امیتابھ بچن کو مشورہ دیا کہ آپ تو عظیم فنکار ہیں، گجرات کے جنگلی گدھوں کی پبلسٹی نہ کیا کریں۔
نریندر مودی اس بات پر اس قدر جذباتی ہوئے کہ انتخابی مہم میں اس موضوع پر ایک تقریر ہی کر ڈالی۔ فرمانے لگے،''گدھا اپنے مالک کا وفا دار ہوتا ہے، مالک جتنا کام چاہتا ہے گدھا کرتا ہے، وہ کم سے کم خرچے والا ہو تا ہے۔ بھائیو اور بہنو! گدھا کتنا ہی بیمار، بھوکا یا تھکا ہوا ہو مالک کے لیے کام ہی کرتا ہے۔ اکھلیش جی! یہ سوا سو کروڑ دیش واسی میرے مالک ہیں۔ وہ جتنا کام مجھ سے لیتے ہیں میں بنا چھٹی لیے کرتا ہوں، چاہے میں تھکا ہوا ہوں یا بھوکا۔'' اب نریندر مودی جی کے اس اعترافی بیان کے بعد کون ہے جوگدھے کی اہمیت سے انکارکرجائے۔
پاکستان میں بھی گدھے کو '' نرا ہی گدھا '' قرار دیے جانے کے باوجود اسے دھوبی گھاٹ سے نکال کر ایوانوں تک پہنچا دیا گیا۔ سندھ اسمبلی میں گزشتہ دنوںگدھے پر سیر حاصل مکالمہ ہوا، ایسے ایسے چٹکلے چھوڑے گئے کہ ایوان میں باقاعدگی سے سجنے والی ''امراء کی محفل'' زعفران زار ہوگئی۔ لیکن یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ گدھے کو شہرت دوام بخشنے میں چین کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ چند سال میں گدھا جو پوری دنیا کا اہم ترین موضوع بن گیا، اس کا سہرا چین کے ہی سر جاتا ہے۔ وجہ کیا ہے؟ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں۔
چین میں دیسی طریقۂ علاج بے حد مقبول ہے۔ جاپان، کوریا اور جنوب مشرقی ایشیا میں بھی چین کی دیسی ادویات کی بہت طلب اور کھپت ہے۔ چینی کمپنیاں ان ادویات کی تیاری میں لگ بھگ ایک ہزار اقسام کی نباتات اور چھتیس اقسام کے جانوروں کا استعمال کرتی ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی اسی فی صد آبادی کا انحصار انہی دواؤں پر ہے، جو پودوں اور جانوروں سے بنائی جاتی ہیں۔ چین میں ایک عرصے سے یہ صنعت قدم جمائے ہوئے ہے، لیکن افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ بے شمار خوبصورت اور قیمتی جانوروں کی نسلیں اس چینی شوق کی نذر ہوچکی ہیں، جن میں چیتا، رینو، کچھوا، سمندری گھوڑا، ہرن ہیپو اور مگرمچھ سمیت لاتعداد جانور شامل ہیں۔ ادویات سازی کے عمل میں ان میں سے کسی جانور کی کھال، کسی کا خون ،کسی کا پسینہ، کسی کے خلیے تو کسی کے سینگ استعمال کیے جاتے ہیں اور اب گدھوں کی بقا خطرے میں ہے۔
چین میں گدھوں کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ سے کم ہو کر صرف ساٹھ لاکھ رہ گئی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے چین نے دوسرے ممالک کی طرف رجوع کرنا شروع کردیا ہے۔ گدھے کی کھال سے نکالے جانے والے عرق سے تیار شدہ دوا کی چین میں بہت مانگ ہے۔ گدھوں کی تعداد میں حیرت انگیز کمی کے بعد یہ دوا اچانک مارکیٹ سے غائب ہوگئی، لیکن اس کی طلب ختم نہ ہوسکی، جس کے لیے چین نے بڑے پیمانے پرگدھے اور ان کی کھالیں درآمد کرنا شروع کردیں، یوں یہ دوا اب پھر چینی مارکیٹوں کی زینت بن گئی ہے۔ مختلف طریقوں سے گدھے کی کھال کا عرق کشید کیا جاتا ہے اور اس تیار ہونے والی یہ دوا نہ صرف خون کو پتلا کرتی ہے بلکہ کیمو تھراپی کے منفی اثرات کو بھی کم کرنے میں معاون قرار دی جاتی ہے، ساتھ یہ جنسی تقاضوں کو ابھارنے میں اکسیر سمجھی جاتی ہے۔ اس کی قیمت بہت زیادہ ہونے کے باوجود چین میں اس کی طلب بہت زیادہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ادویات سازی کی صنعت بڑی انسانی خدمت ہے لیکن اس کے لیے کسی بھی جاندارکی نسل اور اس کی بقا کو خطرے میں ڈال دینا سرا سر نا انصافی اور ماحول دشمنی ہے۔ چین میں گدھوں کی بڑھتی ہوئی طلب نے تیسری دنیا کے ممالک خاص طور پر افریقا میں ایک عجیب سی فضا پیدا کردی ہے۔
چین کو موقعے سے فائدہ اٹھانا تو خوب ہی آتا ہے، اس معاملے میں اب وہ افریقا کی غربت کا جَم کر فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ایتھوپیا کے غریب کسانوں کو گدھے کے عوض دو دو سو ڈالر کی پیشکش کی جاتی ہے، انتہائی غربت کے مارے ان افریقیوں کے لیے دو سو ڈالرکسی نعمت سے کم نہیں یوں وہ وقتی فائدے اور لالچ کیلئے اپنا مستقل ذریعہ معاش چین کے حوالے کرنے میں ذرا تامل نہیں کرتے۔ چین کوگدھوں کی رسد پورا کرنے کے لیے افریقا میں گدھوں کی چوری اور اسمگلنگ عروج پر جا پہنچی ہے۔
ساتھ ہی کینیا میں چین نے بڑے پیمانے پر بوچڑخانے قائم کیے ہیں، جہاں روزانہ سو سے دو سو گدھے کاٹے جا رہے ہیں۔ ان بوچڑخانوں میں گدھوں کی کھال اتار کر کیمیکل میں محفوظ کی جاتی ہے اور پھر انہیں کنٹینروں میں بند کرکے بذریعہ بحرہند ہانگ کانگ روانہ کیا جاتا ہے۔ بدحال افریقی باشندے ڈالر کمانے کی لالچ میں جابجا گدھوں کی منڈیاں سجائے بیٹھے ہیں۔ مرد اور عورتیں عارضی فائدوں کے حصول کے لیے اپنا مستقبل چین کے ہاتھوں بیچ کر بہت خوش ہیں اور تالیاں پیٹ رہے ہیں کہ چین نے افریقا میں بنائے ان بوچڑخانوں میں مقامی باشندوں کو نوکریاں دے کر گویا ان کی بڑی معاشی خدمت کی ہے۔
پاکستان سے بھی گدھوں کی کھالیں چین اسمگل کرنے کی کوششیں کئی بار ناکام بنائی جا چکی ہیں۔ پابندی کے باوجود ہر ماہ ایک دو واقعات ایسے ضرور رونما ہوتے ہیں جب پولیس کھالوں کو اپنے قبضے میں لیتی ہے۔ اس کے بعد یہ کھالیں کہاں جاتی ہیں؟ یہ اللہ کو پتہ ہے یا پھر داروغہ جی کو۔ صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت نے تو چین کے ساتھ باقاعدہ گدھوں کی تجارت کا معاہدہ ہی کر ڈالا تھا، جس پر پھبتی کستے ہوئے کسی نے کہا تھا،''سی پیک میں خیبرپختونخوا کے حصے میں صرف گدھوں کا کاروبار ہی آیا ہے۔'' یہ بات تو بہ طور طنزکی گئی تھی، لیکن حالات و قرائن چیخ چلا کر یہی بتا رہے ہیں کہ چین کے ہاتھوں میں نظام آجانے کے بعد باقی دنیا کے ہاتھ میں کچھ بھی نہ رہے گا، سب کی ایک خوش نما خواب سے آنکھ کھل جائے گی اور ایک بھیانک سچ منتظر ہوگا جہاں چین کسی کے پاس گدھے بھی نہ چھوڑے گا۔
گدھوں کی افزائش کے طریقوں سے بے اعتنائی اور بڑی تعداد میں ان کی ہلاکت سے گدھوں کی بقا کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ ادویات کی تیاری میں گدھوں کو مارنے کا عمل قابلِ تشویش ہے۔ جانوروں کی تیزی سے ختم ہونے والی نسلوں سے ہمارا ماحولیاتی نظام بگڑتا جا رہا ہے، ایکو سسٹم تباہ ہو رہا ہے۔ نہایت ضروری ہے کہ معالج اور مریض ایسے کسی بھی علاج کو اختیار کرنے سے انکار کر دیں جس میں کسی بھی جاندار کی بقا خطرے میں ہو۔ جانور اور پودے ماحول کے تحفظ کے لیے عطیہ خداوندی ہیں، ان کا تحفظ ہر ذی شعورکی بنیادی ذمے داری ہے۔ ماحولیاتی نظام بگڑنے سے سب سے زیادہ متاثر وہی انسان ہوں گے جن کی سلامتی کے نام پر بنائی جانے والی ادویات کی تیاری میں ماحول کے ساتھ کھلواڑکیا جا رہا ہے۔
دلچسپ امر تو یہ کہ گدھے کا سیاسی گہماگہمیوں سے بھی مضبوط تعلق ہے۔ امریکا میں یہ حکمراں پارٹی کا انتخابی نشان ہے۔ بھارت میں2017ء کے انتخابی ماحول میں میاں گدھے کا خوب ہی بول بالا رہا۔ اس حوالے سے نریندر مودی جی کا ایک قصہ سنتے جائیے پھر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ اترپردیش اسمبلی کے انتخابات کے دوران سماج وادی پارٹی کے رہنما اکھلیش یادیو نے امیتابھ بچن کو مشورہ دیا کہ آپ تو عظیم فنکار ہیں، گجرات کے جنگلی گدھوں کی پبلسٹی نہ کیا کریں۔
نریندر مودی اس بات پر اس قدر جذباتی ہوئے کہ انتخابی مہم میں اس موضوع پر ایک تقریر ہی کر ڈالی۔ فرمانے لگے،''گدھا اپنے مالک کا وفا دار ہوتا ہے، مالک جتنا کام چاہتا ہے گدھا کرتا ہے، وہ کم سے کم خرچے والا ہو تا ہے۔ بھائیو اور بہنو! گدھا کتنا ہی بیمار، بھوکا یا تھکا ہوا ہو مالک کے لیے کام ہی کرتا ہے۔ اکھلیش جی! یہ سوا سو کروڑ دیش واسی میرے مالک ہیں۔ وہ جتنا کام مجھ سے لیتے ہیں میں بنا چھٹی لیے کرتا ہوں، چاہے میں تھکا ہوا ہوں یا بھوکا۔'' اب نریندر مودی جی کے اس اعترافی بیان کے بعد کون ہے جوگدھے کی اہمیت سے انکارکرجائے۔
پاکستان میں بھی گدھے کو '' نرا ہی گدھا '' قرار دیے جانے کے باوجود اسے دھوبی گھاٹ سے نکال کر ایوانوں تک پہنچا دیا گیا۔ سندھ اسمبلی میں گزشتہ دنوںگدھے پر سیر حاصل مکالمہ ہوا، ایسے ایسے چٹکلے چھوڑے گئے کہ ایوان میں باقاعدگی سے سجنے والی ''امراء کی محفل'' زعفران زار ہوگئی۔ لیکن یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ گدھے کو شہرت دوام بخشنے میں چین کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ چند سال میں گدھا جو پوری دنیا کا اہم ترین موضوع بن گیا، اس کا سہرا چین کے ہی سر جاتا ہے۔ وجہ کیا ہے؟ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں۔
چین میں دیسی طریقۂ علاج بے حد مقبول ہے۔ جاپان، کوریا اور جنوب مشرقی ایشیا میں بھی چین کی دیسی ادویات کی بہت طلب اور کھپت ہے۔ چینی کمپنیاں ان ادویات کی تیاری میں لگ بھگ ایک ہزار اقسام کی نباتات اور چھتیس اقسام کے جانوروں کا استعمال کرتی ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی اسی فی صد آبادی کا انحصار انہی دواؤں پر ہے، جو پودوں اور جانوروں سے بنائی جاتی ہیں۔ چین میں ایک عرصے سے یہ صنعت قدم جمائے ہوئے ہے، لیکن افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ بے شمار خوبصورت اور قیمتی جانوروں کی نسلیں اس چینی شوق کی نذر ہوچکی ہیں، جن میں چیتا، رینو، کچھوا، سمندری گھوڑا، ہرن ہیپو اور مگرمچھ سمیت لاتعداد جانور شامل ہیں۔ ادویات سازی کے عمل میں ان میں سے کسی جانور کی کھال، کسی کا خون ،کسی کا پسینہ، کسی کے خلیے تو کسی کے سینگ استعمال کیے جاتے ہیں اور اب گدھوں کی بقا خطرے میں ہے۔
چین میں گدھوں کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ سے کم ہو کر صرف ساٹھ لاکھ رہ گئی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے چین نے دوسرے ممالک کی طرف رجوع کرنا شروع کردیا ہے۔ گدھے کی کھال سے نکالے جانے والے عرق سے تیار شدہ دوا کی چین میں بہت مانگ ہے۔ گدھوں کی تعداد میں حیرت انگیز کمی کے بعد یہ دوا اچانک مارکیٹ سے غائب ہوگئی، لیکن اس کی طلب ختم نہ ہوسکی، جس کے لیے چین نے بڑے پیمانے پرگدھے اور ان کی کھالیں درآمد کرنا شروع کردیں، یوں یہ دوا اب پھر چینی مارکیٹوں کی زینت بن گئی ہے۔ مختلف طریقوں سے گدھے کی کھال کا عرق کشید کیا جاتا ہے اور اس تیار ہونے والی یہ دوا نہ صرف خون کو پتلا کرتی ہے بلکہ کیمو تھراپی کے منفی اثرات کو بھی کم کرنے میں معاون قرار دی جاتی ہے، ساتھ یہ جنسی تقاضوں کو ابھارنے میں اکسیر سمجھی جاتی ہے۔ اس کی قیمت بہت زیادہ ہونے کے باوجود چین میں اس کی طلب بہت زیادہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ادویات سازی کی صنعت بڑی انسانی خدمت ہے لیکن اس کے لیے کسی بھی جاندارکی نسل اور اس کی بقا کو خطرے میں ڈال دینا سرا سر نا انصافی اور ماحول دشمنی ہے۔ چین میں گدھوں کی بڑھتی ہوئی طلب نے تیسری دنیا کے ممالک خاص طور پر افریقا میں ایک عجیب سی فضا پیدا کردی ہے۔
چین کو موقعے سے فائدہ اٹھانا تو خوب ہی آتا ہے، اس معاملے میں اب وہ افریقا کی غربت کا جَم کر فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ایتھوپیا کے غریب کسانوں کو گدھے کے عوض دو دو سو ڈالر کی پیشکش کی جاتی ہے، انتہائی غربت کے مارے ان افریقیوں کے لیے دو سو ڈالرکسی نعمت سے کم نہیں یوں وہ وقتی فائدے اور لالچ کیلئے اپنا مستقل ذریعہ معاش چین کے حوالے کرنے میں ذرا تامل نہیں کرتے۔ چین کوگدھوں کی رسد پورا کرنے کے لیے افریقا میں گدھوں کی چوری اور اسمگلنگ عروج پر جا پہنچی ہے۔
ساتھ ہی کینیا میں چین نے بڑے پیمانے پر بوچڑخانے قائم کیے ہیں، جہاں روزانہ سو سے دو سو گدھے کاٹے جا رہے ہیں۔ ان بوچڑخانوں میں گدھوں کی کھال اتار کر کیمیکل میں محفوظ کی جاتی ہے اور پھر انہیں کنٹینروں میں بند کرکے بذریعہ بحرہند ہانگ کانگ روانہ کیا جاتا ہے۔ بدحال افریقی باشندے ڈالر کمانے کی لالچ میں جابجا گدھوں کی منڈیاں سجائے بیٹھے ہیں۔ مرد اور عورتیں عارضی فائدوں کے حصول کے لیے اپنا مستقبل چین کے ہاتھوں بیچ کر بہت خوش ہیں اور تالیاں پیٹ رہے ہیں کہ چین نے افریقا میں بنائے ان بوچڑخانوں میں مقامی باشندوں کو نوکریاں دے کر گویا ان کی بڑی معاشی خدمت کی ہے۔
پاکستان سے بھی گدھوں کی کھالیں چین اسمگل کرنے کی کوششیں کئی بار ناکام بنائی جا چکی ہیں۔ پابندی کے باوجود ہر ماہ ایک دو واقعات ایسے ضرور رونما ہوتے ہیں جب پولیس کھالوں کو اپنے قبضے میں لیتی ہے۔ اس کے بعد یہ کھالیں کہاں جاتی ہیں؟ یہ اللہ کو پتہ ہے یا پھر داروغہ جی کو۔ صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت نے تو چین کے ساتھ باقاعدہ گدھوں کی تجارت کا معاہدہ ہی کر ڈالا تھا، جس پر پھبتی کستے ہوئے کسی نے کہا تھا،''سی پیک میں خیبرپختونخوا کے حصے میں صرف گدھوں کا کاروبار ہی آیا ہے۔'' یہ بات تو بہ طور طنزکی گئی تھی، لیکن حالات و قرائن چیخ چلا کر یہی بتا رہے ہیں کہ چین کے ہاتھوں میں نظام آجانے کے بعد باقی دنیا کے ہاتھ میں کچھ بھی نہ رہے گا، سب کی ایک خوش نما خواب سے آنکھ کھل جائے گی اور ایک بھیانک سچ منتظر ہوگا جہاں چین کسی کے پاس گدھے بھی نہ چھوڑے گا۔
گدھوں کی افزائش کے طریقوں سے بے اعتنائی اور بڑی تعداد میں ان کی ہلاکت سے گدھوں کی بقا کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ ادویات کی تیاری میں گدھوں کو مارنے کا عمل قابلِ تشویش ہے۔ جانوروں کی تیزی سے ختم ہونے والی نسلوں سے ہمارا ماحولیاتی نظام بگڑتا جا رہا ہے، ایکو سسٹم تباہ ہو رہا ہے۔ نہایت ضروری ہے کہ معالج اور مریض ایسے کسی بھی علاج کو اختیار کرنے سے انکار کر دیں جس میں کسی بھی جاندار کی بقا خطرے میں ہو۔ جانور اور پودے ماحول کے تحفظ کے لیے عطیہ خداوندی ہیں، ان کا تحفظ ہر ذی شعورکی بنیادی ذمے داری ہے۔ ماحولیاتی نظام بگڑنے سے سب سے زیادہ متاثر وہی انسان ہوں گے جن کی سلامتی کے نام پر بنائی جانے والی ادویات کی تیاری میں ماحول کے ساتھ کھلواڑکیا جا رہا ہے۔