ہمایوں مشرف اور مصباح
ہمایوں مغلیہ سلطنت کا دوسرا بادشاہ تھا۔ بابر نے اپنے دشمنوں کو شکست دے کر دہلی تک کی حکومت ہمایوں کے حوالے کی تھی۔
SANAA:
ایک لطیفہ ہے کہ ایک بزرگوار کی طبیعت بالکل خراب تھی۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا۔ ان کے اہل خانہ ان کے بستر کے اردگرد جمع تھے۔ انھوں نے پوچھا کہ اقبال کہاں ہے؟ بڑے بیٹے نے کہا کہ ابو! میں یہاں ہوں۔ پھر انھوں نے اشفاق کا پوچھا۔ دوسرا بیٹا بھی قریب ہی موجود تھا۔ تھوڑی دیر بعد انھوں نے احمد کا پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ وہ بستر کی پچھلی جانب کھڑا تھا۔ بیٹے نے باپ کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ بابا میں یہیں ہوں۔ سب سے چھوٹا بیٹا کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ انھوں نے کہا کہ آصف نظر نہیں آرہا؟ قریب کی کرسی پر افسوس سے بیٹھا ہوا آصف کھڑا ہوگیا۔ اس نے آواز لگائی کہ ابا جی میں یہیں ہوں۔ اب بزرگوار نے ہلکی سی آنکھ کھولی اور غصے سے کہا کہ ''نالائقو! تم سب یہیں ہو تو پھر دکان پر کون ہے؟'' ہم آج ہمایوں، مشرف اور مصباح پر گفتگو کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ لطیفہ نہیں بلکہ ایک سبق آموز قصہ ہے۔
ہمایوں مغلیہ سلطنت کا دوسرا بادشاہ تھا۔ بابر نے اپنے دشمنوں کو شکست دے کر دہلی تک کی حکومت ہمایوں کے حوالے کی تھی۔ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے بابر نے کہا تھا کہ فرید خان سے ہوشیار رہنا۔ یہ شیرشاہ سوری تھا جس نے ہمایوں کو شکست دی۔ عمرکوٹ کے نزدیک اکبر پیدا ہوا۔ جلاوطن شاہی خاندان نے پندرہ سال ایران میں گزارے۔ شیرشاہ سوری کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے حکومت نہ سنبھال سکے۔ ہمایوں نے اپنی کھوئی ہوئی سلطنت دوبارہ حاصل کرلی۔ ساڑھے تین سو سال تک ہندوستان پر مغلوں کی حکومت اسے برصغیر کا نمبر ون خاندان بناتی ہے۔ نہرو، گاندھی، بھٹو، بندرانائیکے اور شریف خاندان، مغلوں سے کہیں پیچھے ہیں۔
مغل شہنشاہ نصیرالدین ہمایوں، جنرل پرویز مشرف میں کیا بات مشترک ہے؟ کپتان مصباح کی جگہ کہاں بنتی ہے؟ ابھی تو کالم نصف بھی نہیں ہوا۔ ابھی سے یہ بات بتادی تو سسپنس ختم ہوجائے گا۔ ایک بادشاہ، ایک جنرل اور ایک کرکٹر ایک کالم میں کیوں؟ پرویز مشرف کی نفسیات کے اس پہلو پر بات ہوگی جس پر قلمکار اب تک خاموش ہیں۔ ہم مشرف کی دہلی میں پیدائش، پاکستان آمد، فوج میں شمولیت، لیفٹیننٹ جنرل تک ترقی اور آرمی چیف بننے تک کی باتوں پر کچھ نہیں کہیں گے۔ ہم کارگل پر نواز شریف سے اختلاف، ملٹری ٹیک اوور، 9/11 پر موقف، ڈرون حملوں، خارجہ پالیسی پر خاموش رہیں گے۔ عافیہ صدیقی، بگٹی، لال مسجد، عدلیہ سے محاذ آرائی، بے نظیر کی شہادت سمیت تمام معاملات پر منہ بند رکھیں گے۔ استعفے، خودساختہ، جلاوطنی، واپسی، مقدموں، متوقع انجام پر چپ رہیں گے۔ ان موضوعات پر ہر کوئی گفتگو کر رہا ہے۔ آج ہم مشرف کے حوالے سے بالکل مختلف معاملات پر بحث کریں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ ان کا انداز مغل بادشاہ ہمایوں اور ٹیسٹ کپتان مصباح الحق سے کس قدر ملتا جلتا ہے؟
پرویز مشرف جب مستعفیٰ ہونے پر مجبور ہوئے تو ان کی عمر 65 سال تھی۔ وہ بطور آرمی چیف و صدر پاکستان کے ایک طاقتور ترین حکمران تھے۔ آج جو اختیارات صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف کو ہیں وہ مشرف کی ذات میں جمع تھے۔ یہ لوگ سب کچھ آئین کے مطابق کرنے کے پابند ہیں جب کہ مشرف اس پابندی سے بھی آزاد تھے۔ استعفے کے کچھ عرصے بعد تک وہ پاکستان میں رہے اور پھر انھوں نے وطن کو خیرباد کہہ دیا۔ پانچ سال مزید بیت چکے ہیں۔ اب مشرف کی عمر ستر سال ہے۔ ریٹائرڈ جنرل یا آرمی چیف کے پاس جائز ذرایع سے کروڑوں روپے ہوں تو تعجب کی بات نہیں۔ دنیا بھر میں لیکچرز دینے پر مشرف میڈیا میں بھی ان رہے اور لاکھوں ڈالر بھی کمائے۔ انھیں پاک فوج سے پنشن بھی ملتی ہے۔ سابق صدر کے طور پر جو مراعات رفیق تارڑ لے رہے ہیں یا جو آصف زرداری لیں گے ان پر بھی مشرف کا حق بنتا ہوگا۔ دنیا بھر میں مشہور و معروف جنرل پرویز کو کئی ممالک میں اچھا پروٹوکول ملتا ہے۔ کئی ملکوں کے سربراہ مملکت ان کے ذاتی دوست ہیں۔ وہ گالف کھیلتے ہیں اور نانا ، دادا بھی بن چکے ہیں، پھر سیاست کرنے کے لیے پاکستان آنے کی کیا ضرورت تھی؟
یہ سوال ملین ڈالر کا سوال ہے۔ سترسالہ شخص جو بھرپور اختیارات کے مزے لے چکا ہے اب ریٹائرڈ لائف کے مزے کیوں نہیں لے رہا؟ پوتوں، نواسوں اور گالف سے کیوں نہیں کھیلتا؟ دنیا بھر میں لیکچر دے کر دولت و شہرت کمانے تک محدود کیوں نہیں ہورہا؟ پرویز مشرف کی حمایت و مخالفت سے ہٹ کر ہم ایک انسانی نفسیاتی پہلو پر گفتگو کر رہے ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان اپنی زندگی کے آخری پانچ (1969-14) سال خاموشی سے گزار گئے۔ یحییٰ خان نے نو (1971-80) برس نظربندی میں گزار دیے۔ ضیاء الحق کے ساتھ زندگی میں ریٹائرڈ جنرل کا لفظ نہ لگ سکا۔ پھر وہ کیا سبب ہے جو مشرف کو سیاست کے خارزار میں لے آیا ہے؟ وہ نہ سیاستدان ہیں اور نہ ایک بڑی پارٹی کے قائد۔ 70 سالہ مشرف کے پاس متوقع طبعی زندگی کا کچھ زیادہ وقت بھی نہیں ہے۔ پھر وہ خاموشی سے وطن میں رہ کر گمنام زندگی گزارتے۔ پھر سب کچھ مورخ کے حوالے کردیتے یا 2008کو اپنی سیاسی زندگی کا آخری سال مان لیتے۔ مشرف کیوں پاکستان میں سیاست کرنے آئے ہیں؟ مخالفین کہہ سکتے ہیں کہ مکافات عمل انھیں کھینچ کر پاکستان لایا ہے۔ شدید مخالفین کی رائے ہوسکتی ہے کہ اب وہ اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ ہم ہمایوں اور مصباح کے ساتھ مشرف کی زندگی کا تجزیہ کر رہے ہیں اور ان تینوں میں مشترک چیز کی تلاش میں ہیں۔
مصباح الحق کا نام پہلی مرتبہ 2007 میں منظرعام پر آیا۔ اس وقت جب مشرف عروج سے زوال کی جانب بڑھ رہے تھے۔ چیمپئنز ٹرافی میں کامیابی کے بعد وہ کامیاب کھلاڑی بن گئے۔ اس وقت مصباح کی عمر 33 سال تھی۔ بیٹسمین کے لیے یہ عمر ریٹائرمنٹ کی عمر ہوتی ہے۔ اسپنر کے پاس تو گنجائش ہوتی ہے لیکن بلے باز اس عمر تک چانس نہ ملنے پر مایوس ہوکر کھیل چھوڑ جاتے ہیں۔ عمر سے دس سال کم نظر آنے والے مصباح نے اچھا کھیل پیش کیا اور کپتانی کے منصب تک پہنچے۔
ہمایوں نے کیا کیا تھا؟ مشرف کیا کر رہے ہیں؟ مصباح کیا کریں گے؟ ہم ان سوالوں کے جواب کے لیے یہ کالم نہیں لکھ رہے۔ ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تینوں برے وقت سے مایوس نہیں ہوئے۔ انھوں نے اپنے آپ کو تاریخ کے سامنے فائٹر ثابت کیا ہے۔ ہم کسی کو پسند کریں یا ناپسند، ہمیں ان سے یہ سیکھنا چاہیے کہ مایوسی کفر ہے۔ اس بزرگ کی طرح جو مرتے وقت بھی بچوں کے مستقبل کی فکر کر رہے تھے۔ ہمیں ان لوگوں کی زندگی سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ان تینوں کی زندگی کے اس گوشے کو دیکھنا چاہیے جب تمام دروازے بند تھے لیکن امید کا دروازہ کھلا تھا۔ ہمیں ان کی زندگی کے انوکھے پہلو پر نظر رکھنی چاہیے۔ مایوس نہ ہونے اور مسلسل جدوجہد کرنے کا انوکھا انداز پیش کیا ہے ہمایوں، مشرف اور مصباح نے۔
ایک لطیفہ ہے کہ ایک بزرگوار کی طبیعت بالکل خراب تھی۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا۔ ان کے اہل خانہ ان کے بستر کے اردگرد جمع تھے۔ انھوں نے پوچھا کہ اقبال کہاں ہے؟ بڑے بیٹے نے کہا کہ ابو! میں یہاں ہوں۔ پھر انھوں نے اشفاق کا پوچھا۔ دوسرا بیٹا بھی قریب ہی موجود تھا۔ تھوڑی دیر بعد انھوں نے احمد کا پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ وہ بستر کی پچھلی جانب کھڑا تھا۔ بیٹے نے باپ کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ بابا میں یہیں ہوں۔ سب سے چھوٹا بیٹا کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ انھوں نے کہا کہ آصف نظر نہیں آرہا؟ قریب کی کرسی پر افسوس سے بیٹھا ہوا آصف کھڑا ہوگیا۔ اس نے آواز لگائی کہ ابا جی میں یہیں ہوں۔ اب بزرگوار نے ہلکی سی آنکھ کھولی اور غصے سے کہا کہ ''نالائقو! تم سب یہیں ہو تو پھر دکان پر کون ہے؟'' ہم آج ہمایوں، مشرف اور مصباح پر گفتگو کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ لطیفہ نہیں بلکہ ایک سبق آموز قصہ ہے۔
ہمایوں مغلیہ سلطنت کا دوسرا بادشاہ تھا۔ بابر نے اپنے دشمنوں کو شکست دے کر دہلی تک کی حکومت ہمایوں کے حوالے کی تھی۔ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے بابر نے کہا تھا کہ فرید خان سے ہوشیار رہنا۔ یہ شیرشاہ سوری تھا جس نے ہمایوں کو شکست دی۔ عمرکوٹ کے نزدیک اکبر پیدا ہوا۔ جلاوطن شاہی خاندان نے پندرہ سال ایران میں گزارے۔ شیرشاہ سوری کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے حکومت نہ سنبھال سکے۔ ہمایوں نے اپنی کھوئی ہوئی سلطنت دوبارہ حاصل کرلی۔ ساڑھے تین سو سال تک ہندوستان پر مغلوں کی حکومت اسے برصغیر کا نمبر ون خاندان بناتی ہے۔ نہرو، گاندھی، بھٹو، بندرانائیکے اور شریف خاندان، مغلوں سے کہیں پیچھے ہیں۔
مغل شہنشاہ نصیرالدین ہمایوں، جنرل پرویز مشرف میں کیا بات مشترک ہے؟ کپتان مصباح کی جگہ کہاں بنتی ہے؟ ابھی تو کالم نصف بھی نہیں ہوا۔ ابھی سے یہ بات بتادی تو سسپنس ختم ہوجائے گا۔ ایک بادشاہ، ایک جنرل اور ایک کرکٹر ایک کالم میں کیوں؟ پرویز مشرف کی نفسیات کے اس پہلو پر بات ہوگی جس پر قلمکار اب تک خاموش ہیں۔ ہم مشرف کی دہلی میں پیدائش، پاکستان آمد، فوج میں شمولیت، لیفٹیننٹ جنرل تک ترقی اور آرمی چیف بننے تک کی باتوں پر کچھ نہیں کہیں گے۔ ہم کارگل پر نواز شریف سے اختلاف، ملٹری ٹیک اوور، 9/11 پر موقف، ڈرون حملوں، خارجہ پالیسی پر خاموش رہیں گے۔ عافیہ صدیقی، بگٹی، لال مسجد، عدلیہ سے محاذ آرائی، بے نظیر کی شہادت سمیت تمام معاملات پر منہ بند رکھیں گے۔ استعفے، خودساختہ، جلاوطنی، واپسی، مقدموں، متوقع انجام پر چپ رہیں گے۔ ان موضوعات پر ہر کوئی گفتگو کر رہا ہے۔ آج ہم مشرف کے حوالے سے بالکل مختلف معاملات پر بحث کریں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ ان کا انداز مغل بادشاہ ہمایوں اور ٹیسٹ کپتان مصباح الحق سے کس قدر ملتا جلتا ہے؟
پرویز مشرف جب مستعفیٰ ہونے پر مجبور ہوئے تو ان کی عمر 65 سال تھی۔ وہ بطور آرمی چیف و صدر پاکستان کے ایک طاقتور ترین حکمران تھے۔ آج جو اختیارات صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف کو ہیں وہ مشرف کی ذات میں جمع تھے۔ یہ لوگ سب کچھ آئین کے مطابق کرنے کے پابند ہیں جب کہ مشرف اس پابندی سے بھی آزاد تھے۔ استعفے کے کچھ عرصے بعد تک وہ پاکستان میں رہے اور پھر انھوں نے وطن کو خیرباد کہہ دیا۔ پانچ سال مزید بیت چکے ہیں۔ اب مشرف کی عمر ستر سال ہے۔ ریٹائرڈ جنرل یا آرمی چیف کے پاس جائز ذرایع سے کروڑوں روپے ہوں تو تعجب کی بات نہیں۔ دنیا بھر میں لیکچرز دینے پر مشرف میڈیا میں بھی ان رہے اور لاکھوں ڈالر بھی کمائے۔ انھیں پاک فوج سے پنشن بھی ملتی ہے۔ سابق صدر کے طور پر جو مراعات رفیق تارڑ لے رہے ہیں یا جو آصف زرداری لیں گے ان پر بھی مشرف کا حق بنتا ہوگا۔ دنیا بھر میں مشہور و معروف جنرل پرویز کو کئی ممالک میں اچھا پروٹوکول ملتا ہے۔ کئی ملکوں کے سربراہ مملکت ان کے ذاتی دوست ہیں۔ وہ گالف کھیلتے ہیں اور نانا ، دادا بھی بن چکے ہیں، پھر سیاست کرنے کے لیے پاکستان آنے کی کیا ضرورت تھی؟
یہ سوال ملین ڈالر کا سوال ہے۔ سترسالہ شخص جو بھرپور اختیارات کے مزے لے چکا ہے اب ریٹائرڈ لائف کے مزے کیوں نہیں لے رہا؟ پوتوں، نواسوں اور گالف سے کیوں نہیں کھیلتا؟ دنیا بھر میں لیکچر دے کر دولت و شہرت کمانے تک محدود کیوں نہیں ہورہا؟ پرویز مشرف کی حمایت و مخالفت سے ہٹ کر ہم ایک انسانی نفسیاتی پہلو پر گفتگو کر رہے ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان اپنی زندگی کے آخری پانچ (1969-14) سال خاموشی سے گزار گئے۔ یحییٰ خان نے نو (1971-80) برس نظربندی میں گزار دیے۔ ضیاء الحق کے ساتھ زندگی میں ریٹائرڈ جنرل کا لفظ نہ لگ سکا۔ پھر وہ کیا سبب ہے جو مشرف کو سیاست کے خارزار میں لے آیا ہے؟ وہ نہ سیاستدان ہیں اور نہ ایک بڑی پارٹی کے قائد۔ 70 سالہ مشرف کے پاس متوقع طبعی زندگی کا کچھ زیادہ وقت بھی نہیں ہے۔ پھر وہ خاموشی سے وطن میں رہ کر گمنام زندگی گزارتے۔ پھر سب کچھ مورخ کے حوالے کردیتے یا 2008کو اپنی سیاسی زندگی کا آخری سال مان لیتے۔ مشرف کیوں پاکستان میں سیاست کرنے آئے ہیں؟ مخالفین کہہ سکتے ہیں کہ مکافات عمل انھیں کھینچ کر پاکستان لایا ہے۔ شدید مخالفین کی رائے ہوسکتی ہے کہ اب وہ اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ ہم ہمایوں اور مصباح کے ساتھ مشرف کی زندگی کا تجزیہ کر رہے ہیں اور ان تینوں میں مشترک چیز کی تلاش میں ہیں۔
مصباح الحق کا نام پہلی مرتبہ 2007 میں منظرعام پر آیا۔ اس وقت جب مشرف عروج سے زوال کی جانب بڑھ رہے تھے۔ چیمپئنز ٹرافی میں کامیابی کے بعد وہ کامیاب کھلاڑی بن گئے۔ اس وقت مصباح کی عمر 33 سال تھی۔ بیٹسمین کے لیے یہ عمر ریٹائرمنٹ کی عمر ہوتی ہے۔ اسپنر کے پاس تو گنجائش ہوتی ہے لیکن بلے باز اس عمر تک چانس نہ ملنے پر مایوس ہوکر کھیل چھوڑ جاتے ہیں۔ عمر سے دس سال کم نظر آنے والے مصباح نے اچھا کھیل پیش کیا اور کپتانی کے منصب تک پہنچے۔
ہمایوں نے کیا کیا تھا؟ مشرف کیا کر رہے ہیں؟ مصباح کیا کریں گے؟ ہم ان سوالوں کے جواب کے لیے یہ کالم نہیں لکھ رہے۔ ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تینوں برے وقت سے مایوس نہیں ہوئے۔ انھوں نے اپنے آپ کو تاریخ کے سامنے فائٹر ثابت کیا ہے۔ ہم کسی کو پسند کریں یا ناپسند، ہمیں ان سے یہ سیکھنا چاہیے کہ مایوسی کفر ہے۔ اس بزرگ کی طرح جو مرتے وقت بھی بچوں کے مستقبل کی فکر کر رہے تھے۔ ہمیں ان لوگوں کی زندگی سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ان تینوں کی زندگی کے اس گوشے کو دیکھنا چاہیے جب تمام دروازے بند تھے لیکن امید کا دروازہ کھلا تھا۔ ہمیں ان کی زندگی کے انوکھے پہلو پر نظر رکھنی چاہیے۔ مایوس نہ ہونے اور مسلسل جدوجہد کرنے کا انوکھا انداز پیش کیا ہے ہمایوں، مشرف اور مصباح نے۔