امریکا ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی پاسداری کرے
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں دنیا کو بڑی جنگ کا ایندھن بنا سکتی ہیں۔
ISLAMABAD:
ایک زمانہ تھا جب ایران مشرق وسطیٰ میں امریکا کا سب سے بڑا اتحادی تھا اور شاہ ایران کو علاقے کے لیے امریکا کا تھانے دار سمجھا جا تا تھا۔ تمام عرب بادشاہتیں بھی ایران کے مقابلے میں دفاعی اعتبار سے کمزور تھیں۔پھر ایران میں آیت اللہ خمینی کا اسلامی انقلاب آ گیا اور تہران کے امریکی سفارت خانے پر ایرانی پاسداران انقلاب نے دھاوا بول کر قبضہ کر لیا اور امریکی سفارت کاروںکو یرغمال بنا لیا، اس سے ایران اور امریکا میں انتہا درجے کی دشمنی کی ابتدا ہو گئی جو اب تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔
امریکا کی شہ پر عراق کے صدام حسین نے ایران پر چڑھائی کر دی اور یہ جنگ دس سال سے زیادہ عرصہ جاری رہی جس میں فریقین کے لاکھوں بندے کھیت ہوئے اور بالاخر اس بے نتیجہ جنگ کو بند کرنا پڑا جب کہ امریکا نے ایران پر اقتصادی پابندیاں لگا دیں اور یوں ایران کو اس امریکی دشمنی کے توڑ کے لیے ایٹمی پروگرام شروع کرنا پڑا جس پر امریکا نے ایران مزید پابندیاں لگا دیں۔
یورپی یونین بھی امریکا کے ساتھ ہے۔تاہم امریکا کے سابق صدر باریک اوباما نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایک معاہدہ کیا جسے یورپی یونین نے بھی منظور کیا، اس معاہدے سے دنیا نے محسوس کیا کہ اب ایران اور امریکا تنازعہ ختم ہوجائے گا لیکن صدر ٹرمپ اس معاہدے کے خلاف ہیں اوروہ اس معاہدے سے علیحدہ ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب ایران کے خلاف دھمکیوں کی زبان میں مزید شدت پیدا کی تو ایرانی قیادت نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جارحانہ پالیسی اختیار کرنے کے بجائے یورپی یونین اور چین کو اپنے موقف سے قائل کیا ۔ اب نئی پیش رفت میں چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے برسلز میں یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ فیدیریکا موگرینی سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ اْن کا ملک ایرانی جوہری ڈیل کو محفوظ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔
موگرینی اور ای نے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر دونوں سفارتکاروں نے واضح کیا کہ ایرانی جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے کیے گئے انٹرنیشنل معاہدے کو محفوظ رکھنے کی بہترین کوششیں امریکی دستبرداری کے بعد بھی جاری رکھی جائیں گی۔
موگرینی نے یہ بھی کہا کہ اس بین الاقوامی معاہدے میں شامل سبھی فریقوں کو اپنی اپنی ذمے داریاں نبھانی ہوں گی۔ امریکی صدر نے گزشتہ ماہ ایرانی جوہری ڈیل سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔ ویسے مسٹر ٹرمپ اپنی طرز کے انوکھے صدر امریکا کو نصیب ہوئے ہیں۔ ٹرمپ سے اگر کوئی بازی جیتتے ہیں تو وہ امریکی صدر ٹرومین ہیں جن کے حکم پر جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر دو ایٹم بم گرا کر لاکھوں جاپانیوں کو ہلاک کر دیا تھا جب کہ زخمی اور معذور ہونے والوں کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ تھی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں دنیا کو بڑی جنگ کا ایندھن بنا سکتی ہیں، امریکا کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی پاسداری کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں یورپی یونین اور چین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
ایک زمانہ تھا جب ایران مشرق وسطیٰ میں امریکا کا سب سے بڑا اتحادی تھا اور شاہ ایران کو علاقے کے لیے امریکا کا تھانے دار سمجھا جا تا تھا۔ تمام عرب بادشاہتیں بھی ایران کے مقابلے میں دفاعی اعتبار سے کمزور تھیں۔پھر ایران میں آیت اللہ خمینی کا اسلامی انقلاب آ گیا اور تہران کے امریکی سفارت خانے پر ایرانی پاسداران انقلاب نے دھاوا بول کر قبضہ کر لیا اور امریکی سفارت کاروںکو یرغمال بنا لیا، اس سے ایران اور امریکا میں انتہا درجے کی دشمنی کی ابتدا ہو گئی جو اب تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔
امریکا کی شہ پر عراق کے صدام حسین نے ایران پر چڑھائی کر دی اور یہ جنگ دس سال سے زیادہ عرصہ جاری رہی جس میں فریقین کے لاکھوں بندے کھیت ہوئے اور بالاخر اس بے نتیجہ جنگ کو بند کرنا پڑا جب کہ امریکا نے ایران پر اقتصادی پابندیاں لگا دیں اور یوں ایران کو اس امریکی دشمنی کے توڑ کے لیے ایٹمی پروگرام شروع کرنا پڑا جس پر امریکا نے ایران مزید پابندیاں لگا دیں۔
یورپی یونین بھی امریکا کے ساتھ ہے۔تاہم امریکا کے سابق صدر باریک اوباما نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایک معاہدہ کیا جسے یورپی یونین نے بھی منظور کیا، اس معاہدے سے دنیا نے محسوس کیا کہ اب ایران اور امریکا تنازعہ ختم ہوجائے گا لیکن صدر ٹرمپ اس معاہدے کے خلاف ہیں اوروہ اس معاہدے سے علیحدہ ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب ایران کے خلاف دھمکیوں کی زبان میں مزید شدت پیدا کی تو ایرانی قیادت نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جارحانہ پالیسی اختیار کرنے کے بجائے یورپی یونین اور چین کو اپنے موقف سے قائل کیا ۔ اب نئی پیش رفت میں چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے برسلز میں یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ فیدیریکا موگرینی سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ اْن کا ملک ایرانی جوہری ڈیل کو محفوظ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔
موگرینی اور ای نے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر دونوں سفارتکاروں نے واضح کیا کہ ایرانی جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے کیے گئے انٹرنیشنل معاہدے کو محفوظ رکھنے کی بہترین کوششیں امریکی دستبرداری کے بعد بھی جاری رکھی جائیں گی۔
موگرینی نے یہ بھی کہا کہ اس بین الاقوامی معاہدے میں شامل سبھی فریقوں کو اپنی اپنی ذمے داریاں نبھانی ہوں گی۔ امریکی صدر نے گزشتہ ماہ ایرانی جوہری ڈیل سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔ ویسے مسٹر ٹرمپ اپنی طرز کے انوکھے صدر امریکا کو نصیب ہوئے ہیں۔ ٹرمپ سے اگر کوئی بازی جیتتے ہیں تو وہ امریکی صدر ٹرومین ہیں جن کے حکم پر جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر دو ایٹم بم گرا کر لاکھوں جاپانیوں کو ہلاک کر دیا تھا جب کہ زخمی اور معذور ہونے والوں کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ تھی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں دنیا کو بڑی جنگ کا ایندھن بنا سکتی ہیں، امریکا کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی پاسداری کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں یورپی یونین اور چین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔