کچھ یادیں‘ کچھ باتیں

میں بھی1973سے گورنمنٹ کی نوکری میں آیا اور 2012میں ریٹائرڈ ہوگیا

میں بھی1973سے گورنمنٹ کی نوکری میں آیا اور 2012میں ریٹائرڈ ہوگیا، کئی دوستوں نے کہاکہ آپ ایکسٹینشن لیں یا پھر ایک سال ایل پی آر پر نہ جائیں اور چھ ماہ کی تنخواہ ایڈوانس لینے کے لیے پورا ایک سال کام کرتے رہیں، لیکن میں نے ایک سال ایل پی آر بھی لی اور کسی بھی قسم کی کوئی ایسی عرضی نہیں تھی کہ میں آگے بھی نوکری پر بحال رہوں جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ مجھے کوئی مراعات نہیں چاہیے تھیں اور نہ میں مزید نوکری میں رہ کر کوئی کرپشن کرنا چاہتاتھا، بس میں یہ چاہتاتھا کہ میرے60سال پورے ہوں اور میں اپنے گلے سے غلامی کا پٹہ اتاردوں۔

جس دن میں ریٹائرڈ ہوا بے حد خوش تھا اور اب بھی اسی طرح خوش ہوں اور خدا کا شکر ہے کہ میری وجہ سے کسی کو کوئی نقصان نہیں ہوا نہ میں نے کسی کو ستایا یا تنگ کیا کہ وہ مجھے بد دعائیں دے، ہاں اتنا ضرور تھا کہ میں نے صرف نوکری کی، کبھی کسی فائدے والے سیکشن کے لیے استدعا نہیں کی۔یہی سوچا کہ اپنا کام کروں گا اور چلاجاؤںگا،حالانکہ کئی مرتبہ کہاگیا کہ میں دفتر کا انچارج بن جاؤں یا پھر ایمانداری کی وجہ سے کوئی کمائی والا سیکشن سنبھالوں، میں نے انکار اس لیے کیا کہ سخت آدمی کی ہمیشہ ایمانداری کی وجہ سے شکایتیں ہوتی ہیں۔

بہر حال میرے قصے کو چھوڑیں، اب بات یہ ہے کہ یہ بڑے بڑے بیوروکریٹس ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی اس بھاگ دوڑ میں رہتے ہیں کہ ان کی نوکری بحال رہے، وہ ایکسٹینشن پر ہوں یا پھر کانٹریکٹ پر کیونکہ جو مراعات وہ حاصل کرتے ہیں وہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد کہاں ملیں گی، اتنی بڑی گاڑی، دو سے تین ڈرائیور، چپڑاسی، سرکاری گھر، ٹیلیفون، گھر پر الگ دفتر میں دو سے تین فون پھر اچھا خاصا بجٹ، ٹی اے ڈی اے ، میٹنگزمیں جانے کے لیے اسلام آباد ،وہاں کے علاوہ ان کے نیچے کام کرنیوالے افسران ہر وقت حکم ماننے کے لیے تیار کھڑے رہتے ہیں۔

بعض ایسے محکمے میں کام کررہے ہیں جہاں پر صرف خالی تنخواہ ہے جس سے ان کے بڑے خرچے پورے نہیں ہوتے اس لیے وہ سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرکے ایک مزید بڑے گریڈ میں جاکر ایک ایسا محکمہ تلاش کرتے ہیں جہاں پر انھیں مراعات کے ساتھ اچھا خاصا بجٹ بھی ملتا ہے، اب آپ یہ سوچیں کہ ایک بندہ تعلیم کے محکمے میں لیکچرار رہے تو اسے کوئی نہیں پوچھتا مگر وہ جب ایکسائز یا پھر ایسے کمائی والے محکمہ میں پوسٹ ہوتاہے تو وہ ایک سے دو سال کے اندر اتنا کمالیتاہے کہ اس کے پاس گاڑی،ڈیفنس میں بنگلہ ہوتاہے اور اپنے بچے شہر کے بڑے اسکول میں داخل کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

میری بیگم جب مجھ سے کسی چیز کی فرمائش کرتی ہیں تو میں اس سے کہتا ہوں کہ ہم وہ چیز خریدیں گے جو ہماری مالی پہنچ میں ہے تو وہ کہتی ہیں کہ ہر شاپنگ مال میں عورتیں بے دریغ چیزیں خریدتی ہیں ، بڑے ہوٹل میں روزانہ کھانا کھاتی ہیں، ہم تو سالوں میں کبھی ایک مرتبہ کسی چھوٹے ہوٹل پر کھانا کھاتے ہیں، میں اسے اس بات سے مطمئن کردیتا ہوں کہ میں نے گھر حق حلال کی روزی سے چلایا ہے اور آپ نے میرا ساتھ دیا ہے ، میرے بچوں کے پیٹ میں کوئی حرام سے کمائی ہوئی دولت سے رزق نہیں ڈالا اور مجھے اس پر فخر ہے، ہم جب چاہیں سوجاتے ہیں مگر غلط راستے سے کمائی دولت اور مراعات لینے والوں کو گولیاں کھانے کے بعد بھی نیند نہیں آتی، ٹھیک ہے ہم کرائے کے گھر میں رہتے ہیں، کوئی گاڑی نہیں، کوئی زمین یا پراپرٹی نہیں مگر میرے پاس تھوڑا سا علم اور ڈھیر سارا سکون ہے۔


ہم لوگوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ غریب لوگوں کے بچے محنت اور مشقت کرکے پڑھتے ہیں اور یہ امید رکھتے ہیں کہ ایک دن انھیں اپنے میرٹ پر نوکری ملے گی اور وہ اپنے اور اپنے ماں باپ کی مشکلیں دور کردیں گے مگر انھیں نوکری نہیں ملتی اور کوئی آسامی خالی ہونے کی امید ہوتی ہے تو یہ ریٹائرڈ لوگ اس پر بھی قابض ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان جیسا اور کوئی کام کرنے والا نہیں ہے تو پھر آپ نے اپنے ایام میں نئے لوگوں کو کیوں تیار نہیں کیا یا پھر آسامیاں بھرنے کے وقت میرٹ کا خیال کیوں نہیں کیا اور سیاسی لوگوں کا ساتھ کیوں دیا اس لیے کہ حکومت ان کی محتاج رہے۔

میں تو کہتاہوں کہ خدا کے واسطے اس اﷲ کا خوف کرو جو سب کچھ کرنیوالا ہے جس نے تمہیں ایک موقع اور طاقت دی تاکہ تم انصاف کرسکو،تمہیں کتنے دن اور مزید ریٹائرمنٹ کے بعد رہنا ہے ایک دن تو مرنا بھی ہے اور صحت کی خرابی سے بستر مرگ پر آکر گرنا بھی ہے، اسی لیے آنیوالے نوجوانوں کے مستقبل کے بارے میں سوچو اگر وہ نہیں جانتے تو انھیں سکھاؤ، ان کے لیے تربیتی کورس رکھو۔

سیاسی پارٹیوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ انھیں اقتدار میں غریب عام لوگ لائے ہیں کیونکہ بڑے لوگ تو ووٹ دینے جاتے ہی کم ہیں، پھر حق ان کا بنتاہے جو تمہیں اقتدار کے ایوانوں میں لاتے ہیں۔ انھیں تو پچاس فیصد نوکریاں اور سہولتیں میرٹ پر دیں۔ میں نے ایک وقت میں یہ بھی دیکھا کہ کئی لوگ دھکے کھارہے تھے کہ انھیں کوئی چپڑاسی کی نوکری ہی مل جائے اور کئی تو اپنی جیب میں تین تین اچھے محکموں کے آرڈر لے کر گھوم رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ کہاں جائیں، وہاں جائیں جہاں زیادہ کمائی ہو یا پھر نوکری پر جانا نہ پڑے اور ہم پارٹی کے کام کرتے رہیں۔

سپریم کورٹ نے ریٹائرڈ لوگوں کے کانٹریکٹ ختم کرنے اور انھیں نوکری سے نکالنے کے احکامات جاری کرکے اپنا فرض نبھایاہے۔ اس کے علاوہ ڈیپوٹیشن ختم کرکے ان لوگوں کو احساس محرومی سے بچایاہے،جن کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے محکمے میں پروموشن حاصل کریں، میری یہ بھی گزارش ہے کہ حکومت نے سچے اور ایماندار افسران کو بھی پوسٹنگ دیں جو بیچارے بغیر پوسٹنگ کے سالہا سال بیٹھے رہتے ہیں، کیونکہ وہ وزراء کے ناجائز حکم نہیں مانتے۔

نوجوان نسل ہمارا مستقبل ہے، ان کو آگے لانے کے لیے تجربہ کار، ایماندار اور محنتی افسران کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور انھیں کام کرنے میں مہارت دینے کے لیے تربیتی سیمینار اور ورکشاپ منعقد کروانے چاہئیں تاکہ وہ ان کے بعد کام کی باگ ڈور اچھی طرح سنبھالیں، ایسے افسران جو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی محکمے میں چمٹے رہنا چاہتے ہیں، وہ ایک بار اس بات پرغور ضرور کریں کہ ہم قوم کے فرد ہیں اس لیے صرف اپنے بچوں کے بارے میں نہیں ہر پڑھے لکھے نوجوان کے بارے میں سوچیں اور آگے بڑھنے میں ان کی مدد کریں اور جانے کے بعد اچھی یادیں چھوڑجائیں۔
Load Next Story