سامراجی قرضوں کی برکات

پاکستان جب وجود میں آیا تو 1947 میں ایک روپیہ ایک ڈالر کے برابر تھا۔

zb0322-2284142@gmail.com

پاکستان جب وجود میں آیا تو 1947 میں ایک روپیہ ایک ڈالر کے برابر تھا۔ اور جب سوویت یونین میں 1917 میں انقلاب آیا تھا تو اس وقت بھی ایک روبل ایک ڈالر کے برابر تھا۔ سوشلسٹ بلاک میں افراط زر، مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ اور کرنسی کی قیمتوں میں کمی اس لیے بھی نہیں ہوئی تھی کہ پیٹرو ڈالر کے ذریعے تبادلہ ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ بارٹر نظام رائج تھا یعنی مال کے بدلے مال۔

آج سے 50 ہزار سال قبل جب زراعت شروع ہوئی تو کرنسی نوٹس یا سکے کا وجود ہی نہیں تھا۔ دور جدید کے شروعات میں گائے، چمڑا، کوڑی اور نمک کے ذریعے اجناس کا تبادلہ ہوا کرتا تھا لیکن زراعت کی ابتداء کے وقت اور دور وحشت میں اجناس اور ضروریات زندگی کی پیداوار کو براہ راست آپس میں ہی تبادلہ کرلیا جاتا تھا۔ ساری پیداوار کے مالک سارے لوگ ہوتے تھے، کوئی ارب پتی تھا اور نہ کوئی گداگر۔ مگر آج سرمایہ داری نے دنیا کی 7 ارب کی آبادی میں سے ساڑھے پانچ ارب کی آبادی کو غربت کی لکیر (جو روزانہ 2 ڈالر سے کم کماتا ہو) کے نیچے زندگی بسر کرنے پر، بھوک سے تڑپ تڑپ کر ہر روز 50 ہزار انسان کو مرنے پر مجبور کردیا ہے۔

ہم اگر تنقید کریں گے تو بورژوا (سرمایہ دار) دانشور کہیں گے کہ یہ تو کالم نگار کمیونسٹ، انارکسسٹ، شوسلسٹ اور نہ جانے کیا کیا ہیں۔ ان ہی کی زبان سے ان کی بات سنیں۔ آج آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اے ڈی پی وغیرہ مجبور ہوچکے ہیں کہ سرمایہ داری کی غلیظ تعفن کو ان سے چھپائے نہیں چھپایا جارہا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے کہا کہ پاکستان کی منتخب حکومت کی 5 سالہ میعاد کے اختتام پر کسی بڑی پالیسی یا ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے حوالے سے محدود سیاسی امکانات کے باعث مالی سال 2013 میں اقتصادی پیش رفت مالی سال 2012 سے مماثل ہی رہے گی۔ تاہم غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر کے متعلق خدشات میں شدت آسکتی ہے۔

رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں پاکستان کی اقتصادی صورت حال مزید کمزور ہوگئی ہے۔ سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں کمی ہوئی جب کہ جنوری میں سود اور عمومی افراط زر دونوں میں اضافہ ہوا جب کہ برآمدات جمود کا شکار ہیں اور درآمدات بھی پکڑ رہی ہے۔ ایشین ڈیولپمنٹ آؤٹ لُک نامی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار 0.1 فیصد کمی سے 3.6 فیصد رہنے کی امید ہے جو مالی سال 2014 میں مزید کم ہوکر 3.5 فیصد ہوجائے گی۔

2012میں شرح نمو 3.7 فیصد تھا جب کہ زرعی پیداوار میں کمی کے باعث شرح نمو مزید گرنے کا خدشہ ہے مگر زرعی پیداوار میں کمی کے اثرات پہلی ششماہی میں بڑے پیمانے پر پڑے گی۔ رپورٹ کے مطابق سی پی آئی کی بنیاد پر افراط زر کی شرح میں رواں مالی سال کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران کمی کا رجحان رہا ہے جس کی بڑی وجہ فوڈ انفلیشن میں کمی ہے، فروری 2013 میں خوراک مہنگی ہونے کے باعث افراط زر کی شرح 7.4 فیصد رہی۔ خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں سست رو اضافے کے باعث مالی سال 2013 کے دوران افراط زر کی شرح اوسطاً 9 فیصد رہنے کی امید ہے۔ 2014 میں بھی مالی، توانائی کے عدم توازن میں کسی بہتری کا امکان نہیں تاہم مہنگائی کی شرح بڑھ کر 9.5 فیصد پر پہنچ سکتی ہے۔

رواں سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 0.8 فیصد تک رہنے کا خدشہ ہے۔ برآمدات میں سست رو اضافہ، برآمدات میں 2.7 فیصد کمی کا نتیجہ ہے جو توانائی کی قلت، پیداواری اہداف پورے کرنے میں مشکلات اور کمزور عالمی طلب کی عکاسی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سرکاری زرمبادلہ ذخائر میں مزید کمی ہوئی ہے اور وہ جون 2012 میں 10.8 ارب ڈالر سے کم ہوکر 2013 میں 7.9 ارب ڈالر رہ گئے۔ جس کی بڑی وجہ آئی ایم ایف سمیت دیگر قرض ادائیگیاں کم فنانشل انفلوز ہے۔ آئی ایم ایف کو رواں مالی سال کے اختتام تک مزید 1.7 اور آیندہ مالی سال 3.2 ارب ڈالر کی ادائیگیوں کے باعث زرمبادلہ ذخائر پر دباؤ برقرار رہنے کا امکان ہے۔ فنانشل اکاؤنٹ کے خسارے، جس کی بڑی وجہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری پر طاری جمود ہے۔


اس دوران روپے کی قدر میں 4 فیصد کمی ہوئی، کمزور برآمدات سست رو معاشی نمو اور خام تیل کی مستحکم قیمتوں کے باعث آیندہ مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی 0.9 فیصد پر پہنچ سکتا ہے۔ جب کہ کمزور کیپٹل انفلوز اور آئی ایم ایف سمیت دیگر قرض ادائیگیوں کے باعث سرکاری زرمبادلہ ذخائر اور ایکسچینج ریٹ پر دباؤ برقرار رہے گا۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2013 کے بجٹ میں اعلان کردہ ریونیو اہداف حاصل ہونے کا امکان نہیں کیونکہ مالی سال کی پہلی ششماہی میں ٹیکس وصولیوں میں صرف 12 فیصد اضافہ ہوا جو بجٹ اہداف حاصل کرنے کے لیے درکار 23.7 فیصد کے اضافے سے کہیں کم ہے۔ ادائیگیاں اور رہائشیں اور پاور سیکٹر کے واجبات مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ سبسڈیز 120 ارب روپے کے ہدف سے بڑھ چکی ہے اور 200 ارب روپے تک پہنچ سکتی ہے۔

بجٹ خسارہ پہلی ششماہی میں جی ڈی پی کا 2.5 فیصد رہا، مالیات توازن کے سہ ماہی رجحانات کو دیکھتے ہوئے رواں مالی سال کے اختتام تک بجٹ خسارہ 4.7 فیصد کے ہدف سے تجاوز کرتے ہوئے 7 سے 7.5 فیصد تک پہنچ جائے گا جس میں پاور سیکٹر کے بقایا جات شامل نہیں۔ حکومت نے ایک بار پھر ضابطے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوسرے سہ ماہی میں مرکزی بینک سے بجٹ اخراجات کے لیے 183 ارب روپے کا قرضہ لیا جب کہ کمرشل بینکوں سے بڑے پیمانے پر قرضے لینے کے باعث مرکزی بینک کو بینکاری نظام میں ہفتہ وار بنیادوں پر سرمائے کی فراہمی کرنا پڑ رہی ہے، افراط زر سے نمٹنے کے لیے اس رجحان کو روکنا ہوگا۔

اب یہ تجزیہ بورژوا نظام کے دانشوروں کو کتنی بے کسی، بے بسی اور لاچارگی میں کرنا پڑ رہا ہے۔ جب کہ حقیقتاً ہمارے ملک کی معاشی صورت حال اس اعداد وشمار سے دسیوں گنا بدتر ہے۔اس ڈوبتی نیا کے ناخدا آخر میں پاکستان کے حکمرانوں اور بورژوا دانشوروں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ افراط زر سے نمٹنے کے لیے اس معاشی انحطاط پزیری کے رجحان کو روکنا ہوگا۔ اگر اس معاشی انحطاط پذیری کو روکا ہی جاسکتا تھا تو جاپان کی شرح نمو صفر فیصد، یورپ کی صفر تا 1 فیصد، امریکا کی 3 فیصد، ہندوستان کی 6 فیصد اور چین کی 8 فیصد نہ ہوتی۔

کروڑوں بلکہ اربوں شہری بے روزگار نہ ہوتے۔ قبرص، اٹلی، آئرلینڈ، آئس لینڈ، اسپین، پرتگال، بیلجیم، یونان اور فرانس دیوالیہ ہونے کی جانب نہ جاتے، چین میں 22 کروڑ شہری فٹ پاتھوں پر نہ پھرتے، سوئٹزرلینڈ میں 1 فیصد لوگ 50 فیصد دولت کے مالک اور 99 فیصد لوگ باقی 50 فیصد دولت کے مالک نہ ہوتے، جرمنی کی 6 کروڑ کی آبادی میں 50 لاکھ بیروزگار نہ ہوتے، ایران میں 3800 ریال کا ایک ڈالر نہ ہوتا، سعودی عرب آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرض نہ لیتا اور 85 ہزار بچے بھیک نہ مانگتے۔ اگر قرضوں، بیل آؤٹ اور سرمایہ کاری سے مسائل حل ہوتے تو بینک دیوالیہ نہ ہوتا اور وال اسٹریٹ قبضہ تحریک میں دنیا کے 900 شہروں کے شہری سیلاب بن کر نہ امنڈ آتے۔ اس لیے اب سرمایہ داری کسی بھی قابل نہ رہی کہ وہ اپنا وجود قائم رکھ سکے اور عوام کے مزید استحصال کے سوا کوئی اور راہ نہیں۔

اس لیے پاکستان سمیت اس دنیا میں تمام غریب شہریوں اور محنت کشوں کو عالمی سرمایہ داری کے خلاف ایک ایسا انقلاب برپا کرنا ہوگا جو ملکوں کی سرحدوں کو تو ڑ دے۔ دنیا کی تمام دولت کے مالک تمام لوگ ہوں۔ دنیا کے انتظام کو سرمایہ دار اور نوکر شاہی اور فوج کے بجائے کارکنان خوش اسلوبی سے چلائیں گے۔ جیساکہ انقلاب فرانس، پیرس کمیون، اسپین کی بلا حکومت عوامی راج، بالشویک انقلاب، انقلاب چین، انقلاب مشرقی یورپ، کیوبا، کوریا اور ہندو چین میں ہوا۔ مگر اسٹیٹ لیس سوسائٹی اور عالمی انقلاب کی جانب پیش قدمی نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہوا۔ مگر اب محنت کش اپنے تجربات سے سیکھ رہے ہیں۔

اب آنے والا انقلاب ان خامیوں سے ہوشیار ہوگا۔ وہ تمام رنگ و نسل، مذہب، فرقہ، زبان اور خطوں سے بالاتر ہوکر امداد باہمی کا بلاریاستی سماج قائم کرے گا۔ جہاں سب ایک جیسا کپڑا پہنیں گے، کھانا کھائیں گے، رہائشیں اختیار کریں گے، تعلیم حاصل کریں گے، عہدے، حیثیت، سلامی، بخشش، دسترخوان، وردی، تفریقات کی میز اور کرسی کو سرے سے ختم کرکے بنی نوع انسان مکمل مساوات کی خوشحالی اور بے فکری کی زندگی بسر کرے گا۔
Load Next Story