شریکِ جُرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ممبران اسمبلی کی مرضی سے بنے فارمز سے یہی توقع ہے کہ امیدوار اسکروٹنی کے عمل سے تو گزریں گے لیکن کڑا امتحان نہیں ہوگا
پاکستان کی دوسری جمہوری حکومت نے اپنی 5 سالہ آئینی مدت بخیر و خوبی مکمل کرلی اور گزشتہ عام انتخابات کی طرح رواں برس بھی 5 سال اقتدار کے مزے لوٹنے والے اکثر اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی آخری ایام میں اپنی سیاسی وابستگیاں تبدیل کرتے رہے۔ 5 سال تک قائد ایوان کی ہاں میں ہاں ملانے والے متعدد سیاستدان اپوزیشن کی کرسیوں پر بیٹھ کر بینچ بجاتے نظر آئے، اور کوئی حزبِ اختلاف کی صف سے نکل کر اقتدار کی کرسیوں کی جانب دوڑتا نظرآیا۔ الغرض سیاستدانوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے جن کی زندگیاں سیاسی قلابازیوں سے عبارت ہیں۔ اور مفاد و اقتدار کی چاہ میں ایک جماعت سے دوسری جماعت میں شمولیت کو یہ معیوب عمل نہیں رہا کیوں کہ ہارس ٹریڈنگ ہماری سیاسی کلچر کا حصہ بن چکا ہے اور ناقابلِ تردید حقیقت یہ ہے کہ سیاست ایک منافع بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔
سیاستدانوں میں جمہوری، سیاسی اور اخلاقی اصولوں کی قدر نہیں بس ذات برادری، مال و دولت سیاست کی اولین شرائط ہیں۔ ممبر اسمبلی بننے کے لیے کروڑوں روپے درکار ہوتے ہیں، اب دولت، ذات پات اور بدمعاشی کے زور پر منتخب ہونے والے نمائندے عوام کی کیا خدمت کریں گے جب کہ غریب چاہے کتنا ہی لائق اور قابل کیوں نہ ہو، وہ پارلیمنٹ کی عمارت تک پہنچنے کے بجائے سیاسی جلسوں میں نعرے لگانے اور تالیاں بجانے تک محدود ہیں۔
پاکستان میں قائد اعظم کی وفات کے بعد سے آج تک اتحاد، تنظیم، یقین اور نظم وضبط کا فقدان رہا، ملک کے بالادست طبقے ہی ملکی سیاست پر قابض رہے جنہوں نے معاشرتی ناہمواریوں کو پروان چڑھایا، طبقاتی تقسیم کو ہوا دی اور قومی دولت کی لوٹ مار کو اپنا شعار بنا کر سیاست کو غریب کے لیے شجرِ ممنوعہ قرار دے دیا۔ آج قائد اعظم کی استقامت اور اصول پسندی کی مثالیں دینے والے خود ان اوصاف سے قطعی عاری ہیں، اور اپنی تمام تر صلاحیتیں و توانائیاں اقتدار کو دوام اور استحکام دینے پر صرف کررہے ہیں، اگر عدلیہ کسی سیاستدان کے خلاف ثبوتوں و شواہد کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کر بھی دے تو تمام اراکین مل کر اس کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرلیتے ہیں، اس طرح معاشرے کی اصلاح کے بجائے کرپشن کو مزید فروغ ملتا ہے۔
دنیا بھر میں آئین کے مطابق ایوان بالا اور ایوان زیریں کے تمام اراکین صرف قانون سازی کے لئے منتخب ہوتے ہیں، لیکن پاکستان میں انہی اراکین کو ترقیاتی کاموں کی مد میں ہر سال کروڑوں روپے دیے جاتے ہیں، یہ رقوم کہاں اور کتنی خرچ ہوتی ہیں اور کون ہڑپ کرجاتا ہے؟ یہ کسی کو نہیں پتہ۔ آج تک کسی قائدِ حزب اختلاف یا رکن پارلیمنٹ نے یہ آواز بلند نہیں کی کہ کس ممبر اسمبلی نے کس مد میں کتنی رقم وصول کی، اور کہاں خرچ کی، اس کا حساب دیا جائے؟ وجہ صاف ظاہر ہے، 'شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے'
ہونا تو یہ چاہے تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ہر جانے والی حکومت کی ایک جائزہ رپورٹ کے لے ٹیمیں تشکیل دی جاتیں اور کاغذاتِ نامزدگی میں ایک خانے کا اضافہ کیا جاتا جس میں امیدوار اپنی کارکردگی رپورٹ پیش کرتا اور بتاتا کہ اس نے اپنے دورِ حکومت میں کتنی رقوم وصول کرکے کہاں خرچ کیں۔ پھر الیکشن کمیشن شق 62 ، 63 کے تحت اس بات کا جائزہ لیتا کہ کس نمائندے نے عوام کے پیسے کو کس عوامی کام اور کس نے بے دردی سے پانی کی طرح بہا دیا، تو شاید سابقہ دورِ حکومت میں حکومت اور اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے والے اکثر اراکین آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کے بجائے علاج کی غرض سے بیرون ملک روانہ ہوچکے ہوتے۔
اگر الیکشن کمیشن کاغذاتِ نامزدگی میں صرف یہ اضافہ کرکے اس قانون پر عمدرآمد کرادے کہ کوئی بھی رکن قومی و صوبائی اسمبلی ترقیاتی کاموں کی مد میں فنڈ وصول نہیں کرسکتا بلکہ صرف قانون سازی تک ہی محدود رہے گا۔ ترقیاتی کام جو درحقیقت مقامی سطح پر صرف بلدیاتی نمائندوں کا ہے، وہ کریں گے؛ تو سیاستدان عوامی خدمت کے بجائے اپنے اہل خانہ کی خدمت کو ہی ترجیح دیں گے۔
لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ عام انتخابات کے لئے چھپنے والے کاغذات نامزدگی فارمز جو پہلی مرتبہ الیکشن کمیشن کی بجائے ارکان پارلیمنٹ نے خود تیار کرائے ہیں، اس میں سے دہری شہریت، قرضوں، مقدمات، تعلیم، پیشہ، ڈیفالٹر کے خانے غائب کردیے گئے ہیں، جب کہ 3 سالہ ٹیکس کی معلومات کا کالم بھی حذف کردیا گیا ہے۔ فارمز سے امیدوار کے بیرون ملک دوروں کی تفصیلات بھی نکال دی گئی ہیں جس کے نتیجے میں امیدوار اقامہ ظاہر نہیں کریں گے۔
اب اراکین پارلیمنٹ کی مرضی سے بنے ہوئے فارمز سے یہی توقع رکھی جاسکتی ہے کہ امیدوار اسکروٹنی کے عمل سے تو گزریں گے لیکن یہ کوئی کڑا امتحان نہیں ہوگا۔ پیشہ ور سیاستدانوں کے اعمال کھل کر سامنے آبھی جائیں گے، کسی نے قرضے معاف کرائے ہوں گے، کسی پر بجلی و گیس کے بل واجب الادا ہوں گے، کسی نے ٹیکس چوری کی ہوگی اور کوئی منی لانڈرنگ کے جرم کا مرتکب ہوگا، کوئی جعلی ڈگری لے کر ایوان میں اپنی فہم وفراست کے جوہر دکھائے ہوں گے اور کوئی کرپشن میں ملوث رہا ہوگا، اور کسی کے پاس بوقتِ ضرورت ملک سے بھاگنے کے لئے دوہری شہریت بھی ہوگی؛ لیکن پھر بھی وہ ہر امتحان سے پاس ہوکر انتخابی میدان میں اترے گا اور عوام اسے اپنے قیمتی ووٹ کے ذریعے اپنا مسیحا چنے گی۔ یہ ہمارا المیہ ہے!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
سیاستدانوں میں جمہوری، سیاسی اور اخلاقی اصولوں کی قدر نہیں بس ذات برادری، مال و دولت سیاست کی اولین شرائط ہیں۔ ممبر اسمبلی بننے کے لیے کروڑوں روپے درکار ہوتے ہیں، اب دولت، ذات پات اور بدمعاشی کے زور پر منتخب ہونے والے نمائندے عوام کی کیا خدمت کریں گے جب کہ غریب چاہے کتنا ہی لائق اور قابل کیوں نہ ہو، وہ پارلیمنٹ کی عمارت تک پہنچنے کے بجائے سیاسی جلسوں میں نعرے لگانے اور تالیاں بجانے تک محدود ہیں۔
پاکستان میں قائد اعظم کی وفات کے بعد سے آج تک اتحاد، تنظیم، یقین اور نظم وضبط کا فقدان رہا، ملک کے بالادست طبقے ہی ملکی سیاست پر قابض رہے جنہوں نے معاشرتی ناہمواریوں کو پروان چڑھایا، طبقاتی تقسیم کو ہوا دی اور قومی دولت کی لوٹ مار کو اپنا شعار بنا کر سیاست کو غریب کے لیے شجرِ ممنوعہ قرار دے دیا۔ آج قائد اعظم کی استقامت اور اصول پسندی کی مثالیں دینے والے خود ان اوصاف سے قطعی عاری ہیں، اور اپنی تمام تر صلاحیتیں و توانائیاں اقتدار کو دوام اور استحکام دینے پر صرف کررہے ہیں، اگر عدلیہ کسی سیاستدان کے خلاف ثبوتوں و شواہد کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کر بھی دے تو تمام اراکین مل کر اس کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرلیتے ہیں، اس طرح معاشرے کی اصلاح کے بجائے کرپشن کو مزید فروغ ملتا ہے۔
دنیا بھر میں آئین کے مطابق ایوان بالا اور ایوان زیریں کے تمام اراکین صرف قانون سازی کے لئے منتخب ہوتے ہیں، لیکن پاکستان میں انہی اراکین کو ترقیاتی کاموں کی مد میں ہر سال کروڑوں روپے دیے جاتے ہیں، یہ رقوم کہاں اور کتنی خرچ ہوتی ہیں اور کون ہڑپ کرجاتا ہے؟ یہ کسی کو نہیں پتہ۔ آج تک کسی قائدِ حزب اختلاف یا رکن پارلیمنٹ نے یہ آواز بلند نہیں کی کہ کس ممبر اسمبلی نے کس مد میں کتنی رقم وصول کی، اور کہاں خرچ کی، اس کا حساب دیا جائے؟ وجہ صاف ظاہر ہے، 'شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے'
ہونا تو یہ چاہے تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ہر جانے والی حکومت کی ایک جائزہ رپورٹ کے لے ٹیمیں تشکیل دی جاتیں اور کاغذاتِ نامزدگی میں ایک خانے کا اضافہ کیا جاتا جس میں امیدوار اپنی کارکردگی رپورٹ پیش کرتا اور بتاتا کہ اس نے اپنے دورِ حکومت میں کتنی رقوم وصول کرکے کہاں خرچ کیں۔ پھر الیکشن کمیشن شق 62 ، 63 کے تحت اس بات کا جائزہ لیتا کہ کس نمائندے نے عوام کے پیسے کو کس عوامی کام اور کس نے بے دردی سے پانی کی طرح بہا دیا، تو شاید سابقہ دورِ حکومت میں حکومت اور اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے والے اکثر اراکین آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کے بجائے علاج کی غرض سے بیرون ملک روانہ ہوچکے ہوتے۔
اگر الیکشن کمیشن کاغذاتِ نامزدگی میں صرف یہ اضافہ کرکے اس قانون پر عمدرآمد کرادے کہ کوئی بھی رکن قومی و صوبائی اسمبلی ترقیاتی کاموں کی مد میں فنڈ وصول نہیں کرسکتا بلکہ صرف قانون سازی تک ہی محدود رہے گا۔ ترقیاتی کام جو درحقیقت مقامی سطح پر صرف بلدیاتی نمائندوں کا ہے، وہ کریں گے؛ تو سیاستدان عوامی خدمت کے بجائے اپنے اہل خانہ کی خدمت کو ہی ترجیح دیں گے۔
لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ عام انتخابات کے لئے چھپنے والے کاغذات نامزدگی فارمز جو پہلی مرتبہ الیکشن کمیشن کی بجائے ارکان پارلیمنٹ نے خود تیار کرائے ہیں، اس میں سے دہری شہریت، قرضوں، مقدمات، تعلیم، پیشہ، ڈیفالٹر کے خانے غائب کردیے گئے ہیں، جب کہ 3 سالہ ٹیکس کی معلومات کا کالم بھی حذف کردیا گیا ہے۔ فارمز سے امیدوار کے بیرون ملک دوروں کی تفصیلات بھی نکال دی گئی ہیں جس کے نتیجے میں امیدوار اقامہ ظاہر نہیں کریں گے۔
اب اراکین پارلیمنٹ کی مرضی سے بنے ہوئے فارمز سے یہی توقع رکھی جاسکتی ہے کہ امیدوار اسکروٹنی کے عمل سے تو گزریں گے لیکن یہ کوئی کڑا امتحان نہیں ہوگا۔ پیشہ ور سیاستدانوں کے اعمال کھل کر سامنے آبھی جائیں گے، کسی نے قرضے معاف کرائے ہوں گے، کسی پر بجلی و گیس کے بل واجب الادا ہوں گے، کسی نے ٹیکس چوری کی ہوگی اور کوئی منی لانڈرنگ کے جرم کا مرتکب ہوگا، کوئی جعلی ڈگری لے کر ایوان میں اپنی فہم وفراست کے جوہر دکھائے ہوں گے اور کوئی کرپشن میں ملوث رہا ہوگا، اور کسی کے پاس بوقتِ ضرورت ملک سے بھاگنے کے لئے دوہری شہریت بھی ہوگی؛ لیکن پھر بھی وہ ہر امتحان سے پاس ہوکر انتخابی میدان میں اترے گا اور عوام اسے اپنے قیمتی ووٹ کے ذریعے اپنا مسیحا چنے گی۔ یہ ہمارا المیہ ہے!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔