ملک میں حاکمیت صرف اللہ اور قانون کی ہوگی چیف جسٹس
رانا ثنااللہ، مریم اورنگزیب، انوشہ رحمان،عابد شیر علی عدلیہ کو گالیاں دیتے ہیں اور سکیورٹی بھی مانگتے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ملک میں حاکمیت صرف اللہ اور قانون کی ہوگی جب کہ قوم کا پیسہ سیاست دانوں کی سیکورٹی پر لٹانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
سپریم کورٹ رجسٹری لاہور میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سیاستدانوں، وزرا و دیگر شخصیات کو غیر ضروری سکیورٹی دینے کے کیس کی سماعت کی۔ پنجاب پولیس نے سیاست دانوں کو دی گئی سکیورٹی سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرادی جو چیف جسٹس نے مسترد کر دی۔
ڈی آئی جی عبدالرب نے بتایا کہ31 سیاست دانوں کو سکیورٹی فراہم کی گئی ہے. درخواست گزار اظہر صدیق نے کہا کہ پنجاب پولیس نے ساری سکیورٹی مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اور ان کے اہل و عیال کو دی ہے.
چیف جسٹس نے کہا کہ نواز شریف، شہباز شریف، احسن اقبال، ایاز صادق، زاہد حامد اور احسن اقبال کی سکیورٹی تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن رانا ثنااللہ، مریم اورنگزیب، انوشہ رحمان،عابد شیر علی، احسن اقبال کے بیٹے کو سکیورٹی کس لیے دی جارہی ہے، یہ لوگ ایک طرف تو عدلیہ کو گالیاں دیتے ہیں اور دوسری طرف سکیورٹی مانگتے ہیں، آئی جی صاحب آپ نے عدلیہ مخالف بیانات دینے والوں کو سکیورٹی فراہم کر رکھی ہے.
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک سکیورٹی اہلکار 25 ہزار میں پڑتا ہے اور ایک سیاست دان کی صرف سیکورٹی پر کم از کم 60 ہزار روپے اخراجات ہوتے ہیں، یہ قوم کا پیسہ ہے، اس طرح لٹانے کی اجازت نہیں دیں گے، یہ لوگ خود، سکیورٹی کا بندوبست نہیں کرسکتے تو بیت المال سے 60 ہزار روپے دے دیں۔
چیف جسٹس نے پنجاب پولیس کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے آئی جی پنجاب سے کہا کہ اس ملک میں حاکمیت صرف اللہ کی اور قانون کی ہوگی، آپ نے مجھے حمزہ شہباز کے برابر کی سکیورٹی دی ہے، آپ نے تو ججز اور سپریم کورٹ کے ججز کی سکیورٹی سے انکار کردیا تھا۔
عدالت نے سیاست دانوں کو سکیورٹی فراہم کرنے کی سفارشات دینے والی کمیٹی کو ذاتی حثیت میں رات 8 بجے طلب کرلیا۔
سپریم کورٹ رجسٹری لاہور میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سیاستدانوں، وزرا و دیگر شخصیات کو غیر ضروری سکیورٹی دینے کے کیس کی سماعت کی۔ پنجاب پولیس نے سیاست دانوں کو دی گئی سکیورٹی سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرادی جو چیف جسٹس نے مسترد کر دی۔
ڈی آئی جی عبدالرب نے بتایا کہ31 سیاست دانوں کو سکیورٹی فراہم کی گئی ہے. درخواست گزار اظہر صدیق نے کہا کہ پنجاب پولیس نے ساری سکیورٹی مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اور ان کے اہل و عیال کو دی ہے.
چیف جسٹس نے کہا کہ نواز شریف، شہباز شریف، احسن اقبال، ایاز صادق، زاہد حامد اور احسن اقبال کی سکیورٹی تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن رانا ثنااللہ، مریم اورنگزیب، انوشہ رحمان،عابد شیر علی، احسن اقبال کے بیٹے کو سکیورٹی کس لیے دی جارہی ہے، یہ لوگ ایک طرف تو عدلیہ کو گالیاں دیتے ہیں اور دوسری طرف سکیورٹی مانگتے ہیں، آئی جی صاحب آپ نے عدلیہ مخالف بیانات دینے والوں کو سکیورٹی فراہم کر رکھی ہے.
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک سکیورٹی اہلکار 25 ہزار میں پڑتا ہے اور ایک سیاست دان کی صرف سیکورٹی پر کم از کم 60 ہزار روپے اخراجات ہوتے ہیں، یہ قوم کا پیسہ ہے، اس طرح لٹانے کی اجازت نہیں دیں گے، یہ لوگ خود، سکیورٹی کا بندوبست نہیں کرسکتے تو بیت المال سے 60 ہزار روپے دے دیں۔
چیف جسٹس نے پنجاب پولیس کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے آئی جی پنجاب سے کہا کہ اس ملک میں حاکمیت صرف اللہ کی اور قانون کی ہوگی، آپ نے مجھے حمزہ شہباز کے برابر کی سکیورٹی دی ہے، آپ نے تو ججز اور سپریم کورٹ کے ججز کی سکیورٹی سے انکار کردیا تھا۔
عدالت نے سیاست دانوں کو سکیورٹی فراہم کرنے کی سفارشات دینے والی کمیٹی کو ذاتی حثیت میں رات 8 بجے طلب کرلیا۔