سیاسی منظرنامہ
جمہوری حکومتوں کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ وہ قانونی اور آئینی پیرامیٹرز سے ماورا جانے کا کبھی تصور نہیں رکھتیں۔
لاہور:
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے الیکشن کے حوالے سے دوٹوک اور واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ الیکشن 25 جولائی کو ہی ہوں گے، یوں عام انتخابات کے کسی بھی ممکنہ التوا کے تمام خدشات دور ہوگئے ہیں، معزز چیف جسٹس نے یہ بھی واضح کیا کہ الیکشن میں تاخیر نہیں ہونے دیں گے، اس لیے کوئی غلط فہمی میں نہ رہے۔
اگلے روز چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کے لیے دائر درخواست کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دیے جو نہ صرف چشم کشا تھے بلکہ ان عناصر کے لیے ایک انتباہ اور تلقین بھی ہے جو اشاروں کنایوں اور حیلے بہانوں سے انتخابات کے التوا کی قیاس آرائیوں سے بے یقینی کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ بعض سیاسی رہنما بھی الیکشن میں تاخیر کے غیر ضروری بیانات دے کر ان قوتوں کو تقویت دے رہے ہیں جو جمہوری عمل کے کبھی حق میں نہیں رہے اور ان کا منجمد سیاسی انداز فکر اور عہد حاضر کے جدید سائنسی اور فکری رویوں سے لاتعلق سوچ اس دائرہ سے باہر نکلنے پر تیار نہیں کہ وقت مقررہ پر انتخابات نہ صرف ایک آئینی ضرورت ہیں بلکہ سیاست میں کشیدگی، الزام تراشی اور عدم رواداری کی وجہ سے جو ہیجانی صورتحال پیدا ہوئی ہے اس سے نجات اور مستقبل کی صورت گری کے لیے نئے انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔
جمہوری حکومتوں کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ وہ قانونی اور آئینی پیرامیٹرز سے ماورا جانے کا کبھی تصور نہیں رکھتیں، ان کے سارے معاملات باہمی مشاورت اور خیر سگالی کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں، قومی مفاد سے وابستہ مکالمہ اور سیاسی مسائل کا حل تحمل و تدبر سے تجویز ہوتے ہیں، سیاسی تنازعات کا سیاسی حل ڈھونڈا جاتا ہے، اگر ن لیگ کی پانچ سالہ کارکردگی اور حکومت و اپوزیشن کے درمیان مختلف ایشوز پر ٹکراؤ، اداروں میں ہم آہنگی کے فقدان سے ہونے والے قومی نقصانات کا دی اینڈ بند گلی کی صورت میں برآمد ہوتا، تو حکومت زچ ہوجاتی، کاروبار حکومت ٹھپ ہوجاتا، جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کے سنگین خطرات لاحق ہوتے، اور کئی باتیں بھی ہوتیں۔
میڈیا میں کئی بار ایسا منظرنامہ اٹھایا گیا کہ جمہوریت کے زوال کی پیشگوئیاں ہونے لگیں، مگر ہر آندھی رک گئی، سیاسی درجہ حرارت بڑھا تو اسے سیاست دانوں نے ہی کم کیا، پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے بیانات آئے مگر شکایت یہی رہی کہ سیاسی مسائل کا حل پارلیمنٹ سے باہر تلاش کرنے کی کوششوں کے باعث نظم حکمرانی نے لاتعداد جھٹکے برداشت کیے، مگر دشمنوں کی ہر سازش ناکام ہوئی اور جمہوریت ہر طوفان سے بچ کر آج اس مقام پر ہے کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ انتخابات کے انعقاد کی کامیاب جدوجہد کسی غیر مرئی طاقت کے جادوئی منتر کا نتیجہ ہے۔
یہ اتفاق رائے سیاسی بلوغت کی علامت ہے، سیاست دان سب بیک زبان کہہ سکتے ہیں کہ انتخابات کے یقینی انعقاد کی یہ منزل سیاستدانوں کی اجتماعی دانش اور مقتدر ریاستی اداروں کی جمہوریت پسندی اور قومی مفاد میں تحمل و برداشت کی پالیسی کا ثمر ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بار بار قومی معاملات، سیاسی کشمکش اور حکومت و اپوزیشن میں محاذ آرائی کے سیاق وسباق میں ہمیشہ جمہوریت اور آئین کا ساتھ دینے کی بات کرتے رہے ہیں، چنانچہ ملکی سیاست میں انتہا درجہ کی گرما گرمی رہی، ایوانوں کے اندر اور باہر سیاست آپے سے باہر تھی لیکن قوم کا جمہوریت پر اعتماد تھا، جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جسٹس (ر) ناصر الملک نے حلف اٹھا لیا ہے، سندھ میں وزیراعلیٰ نامزد ہوچکا ہے، ادھر پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھی آئین کے مطابق تمام فیصلے ہوجائیں گے۔
پاکستانی قوم تہیہ کرچکی ہے کہ ملکی معیشت اور عوام کی فلاح وبہبود، ملکی سیاسی اور جمہوری فضا کو مکدر کرنے والوں کو شکست ہوگی۔ یوں ضرورت صحت مند انتخابی سرگرمیوں کو عصری تقاضوں اور پیداشدہ حالات کی روشنی میں چینلائز کرنے اور الیکشن ڈائنامکس کو بڑھاوا دینے کی ہے، سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی اجلاسوں کا سلسلہ جاری ہے، سیاسی مین اسٹریم جماعتوں کو آئندہ انتخابات کے شفاف انعقاد کے لیے انتخابی اداروں کی مدد کرنی چاہیے۔
گھبرانے کی بات نہیں، کیونکہ 70 برس بعد ملکی سیاست، میڈیا اور عدلیہ بہ انداز دگر قوم کے سامنے آئی ہے، عدلیہ فعالیت کی علمبردار ہے، اگلے روز لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن 2018 کے لیے پارلیمنٹ کے تیار کردہ کاغذات نامزدگی آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم کردیے اور الیکشن کمیشن کو نئے کاغذات نامزدگی تیار کرنے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس عائشہ اے ملک نے سعد رسول ایڈووکیٹ کی درخواست پر محفوظ کیا گیا فیصلہ جاری کیا جس میں الیکشن ایکٹ کی دفعہ 60، 110 اور 137 کو چیلنج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ کاغذات نامزدگی کی تیاری اور ان میں تبدیلی پارلیمنٹ کا نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے لیکن پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ کے ذریعے کاغذات نامزدگی میں تبدیلی کردی ہے جس کے بعد اب سیاستدانوں پر غیرملکی آمدن، زیرکفالت افرادکی تفصیلات، مقدمات کا ریکارڈ، ٹیکس ڈیفالٹ، قرضہ نادہندگی، دہری شہریت، یوٹیلٹی ڈیفالٹ، پاسپورٹس اور مجرمانہ سرگرمیاں ظاہرکرنا لازمی نہیں ہے، جو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی سنگین خلاف ورزی ہے، یہ معاملات آئینی ہیں، لہٰذا اس آئینی مسئلہ کا حل بھی آئین میں موجود ہے اور ملکی سیاست اسی آئین کے تحت اپنی انتخابی منزل تک پہنچے گی۔
دریں اثنا پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اعتزاز احسن، خورشید شاہ، فرحت اللہ بابر، شیری رحمن اور نیر بخاری نے بلاول ہاؤس میڈیا سیل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی الیکشن مؤخر کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دے گی۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد و سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ الیکشن ملتوی کرنا تو دور کی بات ہے ایک گھنٹہ کی تاخیر بھی نہیں ہونی چاہیے، عمران خان کا کہنا ہے کہ ہمارا مقصد ہے کہ نیوٹرل امپائر الیکشن کرائیں، نگران وزیراعلیٰ پر بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم نے ایمانداری سے ناصر کھوسہ کا نام دیا تھا لیکن اس نام پر بڑا شور مچا اس لیے ہم نے نام واپس لیا۔
ادھر معاشی افق کی خبر لیجیے، پاکستانی قرضوں کے بڑھتے حجم کے باعث پاکستان پر ایک بار پھرآئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کا خطرہ منڈلانے لگا۔ پاکستان کو 5 ماہ میں 3 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں جس کی وجہ سے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام میں داخل ہونے سے بچنا مشکل ہے۔
عالمی جریدے بلوم برگ کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو آئندہ 5 ماہ میں 3 ارب ڈالر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، پیرس کلب اور چین کو ادا کرنے ہیں، دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے بیل آؤٹ پیکیج کی ضرورت ہوگی، جو آئی ایم ایف سے ملے گا۔
بہرکیف کچھ حلقے تاحال ایسی افواہیں پھیلا رہے ہیں کہ الیکشن ٹائم پر نہیں ہوں گے، اس حوالے سے حلقہ بندیوں اور کاغذات نامزدگی فارم کی منسوخی کو بنیاد بنایا جارہا ہے، لیکن یہ ایسے ایشوز نہیں جن کی بنیاد پر الیکشن آگے کیے جائیں۔ اب کیونکہ سب کچھ شیڈول کے مطابق ہو رہا ہے، چیف جسٹس نے بھی کہہ دیا ہے لہٰذا الیکشن وقت پر ہی ہوں گے، یہی جمہوریت کے لیے بہتر ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے الیکشن کے حوالے سے دوٹوک اور واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ الیکشن 25 جولائی کو ہی ہوں گے، یوں عام انتخابات کے کسی بھی ممکنہ التوا کے تمام خدشات دور ہوگئے ہیں، معزز چیف جسٹس نے یہ بھی واضح کیا کہ الیکشن میں تاخیر نہیں ہونے دیں گے، اس لیے کوئی غلط فہمی میں نہ رہے۔
اگلے روز چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کے لیے دائر درخواست کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دیے جو نہ صرف چشم کشا تھے بلکہ ان عناصر کے لیے ایک انتباہ اور تلقین بھی ہے جو اشاروں کنایوں اور حیلے بہانوں سے انتخابات کے التوا کی قیاس آرائیوں سے بے یقینی کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ بعض سیاسی رہنما بھی الیکشن میں تاخیر کے غیر ضروری بیانات دے کر ان قوتوں کو تقویت دے رہے ہیں جو جمہوری عمل کے کبھی حق میں نہیں رہے اور ان کا منجمد سیاسی انداز فکر اور عہد حاضر کے جدید سائنسی اور فکری رویوں سے لاتعلق سوچ اس دائرہ سے باہر نکلنے پر تیار نہیں کہ وقت مقررہ پر انتخابات نہ صرف ایک آئینی ضرورت ہیں بلکہ سیاست میں کشیدگی، الزام تراشی اور عدم رواداری کی وجہ سے جو ہیجانی صورتحال پیدا ہوئی ہے اس سے نجات اور مستقبل کی صورت گری کے لیے نئے انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔
جمہوری حکومتوں کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ وہ قانونی اور آئینی پیرامیٹرز سے ماورا جانے کا کبھی تصور نہیں رکھتیں، ان کے سارے معاملات باہمی مشاورت اور خیر سگالی کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں، قومی مفاد سے وابستہ مکالمہ اور سیاسی مسائل کا حل تحمل و تدبر سے تجویز ہوتے ہیں، سیاسی تنازعات کا سیاسی حل ڈھونڈا جاتا ہے، اگر ن لیگ کی پانچ سالہ کارکردگی اور حکومت و اپوزیشن کے درمیان مختلف ایشوز پر ٹکراؤ، اداروں میں ہم آہنگی کے فقدان سے ہونے والے قومی نقصانات کا دی اینڈ بند گلی کی صورت میں برآمد ہوتا، تو حکومت زچ ہوجاتی، کاروبار حکومت ٹھپ ہوجاتا، جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کے سنگین خطرات لاحق ہوتے، اور کئی باتیں بھی ہوتیں۔
میڈیا میں کئی بار ایسا منظرنامہ اٹھایا گیا کہ جمہوریت کے زوال کی پیشگوئیاں ہونے لگیں، مگر ہر آندھی رک گئی، سیاسی درجہ حرارت بڑھا تو اسے سیاست دانوں نے ہی کم کیا، پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے بیانات آئے مگر شکایت یہی رہی کہ سیاسی مسائل کا حل پارلیمنٹ سے باہر تلاش کرنے کی کوششوں کے باعث نظم حکمرانی نے لاتعداد جھٹکے برداشت کیے، مگر دشمنوں کی ہر سازش ناکام ہوئی اور جمہوریت ہر طوفان سے بچ کر آج اس مقام پر ہے کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ انتخابات کے انعقاد کی کامیاب جدوجہد کسی غیر مرئی طاقت کے جادوئی منتر کا نتیجہ ہے۔
یہ اتفاق رائے سیاسی بلوغت کی علامت ہے، سیاست دان سب بیک زبان کہہ سکتے ہیں کہ انتخابات کے یقینی انعقاد کی یہ منزل سیاستدانوں کی اجتماعی دانش اور مقتدر ریاستی اداروں کی جمہوریت پسندی اور قومی مفاد میں تحمل و برداشت کی پالیسی کا ثمر ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بار بار قومی معاملات، سیاسی کشمکش اور حکومت و اپوزیشن میں محاذ آرائی کے سیاق وسباق میں ہمیشہ جمہوریت اور آئین کا ساتھ دینے کی بات کرتے رہے ہیں، چنانچہ ملکی سیاست میں انتہا درجہ کی گرما گرمی رہی، ایوانوں کے اندر اور باہر سیاست آپے سے باہر تھی لیکن قوم کا جمہوریت پر اعتماد تھا، جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جسٹس (ر) ناصر الملک نے حلف اٹھا لیا ہے، سندھ میں وزیراعلیٰ نامزد ہوچکا ہے، ادھر پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھی آئین کے مطابق تمام فیصلے ہوجائیں گے۔
پاکستانی قوم تہیہ کرچکی ہے کہ ملکی معیشت اور عوام کی فلاح وبہبود، ملکی سیاسی اور جمہوری فضا کو مکدر کرنے والوں کو شکست ہوگی۔ یوں ضرورت صحت مند انتخابی سرگرمیوں کو عصری تقاضوں اور پیداشدہ حالات کی روشنی میں چینلائز کرنے اور الیکشن ڈائنامکس کو بڑھاوا دینے کی ہے، سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی اجلاسوں کا سلسلہ جاری ہے، سیاسی مین اسٹریم جماعتوں کو آئندہ انتخابات کے شفاف انعقاد کے لیے انتخابی اداروں کی مدد کرنی چاہیے۔
گھبرانے کی بات نہیں، کیونکہ 70 برس بعد ملکی سیاست، میڈیا اور عدلیہ بہ انداز دگر قوم کے سامنے آئی ہے، عدلیہ فعالیت کی علمبردار ہے، اگلے روز لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن 2018 کے لیے پارلیمنٹ کے تیار کردہ کاغذات نامزدگی آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم کردیے اور الیکشن کمیشن کو نئے کاغذات نامزدگی تیار کرنے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس عائشہ اے ملک نے سعد رسول ایڈووکیٹ کی درخواست پر محفوظ کیا گیا فیصلہ جاری کیا جس میں الیکشن ایکٹ کی دفعہ 60، 110 اور 137 کو چیلنج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ کاغذات نامزدگی کی تیاری اور ان میں تبدیلی پارلیمنٹ کا نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے لیکن پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ کے ذریعے کاغذات نامزدگی میں تبدیلی کردی ہے جس کے بعد اب سیاستدانوں پر غیرملکی آمدن، زیرکفالت افرادکی تفصیلات، مقدمات کا ریکارڈ، ٹیکس ڈیفالٹ، قرضہ نادہندگی، دہری شہریت، یوٹیلٹی ڈیفالٹ، پاسپورٹس اور مجرمانہ سرگرمیاں ظاہرکرنا لازمی نہیں ہے، جو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی سنگین خلاف ورزی ہے، یہ معاملات آئینی ہیں، لہٰذا اس آئینی مسئلہ کا حل بھی آئین میں موجود ہے اور ملکی سیاست اسی آئین کے تحت اپنی انتخابی منزل تک پہنچے گی۔
دریں اثنا پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اعتزاز احسن، خورشید شاہ، فرحت اللہ بابر، شیری رحمن اور نیر بخاری نے بلاول ہاؤس میڈیا سیل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی الیکشن مؤخر کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دے گی۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد و سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ الیکشن ملتوی کرنا تو دور کی بات ہے ایک گھنٹہ کی تاخیر بھی نہیں ہونی چاہیے، عمران خان کا کہنا ہے کہ ہمارا مقصد ہے کہ نیوٹرل امپائر الیکشن کرائیں، نگران وزیراعلیٰ پر بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم نے ایمانداری سے ناصر کھوسہ کا نام دیا تھا لیکن اس نام پر بڑا شور مچا اس لیے ہم نے نام واپس لیا۔
ادھر معاشی افق کی خبر لیجیے، پاکستانی قرضوں کے بڑھتے حجم کے باعث پاکستان پر ایک بار پھرآئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کا خطرہ منڈلانے لگا۔ پاکستان کو 5 ماہ میں 3 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں جس کی وجہ سے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام میں داخل ہونے سے بچنا مشکل ہے۔
عالمی جریدے بلوم برگ کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو آئندہ 5 ماہ میں 3 ارب ڈالر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، پیرس کلب اور چین کو ادا کرنے ہیں، دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے بیل آؤٹ پیکیج کی ضرورت ہوگی، جو آئی ایم ایف سے ملے گا۔
بہرکیف کچھ حلقے تاحال ایسی افواہیں پھیلا رہے ہیں کہ الیکشن ٹائم پر نہیں ہوں گے، اس حوالے سے حلقہ بندیوں اور کاغذات نامزدگی فارم کی منسوخی کو بنیاد بنایا جارہا ہے، لیکن یہ ایسے ایشوز نہیں جن کی بنیاد پر الیکشن آگے کیے جائیں۔ اب کیونکہ سب کچھ شیڈول کے مطابق ہو رہا ہے، چیف جسٹس نے بھی کہہ دیا ہے لہٰذا الیکشن وقت پر ہی ہوں گے، یہی جمہوریت کے لیے بہتر ہے۔